سیاست امکانات ہی کا نہیں اندیشوں کا بھی کھیل ہے۔ اس کھیل میں انسان ایک دن زمین پر اور دوسرے دن آسمان پر ہوتا ہے۔ اس کھیل میں انسان ایک دن مسند اقتدار پر اور دوسرے دن تختۂ دار پر ہوتا ہے۔ چنانچہ جو شخص سیاست میں آتا ہے وہ امکانات کے ساتھ ساتھ اندیشوں سے بھی آگاہ ہوتا ہے۔ نہ صرف آگاہ ہوتا ہے بلکہ وہ سیاست کے صدمات کو بھی سہتا ہے۔ مگر میاں نواز شریف کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ’’اقتدار کی ریل‘‘ کے مزے تو خوب لوٹتے ہیں مگر ’’اقتدار کی جیل‘‘ سے ان کا دل گھبراتا ہے۔ انہیں جیل میں ’’برگر‘‘ بھی چاہیے اور ’’ائر کنڈیشن‘‘ کمرہ بھی۔ انہیں بہترین بستر بھی درکار ہوتا ہے اور مہربان ڈاکٹر بھی۔ میاں صاحب کی زندگی فائیو اسٹار ہے چنانچہ وہ جیل کو بھی فائیو اسٹار بنادیتے ہیں۔ بدقسمتی سے ساری فائیو اسٹار سہولتوں کے باوجود وہ جیل میں نہیں رہنا چاہتے وہ ہمیشہ ڈیل کرکے جیل سے باہر آجاتے ہیں اور بالآخر ملک سے فرار ہوجاتے ہیں۔ ان کا ملک سے فرار ہونے کا عمل بھی عام عمل نہیں ہوتا بلکہ میاں صاحب کے فرار میں ایک ’’بھگوڑا پن‘‘ ہوتا ہے۔ چونکہ میاں نواز شریف دو بار ملک سے بھاگے ہیں اس لیے انہیں عام بھگوڑا نہیں کہا جاسکتا بلکہ وہ ایک ’’عادی بھگوڑے‘‘ ہیں۔ پہلی بار میاں نواز شریف اس وقت بھگوڑے بنے جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ میاں نواز شریف کے نزدیک جنرل پرویز مشرف ’’غاصب‘‘ تھے۔ ’’آمر‘‘ تھے۔ انہوں نے ایک منتخب وزیراعظم کو برطرف کرکے اقتدار پر ’’قبضہ‘‘ کیا تھا۔ انہوں نے آئین کو پامال کیا تھا۔ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا۔ غرضیکہ میاں صاحب کے نزدیک جنرل پرویز مشرف کی شخصیت عیبوں سے بھرا بستہ تھی۔ لیکن بالآخر میاں صاحب اسی جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کرکے پاکستان سے سعودی عرب ’’بھاگ‘‘ گئے۔ میاں صاحب اور ان کے خاندان کا بھگوڑا پن اتنا اچانک سامنے آیا تھا کہ خود نواز لیگ کے رہنما بھی شریفوں کے بھگوڑے پن پر حیران رہ گئے۔ جاوید ہاشمی ان دنوں نواز لیگ میں تھے۔ ان کے بقول ایک دن وہ میاں صاحب کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ گھر میں اِدھر اُدھر سامان بکھرا پڑا ہے۔ جاوید ہاشمی نے اس صورت حال کی وجہ پوچھی تو کلثوم نواز اور مریم نواز نے انہیں بتایا کہ دراصل گھر کے کپڑے لتے دھوپ میں سکھائے جارہے ہیں۔ جاوید ہاشمی سمجھے ایسا ہی ہوگا مگر جب اگلے ہی دن شریف خاندان کے بھگوڑا بن جانے کی خبر آئی تو جاوید ہاشمی کو معلوم ہوا کہ میاں صاحب کے گھر میں کپڑے دھوپ میں نہیں سکھائے جارہے تھے بلکہ گھر میں سعودی عرب بھاگنے کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ میاں نواز شریف کے پہلی بار بھگوڑا بننے کی اہم ترین بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف اقتدار سے محروم ہو کر عوام میں غیر مقبول نہیں ہوگئے تھے۔ ان کی عوامی مقبولیت بڑھ گئی تھی۔ کلثوم نواز ایک خاتون اور غیر سیاسی شخصیت تھیں مگر میاں نواز شریف کی عدم موجودگی میں انہوں نے پارٹی کو اس طرح سنبھالا کے جنرل پرویز مشرف پریشان ہوگئے۔ چنانچہ میاں صاحب ملک میں رہتے تو جنرل پرویز مشرف کی آمریت دس سال جاری نہیں رہ سکتی تھی۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ میاں صاحب صرف اقتدار کی ریل کے عادی تھے۔ وہ اقتدار کی جیل کے عادی نہیں تھے۔ انہیں جیل بھی فائیو اسٹار درکار تھی۔ انہیں جیل میں نہاری پائے اور برگر یاد آرہے تھے۔ ان کا کمرہ بھی ائرکنڈیشن نہیں تھا۔ چنانچہ جیسے ہی امریکا نے سعودی عرب کے ذریعے ان کے معاملے میں مداخلت کی۔ میاں صاحب فوراً بھگوڑا بننے پر آمادہ ہوگئے۔
میاں صاحب دوسری بار اس وقت بھگوڑے بنے جب وہ امام خمینی بن کر بیرون ملک سے وطن واپس لوٹے تھے۔ میاں صاحب کا خیال تھا کہ وہ ملک لوٹیں گے تو لاکھوں لوگ ان کے استقبال کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں گے مگر کوئی اور کیا ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف بھی انہیں لینے ہوائی اڈے نہ پہنچے۔ وہ ایک چھوٹا سا جلوس لے کر کئی گھنٹے تک لاہور کی سڑکوں پر پھرتے رہے۔ اس لیے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ طے یہی پایا تھا۔ نواز لیگ کا کوئی مرکزی رہنما بھی میاں صاحب کو لینے ہوائی اڈے نہ پہنچ سکا۔ چنانچہ میاں صاحب ایک بار پھر جیل پہنچ گئے۔ جیل پہنچتے ہی انہیں اپنی فائیو اسٹار زندگی یاد آنے لگی۔ ان کے پیٹ میں برگر، نہاری، قیمے اور آئس کریم کے لیے مروڑ اٹھنے لگے۔ انہوں نے اپنے جیل کے کمرے کو ائرکنڈیشن بنانے کا مطالبہ کردیا۔ انہوں نے اپنے جیل کے بستر کو فائیواسٹار بنانے کے لیے نئے میٹریس کا تقاضا فضا میں اچھال دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے میاں صاحب کی جیل فائیو اسٹار ہوگئی۔ مگر میاں صاحب کو فائیو اسٹار جیل بھی عذاب لگ رہی تھی۔ چنانچہ ان کی فطرت میں موجود بھگوڑے پن نے انگڑائیاں لینی شروع کردیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میاں صاحب کے ’’پلیٹ لیٹس‘‘ اچانک گرنے لگے وہ گرتے گرتے اتنے کم ہوگئے کہ میاں صاحب کی جان کے لالے پڑ گئے۔ مگر یہ سب کچھ ایک دھوکا تھا۔ میاں صاحب اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ڈیل ہوجاچکی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو ڈرایا کہ اگر پلیٹ لیٹس گرنے سے میاں نواز شریف انتقال فرما گئے تو حالات کو قابو میں رکھنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ چنانچہ عمران خان بھی ڈر گئے اور انہوں نے میاں نواز شریف کو ملک سے جانے کی اجازت دے دی۔ مگر میاں صاحب ملک سے گئے تھوڑی تھے۔ ان کے بھگوڑے پن نے انہیں ملک سے بھگایا تھا۔ چنانچہ لندن پہنچتے ہی ان کے پلیٹ لیٹس گرنا بند ہوگئے اور میاں صاحب صحت مند ہوگئے۔ اس صورت حال سے ثابت ہوا کہ اب میاں صاحب کوئی عام بھگوڑے نہیں ہمیں بلکہ وہ عادی بھگوڑے ہیں۔
