مذہبی معاشروں میں مذہب کے بنیادی تصورات پر چار طرح کے لوگ حملہ کرتے ہیں۔ لوگوں کی ایک قسم وہ ہے جو خود کو سیکولر سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے نزدیک مذہب ایک ماضی کی یادگار ہے۔ جیمز فریزر نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ’’گولڈن بائو‘‘ میں لکھا ہے کہ انسانی تاریخ چار ادوار میں منقسم ہے۔ انسان کا پہلا زمانہ جادو کا تھا۔ اس زمانے میں انسان کا ذہن زیادہ ترقی یافتہ نہیں تھا۔ انسان کا ذہن تھوڑا سا ترقی یافتہ ہوا تو انسان اپنی تاریخ کے دوسرے دور میں داخل ہوگیا اور اس نے مذہب ایجاد کرلیا۔ انسانی ذہن نے مزید ترقی کی تو انسان فلسفے کے عہد میں سانس لیتا ہوا نظر آیا۔ فریزر کے بقول اب جب کہ انسان پوری طرح باشعور ہوگیا ہے تو وہ سائنس کے عہد میں سانس لے رہا ہے۔ سیکولر لوگ اس تناظر میں جب مذہب کو دیکھتے ہیں تو انہیں مذہب ماضی کی یادگار نظر آتا ہے اور انہیں محسوس ہوتا ہے کہ جو لوگ مذہب سے چمٹے ہوئے ہیں وہ ہزاروں سال پرانے ماضی میں سانس لیتے ہیں۔ مذہب پر لبرل لوگ بھی اعتراض کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو بھی مذہب ایک اذکار رفتہ شے نظر آتا ہے۔ لبرل لوگ بھی مذہب کو ماضی کا مردہ خیال کرتے ہیں۔ مذہبی معاشروں میں مذہب پر اعتراض کرنے والا تیسرا گروہ سوشلسٹوں یا کمیونسٹوں کا ہے۔ چوں کہ کارل مارکس نے مذہب کو عوام کی افیون قرار دیا ہے اس لیے سوشلسٹ عناصر بھی مذہب سے چڑتے ہیں۔ مذہبی معاشروں میں مذہب پر اعتراض کرنے والا چوتھا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو اصل مذہبی فکر سے لاعلم ہے اور جو دنیا اور دولت کی محبت میں گلے گلے تک ڈوبا ہوا ہے۔ روزنامہ جنگ کے کالم نگار اور شریف خاندان کے پرستار محمد بلال غوری ایسے ہی ایک شخص ہیں۔ چناں چہ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ بلال غوری نے اپنے ایک حالیہ کالم میں دنیا اور دولت کے مذہبی تصور پر زبردست حملہ کیا ہے۔ بلال غوری نے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں تفصیل سے ملاحظہ کیجیے۔ اس لیے کہ بلال غوری کے اعتراضات چند فقروں کے بجائے پورے کالم میں بکھرے ہوئے ہیں۔ بلال غوری نے دنیا کے مذہبی تصور پر حملہ کرتے ہوئے لکھا۔
’’گاہے خیال آتا ہے ہمارے معاشرے میں مستعمل چند کھوکھلے، بے بنیاد اور بیہودہ جملوں پر پابندی لگادی جائے تو زندگی کیسی ہوگی؟ مثال کے طور پر مذہب کو دھندہ سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹنے والے گروہ کہتے ہیں یہ دنیا فانی ہے، یہاں دل مت لگائو۔ ان کے گیان کا بین السطور مفہوم دراصل یہ ہوتا ہے کہ سب دھن دولت ہمیں دان کردو۔ نوبل ایوارڈ یافتہ حقوق انسانی کے کارکن اور سابقہ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے اس طریقہ واردات کو نہایت صراحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا ہے: ’’جب عیسائیت کی تبلیغ کرنے والے پادری افریقا آئے تو ان کے ہاتھوں میں بائبل تھی اور ہمارے پاس زمینیں تھیں۔ انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے کو کہا، ہم نے اپنی آنکھیں بند کیں اور دست دعا بلند کیے جب آنکھیں کھولیں تو ان کے پاس زمینیں تھیں اور ہمارے ہاتھوں میں بائبل‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ 6 اکتوبر 2022ء)
