لاہور پنجابیوں کا شہر ہے۔ پشاور پٹھانوں کا شہر ہے۔ لاڑکانہ سندھیوں کا شہر ہے۔ کوئٹہ بلوچوں اور پٹھانوں کا شہر ہے۔ ملتان سرائیکیوں اور پنجابیوں کا شہر ہے۔ ان میں سے کوئی شہر پورے پاکستان کی علامت نہیں۔ لیکن کراچی منی پاکستان ہے۔ کراچی کی آبادی کا 42 فی صد مہاجروں پر مشتمل ہے۔ کراچی کی آبادی کا 15 فی صد پٹھانوں پر مشتمل ہے۔ کراچی کی آبادی کا مزید 10 فی صد پنجابیوں پر مشتمل ہے۔ کراچی میں لاکھوں بلوچ اور سرائیکی بھی آباد ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کراچی پورے پاکستان کی علامت ہے۔ پاکستانیت کے پورے دائرے کا استعارہ ہے۔ کراچی کے سابق ناظم نعمت اللہ خان کا کہنا تھا کہ کراچی کو صرف پاکستان تک محدود کرنا بھی ٹھیک نہیں ہے اس لیے کہ کراچی ’’منی عالم اسلام‘‘ ہے۔ ان کے اس دعوے کی بنیاد یہ تھی کہ کراچی میں لاکھوں بنگالی آباد ہیں۔ لاکھوں افغانی رہتے ہیں۔ کراچی میں ہزاروں روہنگیا مسلمان بھی آپ کو مل جائیں گے۔ کراچی میں ایرانیوں کی موجودگی بھی ریکارڈ پر ہے۔ کراچی کے حالات اچھے ہوتے تو شاید یہاں عرب بھی پائے جاتے اور انڈونیشیا اور ملائیشیا کے لوگوں کا سراغ بھی مل جاتا۔ کراچی کی اہمیت صرف یہی نہیں کہ کراچی منی پاکستان ہے بلکہ کراچی کی اہمیت یہ بھی ہے کہ کراچی پورے پاکستان کو پالتا ہے۔ پاکستان کی سالانہ آمدنی اگر سو روپے ہے تو کراچی ملک کو سو میں سے 60 روپے کما کر دیتا ہے۔ کراچی آج بھی ملک کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے۔ کراچی ابھی تک ملک کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ لیکن کراچی کی بدقسمتی یہ ہے کہ اسے کوئی منی عالم اسلام کیا منی پاکستان بھی تسلیم نہیں کرتا۔ کراچی ملک کو سو روپے میں سے 60 روپے کما کر دیتا ہے مگر وفاق کراچی پر پانچ روپے بھی صرف کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کراچی سندھ کو اس کی آمدنی کا 85 فی صد کما کر دیتا ہے مگر صوبہ کراچی پر دس روپے لگانے کا بھی روا دار نہیں۔ پٹھان کراچی کی آبادی کا 15 فی صد ہیں مگر وہ کراچی کو Own ہی نہیں کرتے۔ ایک دن ایک پٹھان رکشہ والے نے چار کلو میٹر کے چار سو روپے مانگے تو ہم نے اس سے عرض کیا کہ بھائی اس سے بہتر یہ ہے کہ پستول لے کر لوگوں کو لوٹنے لگو۔ اس طرح تم زیادہ مال کمائو گے۔ مال کا لفظ سن کر کہنے لگا کہ حاجی صاحب ہم واقعتاً مال کمانے کے لیے کراچی آئے ہیں جس دن ہم نے مطلوبہ رقم کما لی اس شہر کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھیں گے۔ ایک دن ایک ٹیکسی میں پنجابی ڈرائیور سے ملاقات ہوگئی۔ کراچی کی سڑکوں کی خستہ حالت دیکھ کر کہنے لگا کہ یہ شہر تو پنجاب کے گائوں دیہات سے بھی گیا گزرا ہے۔ اگر مجھے یہاں سے رزق
نہ کمانا ہوتا تو میں کراچی میں ایک دن بھی رہنا پسند نہ کرتا۔ پنجابی کراچی کی آبادی کا 10 فی صد ہیں مگر وہ بھی کراچی کو Own نہیں کرتے۔ سندھی بھی کراچی کی آبادی کا 10 فی صد ہیں مگر ہم نے آج تک کسی سندھی دانش ور اور کسی سندھی سیاست دان کو کراچی کے حق میں آواز اٹھاتے اور کراچی کی تباہی پر آنسو بہاتے نہیں دیکھا۔ ایم کیو ایم تو کراچی کی 42 فی صد آبادی کی نمائندہ تھی مگر 30 برسوں میں اس نے بھی کراچی کو Own کرکے نہ دیا۔ حالاں کہ کراچی کے لوگوں نے ملک کے تمام منتخب ایوانوں میں ایم کیو ایم کو سو فی صد نمائندگی عطا کی۔
دنیا کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں کوئی مسئلہ ہی نہ ہو۔ کہیں پانی کی قلت کا مسئلہ ہے کہیں ٹرانسپورٹ کی ناکافی سہولتوں کا مسئلہ۔ کہیں نکاسی آب کا نظام ٹھیک نہیں ہے کہیں شہر کے کچرے کو ٹھکانے لگانے کا مناسب انتظام نہیں ہے۔ لیکن کراچی دنیا کا شاید واحد شہر ہے جہاں بڑے شہروں کا ہر مسئلہ موجود ہے اور اپنی بدترین صورت میں۔