اس سلسلے میں پوری دنیا کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو میاں صاحب سے ہزاروں گنا بڑے لیڈر تھے۔ وہ میاں نواز شریف سے لاکھوں گنا ذہین تھے۔ انہوں نے ملک کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تھی۔ انہوں نے ملک کو ایک متفقہ اسلامی آئین دیا تھا۔ انہوں نے ملک میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی تھی۔ انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔ انہوں نے شراب پر پابندی لگادی تھی۔ قوم کو جمعے کی تعطیل کا تحفہ دیا تھا۔ مگر وہ قتل کے ایک مقدمے میں ماخوذ ہو کر جیل جا پہنچے۔ جیل میں ایک یقینی موت ان کی منتظر تھی۔ پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات بھٹو کے دوست تھے۔ انہوں نے بھٹو کو جیل سے چھڑانے کا منصوبہ بنایا۔ مگر بھٹو نے جیل سے فرار ہونے سے انکار کردیا۔ بھٹو پھانسی چڑھ گئے مگر انہوں نے ایک فوجی آمر کے آگے سر نہیں جھکایا۔ کشمیر کی تحریک آزادی کے رہنما سید علی گیلانی دنیا کے سب سے بڑے پاکستانی تھے اس لیے کہ وہ بندوق کی نوک پر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے تھے۔ سید علی گیلانی بھارت کی آنکھوں میں بری طرح کھٹکتے تھے۔ بھارت نے انہیں قید و بند کی صعوبتوں سے گزارا۔ ایک یقینی موت ہر وقت سید علی گیلانی کے سر پر منڈلاتی رہتی تھی مگر اس کے باوجود سید علی گیلانی نے کبھی مقبوضہ کشمیر سے فرار ہونے کا منصوبہ نہیں بنایا۔ وہ چاہتے تو فرار ہو کر پاکستان آسکتے تھے مگر وہ مقبوضہ کشمیر ہی میں رہے۔ وہیں جیے وہیں مرے۔ وہیں دفن ہوئے۔ مقبوضہ غزہ کو خود مغربی ذرائع ابلاغ دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کہتے ہیں۔ اسرائیل جب چاہتا ہے غزہ پر جنگ مسلط کردیتا ہے۔ اسرائیلی طیارے غزہ میں گھروںکو نشانہ بناتے ہیں۔ فراہمی و نکاسی آب کے نظام پر حملہ کرتے ہیں۔ اسرائیل غزہ کی عورتوں اور بچوں تک پر رحم نہیں کرتا مگر اس کے باوجود شیخ یٰسین نے غزہ میں رہ کر حماس کی رہنمائی کی۔ وہ معذور تھے۔ وہیل چیئر پر تھے۔ ایک یقینی موت ہر وقت ان کے تعاقب میں رہتی تھی اور وہ بالآخر اسرائیل کے ایک حملے میں شہید ہوئے مگر شیخ یٰسین نے کبھی غزہ سے فرار ہونے کی کوشش تو کیا خواہش بھی نہیں کی۔ شیخ یٰسین کے بعد ان کی جگہ عبدالعزیز رنتیسی نے لی۔ ان کے سر پر بھی ہر وقت ایک یقینی موت منڈلاتی رہتی تھی اور وہ بھی بالآخر ایک حملے میں شہید ہوگئے مگر انہوں نے بھی کبھی جان بچانے کے لیے غزہ سے فرار ہونے کا منصوبہ نہ بنایا۔ بنگلادیش میں جماعت اسلامی کے کئی رہنما غداری کے جھوٹے الزامات کی زد میں آگئے۔ مگر کسی رہنما نے شیخ حسینہ کے سامنے سر جھکایا نہ ملک سے فرار ہونے کی تمنا کی۔ جماعت کے کئی رہنمائوں کو پھانسیاں دی گئیں مگر ان کے دل میں کبھی بنگلادیش سے فرار ہونے کا خیال نہ آیا۔ مگر میاں نواز شریف دوبارہ مشکلات کا شکار ہوئے اور وہ دونوں مرتبہ بھگوڑے بن کر بھاگ نکلے۔ حالاں کہ انہیں فائیو اسٹار جیل دستیاب تھی۔
