دنیا کی ہر ریاست اپنے بنیادی عقیدے اپنے بنیادی تشخص کے بارے میں بہت حساس ہوتی ہے۔ کوئی شخص اس کے عقیدے اور تشخص پر حملہ کرتا ہے تو ریاست اس کا منہ توڑ جواب دیتی ہے۔ سابق سوویت یونین سوشلزم کا مرکز تھی۔ اس کا عقیدہ سوشلزم یا مارکسزم تھا۔ لینن نے روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرکے اسے سوویت یونین میں ڈھالا تھا۔ ٹروٹسکی ایک بڑا انقلابی سوشلسٹ دانش ور تھا۔ اسے لینن سے سوشلزم کی تعبیر کے سوال پر اختلاف ہوگیا۔ ٹروٹسکی غدار نہ تھا۔ وہ دل و جان سے سوشلزم پر ایمان رکھتا تھا مگر لینن نے ٹروٹسکی کو برداشت کرنے سے انکار کردیا۔ چناں چہ ٹروٹسکی کو روس سے فرار ہونا پڑا۔ فرار ہو کر بھی ٹروٹسکی محفوظ نہ تھا۔ سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جے بی اس کے تعاقب میں تھی اور کے جی بی نے بالآخر اسے دیارِ غیر میں تلاش کرلیا۔ چناں چہ ٹروٹسکی اپنی جان سے گیا۔ ایزرا پاونڈ امریکا کا شاعر اعظم تھا۔ اس کی تنقیدی صلاحیت بھی غیر معمولی تھی۔ اس نے ٹی ایس ایلیٹ جسے نوبل انعام یافتہ شاعر کا شعری مجموعہ ’’ویسٹ لینڈ‘‘ ایڈٹ کیا تھا مگر ایزرا پاونڈ نے اٹلی جا کر ریڈیو پر مسولینی کی تعریف کردی۔ چناں چہ امریکی سی آئی اے نے ایزرا پاونڈ کا جینا حرام کردیا۔ نوبت یہ آئی کہ ایزرا پاونڈ کی جان بچانے کے لیے اس کے دوستوں نے اسے ماہرین نفسیات سے پاگل قرار دلا کر نفسیاتی اسپتال میں داخل کرادیا۔ تب کہیں جا کر ایزرا پاونڈ کی جان بچی۔ امریکا کی ممتاز دانش ور سوسن سونٹیگ نے ایک مضمون میں لکھ دیا کہ امریکا کی بنیادیں نسل کشی پر رکھی ہوئی ہیں۔ پورے امریکا سے غدار ہے، غدار ہے کے نعرے بلند ہونے لگے۔ چین میں دو دہائی قبل ہزاروں لوگ تیان من اسکوائر میں جمع ہوئے اور جمہوریت زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ چینی حکومت نے اسے ملک کے نظریے سے غداری قرار دیتے ہوئے ہجوم پر ٹینک چڑھادیے اور ایک اندازے کے مطابق دس ہزار لوگ مار ڈالے۔ اسرائیل میں کوئی شخص یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ اسرائیل کی بنیاد یہودیت پر نہیں رکھی ہوئی۔ بھارت میں کوئی صحافی کوئی دانش ور یہ نعرہ نہیں لگا سکتا کہ ہندوستان ایک ہندو ملک نہیں ہے۔ بی جے پی ایسے شخص کو کچا چبا جائے گی مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ ہورہا ہے کہ ہمارے سیکولر، نیم سیکولر اور جاہل دانش ور اور صحافی آئے دن یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں نہیں آیا تھا اور قائداعظم پاکستان کو اسلامی ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے اس لیے کہ وہ خود سیکولر تھے۔ لیکن اس کے جواب میں ریاست ملک کے نظریاتی تشخص پر حملہ کرنے والوں کو کچھ بھی نہیں کہتی۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گل نے فوج کے خلاف ایک بیان دے دیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شہباز گل کو گرفتار کرلیا گیا اور انہیں ننگا کرکے مارا گیا۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر اور رہنما اعظم سواتی نے چند روز پیش تر جنرل باجوہ پر ذرا سی تنقید کردی تھی۔ چناں چہ انہیں بھی اٹھالیا گیا اور ننگا کرکے مارا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ پاکستان میں فوج اور جنرل باجوہ اسلام اور ملک کے نظریاتی تشخص سے زیادہ اہم ہیں اور زیادہ مقدس بھی۔ ایسا نہ ہوتا تو ملک کے ذرائع ابلاغ میں آئے روز ملک کے نظریاتی تشخص اور قائداعظم کی شخصیت کے نظریاتی پہلو پر تواتر کے ساتھ حملے نہ ہورہے ہوتے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین واردات ملک کے معروف کالم نویس اور اینکر جاوید چودھری سے منسوب ہوئی ہے۔ جاوید چودھری نے اپنے حالیہ کالم میں زیر بحث موضوع کے حوالے سے کس درجے کی جہالت کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے، لکھتے ہیں۔
