عربی کی ضرب المثل ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ جب زوال یا خرابی کی طرف جاتا ہے سب سے پہلے معاشرے کے بالائی طبقات خراب ہوتے ہیں۔ اس کے علما بگڑتے ہیں۔ دانش ور گمراہ ہوتے ہیں، شاعر، ادیب ذہنی پسماندگی کا شکار ہوتے ہیں۔ صحافی پستی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جب یہ ہوجاتا ہے تو معاشرہ بھی خراب ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ ’’عام لوگ‘‘ ’’خواص‘‘ کو اپنے لیے مثال سمجھتے ہیں۔ جب خواص، خواص نہیں رہتے تو عوام بھی قعر مزلّت میں جاگرتے ہیں۔ اسی لیے قائداعظم نے ایک بار فرمایا تھا کہ صحافت اور قوم کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ جب صحافت عروج کی طرف جاتی ہے تو قوم بھی عروج کی طرف جاتی ہے۔ جب صحافت زوال آمادہ ہوتی ہے تو قوم بھی زوال کے گڑھے میں گرجاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہماری صحافت کا چہرہ مولانا ابوالکلام آزاد تھے۔ مولانا مودودی تھے۔ مولانا محمد علی جوہر تھے، حسرت موہانی تھے، ظفر علی خان تھے۔ یہ ہماری صحافت کے عروج کا زمانہ تھا۔ چنانچہ یہ قوم کے بھی عروج کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں صحافیوں کا لکھا ہوا لفظ بم سے زیادہ طاقت ور اور تلوار سے زیادہ کاٹ دار تھا۔ لیکن بدقسمتی سے اب ہمارے ذرائع ابلاغ پورس کے ہاتھی کا کردار ادا کررہے ہیں۔ پورس کے ہاتھیوں نے اپنی ہی فوج کو کچل دیا تھا۔ ہمارے ذرائع ابلاغ اپنی ہی قوم کا کچومر بنارہے ہیں۔
پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور اس کے ذرائع ابلاغ کو بھی نظریاتی ہونا چاہیے۔ ایک زمانہ تھا کہ سوویت یونین ایک نظریاتی ریاست تھا اس کا نظریہ سوشلزم تھا چنانچہ سوویت یونین کی پوری علمی زندگی پر سوشلزم غالب تھا۔ سوویت یونین کی سیاست کمیونسٹ پارٹی کے زیر اثر تھی۔ سوویت یونین کی معیشت سوشلسٹ تھی، سوویت یونین میں پیدا ہونے والا ادب سوشلسٹ ادب تھا۔ یہاں تک کہ سوویت یونین کی سائنس بھی صرف سائنس نہ تھی۔ اسے سوشلسٹ سائنس کہا جاتا تھا۔ چنانچہ سوویت یونین کی صحافت بھی سوشلزم کے زیر اثر تھی۔ یہ صحافت سوشلزم کے تصور معاشرہ کو فروغ دیتی تھی۔ سوشلسٹ اخلاقیات کا دفاع کرتی تھی۔ سوشلزم کے دشمنوں کی خبر لیتی تھی۔ ان پر تنقید کرتی تھی۔ امریکا اور یورپ کا نظریہ سیکولر ازم اور لبرل ازم ہے۔ چنانچہ امریکا اور یورپ کے ذرائع ابلاغ سیکولر اور لبرل اقدار کو فروغ دیتے ہیں۔ سیکولر ازم اور لبرل ازم کے تصور انسان، سیکولر ازم اور لبرل ازم کے تصور زندگی اور سیکولر ازم اور لبرل ازم کے تصور معاشرہ کی آبیاری کرتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے ذرائع ابلاغ کو اسلام کا علمبردار ہونا چاہیے۔ اسلام تہذیب کا محافظ ہونا چاہیے۔ اسلامی تاریخ کا ترجمان ہونا چاہیے۔ لیکن عملاً ایسا نہیں ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کے انگریزی اخبار کفر و الحاد کو فروغ دے رہے ہیں۔ سیکولرازم اور لبرل ازم کی ترجمانی کررہے ہیں۔ اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کے مقدمات کی نفی کررہے ہیں۔ اردو صحافت کا حال بھی اس حوالے سے ابتر ہے۔ اردو اخبارات ہفتے میں ایک بار اسلامی صفحہ شائع کرکے اسلام کے سلسلے میں اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے صفحہ اول یا ادارتی صفحے پر قرآن و حدیث کا ترجمہ شائع کرکے اپنی اسلام پسندی ثابت کردیتے ہیں۔ لیکن قرآن کہتا ہے اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو اللہ کو سب خبر ہے۔ اسلام کی اس ہدایت کی فکر کسی کو نہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کی خبروں میں پروپیگنڈے کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ خبریں حق کی بنیاد پر شائع نہیں ہوتیں مفادات کی بنیاد پر شائع یا نشر ہوتی ہیں۔ یہ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ عدالت عظمیٰ نے بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض پر 460 ارب کا جرمانہ کیا۔ یہ اتنی بڑی خبر تھی کہ اسے ذرائع ابلاغ کی شہ سرخی ہونا چاہیے تھا لیکن پاکستان کے چار بڑے اخبارات جنگ، دنیا، ایکسپریس اور دی نیوز میں یہ خبر سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔ اس خبر کو صرف روزنامہ جسارت اور ڈان کراچی نے شائع کیا۔ اس کے باوجود ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ وہ معروضی صحافت یا Objective Jurnalism کے علمبردار ہیں۔ وہ ایماندارانہ صحافت کو فروغ دے رہے ہیں۔ ایک خبر کی عدم اشاعت کا مطلب یہ ہے کہ ذرائع نے اپنے قارئین اور ناظرین تک ایک سچائی کا ابلاغ نہیں ہونے دیا۔ یہ بات اسلام کی ضد ہے۔ اسلامی معاشرہ اصولی اعتبار سے صداقت اور اس کے ابلاغ پر کھڑا ہوا معاشرہ ہے اور جو شخص اسلامی معاشرے میں صداقت کو قتل کرتا ہے وہ اسلام پر حملہ کرتا ہے اور اس کی حرمت کو پامال کرتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے ذرائع ابلاغ صداقت کا قتل عام کرنے والے ذرائع ابلاغ ہیں۔ وہ اسلام کی حرمت کو پامال کرنے والے ذرائع ابلاغ ہیں۔
اسلام کہتا ہے جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہے گا وہ جان سے جاسکتا ہے۔ لیکن کلمہ حق اتنا اہم ہے کہ اگر اس کی قیمت جان ہو تو جان قربان کردینی چاہیے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی صحافت نے ہمیشہ جابر حکمرانوں کے جوتے چاٹے ہیں۔ ان کی پابندیوں کو گلے کا ہار بنایا ہے۔ ان کے لیے جھوٹ بولا ہے۔ جنرل ایوب ملک کے پہلے جابر سلطان تھے اور وہ دس سال تک ایک کالے قانون کے ذریعے پاکستانی صحافت کو کنٹرول کیے رہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جب برصغیر انگریزوں کا غلام تھا تو مسلم صحافت کے علمبردار اپنی آزادی کے لیے بڑی بڑی قربانیاں پیش کرتے رہے۔ وہ جیل جاتے رہے۔ کالے پانی کی سزا بھگتے رہے۔ بڑے بڑے مالی صدمات برداشت کرتے رہے مگر جب برصغیر کے مسلمانوں نے پاکستان کی صورت میں ایک آزاد ریاست حاصل کرلی تو پاکستانی صحافت کے بڑے بڑے لوگوں نے فوجی اور سول آمروں سے سازباز کرلی۔ چنانچہ جنرل ایوب خان نے جب مارشل لا ختم کرنے کا اعلان کیا تو پاکستان کے سب سے بڑے اردو اخبار کے مالک نے نیوز کانفرنس میں جنرل ایوب سے کہا کہ آپ نے مارشل لا اٹھا کر ٹھیک نہیں کیا۔ قوم کو آپ کے مارشل لا کی ضرورت تھی۔ جنرل ایوب نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ یہ بات اپنے اخبار کے کل کے اداریے میں تحریر کردیں میں دوبارہ ملک میں مارشل لا لگا دوں گا۔ بھٹو ایک سول آمر تھے اور ان کی آمریت کو جسارت سمیت چند ہی اخبارات نے چیلنج کیا۔ اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہوا کہ دائیں بازو کے جن صحافیوں نے بھٹو کی سول آمریت کی مزاحمت کی انہوں نے بھٹو کے جاتے ہی جنرل ضیا الحق کی فوجی آمریت سے مفاہمت کرلی۔ محمد صلاح الدین، الطاف حسین قریشی اور مجیب الرحمن شامی اس مفاہمت کی بڑی بڑی علامتیں ہیں۔ ان علامتوں نے جنرل ضیا الحق سے مفاہمت کرتے ہوئے یہ بھی نہ سوچا کہ اسلام کے نزدیک آمریت، آمریت ہے خواہ وہ سول ہو یا فوجی۔ یہ صحافی مولانا مودودی کی فکر سے متاثر تھے اور مولانا نے اپنی تصنیف خلافت و ملوکیت میں ملوکیت کی ہر صورت کی مذمت کی ہے۔
الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی فسطائیت ہماری قومی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ذرائع ابلاغ نے ابتدا ہی میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی فسطائیت کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ صرف جسارت اور تکبیر نے اس فسطائیت کی مزاحمت کی لیکن تکبیر اسٹیبلشمنٹ کے سائے میں کھڑا تھا۔
اس کے لیے ایم کیو ایم کی مزاحمت آسان تھی۔ لیکن جسارت کا خدا کے سوا کوئی نہ تھا۔ لیکن اس کے باوجود جسارت نے حق گوئی کا حق ادا کردیا۔ لیکن جسارت اور تکبیر کے سوا ہر طرف سناٹے کا راج تھا۔ ملک کے ایک بڑے انگریزی اور اردو اخبار نے ایک مرتبہ ایم کیو ایم کے خلاف کچھ شائع کیا تو ایم کیو ایم نے ان اخبارات کا بائیکاٹ کردیا اور ان اخبارات کے مالکان نائن زیرو میں الطاف حسین کے پائوں چھوتے نظر آئے۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خوف کا یہ عالم تھا کہ کراچی کیا لاہور تک کے صحافی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف کچھ نہیں لکھتے تھے۔ حسن نثارکو ایم کیو ایم کا مڈل کلاس ہونا بہت بھاتا تھا۔ مجیب الرحمن شامی ایم کیو ایم کے نظم و ضبط کی تعریف فرمایا کرتے تھے۔ ملک کے ممتاز صحافی اور کالم نگار ارشاد احمد حقانی سے ہمارے دوست یحییٰ بن زکریا نے ایک ملاقات میں کہا کہ آپ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف کچھ نہیں لکھتے۔ کہنے لگے کہ میں نے سنا ہے کہ وہ اپنے خلاف لکھنے والوں کو مروا دیتے ہیں۔ یہ بات حقانی صاحب لاہور میں بیٹھ کر ارشاد فرما رہے تھے اور ادھر روزنامہ جسارت کراچی میں موجود ہو کر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی فسطائیت کی مزاحمت کررہا تھا۔
ہمارا ٹیلی ڈراما عوام میں بے حد مقبول ہے ایک اندازے کے مطابق اسے دس سے بارہ کروڑ لوگ دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں ٹیلی ڈرامے کا بلند ترین معیار پی ٹی وی نے پیش کیا۔ پی ٹی وی کے ڈرامے ایسے ہوتے تھے کہ انہیں پورا خاندان ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتا تھا۔ مگر ہمارے نام نہاد آزاد چینلوں نے ایسا ڈراما متعارف کرادیا ہے کہ حسینہ معین جیسی ڈراما نگار نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اب ہمارا ڈراما خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔ امجد اسلام امجد اس سلسلے میں ایک قدم آگے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بعض ڈرامے ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں شوہر اور بیوی بھی ایک ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ روزنامہ ڈان میں ملک کے کئی ممتاز ڈراما نگاروں کے انٹرویوز شائع ہوئے۔ ایک ڈراما نگار نے کہا کہ ہمارے ڈراموں میں عورتوں کے صرف دو کردار مقبول ہیں۔ ایک روتی پیٹتی عورت، دوسرے لبرل خاتون۔ ایک ڈراما نگار نے کہا کہ میں نے اپنے ایک ڈرامے میں ایک کردار کو مثبت رکھا ہوا تھا۔ چنانچہ میرے ڈائریکٹر نے مجھ پر دبائو ڈالا کہ میں اس کردار کو بھی منفی بنادوں۔ اس سے معاشرے کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ معاشرے میں کہیں خیر موجود نہیں ہر طرف شر ہی شر موجود ہے۔ ایک ڈراما نگار نے شکایت کی اب ہمارے ڈرامے کو این جی اوز نے اچک لیا ہے چنانچہ اب این جی اوز ہمارے ڈراموں کے موضوعات طے کرتی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ پورس کے ہاتھیوں کی طرح اپنے ہی لشکر کو کچل رہے ہیں۔