بدقسمتی سے میاں نواز شریف میں صرف سیاسی بھگوڑا پن نہیں پایا جاتا۔ ان میں ایک روحانی، ذہنی نفسیاتی اور جذباتی بھگوڑا پن بھی پایا جاتا ہے۔ چودھری شجاعت نے اپنی خود نوشت ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں لکھا ہے کہ انہوں نے نواز شریف کے ساتھ معاہدہ کیا تو میاں شہباز شریف قرآن اٹھا لائے اور فرمایا کہ یہ قرآن ضامن ہے کہ ہم آپ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی ایک ایک شق پر عمل کریں گے لیکن بعد میں شریفوں نے چودھری شجاعت کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی ایک شق پر بھی عمل نہ کیا۔ یہ شریفوں کے روحانی بھگوڑے پن کی ایک مثال ہے۔ میاں نواز شریف کسی زمانہ میں جنرل ضیا الحق کو اپنا روحانی باپ کہتے تھے مگر وہ اب جنرل ضیا الحق کو ایک آمر کہتے ہیں۔ یہ جذباتی بھگوڑے پن کی ایک نظیر ہے۔ ایک وقت تھا کہ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد شریف خاندان کے اتنے قریب تھے کہ شریف خاندان اپنے خاندانی جھگڑوں میں قاضی صاحب کو ثالث بناتا تھا مگر پھر میاں نواز شریف نے قاضی صاحب پر کشمیر کے حوالے سے دس کروڑ روپے کھا جانے کا الزام لگادیا۔ یہ میاں صاحب کے ذہنی بھگوڑے پن کو ظاہر کرنے والا ایک واقعہ ہے۔ ایک عہد وہ بھی تھا جب طاہر القادری میاں صاحب کے مرشد تھے اور میاں صاحب انہیں پیٹھ پر لاد کر کعبے کا طواف کرایا کرتے تھے اور نہایت معصویت کے ساتھ قادری صاحب سے پوچھا کرتے تھے کہ کہیں آپ امام مہدی تو نہیں۔ مگر اب طاہر القادری میاں صاحب کے نزدیک ایک شعبدے باز کے سوا کچھ نہیں۔ یہ میاں صاحب کے نفسیاتی بھگوڑے پن کی ایک مثال ہے۔ یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ آخر میاں صاحب عادی بھگوڑے کیوں ہیں؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ میاں صاحب اپنی اصل میں سیاسی رہنما نہیں ہیں۔ وہ صرف ایک تاجر ہیں اور تاجر کے لیے اگر کوئی چیز اہم ہوتی ہے کہ فائدہ اور نقصان ہے۔ چنانچہ میاں صاحب کو جیسے ہی بھگوڑا بننے میں فائدہ نظر آتا ہے وہ بھگوڑے بن جاتے ہیں۔ میاں صاحب کے بھگوڑے پن کی دوسری وجہ یہ ہے کہ میاں صاحب ایک بزدل آدمی ہیں۔ ان کا انتخابی نشان شیر ہے مگر میاں صاحب کے سینے میں ایک چوہے کا دل دھڑکتا ہے۔ میاں صاحب کے بھگوڑے پن کی تیسری وجہ یہ ہے کہ میاں صاحب کا نعرہ عیش پرستی ہے۔ چنانچہ جیسے ہی کوئی بڑی آزمائش سامنے آتی ہے میاں صاحب بھگوڑے بن جاتے ہیں۔