بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی

جاوید چودھری پاکستان کے ایک ایسے کالم نگار ہیں جن کو بتوں سے تو امیدیں ہیں مگر جنہیں خدا سے کوئی امید نہیں۔ چنانچہ ان کی تحریریں پڑھ کر ہمیں اکثر اقبال کا یہ شعر یاد آجاتا ہے۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
جاوید چودھری صرف خدا سے ناامید ہیں ورنہ انہیں سیکولرازم سے امیدیں ہیں۔ لبرل ازم سے امیدیں ہیں چین کے سوشلزم سے امیدیں ہیں، بھارت اور اسرائیل کی قوم پرستی سے امیدیں ہیں مگر انہیں آج تک اسلام سے امیدیں وابستہ کرتے نہیں دیکھا جاسکا ہے۔ ظاہر ہے جو شخص خدا سے نومید ہو جس آدمی کو اسلام سے کوئی امید نہ ہو اسے مسلمانوں سے کیا امید ہوگی۔ چناں چہ خدا اور اسلام کے بعد جاوید چودھری مسلمانوں سے بھی ناامید ہیں۔ بالخصوص پاکستان کے مسلمانوں سے۔ اس کے برعکس انہیں سیکولر لوگوں سے امیدیں ہیں۔ لبرل لوگوں سے امیدیں ہیں۔ انہیں ہندو متاثر کرتے ہیں۔ بدھسٹ متاثر کرتے ہیں۔ یہودی متاثر کرتے ہیں۔ انہیں قادیانیوں سے ہمدردی ہے اور وہ اکثر قادیانیوں سے مسلمانوں کی زیادتیوں بالخصوص ڈاکٹر عبدالسلام سے اہل پاکستان منفی تعلق کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ جاوید چودھری اس سلسلے میں اتنے سفاک ہیں کہ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود نفرت کی ساری ذمے داری پاکستان پر ڈال دی ہے۔ جاوید چودھری نے اپنے اس کالم میں کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ جاوید چودھری ’’انڈیا کی سرحد کھول دیں‘‘ کے عنوان کے تحت اپنے کالم میں لکھتے ہیں۔
’’آپ ہماری بدقسمتی ملاحظہ کیجیے، ہم نے اس ملک کو مذہب اور نفرت میں دفن کردیا ہے، ہم آج بھی خطے کے ہندوئوں، پارسیوں، عیسائیوں اور سکھوں کو اون کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ڈاکٹر عبدالسلام نے 1979ء میں فزکس میں نوبل انعام حاصل کیا تھا، اٹلی نے ٹریسٹ شہر میں ان کے نام سے پورا سینٹر بنادیا، یہ سینٹر اب تک سیکڑوں سائنس دان پیدا کرچکا ہے مگر ہم نے اس شخص کو قادیانی ہونے کی وجہ سے گالی بنادیا اور آج بھی اس کی قبر کی تذلیل کرتے ہیں، ڈاکٹر صاحب کا خاندان آج بھی پاکستان نہیں آسکتا، آئی کے گجرال جہلم کے رہنے والے تھے، وہ بھارت کے وزیراعظم بن
گئے، وہ پوری زندگی جہلم شہر کو یاد کرتے رہے مگر ہم نے ان کو اون نہیں کیا اور کلدیپ نیئر کا تعلق سیالکوٹ سے تھا، وہ پوری زندگی سیالکوٹ، سیالکوٹ کرتا مر گیا، موت کے بعد بھی اس کی راکھ پاکستان آئی اور راوی میں بہائی گئی مگر ہم نے اسے بھی اون نہیں کیا اور یہ صرف تین چار کہانیاں نہیں ہیں، ہمارے اردگرد ایسی سیکڑوں کہانیاں بکھری ہوئی ہیں جنہیں ہم نے مذہب، فرقے اور عصبیت کی صلیب پر لٹکا دیا، ہمارے ایک طرف برطانیہ ہے جس نے انڈین کے لیے اپنی وزارت عظمیٰ کا دروازہ کھول دیا، گوروں کا سربراہ برائون کو بنادیا اور 10 ڈائوننگ اسٹریٹ میں چھوٹا سا مندر کھول دیا جب کہ دوسری طرف ہم ہیں جو رشی سوناک کو گوجرانوالہ کا ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں، ہم اس کا آبائی گھر تلاش کرکے، اس کی تزئین و آرائش کرکے اسے ’’سوناک ہائوس‘‘ بنانے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں، کیا ہم اس نفرت کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں؟ جی نہیں، یہ یاد رکھیں نفرت دنیا کا سب سے بھاری بوجھ ہوتی ہے، آپ اس بوجھ کے ساتھ کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے لہٰذا ہم اگر انفرادی یا قومی سطح پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں نفرت کی گٹھڑی نیچے رکھنا ہوگی، یہ بھی یاد رکھیں فرد ترقی نہیں کرتے، ملک کرتے ہیں، ملک معاشی لحاظ سے آگے بڑھے گا تو فرد بھی بڑھیں گے، ملک نیچے جائے گا تو ہم بھی پیچھے کھسکیں گے اور ملکوں کی ترقی ہمیشہ خطے سے جڑی ہوتی ہے، یورپ نے ترقی کی تو اس کے آخری کونے میں بیٹھے بلغاریہ، رومانیہ اور یونان بھی آگے بڑھ گئے اور اگر افریقا پیچھے رہ گیا تو سائوتھ افریقا بھی سونے اور ہیروں کی دنیا کی سب سے بڑی کانوں کے باوجود فرسٹ ورلڈ نہیں بن سکا، یہ بھی پیچھے رہ گیا، آرمی چیف جنرل باجوہ کو چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا تھا ’’جنرل پراگریس فرسٹ ایشو لیٹر یعنی ترقی پہلے کریں اور تنازعے بعد میں حل کریں، صدر شی جن پنگ نے مثال دی، ہماری 2020ء
میں لداخ میں بھارت کے ساتھ فوجی جھڑپیں ہوئیں، ہمارے تعلقات اس کے بعد خراب ہوجانے چاہیے تھے جب کہ اس کے بعد ہماری انڈیا سے ایکسپورٹس تین گناہ بڑھ گئیں اور آپ سرحدیں بند کرکے بیٹھ گئے ہیں، صدر شی جن پنگ کی بات غلط نہیں تھی، انڈیا نے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور ہم نے انڈیا سے تجارت بند کردی، کیا ہم نے اس سے کشمیر حاصل کرلیا؟ اور یہ تجارت اگر مزید دو سو سال بند رہتی ہے تو کیا ہمیں کشمیر مل جائے گا؟ ہرگز نہیں، ہم دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں، ہم اب لڑ اور مر کر بھی کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کرسکیں گے، ہمارے پاس اس کا صرف ایک ہی آپشن ہے اور وہ ہے معیشت، ہمیں مضبوط ہونا ہوگا ورنہ ہم کشمیر تو دور پاکستان بھی کھودیں گے۔ چناں چہ میری درخواست ہے نفرت کا ٹوکرا نیچے رکھ دیں، بھارت کے ساتھ بیٹھیں، سرحدیں کھولیں۔
(روزنامہ ایکسپریس، یکم نومبر 2022ء)
جاوید چودھری کی اسلام کا اندازہ اس بات سے بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے کالم کے اس اقتباس میں اسلام اور نفرت کا ذکر ایک ساتھ کیا ہے جیسے اسلام نفرت ہو اور نفرت اسلام ہو۔ جاوید چودھری کا خیال ہے کہ ہم نے پاکستان کو اسلام اور نفرت میں غرق کردیا ہے۔ جاوید چودھری کے جہاں یہ بات تکلیف کا باعث ہے کہ ہم نے پاکستان کو نفرت میں غرق کردیا ہے وہیں یہ بات بھی ان کے لیے سوہان روح ہے کہ ہم نے پاکستان کو اسلام میں غرق کردیا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ مذہب اور نفرت کا ذکر ایک ساتھ نہ کرتے لیکن کیا ان کا یہ دعویٰ سہی ہے کہ ہم نے پاکستان کو اسلام میں غرق کردیا ہے؟ پاکستان کی آبادی اب 23 کروڑ ہے اور نماز دین کا ستون ہے مگر پاکستانیوں کی عظیم اکثریت پانچ وقت کی نماز ہی نہیں پڑھتی۔ جو لوگ پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں ان کی اکثریت خشوع و خضوع سے محروم ہے۔ چناں چہ نماز ان کے کردار و عمل پر اثر انداز ہی نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ بیس، پچیس، تیس سال نماز پڑھتے ہیں مگر اس کے باوجود جھوٹ بولتے رہتے ہیں، دھوکا دیتے رہتے ہیں، حرام کھاتے رہتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسے لوگوں کی نماز انہیں برائیوں سے نہیں روک رہی اور جو نماز انسان کو برائیوں سے نہ روکے وہ نماز، نماز نہیں۔ پاکستان کی آبادی 23 کروڑ ہے مگر پونے 23 کروڑ لوگوں نے کبھی قرآن کو ترجمے کے ساتھ نہیں پڑھا، حالاں کہ قرآن کتاب ہدایت ہے۔ کتاب انقلاب ہے۔ لیکن پاکستانیوں کی عظیم اکثریت کو معلوم ہی نہیں کہ اس کتاب ہدایت اور کتاب انقلاب میں کیا لکھا ہوا ہے؟ اسلام کہتا ہے کہ فضیلت یا تو تقوے میں ہے یا علم میں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں کوئی تقوے اور علم کو گھاس ہی نہیں ڈالتا۔ معاشرے میں سکہ رائج الوقت یا تو دولت ہے یا طاقت۔ کیا یہ حقائق بتا رہے ہیں کہ معاشرہ مذہب میں ڈوبا ہوا ہے؟ کہنے والے کہتے ہیں کہ ملک میں 30 ہزار سے زیادہ مدارس ہیں۔ ان میں لاکھوں طلبہ پڑھتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں خانقاہیں بھی موجود ہیں۔ مگر اقبال سو سال پہلے مدرسوں اور خانقاہوں کے بارے میں بنیادی بات کہہ گئے ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے۔
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
کیا اس کے باوجود بھی یہ بات درست ہے کہ ہمارا معاشرہ مذہب میں ڈوبا ہوا ہے؟ ریاستی زندگی کا منظرنامہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ ہمارا سیاسی نظام مغرب سے آیا ہے۔ ہمارا معاشی نظام مغرب کی عطا ہے۔ ہمارے جدید تعلیمی اداروں میں مغرب کے علوم و فنون پڑھائے جاتے ہیں۔ ہمارا عدالتی نظام مغرب سے ماخوذ ہے۔ بلاشبہ ہمارا آئین ’’اسلامی‘‘ ہے مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے 1973ء سے آئین کو اسلام کا ’’قیدخانہ‘‘ بنایا ہوا ہے۔ وہ اسلام کو آئین سے نکلنے ہی نہیں دیتے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ ایک مذہبی معاشرے کے ذرائع ابلاغ ہیں مگر ہمارے ذرائع ابلاغ کی تفریح پر یا تو مغرب کی مہر لگی ہوئی ہے یا بھارت کی۔ اس کے باوجود جاوید چودھری فرماتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ مذہب میں ڈوبا ہوا ہے۔
جہاں تک ہندوئوں اور عیسائیوں سے ہماری نفرت کے الزام کا تعلق ہے تو اس میں بھی کوئی صداقت نہیں۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ پوری انسانیت خدا کا کنبہ ہے۔ چناں چہ مسلمانوں نے اپنی تاریخ کے کسی دور میں دوسرے مذاہب کے لوگوں سے نفرت نہیں کی۔ مسلمانوں نے چھے سو سال اسپین میں حکومت کی اور مسلمانوں کے دور حکومت میں عیسائی اور یہودی پھلتے پھولتے رہے۔
وہ مسلم اسپین میں مفکر تھے، دانش ور تھے، سائنس دان تھے، شاعر تھے، ادیب تھے، تاجر تھے، وہ دربار کا حصہ تھے۔ البتہ جیسے ہی مسلم اسپین مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلا عیسائیوں نے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کردی۔ انہوں نے مسلمانوں کے سامنے تین امکانات رکھے۔ زبردستی عیسائی ہوجائو، اسپین چھوڑ کر چلے جائو یا مرنے کے لیے تیار رہو اور عیسائی اسپین میں یہ تینوں کام ہوئے۔ مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک ہندوستان پر حکومت کی۔ انہوں نے اس طویل عرصے میں نہ ہندوئوں کے مذہب کو چھیڑا، نہ ہندوئوں سے ان کی زبان چھینی، نہ لباس تبدیل کیا، نہ اُن کی ثقافت کو ہاتھ لگایا۔ مسلمان اگر ایک ہزار سال میں اپنی طاقت کا دس فی صد بھی استعمال کرتے تو آج ہندوستان میں ایک بھی ہندو نہ ہوتا۔ لیکن مسلمانوں نے ہندوئوں کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا تو یہ مسلمانوں کی خوبی نہیں تھی یہ ان کے دین کی خوبی تھی جس نے انہیں بتایا کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ البتہ جیسے ہی ہندوئوں کے ہاتھ میں طاقت آئی انہوں نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے فارسی اور اردو کو مسلمانوں کی زبانیں قرار دے کر پس منظر میں دھکیلنا شروع کردیا اور ہندی کو فروغ دینا شروع کردیا۔ ہندوئوں نے مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کے لیے شدھی کی باضابطہ تحریک شروع کردی۔ ان حالات نے برصغیر کے تین مسلم رہنمائوں کی کایا کلپ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس صورت حال نے سرسید کو ایک قومی نظریہ ترک کرکے دو قومی نظریہ اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ اس صورت حال نے اقبال کو قومی شاعر سے ’’اسلامی شاعر‘‘ میں ڈھالا۔ اس صورت حال نے محمد علی جناح کو ایک قوم کا فلسفہ ترک کرکے دو قومی نظریہ اختیار کرنے پر مائل کیا۔ اس کے باوجود جاوید چودھری تاثر دے رہے ہیں کہ برصغیر میں نفرت کا کاروبار بھارت نہیں پاکستان کررہا ہے۔ ہندو نہیں مسلمان کررہے ہیں۔ بھارت کی موجودہ قیادت کا مسلمانوں سے نفرت کا یہ عالم ہے مودی سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ آپ کو مسلمانوں کے مرنے کا دکھ نہیں ہوتا تو انہوں نے فرمایا آپ کی کار کے نیچے کتے کا پلا آجائے گا تو آپ کو دکھ تو ہوگا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ مودی کے نزدیک ایک مسلمان کتے کے پلے ہیں۔ بھارتی ریاست اتر پردیش میں یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ایک جلسے میں موجود تھے اس جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بی جے پی کے ایک رہنما نے کہا کہ اگر مسلم خواتین کو قبروں سے نکال کر بھی ریپ کرنا پڑے تو کرنا چاہیے۔ اس ہولناک بات پر یوگی آدتیہ ناتھ خاموش رہے۔ لیکن جاوید چودھری کہہ رہے ہیں کہ نفرت ہندو نہیں ہم کررہے ہیں۔ کیا جاوید چودھری کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ کشمیر پر بھارت نے ظالمانہ قبضہ کیا ورنہ کشمیر ہمارا تھا۔ کیا جاوید چودھری بھول گئے کہ پاکستان نے بھارت نہیں توڑا بھارت نے 1971ء میں پاکستان کو دو ٹکڑے کیا۔ کیا جاوید چودھری کو معلوم نہیں کہ بھارت کراچی کی بدامنی میں ملوث تھا اور وہ بلوچستان میں بھی علاحدگی پسندوں کو ہوا دے رہا ہے۔ کیا جاوید چودھری کے علم میں نہیں کہ پاکستان پورے برصغیر کو ’’اکھنڈ پاکستان‘‘ نہیں بنانا چاہتا۔ البتہ بھارت پورے جنوبی ایشیا کو ’’اکھنڈ بھارت‘‘ میں ڈھالنا چاہتا ہے۔ جہاں تک قادیانیوں کا معاملہ ہے تو یہ ایک بہت ہی حساس مذہبی مسئلہ ہے۔ قادیانی صرف غیر مسلم نہیں۔ وہ خدا کے غدار ہیں۔ وہ رسالت کے تصور کے باغی ہیں۔ وہ امت مسلمہ کے غدار ہیں۔ انہوں نے صرف ختم نبوت کا تصور پر حملہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے ایک عدد پیغمبر بھی ’’ایجاد‘‘ کیا ہے۔ چناں چہ مسلمان عیسائیوں اور ہندوئوں کو معاف کرسکتے ہیں مگر قادیانیوں کو معاف نہیں کرسکتے۔ سیرت طیبہؐ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ازراہ کرم رسول اکرمؐ نے ایک بار ایک منافق کا جنازہ پڑھا دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد رسول اکرمؐ کو کسی منافق کا جنازہ پڑھنے سے روک دیا۔ قادیانی تو منافقوں سے بھی بدتر گروہ ہیں ان کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات ’’نارمل‘‘ کیونکر ہوسکتے ہیں؟۔

 

 

Leave a Reply