امریکا کے حکمرانوں نے پوری دنیا کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ یورپ صدیوں تک کروڑوں انسانوں کی زندگیوں سے کھیلتا رہا۔ بھارت کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے پورے جنوبی ایشیا کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ اسرائیل پورے مشرق وسطیٰ کی گردن پر پائوں رکھ کر کھڑا ہے۔ لیکن اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ امریکا کی سیاسی یا فوجی اسٹیبلشمنٹ خود امریکا کی کمزوری کے لیے کام کرے گی۔ یہ سوچنا بھی ممکن نہیں کہ بھارت کا حکمران طبقہ خود بھارتی معاشرے کو تقسیم کرے گا۔ جنرل میک آرتھر دوسری جنگ عظیم میں امریکا کے ہیرو تھے۔ وہ امریکا کا صدارتی انتخاب لڑتے تو کوئی انہیں ہرا نہیں سکتا تھا مگر انہوں نے تاریخ کے ایک اہم مرحلے پر امریکا کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے حکم سے اختلاف کیا۔ امریکا کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے جنرل میک آرتھ سے کہا تھا کہ وہ جاپان کے محاذ پر امریکی فوج کی پیش قدمی روک دیں۔ جنرل میک آرتھر نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ اگر ہم پیش قدمی نہ روکتے تو بہت جلد پورے جاپان کو فتح کرلیتے۔ بس اتنی سی بات پر جنرل میک آرتھر کو میدان جنگ سے واپس بلالیا گیا اور وہ ایک لمحے میں ہیرو سے زیرو ہوگئے۔ صدر نکسن امریکا کے مقبول صدر تھے۔ ان سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے حزب اختلاف کے ایک اجلاس کی کارروائی کو خفیہ طریقے سے ریکارڈ کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش کا راز طشت ازبام ہوگیا اور واٹر گیٹ اسکینڈل وجود میں آگیا۔ اس اسکینڈل سے اتنی گرد اڑی کہ صدر نکسن کو مواخذے سے بچنے کے لیے مستعفی ہونا پڑا۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے مقبول صدر تھے مگر انہوں نے امریکا کو تقسیم کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ چناں چہ امریکا کے سیاسی نظام نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اُگل دیا اور ڈونلڈ ٹرمپ دوسری بار امریکا کے صدر منتخب نہ ہوسکے۔ بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی مقبول عوام تھیں، وہ نہرو کی بیٹی تھیں، انہیں بھارت کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا تھا مگر انہوں نے تاریخ کے ایک مرحلے پر ملک میں ایمرجنسی لگا کر تمام بنیادی حقوق معطل کردیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بھارت کے سیاسی نظام نے اندرا گاندھی کی قے کردی اور اندرا گاندھی کو بدترین انتخابی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن وطن عزیز میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ایسا ہے کہ جسے دیکھ کر یہ شعر لبوں پر آجاتا ہے۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اور اس کے آلہ کار صحافیوں نے اس خیال کو عام کرنے کی بہت کوشش کی ہے کہ سقوطِ ڈھاکا اور مشرقی پاکستان کی علاحدگی کے ذمے دار بھٹو، شیخ مجیب اور اندرا گاندھی تھیں۔ لیکن یہ 1990ء کی دہائی کی بات ہے۔ پاکستان کے ممتاز وکیل ایس ایم ظفر صاحب نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ ہولناک انکشاف کیا کہ شیخ مجیب الرحمن کے بدنام زمانہ چھے نکات شیخ مجیب الرحمن کی اختراع نہیں تھے بلکہ یہ چھے نکات الطاف گوہر نے ڈرافت کرکے شیخ مجیب الرحمن کے حوالے کیے تھے۔ الطاف گوہر اس وقت زندہ تھے اور نوائے وقت میں کالم لکھ رہے تھے۔ انہوں نے اپنے ایک کالم میں اس بات کی تردید کی۔ اس کے جواب میں ایس ایم ظفر نے ایک بیان میں فرمایا کہ الطاف گوہر پاکی ِ داماں کی حکایت کو آگے نہ بڑھائیں کیوں کہ میرے پاس اس بات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ چھے نکات الطاف گوہر ہی نے ڈرافٹ کرکے شیخ مجیب کے حوالے کیے تھے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ الطاف گوہر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا ایک مہرہ تھے۔ چناں چہ انہوں نے چھے نکات یقینا اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ہی ڈرافٹ کیے ہوں گے۔
یہ حقیقت راز نہیں کہ ایم کیو ایم اور اس کی سیاست پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ہولناک اور شرمناک باب ہے اس سے بھی زیادہ ہولناک اور شرمناک بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور الطاف حسین اور اسٹیبلشمنٹ اور ایم کیو ایم اس طرح لازم و ملزوم ہیں کہ ایک کے بغیر دوسرے کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بلاشبہ الطاف حسین جنرل ضیا الحق سے پہلے موجود تھے اور مہاجروں کی سیاست کررہے تھے مگر یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ الطاف حسین کو الطاف حسین جنرل ضیا الحق کی سرپرستی نے بنایا اور ایم کیو ایم کو دانت اور زہر جنرل ضیا الحق کے سائے نے مہیا کیے۔ جنرل ضیا الحق نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سرپرستی اس لیے کی کہ وہ کراچی میں جماعت اسلامی اور دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگانا چاہتے تھے۔ جنرل ضیا الحق کو جماعت اسلامی کراچی سے یہ تکلیف تھی کہ ان کے خلاف جماعت میں سب سے توانا آواز جماعت اسلامی کراچی کے رہنمائوں کی طرف سے بلند ہوتی تھی۔ پروفیسر غفور، سید منور حسن اور محمود اعظم فاروقی جنرل ضیا الحق کی فوجی آمریت کے سخت ناقد تھے۔ جنرل ضیا الحق کو پیپلز پارٹی سے یہ خطرہ تھا کہ وہ کہیں ملکی سطح پر ان کے لیے چیلنج نہ بن جائے۔ چناں چہ جنرل ضیا الحق نے ایم کیو ایم کے ذریعے جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کا ’’علاج‘‘ کرنے کی سازش کی۔ بدقسمتی سے انہوں نے کراچی میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو مقبول کرانے کے لیے کراچی میں مہاجر پٹھان فسادات کی راہ ہموار کی۔ اہم بات یہ تھی کہ مہاجروں اور پٹھانوں کے مفادات کا کوئی تصادم معاشرے میں موجود ہی نہیں تھا مگر ان فسادات کے بغیر الطاف حسین اور ایم کیو ایم مقبول نہیں ہوسکتی تھی۔ چناں چہ ’’نامعلوم‘‘ پٹھانوں کے ایک گروہ نے ایک مہاجر بستی پر حملہ کردیا اور وہ چھے گھنٹے تک مار کاٹ کرتے رہے۔ عجیب بات یہ تھی کہ قانون نافذ کرنے والوں کو سب کچھ معلوم تھا مگر وہ چھے گھنٹے تک متاثرہ علاقے میں داخل نہ ہوئے۔ اس واقعے نے پورے کراچی کے مہاجروں کے ذہنوں میں آگ لگادی اور انہیں محسوس ہوا کہ وہ محاصرے میں ہیں اور ان کا ترجمان اور محافظ اگر کوئی ہے تو ایم کیو ایم۔ سندھ کے شہری علاقوں میں کہیں سندھی مہاجر کشمکش بھی موجود نہ تھی مگر یہ کشمکش بھی پیدا کی گئی اور اس کے لیے اخبارات کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا۔ اس سلسلے میں خود ساختہ اور جھوٹی خبروں کا سہارا لیا گیا۔ ہمیں یاد ہے کہ کراچی کے ایک بڑے اردو اخبار میں صفحہ اول پر یہ خبر شائع ہوئی کہ سندھ نیشنل الائنس کا ایک جلوس کراچی کے علاقے صدر سے گزر رہا تھا کہ ایک مہاجر خاتون کی کار جلوس میں پھنس گئی۔ خاتون کے ساتھ ایک بچہ بھی موجود تھا۔ سندھ نیشنل الائنس کے جلوس کے شرکا نے یہ دیکھا تو خاتون اور بچے پر حملہ کردیا۔ ایک بڑے سندھی اخبار میں یہ خبر شائع کرائی گئی کہ کراچی کے جناح اسپتال میں گیارہ سندھی خواتین کی لاشیں لائی گئی ہیں۔ ان لاشوں کے بعض اعضا کٹے ہوئے تھے۔ ذمے دار صحافیوں نے ان دونوں خبروں کی تحقیق کی تو پتا چلا کہ یہ دونوں واقعات سرے سے ہوئے ہی نہیں۔
یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ الطاف حسین اسٹیبلشمنٹ کو پھلانگ کر ملک سے فرار نہیں ہو سکتے تھے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ انہیں منصوبہ بندی کے تحت فرار کرایا گیا۔ حالاں کہ الطاف حسین کی اصل جگہ برطانیہ نہیں پاکستان کی جیل تھی لیکن اسٹیبلشمنٹ نے الطاف حسین کو جیل میں ڈالنے کے بجائے برطانیہ بھاگنے میں ان کی مدد کی۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ الطاف حسین نے جنرل پرویز کے دور حکمرانی میں بھارت کا دورہ کیا اور ایک تقریب میں صاف کہا کہ اگر وہ 1947ء میں ہوتے تو کبھی پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیتے۔ یہ کھلی غداری تھی اور غداروں کی سزا موت ہے مگر جنرل پرویز مشرف نے ایک غدار وطن کی عزت افزائی فرمائی۔ انہوں نے بھارت میں موجود پاکستانی سفیر کو ہدایت دی کہ الطاف حسین کو پاکستانی سفارت خانے مدعو کرکے ان کے اعزاز میں ضیافت دی جائے اور ایسا ہی ہوا۔ پاکستان کی مخالفت کرنے کے بعد الطاف حسین نے پاکستانی سفارت خانے میں دعوت کے مزے لوٹے۔
اس وقت کراچی میں ایم کیو ایم کی حالت یہ ہے کہ وہ تیزی کے ساتھ سیاسی موت سے ہمکنار ہو رہی ہے۔ اس کا ووٹ بینک تیزی سے تحلیل ہورہا ہے مگر دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کی سرپرستی بھی کررہی ہے اور ان کے درمیان اتحاد کے لیے بھی کوشاں ہے۔ اس سے ثابت ہورہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم کو سیاسی موت سے دوچار نہیں ہونے دے گی۔ کراچی میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی ایم کیو ایم کا متبادل بن کر ابھر رہی ہیں مگر بلدیاتی انتخابات کے بار بار التوا کے ذریعے اس متبادل کا راستہ روکا جارہا ہے۔
باقی صفحہ7نمبر1
شاہنواز فاروقی
سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم کو سیاسی موت سے ہمکنار ہونے کیوں نہیں دیکھنا چاہتی؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے لیے اہمیت ملک کے نظریے اور قومی مفاد کی نہیں اس کے لیے اصل اہمیت خود سے وفاداری کی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اسٹیبلشمنٹ ہی کی پیداوار تھے مگر انہوں نے اپنی دنیا آپ پیدا کرکے دکھا دی تو اسٹیبلشمنٹ ان کی مخالف ہوگئی اور انہیں تختہ دار تک لے گئی۔ میاں نواز شریف بھی اسٹیبلشمنٹ کے گملے میں لگے ہوئے پودے تھے مگر انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے آزاد ہونا چاہا تو ان کو سیاست سے باہر کردیا گیا۔ عمران خان بھی اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آئے تھے مگر انہوں نے بھی اسٹیبلشمنٹ کی مزاحمت کی تو انہیں بھی اقتدار سے نکال باہر کیا گیا۔ ایم کیو ایم کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے تمام دھڑے اپنی عوامی بنیاد کھوچکے ہیں اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر مسلسل ناچنے کے لیے تیار ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے کامران ٹیسوری تک کو ہضم کرلیا ہے۔ ایم کیو ایم کی اسی خوبی نے اسے اسٹیبلشمنٹ کا پیارا بنایا ہوا ہے۔