’’آپ اب فیتھ کو بھی لے لیجیے، ہم نے فیتھ کا ترجمہ ایمان کررکھا ہے۔ جب کہ اس کا اصل ترجمہ یقین ہوتا ہے، ہم نے کیوں کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں پکوڑوں، کھجوروں اور شربت کو بھی اسلام کا حصہ بنادیا تھا، چناں چہ ہم نے فیتھ کو بھی ایمان ڈکلیئر کردیا جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم نے کوئی اسلامی ملک نہیں بنایا تھا، آپ نے صرف ایک ایسا ملک بنایا تھا جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی، قائداعظم اگر اسلامی ملک بناتے تو بھی ملک کے پہلے وزیر قانون ایک ہندو جوگندرناتھ منڈل اور پہلے وزیر خارجہ ایک احمدی سرظفر اللہ چودھری نہ ہوتے۔ یہ حقیقت ہے قائداعظم کی نظر میں فیتھ کا مطلب ایمان نہیں تھا، یقین تھا اور جنرل ضیا الحق کے اسلامی انقلاب تک سرکاری اسٹیشنری پر فیتھ کا مطلب یقین ہی لکھا جاتا تھا، ہمارے قومی ترانے میں بھی کسی جگہ ایمان، مذہب یا اسلام کا لفظ نہیں آیا تاہم یقین کا لفظ ضرور موجود ہے اور وہ ہے ’’مرکز یقین شاد باد‘‘ ہم اپنے ترانے میں 75 برسوں سے نظام کی تعریف بھی ’’قوت اخوت عوام‘‘ کرتے آرہے ہیں اور اخوت کیا ہوتی ہے؟ یونٹی چناں چہ اگر قائداعظم کی نظر میں فیتھ کا مطلب ایمان ہوتا تو پھر حفیظ جالندھری یقینا مرکز ایمان شادباد لکھتے اور یہ نہیں ہوا، لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں یہ ترجمہ غلط ہوا تھا اور فیتھ بہرحال یقین ہوتا ہے اور قائداعظم جانتے تھے ہم من حیث القوم یقین کی دولت سے محروم ہیں اور اگر ہم زندگی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے اوپر یقین کرنا ہوگا‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس، 25 اکتوبر 2022ء)
جاوید چودھری نے دعویٰ کیا ہے کہ قائد پاکستان کو اسلامی ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے بلکہ وہ پاکستان کی صورت میں صرف ایک ایسا ملک چاہتے تھے جہاں مسلمانوں کی ’’اکثریت‘‘ ہو۔ جاوید چودھری کو اتنا بڑا دعویٰ کرتے ہوئے قائداعظم کی تقاریر یا انٹرویوز سے دوچار ایسے اقتباسات پیش کرنے چاہیے تھے جن میں قائداعظم نے کھل کر کہا ہوتا کہ پاکستان ایک اسلامی ملک نہیں ہوگا مگر جاوید چودھری نے دوچار کیا ایک اقتباس بھی ایسا پیش نہیں کیا جس سے قائداعظم کی اسلام بیزاری ظاہر ہوتی، بلکہ انہوں نے اس سلسلے میں ’’دلیل‘‘ یہ دی ہے کہ انہوں نے ایک ہندو اور ایک قادیانی کو اپنی کابینہ کا حصہ بنایا۔ جہاں تک ہندوئوں کا تعلق ہے تو اورنگ زیب جیسے اسلام پرست بادشاہ کے دور میں بھی ہندو اعلیٰ عہدوںپر فائز رہے ہیں اور اس پر علما نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ جہاں تک قادیانی وزیر کا تعلق ہے تو قائداعظم کے زمانے میں قادیانیت کے خدوخال پوری طرح عیاں ہو کر سامنے نہیں آئے تھے اور ان کے سلسلے میں مسلم معاشرے میں وہ حساسیت نہیں پائی جاتی تھی جو آج موجود ہے۔ لیکن جہاں تک قائداعظم کی اسلام پسندی کا تعلق ہے تو قائداعظم کی تقاریر اور انٹرویوز میں درجنوں ایسے حوالے موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قائداعظم پاکستان کو سر سے پائوں تک اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ مثلاً قائداعظم نے فرمایا۔