دنیا کے فانی اور بے قیمت ہونے کا تصور دنیا کے تمام مذاہب میں موجود ہے۔ قرآن ایک جگہ اعلان کرتا ہے کہ دنیا کی زندگی تو ’’متاع قلیل‘‘ ہے۔ دوسری جگہ قرآن کہتا ہے کہ دنیا کی زندگی دھوکے کی ٹٹی یا Smoke Screen کے سوا کچھ نہیں۔ ہندوازم صاف کہتا ہے کہ دنیا ’’مایہ‘‘ یا دھوکا ہے۔ عیسائیت اور بدھ ازم میں ترک دنیا کی تعلیم اتنی اہم ہے کہ اس کے بغیر عیسائیت اور بدھ ازم کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا کی مذمت میں رسول اکرمؐ کی احادیث کثرت سے موجود ہیں۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا دنیا اگر مچھر کے پر کے برابر بھی اہم ہوتی تو کافروں اور مشرکوں کا اس میں کوئی حصہ نہ ہوتا۔ سیرت طیبہ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک بار رسول اکرمؐ صحابہ کرام کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں بکری کا ایک مرا ہوا بچہ نظر آیا۔ رسول اکرمؐ بکری کے مرے ہوئے بچے کے پاس ٹھیر گئے۔ صحابہ بھی کھڑے ہوگئے۔ رسول اکرمؐ نے صحابہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم میں سے کوئی بکری کے اس مرے ہوئے بچے کو خریدنا پسند کرے گا۔ صحابہ نے کہا ایک تو یہ بچہ ہے اور پھر مرا ہوا ہے اسے تو ہم مفت بھی لینا پسند نہیں کریں گے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا یاد رکھو دنیا بکری کے اس مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ہے۔ دنیا کے معمولی اور حقیر ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ جب آخرت میں مرنے والے سے پوچھا جائے گا تم دنیا میں کتنے دن رہے تو وہ جواب دے گا ایک دن یا اس سے کچھ زیادہ۔ حالاں کہ وہ دنیا میں 60 سال یا 100 سال بسر کرکے گیا ہوگا۔ رسول اکرمؐ کی ایک اور حدیث مبارکہ یاد آئی۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ دنیا کی بہترین جگہ مسجد اور بدترین جگہ بازار ہے۔ لیکن بلال غوری دنیا کو فانی اور دل لگانے کے لائق نہ کہنے والوں کا مذاق اڑا رہے ہیں ان پر طنز کررہے ہیں ان کے فقروں کو بیہودہ کہہ رہے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ ہے۔ بلال غوری بتائیں کہ انہیں رسول اکرمؐ کی سیرت میں کہاں دنیا سے محبت نظر آتی ہے، رسول اکرمؐ کے بعد بہترین لوگ صحابہ کرامؓ ہیں۔ بلال غوری فرمائیں کہ انہیں صحابہ کی مقدس زندگیوں میں کہاں دنیا کی محبت دکھائی دیتی ہے۔ سیدنا عمر فاروقؓ وہ ہستی ہیں جن کے بارے میں رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتے اور سیدنا عمرؓ کا حال یہ تھا کہ ان کے لباس میں ایک درجن سے زیادہ پیوند لگے ہوئے تھے۔ سیدنا عمرؓ کا زمانہ مسلمانوں کی تنگ دستی کا زمانہ نہیں ہے۔ اس زمانے میں مسلمانوں نے وقت کی دو سپر پاورز کو منہ کے بل گرا دیا تھا اور معاشرے میں وسائل کی فراوانی ہوگئی تھی مگر سیدنا عمرؓ نے مادی اور مالی اعتبار سے اوسط درجے سے بھی کم زندگی کو پسند کیا۔ سیدنا عمرؓ کے زمانے میں مصر فتح ہوا تو اہل مصر نے کہا کہ ہم اپنے دارالحکومت کی چابی سیدنا عمرؓ کو دیں گے۔ چناں چہ سیدنا عمرؓ طویل سفر کرکے مصر پہنچے۔ سیدنا عمرؓ کی سواری مصر کی سرحد پر پہنچی تو مصر کے گورنر نے آپ کا استقبال کیا۔ اس نے دیکھا سیدنا عمرؓ کا لباس گرد سے اٹا ہوا ہے۔ گورنر نے بصد احترام عرض کیا کہ اہل مصر نفاست پسند ہیں اگر آپ بہتر لباس پہن لیں تو اچھا ہوگا۔ سیدنا عمرؓ نے کہا ہماری عزت اسلام کی وجہ سے ہے لباس کی وجہ سے نہیں۔ ایک روز سیدہ عائشہؓ نے بھی سیدنا عمرؓ کو لباس کی طرف متوجہ کیا اور کہا کہ آپ سے دنیا بھر کے سفارت کار ملنے آتے ہیں اگر آپ پیوند لگا ہوا لباس نہ پہنیں تو اچھا ہو۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا میں اپنے دو رفیقوں یعنی رسول اکرمؐ اور ابوبکرؓ کے طریقے کو نہیں چھوڑ سکتا۔ اسلامی تاریخ میں ہزاروں علما اور صوفیا ہوئے ہیں۔ انہوں نے بھی دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کو ترک کیا۔ علی ہجویری نے کشف المحجوب میں لکھا ہے کہ دنیا ایک دن کی ہے اور ہم نے اس ایک دن کا روزہ رکھ لیا ہے۔ دیکھا جائے تو بلال غوری نے اپنے کالم میں ان تمام لوگوں کا مذاق اُڑایا ہے۔ بلال غوری نے اپنے کالم میں دولت پرستی کا درس بھی دیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’اسی طرح ایک فرسودہ سوچ جس نے نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کردی ہیں، مال و دولت کی قدرو قیمت نہ سمجھنا ہے۔ بچپن ہی سے اس مغالطے میں ڈال دیا جاتا ہے کہ غربت میں عظمت ہے۔ اقبال کا یہ شعر تو کانوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی مانند انڈیل دیا جاتا ہے کہ ’’میرا طریق امیری نہیں غریبی ہے۔ خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر‘‘۔ اس اہتمام کے نتیجے میں امیر ہونے کی سوچ شروع ہی سے فنا کے گھاٹ اُتر جاتی ہے۔ دولت کمانے کو گناہ سمجھا جاتا ہے۔ ہر امیر آدمی کو ’’سیٹھ‘‘ کا طعنہ دیا جاتا ہے اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس طرح کے جملے آپ کو ہر محفل میں بکثرت سننے کو ملیں گے کہ روپیہ پیسہ ہاتھ کا میل ہے، دولت ہر مسئلے کا حل نہیں ہوتی، دولت سے ہر چیز نہیں خریدی جاسکتی۔ مایوسی کو قناعت سمجھنے والے ان عقل کے اندھوں کو کوئی بتائے کہ غربت میں عظمت ہوتی تو دنیا بھر کے غریب جانوروں سے بدتر زندگی نہ گزار رہے ہوتے۔ خودی اور خودداری کبھی کسی مفلس کے ہاں قیام نہیں کرتی۔ عزت کی زندگی گزارنے کے لیے دولت کمانے والا میلا ہاتھ اس صاف ہتھیلی سے بدرجہ بہتر ہے جس پر نکھٹو، کام چور اور تساہل پسند شخص اطمینان کی سرسوں جمانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر روپیہ پیسہ ہاتھ کا میل ہے تو سب ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے کیوں پڑے ہیں؟ لڑکیاں کسی شہزادے اور راج کمار کے خواب کیوں دیکھتی ہیں، کبھی کسی کو یہ کہتے سنا ہے، کب آئے گا میرے خوابوں کا پلمبر؟ حقیقت یہ ہے کہ دولت ہو تو ہر مسئلے کے بیشمار حل دربان بن کر آپ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