ضمنی انتخابات کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان میں جوش و جذبہ نہیں ہوتا۔ چناں چہ رائے دہندگی کی شرح بھی کم رہتی ہے۔ لیکن پنجاب کے حالیہ انتخابات میں عام انتخابات سے زیادہ جوش و جذبہ تھا اور کئی حلقوں میں رائے دہندگی کی شرح قومی انتخابات سے بھی زیادہ بلند رہی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ضمنی انتخابات کے نتائج پر قومی سیاست کی حرکیات یا Dynamics کا انحصار تھا۔ ان نتائج سے عمران خان یا نواز لیگ کا سیاسی مستقبل متاثر ہونا تھا۔ عام خیال یہ تھا کہ پنجاب شریفوں اور نواز لیگ کا گڑھ ہے۔ چناں چہ نواز لیگ 20 کی 20 نشستوں پر کامیاب ہوسکتی ہے۔ مگر انتخابات کے نتائج اس کے برعکس برآمد ہوئے ہیں۔ عمران خان نے 20 میں سے 15 نشستیں جیت لیں۔ نواز لیگ صرف چار نشستوں پر کامیاب ہوسکی۔ چار میں سے بھی ایک نشست کے نتائج چیلنج ہوگئے ہیں۔ اس لیے کہ اس سیٹ پر نواز لیگ کا امیدوار صرف 49 ووٹوں سے کامیاب ہوا ہے۔ ایک نشست پر آزاد امیدوار کامیاب ہوا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر پنجاب کے ضمنی انتخابات میں کیا ہوا؟ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ جو ہوا کیوں ہوا؟
ان سوالات کا ایک جواب یہ ہے کہ پنجاب کے انتخابات میں اصل کردار عمران خان کے بیانیے نے ادا کیا۔ عمران خان کے بیانیے کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہیں امریکا اور مقامی اسٹیبلشمنٹ نے پی ڈی ایم کی جماعتوں کے ساتھ معاملات کرکے اقتدار سے باہر کیا۔ عمران خان کے اس بیانیے کو نہ پی ڈی ایم نے قبول کیا، نہ امریکا نے تسلیم کیا، نہ مقامی اسٹیبلشمنٹ نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی۔ حتیٰ کہ عدالت عظمیٰ نے بھی اپنے ایک تفصیلی فیصلے میں کہا کہ عمران خان کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوئی ہے۔ لیکن پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج ثابت کررہے ہیں کہ عوام کی اکثریت نے عمران خان کے بیانیے کے اس پہلو کو قبول کیا ہے۔ عوام کا خیال ہے کہ عمران خان کے خلاف واقعتا سازش ہوئی ہے۔ انہیں واقعتا قبل از وقت اقتدار سے باہر کیا گیا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو عمران خان نواز لیگ کے گڑھ میں نواز لیگ کو ہرا نہیں سکتے تھے۔ ہرانا بھی کیا عمران خان نے ضمنی انتخابات میں نواز لیگ کو روند ڈالا ہے۔ اور اب نواز لیگ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق اپنی گھسیاہٹ کو چھپانے کے لیے کوشاں ہے۔ مریم نواز کہہ رہی ہیں کہ سیاست میں ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے۔ میاں جاوید لطیف نے فرمایا ہے کہ ضمنی انتخابات میں نواز لیگ کی حکومت ہار گئی البتہ میاں نواز شریف کا نظریہ جیت گیا۔ طلال چودھری جیو کے ایک پروگرام میں فرما رہے تھے کہ ضمنی انتخابات کی بیس نشستیں تو عمران خان کی تھیں ہم نے ان سے چار نشستیں چھین لی ہیں۔
عمران خان کے بیانیے کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے امریکا کو اپنے اقتدار سے محرومی کا ذمے دار قرار دے کر امریکا کے خلاف طویل مہم چلائی۔ وہ اپنے ہر جلسے میں یہ ضرور بتاتے تھے کہ امریکا نے ان کے خلاف کس طرح سازش کی۔ کس طرح امریکا کے اعلیٰ اہلکار ڈونلڈ لو نے پاکستانی سفیر کو دھمکی دی کہ اگر عمران خان کو اقتدار سے باہر نہ کیا گیا تو پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر عمران خان کو اقتدار سے باہر کردیا گیا تو امریکا پاکستان کی تمام کوتاہیاں معاف کردے گا۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں نے عمران خان کے اس بیانیے کا مذاق اُڑایا۔ لیکن پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہورہا ہے کہ لاکھوں لوگوں نے عمران خان کے سازش کے بیانیے کو سچ سمجھ کر قبول کیا ہے۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں زیر زمین امریکا مخالف جذبات کا ایک سمندر موجزن ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی کوئی جماعت اس سمندر سے استفادہ نہیں کرتی۔ پاکستانی معاشرے میں امریکا مخالف جذبات اس لیے موجود ہیں کہ گزشتہ 60 سال میں امریکا نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان میں مارشل لا لگتا ہے تو امریکا کی اجازت سے، جمہوریت بحال ہوتی ہے تو امریکا کی مرضی سے، جنرل پرویز اور بے نظیر کے درمیان این آر او ہوتا ہے تو امریکا کی سرپرستی میں۔ میاں نواز شریف جنرل پرویز کے دور میں خفیہ معاہدہ کرکے ملک سے سعودی عرب فرار ہوئے تو آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل نے فرمایا کہ امریکا اپنے آدمی کو نکال کر لے گیا۔ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ بتاتی ہے کہ دونوں ملکوں میں جب بھی مذاکرات ہوتے ہیں امریکا کے دبائو پر ہوتے ہیں۔ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے خلاف بھرپور مہم چلائی ہے۔ یہ مغربی دنیا ہے جس نے پاکستان کے ایٹم بم کو ’’اسلامی بم‘‘ کا نام دیا۔ یہ امریکا ہی ہے جس سے پاکستان نے ایف 16 طیارے خریدنے چاہے اور ایک ارب ڈالر پیشگی کے طور پر ادا کیے مگر اس کے باوجود امریکا نے 12 سال تک نہ پاکستان کو طیارے دیے نہ پاکستان کی رقم ادا کی۔ چناں چہ پاکستان کے کروڑوں لوگ امریکا سے بجا طور پر نفرت کرتے ہیں۔ عمران خان نے اس نفرت کو اپنے خلاف سازش کے بیانیے سے جوڑ دیا۔ چناں چہ پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج پر امریکا مخالف جذبات کا بھی گہرا اثر ہے۔
پنجاب کے ضمنی انتخابات میں عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ مخالف موقف نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ گزشتہ انتخابات میں عمران خان کی کامیابی میں اسٹیبلشمنٹ کا مرکزی کردار تھا۔ اسٹیبلشمنٹ ہی نے عمران خان کو الیکٹ ایبلز مہیا کیے تھے، اسٹیبلشمنٹ ہی نے عمران خان کو ٹی وی کی اسکرین پر نمایاں کیا تھا۔ اسٹیبشلمنٹ ہی نے عمران خان کو بڑے سرمایہ کار مہیا کیے تھے۔ چناں چہ عمران خان کا امیج یہ تھا کہ وہ اسٹیبشلمنٹ کے سائے کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں مگر اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان نے ’’نیوٹرلز‘‘ کے خلاف طویل مہم چلائی۔ اس سلسلے میں عمران خان کو خود اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے کی خاموش حمایت حاصل رہی ہے۔ اس مہم سے عوام میں یہ رائے عام ہوئی کہ عمران خان ایک آزاد سیاسی رہنما ہیں۔ ان کے سر پر اگر کبھی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا بھی تو انہوں نے اب اس ہاتھ کو جھٹک دیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف پنجاب میں ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ مہم کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات پیدا کرچکے تھے۔ عمران خان نے ان جذبات سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اب ضمنی انتخابات کے نتائج سے عمران خان کے بارے میں یہ رائے عام ہوئی ہے کہ عمران خان نہ صرف یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کے اثر سے آزاد ہیں بلکہ وہ اس کی سرپرستی کے بغیر غیر معمولی سیاسی کامیابی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