زندگی میں پانی کی اہمیت بنیادی ہے۔ پانی کی فراہمی نے انسانی تہذیب کی نشوونما میں کردار ادا کیا ہے۔ چناں چہ بیش تر قدیم تہذیبیں، دریائوں یا ندیوں کے کناروں پر آباد ہوئیں اور پھلی پھولیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پانی کے بغیر زندگی کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن کراچی میں پانی جیسی بنیادی سہولت بھی ضرورت کے مطابق فراہم نہیں۔ کراچی کو یومیہ 1200 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے جب کہ کراچی کو روزانہ صرف 650 ملین گیلن پانی فراہم کیا جارہا ہے۔ یعنی کراچی کو اس کی ضرورت سے آدھا پانی مہیا ہے۔ 1980ء میں ہماری رہائش کراچی کے علاقے ناظم آباد نمبر 5 میں تھی مگر اس علاقے میں پانی کا قحط پڑ گیا چناں چہ ہمارے بزرگوں نے ناظم آباد سے نارتھ ناظم آباد کی طرف نقل مکانی کر ڈالی۔ جس وقت ہم نارتھ ناظم آباد میں آئے وہاں پانی وافر مقدار میں دستیاب تھا۔ لیکن چند برسوں بعد نارتھ ناظم آباد کے بلاک کے میں پانی کا قحط پڑ گیا۔ چناں چہ پورا اپارٹمنٹ ٹینکرز پر چلنے لگا۔ سات آٹھ سال ہم نے ٹینکروں پر گزرا کیا۔ لیکن ٹینکروں کے نرخوں میں دیکھتے ہی دیکھتے ہولناک اضافہ ہوگیا۔ جب ہم نے ٹینکروں لینا شروع کیے تھے ایک بڑا ٹینکر ایک ہزار روپے میں آتا تھا مگر اس کے دام بڑھتے بڑھتے ساڑھے چار ہزار روپے تک پہنچ گئے۔ اتنا مہنگا ہونے کے باوجود بھی ٹینکر کا حصول آسان نہ تھا۔ ٹینکر والے کو چار چھے مرتبہ فون کرنا پڑتا۔ فون پر وہ بتاتا کہ ٹینکر ابھی نہیں مل سکتا شام کو ملے گا۔ چناں چہ شام تک انتظار کیا جاتا۔ کبھی ٹینکر والا کہتا ٹینکر رات کو ایک بجے فراہم ہوسکے گا۔ چناں چہ رات ایک بجے ٹینکر ڈلوایا جاتا۔ اس صورت حال سے عاجر آکر سات سال پہلے پورے اپارٹمنٹ نے طے کیا کہ ٹینکر مافیا سے جان چھڑائی جائے اور بورنگ کا پانی استعمال کیا جائے۔ مگر کراچی کے 98 فی صد علاقوں میں بورنگ کا پانی سخت کھارا ہے۔ اس پانی سے سر کے بال گرنے لگتے ہیں اور جلد کی بیماری کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس پانی سے کپڑے تو دھل جاتے ہیں۔ مگر اس پانی میں جھاگ یا تو بنتے ہی نہیں یا بہت کم بنتے ہیں۔ یہ پانی پینے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ چناں چہ جہاں جہاں بورنگ کا پانی استعمال ہورہا ہے وہاں وہاں پینے کے پانی کا الگ سے بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ چناں چہ کراچی میں دیکھتے ہی دیکھتے پینے کے پانی کی فراہمی نے ایک بڑی صنعت کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ لیکن عام آدمی کے لیے یہ پانی بہت مہنگا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ کراچی میں پانی کی لائنوں میں تو پانی کا کال پڑا ہوا ہے۔ مگر ٹینکرز کے لیے پانی ہر وقت دستیاب ہے۔ یہ بات بھی کم المناک نہیں کہ ہم گزشتہ سال سے بورنگ کا پانی استعمال کررہے ہیں مگر اس کے باوجود ادارہ فراہم و نکاسی آب کا بل ہر ماہ ادا ہورہا ہے۔ یہ بل ایک سال پہلے تک 200 روپے تھا جواب بڑھ کر 300 روپے ماہانہ ہو گیا ہے۔ یہ بل کیا ہے ایک تاوان ہے۔ ایک بھتہ ہے جو لاکھوں شہریوں سے زبردستی وصول کیا جارہا ہے۔ بورنگ کے پانی کی ایک مشکل یہ ہے کہ ابتدا میں 60 فٹ کھدائی پر پانی مل جاتا ہے۔ مگر چھے سات سال میں یہ پانی ختم ہوجاتا ہے اور پھر 120 یا 150 فٹ کھدائی کروانی پڑتی ہے۔ شہر کے بعض علاقوں میں 120 فٹ پر بھی پانی ختم ہوگیا ہے۔ چناں چہ دو سو یا ڈھائی سو فٹ بورنگ کرانی پڑ گئی ہے۔ کراچی میں پانی کی قلت 40 سال سے ہے مگر آج تک وفاق اور صوبے نے اس قلت کو دو کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ کراچی سمندر کے کنارے آباد ہے اور دنیا کے کئی ساحلی شہروں میں سمندر کے پانی کو قابل استعمال بنا کر پانی کا مسئلہ حل کرلیا گیا ہے مگر ملک کو 60 سے 70 فی صد آمدنی مہیا کرنے والے کراچی کی قسمت میں ایک ڈی سیلی نیشن پلانٹ تک نہیں ہے۔ کراچی میں نعمت اللہ خان نے پانی کی فراہمی کے منصوبے کے تھری کو مکمل کیا تھا اور کراچی کے لیے کے فور کا ایک بڑا منصوبہ بنایا تھا مگر اس منصوبے کو بنے ہوئے پندرہ سال ہو گئے ہیں۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں کراچی کے پاس بڑی حد تک ٹرانسپورٹ کا ایک بہترین نظام موجود تھا۔ کراچی کے پاس سرکلر ریلوے تھی۔ بڑی بسوں کا بیڑا تھا۔ سیکڑوں کوچز تھیں۔ سرکاری شعبے میں گرین لائن بسیں تھیں۔ منی بسوں کی بڑی تعداد شہر میں موجود تھی۔ ٹیکسیاں تھیں، رکشے تھے، کاریں اور موٹر سائیکلیں تھیں مگر اب کراچی میں نہ سرکلر ریلوے موجود ہے، نہ بڑی بسوں کا بڑا بیڑا موجود ہے، نہ ہر روٹ پر کوچز دستیاب ہیں۔ شہر سے منی بسیں بھی تقریباً غائب ہوچکی ہیں۔ چناں چہ شہر میں آمدو رفت بہت دشوار اور بہت مہنگی ہوگئی ہے۔ یہ مسئلہ بھی وفاق اور صوبے کے علم میں ہے مگر نہ وفاق کچھ کرتا ہے نہ صوبہ حرکت میں آتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کے لیے ایسی سڑکیں ناگزیر ہیں جنہیں انگریزی میں ’’موٹر ایبل‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی ایسی سڑکیں جن پر ٹریفک رواں دواں رہ سکے۔ بدقسمتی سے کراچی میں 90 فی صد سڑکیں اس طرح ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں کہ انہیں ’’موٹر ایبل‘‘ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کراچی کی شاہراہوں پر سفر ایک عذاب بن گیا ہے۔ ایک سال پہلے جب کراچی کی سڑکیں بہتر حالت میں تھیں تو ہمیں دفتر کی گاڑی میں گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر جانے میں 20 سے 25 منٹ لگتے تھے اب 50 منٹ لگتے ہیں۔ ٹریفک زیادہ ہی جام ہو جو اکثر ہوتا ہے تو ہمیں دفتر سے گھر جانے میں سوا اور ڈیڑھ گھنٹہ بھی لگ جاتا ہے۔ یہ کراچی پر نفسیاتی اور ذہنی تشدد کی انتہا ہے۔
کراچی میں ظلم کی انتہا یہ ہے کہ کراچی کا کچرا تک ٹھکانے نہیں لگایا جارہا۔ ایک اندازے کے مطابق شہر میں روزانہ ایک ہزار 200 ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے جس میں سے نصف اٹھایا ہی نہیں جاتا۔ چناں چہ پورا شہر کچرا کنڈی کا منظر پیش کررہا ہے۔ کراچی میں نکاسی آب کا نظام ساٹھ سال پرانا ہوچکا ہے۔ چناں چہ شہر کا شاید ہی کوئی علاقہ ایسا ہو جہاں گٹر نہ اُبل رہے ہوں۔ اہم بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف تین بار وزیراعظم رہے مگر انہوں نے کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی تین بار مرکز میں برسراقتدار آئی، صوبے میں وہ پندرہ سال سے حکومت کررہی ہے مگر بھٹو خاندان نے کراچی کا ایک مسئلہ بھی حل کرکے نہ دیا۔ عمران خان کو اہل کراچی نے لاکھوں کی تعداد میں ووٹ دیے مگر عمران خان نے چار سال میں کراچی کا ایک بھرپور دورہ تک کرنا گواراہ نہ کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کراچی کو منصوبہ بندی کے تحت تباہ کیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ کراچی کے لوگوں کو شعوری طور پر اذیت دی جارہی ہے۔