مسلمانوں کے عروج و زوال کی بنیادیں

دنیا میں مسلمانوں سے زیادہ شاندار تاریخ کسی امت کی نہیں۔ ہندوئوں کی تاریخ چھے ہزار سال پرانی ہے مگر ہندو ازم اور ہندو تہذیب کبھی برصغیر سے باہر قدم نہ نکال سکی۔ بدھ ازم بھی ہزاروں سال پرانا مذہب ہے مگر بدھ ازم کبھی عالمگیر مذہب نہ بن سکا۔ یہودیت ایک قدیم مذہب ہے مگر وہ ایک فنا ہوتا ہوا مذہب ہے۔ عیسائیت کی تاریخ دو ہزار سال پر محیط ہے مگر مغرب میں عیسائیت ایک مرتا ہوا مذہب ہے۔ اسلام عیسائیت سے 600 سال بعد تاریخ کے اُفق پر نمودار ہوا مگر آج اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے۔ اس کی تہذیب بھی زندہ و پائندہ اور عالمگیر ہے اور اسلام خود عیسائیت کے قلب میں لاکھوں لوگوں کو مسلمان کررہا ہے۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی عظمت اور عروج کی بنیادیں کیا ہیں اور اگر اب مسلمان ڈیڑھ دو صدیوں سے زوال کا شکار ہیں تو اس کے اسباب کیا ہیں؟
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کی عظمت اور عروج کی سب سے بڑی بنیاد تقویٰ تھا۔ تقویٰ صرف کسی ظاہری ہئیت کا نام نہیں۔ اس کا پیری مریدی سے کوئی تعلق نہیں۔ تقوے کا مطلب ہے ’’خدا مرکز‘‘ زندگی بسر کرنا۔ اشفاق احمد کہا کرتے تھے کہ خدا کو ماننے اور خدا کی ماننے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بلاشبہ خدا کے ماننے والے تو بہت ہوتے ہیں مگر خدا کی ماننے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ جو لوگ خدا کی مانتے ہیں وہی اصل میں ’’خدا مرکز‘‘ زندگی بسر کرتے ہیں۔ خدا کی مرضی ہمیں قرآن سے معلوم ہوتی ہے۔ چناں چہ خدا مرکز زندگی کی ایک صورت قرآن مرکز زندگی بسر کرنا ہے۔ اسلام میں روحانیت کی سب سے اعلیٰ مثال رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ رسول اکرمؐ کی سیرت الف سے یے تک خدا مرکز اور قرآن مرکز تھی۔ ایک بار صحابہ نے سیدہ عائشہ سے پوچھا کہ رسول اکرمؐ کے اخلاق کیسے تھے؟ تو سیدہ عائشہؓ نے فرمایا: کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا۔ رسول اکرمؐ کے اخلاق ٹھیک قرآن جیسے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرمؐ قرآن سے بنے ہوئے تھے۔ قرآنی حقائق اور معارف دراصل سیرت طیبہ کے ’’بلڈنگ بلاکس‘‘ تھے۔ رسول اکرمؐ کے بعد صحابہ کرام ہمارے لیے روحانیت کا بلند ترین معیار ہیں۔ اور صحابہ کرام کی سیرتیں بتاتی ہیں کہ ان کے لیے نمونۂ عمل صرف رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ تھی۔ رسول اکرمؐ سے صحابہ کے عشق کا یہ عالم تھا کہ ان کے لیے کوئی چیز رسول اکرمؐ سے بڑھ کر نہیں تھی۔ سیدنا ابوبکرؓ جب رسول اکرمؐ کے ساتھ مکے سے مدینے ہجرت کررہے تھے تو آپ کبھی رسول اکرمؐ کے آگے چلنے لگتے کبھی پیچھے۔ کبھی وہ رسول اکرمؐ کے دائیں آجائے اور کبھی بائیں۔ رسول اکرمؐ نے اس کی وجہ پوچھی تو صدیق اکبرؓ نے فرمایا جب مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں آپؐ پر آگے سے حملہ نہ ہوجائے تو میں آگے آجاتا ہوں۔ جب مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ کوئی آپؐ پر پیچھے سے وار نہ کردے تو میں آپؐ کے پیچھے آجاتا ہوں۔ جب مجھے آپؐ پر دائیں اور بائیں سے حملے کا خطرہ ہوتا ہے تو میں آپؐ کے دائیں اور بائیں چلنے لگتا ہوں۔ اس صورت حال کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح پروانہ شمع کا طواف کرتا ہے ٹھیک اسی طرح سیدنا ابوبکرؓ رسول اکرمؐ کا طواف کررہے تھے۔ اس لیے اقبال نے کہا ہے۔
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس
اس حوالے سے سیدنا عمرؓ کا واقعہ بھی مشہور ہے۔ سیدنا عمرؓ کے زمانے میں مسلم ریاست کا رقبہ 22 لاکھ مربع کلو میٹر سے زیادہ ہوچکا تھا۔ وقت کی دو سپر پاور منہ کے بل گرچکی تھیں۔ مسلمانوں کے پاس مالی وسائل کی فراوانی ہوچکی تھی۔ مگر سیدنا عمرؓ کے لباس کا معاملہ یہ تھا کہ ایک دن ایک صحابی نے گنے تو سیدنا عمرؓ کے لباس میں 17 پیوند لگے ہوئے تھے۔ اس سلسلے میں ایک بار سیدہ عائشہؓ نے سیدنا عمرؓ سے بات کی۔ انہوں نے فرمایا ایک وقت تھا کہ ہم کھجور کھاتے تھے اور پانی پیتے تھے۔ یہ صورت حال خیبر فتح ہونے تک برقرار رہی۔ مگر اب ہمارے پاس وسائل کی فراوانی ہے۔ آپ سے دوسری مملکتوں کے وزیر، مشیر اور سفیر ملنے آتے ہیں۔ اگر آپ اپنا لباس بدل لیں تو اچھا ہو۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا میں اپنے دو رفیقوں یعنی رسول اکرمؐ اور ابوبکرؓ کے راستے کو نہیں چھوڑ سکتا۔ مسلمانوں کے عروج کے اس سبب کا اثر عہد حاضر کی بڑی مسلم شخصیات نے بھی قبول کیا ہے۔ اس لیے اقبال نے کہا ہے۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں عشقِ محمدؐ سے اُجالا کردے
٭٭
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اور مجدد وقت مولانا ابوالاعلی مودودی نے پوری امت مسلمہ کو مشورہ دیا کہ: قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو۔ یہاں قرآن و سنت کی دعوت کا مطلب ہے۔ قرآن و سنت کو بسر کرکے دکھانا۔ مسلمان جب تک قرآن و سنت کو بسر کرنے والے بنے رہے ساری دنیا ان کے آگے سرنگوں رہی۔
مسلمانوں کے عروج کی دوسری وجہ مسلمانوں کی علم سے محبت اور اس کا فروغ تھا۔ مسلمانوں کے لیے علم کی اہمیت یہ ہے کہ قرآن مجید میں 800 سے زیادہ مقامات پر علم یا اس کے متعلقہ تصورات کی اہمیت پر مسلمانوں کو متوجہ کیا گیا ہے۔ قرآن کبھی مسلمانوں سے کہتا ہے تم تفکر سے کام کیوں نہیں لیتے۔ کبھی کہتا ہے تم تدبر کو بروئے کار کیوں نہیں لاتے۔ کبھی فرماتا ہے کہ علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے ہر مسلمان مرد اور عورت پر علم کا حصول فرض ہے۔ ایک حدیث پاک کا مفہوم یہ ہے کہ عالموں کے قلم کی روشنائی شہدا کے خون سے زیادہ اہم ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا جب اہل دنیا اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو وہ اپنے پیچھے مال و جائداد چھوڑ کر جاتے ہیں۔ یہی چیزیں ان کے ورثا میں تقسیم ہوتی ہیں مگر جب کوئی نبی دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو وہ علم کو ورثے کے طور پر چھوڑ کر جاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ علم رسول اکرمؐ کا ورثہ ہے۔ جب تک مسلمانوں نے رسول اکرمؐ کے ورثے کو اپنے سینے سے لگائے رکھا ان کی فکر پوری دنیا پر چھائی رہی۔ دنیا میں قرآن سے پہلے بھی آسمانی کتب آئی تھیں۔ دنیا میں ہندوئوں کی مقدس کتاب وید موجود تھی۔ گیتا موجود تھی۔ یہودیوں کے پاس بھی توریت موجود تھی۔ عیسائیوں کے پاس انجیل تھی۔ بلاشبہ ان تمام کتب کی تفسیر کا کام ہوا مگر مسلمانوں نے قرآن کی تفسیر کا اتنا بڑا علم پیدا کیا کہ علم تفسیر ایک تالاب ایک جھیل ایک دریا سے ایک سمندر بن گیا۔ قرآن کی تفسیر کا کام رسول اکرمؐ کے زمانہ مبارک سے شروع ہوا اور آج تک اس کا سلسلہ جاری ہے۔ خود اردو زبان میں گزشتہ ڈیڑھ سو سال کے دوران دو درجن سے زیادہ اہم اور بڑی تفاسیر نمودار ہوئی ہیں اور اس حوالے سے مستقبل کا در کھلا ہے۔ دنیا میں ایک لاکھ 24 ہزار انبیا آئے۔ ان میں سیدنا ابراہیمؑ، سیدنا نوحؑ، سیدنا موسیٰؑ اور سیدنا عیسیٰؑ جیسے اوالعزم انبیا بھی شامل ہیں۔ مگر ہم تک چند انبیا ہی کے چند اقوال پہنچ سکے ہیں۔ باقی جو
کچھ انبیا و مرسلین کے ارشاد فرمایا ان کی امتیں اسے سنبھال نہ سکیں۔ لیکن رسول اکرمؐ کی امت نے رسول اکرمؐ کے ایک ایک ارشاد کو محفوظ کرلیا۔ اس کے نتیجے میں علم حدیث کے نام سے علم کا ایک اور سمندر خلق ہوگیا۔ ایسا علم دنیا کی کسی امت کے پاس موجود نہیں۔ مسلمانوں نے فق کی اتنی بڑی روایت پیدا کی کہ دنیا کی معلوم تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ امام ابوحنیفہ فقہ حنفی کے بانی ہیں۔ ان کی عظمت یہ ہے کہ انہوں نے 12 لاکھ سے زیادہ مسائل پر غور کرکے ان مسائل کا اسلامی حل دریافت کیا۔ اس علم میں امام شافعی، امام مالک اور امام حنبل کی علمی و فقہی روایت کو بھی شامل کرلیا جائے تو علم کا تیسرا سمندر ہمارے سامنے آموجود ہوتا ہے۔ اسلام نے تصویر کی ممانعت کردی۔ چناں چہ مسلمانوں کی ساری تخلیقی صلاحیت لفظ پر صرف ہوئی۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں نے شاعری کی اتنی بڑی روایت پیدا کی کہ دنیا میں شاعری کی اتنی بڑی روایت کسی اور امت کے پاس نہیں۔ اردو شاعری میں میر، غالب اور اقبال عالمی سطح کے شاعر ہیں مگر فارسی شاعری دیوقامت شاعروں کی شاعری ہے۔ اس شاعری کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ مولانا روم کی شاعری کو فارسی کا قرآن قرار دیا گیا ہے اور مولانا کی شاعری کی عظمت یہ ہے کہ دنیا کی دوسری قوموں کے سو عظیم شعرا کی شاعری ترازو کے ایک پلڑے میں اور مولانا کی شاعری ترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھی جائے تو مولانا شاعری کی کیفیت اور معنویت کا وزن دوسری قوموں کے سو عظیم شعرا کی کیفیت اور معنویت کے وزن سے زیادہ ہوگا۔ مسلمانوں نے دنیا میں داستانوں کی بھی ایسی روایت خلق کی جس کے آگے دنیا کی دوسری اقوام کا داستانوی ادب کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ مغرب نے ایک عرصے تک اپنے تعصب کے زیر اثر یہ تسلیم نہیں کیا کہ اس نے مسلمانوں کی علمی روایت سے فیض اُٹھایا ہے مگر اب مغرب کے دانش ور تسلیم کرنے لگے ہیں کہ آج مغرب جو کچھ ہے مسلمانوں کے علم کی بدولت ہے۔ مغرب کے دانش ور مانتے ہیں کہ ہم نے طبعیات، ریاضی، حیاتیات، طب، فلکیات اور فلسفے سمیت درجنوں شعبوں کا علم مسلمانوں سے سیکھا۔ وہ مانتے ہیں کہ مغرب مسلمانوں سے علمی استفادے کے بغیر وہ نہیں بن سکتا تھا جو کہ وہ ہے۔
مائیکل مورگن ہملٹن نے لکھا ہے کہ بلاشبہ مسلمانوں نے کوئی نیوٹن اور آئن اسٹائن پیدا نہیں کیا لیکن اس نے لکھا ہے کہ مسلمانوں سے استفادے کے بغیر مغرب کبھی نیوٹن اور آئن اسٹائن پیدا نہیں کرسکتا تھا۔ مسلمانوں کی اس شاندار علمی روایت کا نتیجہ یہ تھا کہ کئی سو سال تک مغربی ممالک کی جامعات میں مسلمان مفکرین کے افکار اسی طرح پڑھائے جاتے تھے جس طرح آج ہماری جامعات میں مغرب کے مفکرین کے افکار پڑھائے جاتے ہیں۔
مسلمانوں کا زوال ایک سامنے کی چیز ہے اور اس کا ایک سبب یہ ہے کہ اب مسلمانوں کی زندگی نہ ’’خدا مرکز‘‘ ہے، نہ ’’رسول مرکز‘‘ ہے، نہ ’’قرآن مرکز‘‘ ہے۔ اب مسلمانوں کی عظیم اکثریت کی زندگیاں یا تو ’’دولت مرکز‘‘ ہیں یا ’’طاقت مرکز‘‘۔ بلاشبہ لاکھوں مسلمان نماز پڑھتے ہیں مگر ہماری نمازیں بھی ہماری زندگی کو خدا مرکز، رسول مرکز اور قرآن مرکز نہیں بنا پاتیں۔ بلکہ ہماری نمازیں تو ہم سے جھوٹ، غیبت، حسد اور رشوت خوری بھی نہیں چھڑا پاتیں۔ چناں چہ ہماری زندگیاں نہ خدا سے Define ہوتی ہیں، نہ سیرت طیبہؐ سے، نہ قرآن سے۔ ہماری زندگیاں Define ہوتی ہیں تو دولت اور طاقت کے لالچ سے، ان کی محبت سے، ان کے حصول کی تگ و دو سے۔ مسلمانوں کے زوال کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم نے علم اور تخلیق سے اپنا رشتہ توڑ لیا، کتاب علم کا سرچشمہ ہے اور کتاب سے ہمارا تعلق یہ ہے کہ پانچ ہزار روپے کے جوتے کو سستا اور دو سو روپے کی کتاب کو مہنگا کہتے ہیں۔ کتاب کیا مسلمانوں کی عظیم اکثریت اخبار تک پڑھنے کے لیے تیار نہیں۔ چناں چہ ہم زندگی کے ہر شعبے میں مغرب کی مصنوعات کے ’’صارف‘‘ بن کر رہ گئے ہیں۔

Leave a Reply