عمران خان نے پی ڈی ایم کی حکومت کو پہلے دن سے ’’امپورٹڈ‘‘ کا خطاب دیا۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج بتا رہے ہیں کہ عوام نے عمران خان کے بیانیے کے اس پہلو کو بھی قبول کرلیا ہے۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ مولانا فضل الرحمن عمران خان کو یہودی لابی کا ایجنٹ قرار دیتے رہے ہیں۔ لیکن عوام نے مولانا فضل الرحمن کے اس خیال کو قبول نہیں کیا ہے، کرتے تو پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج پر اس کا کوئی اثر موجود ہوتا۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ پونے چار سال میں عمران خان سے معیشت سنبھل کر نہیں دی۔ ان کے دور میں مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ لیکن میاں شہباز شریف کی حکومت نے صرف تین ماہ میں عمران خان کی مہنگائی کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ عمران خان نے پٹرول کے نرخوں میں مجموعی طور پر 30 روپے کا اضافہ کیا تھا مگر شہباز شریف کی حکومت نے صرف تین ماہ میں پٹرول کے نرخوں میں 100 روپے اور ڈیزل کے نرخوں میں 130 روپے اضافہ کردیا۔ جس سے مہنگائی کا ایسا طوفان برپا ہوا جس کے زیر اثر لوگ عمران خان کی پیدا کردہ مہنگائی کو بھول گئے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مہنگائی نے بھی نواز لیگ کی انتخابی شکست میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
نواز لیگ کی شرمناک شکست میں شریف خان کے ’’تصور عوام‘‘ کا بھی بڑا کردار ہے۔ بھٹو خاندان کی طرح شریف خاندان بھی اپنے ووٹر کو اپنا ’’ہاری‘‘ تصور کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ وہ انتخابات میں اگر کھمبے کو بھی کھڑا کردے گا تو لوگ کھمبے کو ووٹ دیں گے۔ چناں چہ شریفوں نے پوری ڈھٹائی سے پی ٹی آئی کے لوٹوں کو ضمنی انتخاب میں ٹکٹ دیے۔ لیکن ضمنی انتخابات کے نتائج بتارہے ہیں کہ عوام نے شریفوں کے تصور عوام کو قبول نہیں کیا۔ انہوں نے شریفوںکو بتایا کہ ان کا ایک ضمیر بھی ہے جو لوٹوں کو ووٹ دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ میاں نواز شریف اور ان کی دختر مریم نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی مہم چلائی تھی مگر اب انہوں نے پنجاب کے عوام کے سامنے ’’ووٹ کو ذلت دو‘‘ کی صورت حال رکھ دی۔ چناں چہ عوام نے ووٹ کو ذلیل کرنے سے انکار کردیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ میاں نواز شریف نے اپنے پورے سیاسی کیریئر میں پنجاب کی عصبیت کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ وہ جب ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ کی سیاست کررہے تھے جب بھی وہ ’’جاگ پنجاب جاگ‘‘ کا نعرہ لگا رہے تھے۔ مریم نے گزشتہ چار سال میں سیکڑوں بار خود کو پاکستان کی بیٹی کے بجائے ’’پنجاب کی بیٹی‘‘ قرار دیا۔ چناں چہ شریف خاندان کا خیال تھا کہ ان کی پیدا کردہ صوبائی عصبیت ضمنی انتخابات میں اپنا اثر دکھائے گی مگر پنجاب کے لوگوں نے پنجابی عصبیت سے اوپر اُٹھ کر دکھا دیا اور عمران خان کو ووٹ دیا۔ شریفوں کا ’’تصور عمران‘‘ بھی ناقص ثابت ہوا ہے۔ شریفوں کا تصور عمران یہ تھا کہ عمران اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ مگر عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے دائرے سے باہر بھی اپنی سیاسی شخصیت اور اس کے اثرات کو نمو دے کر دکھا دیا۔