’’وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد ِ واحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے۔ وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم جوں جوں آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا،ا یک رسول، ایک کتاب، ایک امت‘‘۔
(اجلاس مسلم لیگ۔ کراچی 1943ء)
یہ تھے وہ تصورات جن کی بنیاد پر قائداعظم پاکستان کی تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ کیا کوئی سیکولر رہنما ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب اور ایک امت کے تصور پر اصرار کرسکتا ہے؟ کیا ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب اور ایک امت کا تصور الف سے یے تک ’’اسلامی‘‘ نہیں ہے؟ بدقسمتی سے جاوید چودھری جیسے جہلا قائداعظم کی تقاریر کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔ قائداعظم نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا۔
’’قومیت کی تعریف چاہے جس طرح کی جائے، مسلمان اس تعریف کی رو سے ایک الگ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں، اور اس لیے اس بات کے مستحق ہیں کہ ملک میں ان کی اپنی الگ مملکت اور اپنی جداگانہ خودمختار ریاست ہو۔ ہم مسلمان چاہتے ہیں کہ ہندوستان کے اندر ہم ایک آزاد قوم بن کر اپنے ہمسایوں کے ساتھ ہم آہنگی اور امن وامان کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ ہماری تمنا ہے کہ ہماری قوم اپنی روحانی، اخلاقی، تمدنی، اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کو کامل ترین نشوونما بخشے، اور اس کام کے لیے وہ طریق ِ عمل اختیار کرے جو اس کے نزدیک بہترین ہو اور ہمارے نصب العین سے ہم آہنگ ہو‘‘۔ (اجلاس مسلم لیگ، لاہور۔ 23 مارچ 1940ء)
قائداعظم کے اس خطاب سے ثابت ہے کہ ان کے لیے اسلام کی روحانیت سب سے اہم تھی، چناں چہ انہوں نے روحانی نشوونما کا ذکر سب سے پہلے کیا۔ پھر ان کے لیے اسلام سے نمودار ہونے والا ’’اخلاق‘‘ اہم تھا۔ چناں چہ انہوں نے اس کا ذکر دوسرے نمبر پر کیا۔ پھر ان کے لیے اسلام سے ظہور میں آنے والا تمدن اہم تھا۔ چناں چہ انہوں نے اس کا ذکر تیسرے نمبر پر کیا۔ تقریر کا اختتام نصب العین پر ہورہا ہے جو اسلام کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔
قائداعظم نے 30 ستمبر 1943ء کو ممبئی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہم دس کروڑ نفوس کی ایک قوم ہیں جو اس عظیم برصغیر کے باشندے ہیں۔ ہم ایک شاندار ماضی اور تاریخ رکھتے ہیں۔ آئیے خود کو اس کا اہل ثابت کریں اور اسلام کی حقیقی نشاۃ ثانیہ کی رونما کریں اور اس کی شان و شوکت کو جلا بخشیں‘‘۔
قائداعظم کی تقریر کا یہ اقتباس ثابت کررہا ہے کہ قائداعظم نے پاکستان اس لیے قائم کیا تھا کہ یہاں اسلام کی نشاۃ ثانیہ ممکن ہوسکے۔ قائداعظم نے اس تقریر میں مسلمانوں کے ماضی پر فخر کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے ماضی کا سب سے قابل فخر دور عہد رسالتؐ اور خلافت راشدہ کے زمانے کے سوا کون سا ہے؟ اس کے معنی یہ ہوئے کہ قائداعظم کی تقریر میں ماضی کا حوالہ بھی ’’مذہبی‘‘ ہے۔
قائداعظم نے قیام پاکستان کے مقصد پر بھی کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔ انہوں نے 18 جون 1945ء کو فرمایا: ’’پاکستان کا مطلب صرف حریت و آزادی نہیں بلکہ نظریہ اسلام ہے جس کا تحفظ لازم ہے۔ یہ نظریہ ہمیں ایک قیمتی تحفے اور خزانے کے طور پر ملا ہے‘‘۔
قائداعظم کے یہ الفاظ بتارہے ہیں کہ قائداعظم کے لیے آزادی کوئی مجرّد تصور نہیں تھا بلکہ قائداعظم اس آزادی کے ذریعے نظریہ اسلام کا فروغ اور تحفظ چاہتے تھے۔ یہاں ہمیں قائداعظم کی تقریر کا ایک اور اقتباس یاد آیا۔ قائداعظم نے فرمایا: ’’اگر ہم قرآن کریم سے تحریک و رہنمائی حاصل کریں تو فتح، میں پھر کہتا ہوں، ہماری ہی ہوگی۔ میں آپ لوگوں سے ابھی فقط یہی مطالبہ کرتا ہوں کہ ہم میں سے ہر وہ شخص جس تک پیغام پہنچے پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کا عہد اور اس کے لیے اگر ضرورت پڑے تو اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ (30 اکتوبر 1947ء، لاہور، جلسہ عام سے خطاب)
قائداعظم نے 24 نومبر 1945ء کو پشاور میں مسلم لیگ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’مسلمان ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں، ایک کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور ایک نبی کے پیروکار ہیں۔ مسلم لیگ انہیں سیاسی طور پر ایک پلیٹ فارم اور سبز ہلالی پرچم تلے منظم کرنے کی جدوجہد کررہی ہے‘‘۔
کیا اس اقتباس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قائداعظم صرف مسلم اکثریت کا ملک چاہتے تھے۔
جاوید چودھری نے اپنے کالم میں مزید جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ انگریزی کے لفظ Faith کا مطلب صرف یقین ہے ایمان نہیں۔ ہمارے سامنے اوکسفرڈ کی مشہورِ زمانہ ایڈوانس، لرنرز ڈکشنری رکھی ہوئی ہے۔ ذرا دیکھیے تو یہ ڈکشنری لفظ Faith کے کیا معنی بیان کررہی ہے۔
(1) Put one’s Faith in God
(2) Strong Religious beliefs
(3) Faith is stronger than reason
(4) The jewish and Muslim faiths
ان مفاہیم سے ثابت ہے کہ Faith کے مذہبی معنی بھی ہیں اور قائداعظم کے مشہور زمانہ الفاظ Faith، Unity اور Discipline میں Faith کا لفظ مذہبی معنوں یعنی ایمان کے مفہوم ہی میں استعمال ہوا ہے اس لیے کہ قائداعظم ایک مذہبی انسان تھے سیکولر انسان نہیں تھے۔ اس سلسلے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ قائداعظم کا زمانہ بھی ’’مذہب کا زمانہ‘‘ تھا سیکولر ازم کا زمانہ نہیں تھا۔ حیرت ہے کہ جاوید چودھری کو اتنی سی بات بھی معلوم نہیں کہ جس طرح محبت کی انتہا ’’عشق‘‘ ہے اسی طرح یقین کی انتہا ایمان ہے۔ ایمان مسلمانوں کے لیے اتنا اہم ہے کہ ایمان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ نہ نماز، نہ روزہ، نہ حج، نہ زکوٰۃ، نہ زندگی، نہ ریاست، نہ سیاست۔ اسی لیے اقبال نے کہا ہے۔
ولایت، پادشاہی علمِ اشیا کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں
اقبال کہہ رہے ہیں کہ خدا کسی کو اپنا دوست بناتا ہے تو ایمان کی وجہ سے، کسی کو حکمرانی عطا کرتا ہے تو ایمان کی بدولت اور کسی کو علم اشیا کی جہانگیری بخشتا ہے تو ایمان کی وجہ سے۔ اس ایمان کی جاوید چودھری کی یہاں یہ اوقات ہے کہ وہ ایمان پر یقین کو ترجیح دے رہے ہیں۔ جاوید چودھری کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اقبال کی شاعری میں یقین کا لفظ بھی اکثر ایمان ہی کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ اقبال کا ایک شعر ہے۔
یقیں افراد کا سرمایۂ تعمیر ملّت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیرِ ملّت ہے