اقبال نے کہا تھا
ان تازہ خدائو میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اقبال نے یہ بات 20 ویں صدی کی قوم پرستی کے دبائو کے پیش نظر کہی تھی۔ اس لیے کہ 20 ویں صدی میں نسل، جغرافیہ اور زبان قوموں کے تشخص کا تعین کرنے والی چیزیں بن گئے تھے۔ لیکن 20 ویں صدی میں وطن پرستی کا ایک اور سبب بھی تھا۔ اس صدی میں ریاست کے ایسے تصورات سامنے آئے جو ریاست سے ایسی عقیدت وابستہ کرنے والے تھے کہ ریاست ایک ماورائی حقیقت کا درجہ حاصل کرلیتی تھی۔ مثال کے طور پر 20 ویں صدی میں کمیونسٹ انقلاب برپا ہوا جس نے معاشرے کی ساری قوت ریاست کے حوالے کردی۔ چناں چہ ریاست اپنے باشندوں یا شہریوں کی تمام ضروریات پوری کرنے والی بن گئی اور ریاست پر انسانوں کا انحصار غیر معمولی طور پر بڑھ گیا۔ کمیونسٹ انقلاب نے مشرقی یورپ کو اپنی گرفت میں لے لیا تو مغربی دنیا کو کمیونزم کے خطرے کا اندازہ ہوا اور مغرب نے فلاحی ریاست کے تصور کو مستحکم کیا اور سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی ریاستوں کے باشندوں کو کمیونسٹ ریاستوں سے زیادہ نوازا۔ چناں چہ 20 ویں صدی میں بعض مفکرین نے یہ بات کہی کہ ریاست کی مداخلت انسانی زندگی میں اسی طرح بڑھتی رہی اور ریاست پر شہریوں کے انحصار میں مزید اضافہ ہوا تو ریاست زمینی خدا کا درجہ حاصل کرلے گی۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں نے ملک میں الٹی گنگا بہادی۔ انہوں نے نہ ریاست کے اسلامی ماڈل سے وفا کی، نہ ریاست کے کمیونسٹ ماڈل سے استفادہ کیا اور نہ سرمایہ دارانہ نظام کے تصورات سے فیض حاصل کیا۔ اس کے برعکس انہوں نے ایک ایسی صورت حال پیدا کی جس کے نتیجے میں حکومت اور ریاست عوام کی زندگی سے منہا ہوتی چلی گئیں اور قومی زندگی میں نجی شعبے کا کردار اور بوجھ بڑھتا چلا گیا۔ اس سلسلے میں چند شعبوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
ریاست کے باشندوں کو تعلیم کی سہولت فراہم کرنا حکومت اور ریاست کی ذمے داری ہے مگر تعلیم کے میدان میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ آزادی کے 75 سال بعد بھی ملک کی 50 فی صد آبادی ناخواندہ ہے اور حکمران تعلیم کی مد میں بجٹ کا ڈیڑھ دو فی صد خرچ کررہے ہیں۔ پاکستان وجود میں آیا تھا تو تعلیم حکومت کے ہاتھ میں تھی اور تعلیم کے سلسلے میں نجی شعبے کا کردار نہ ہونے کے برابر تھا۔ مگر آج صورت حال یہ ہے کہ بنیادی تعلیم کا بڑا حصہ نجی شعبے کے حوالے ہوگیا ہے۔ ہم نے 1991ء میں جامعہ کراچی سے ایم اے کیا۔ اس وقت نجی شعبے میں ایک بھی جامعہ کام نہیں کررہی تھی اور آج یہ صورت حال ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی 60 فی صد تعداد نجی شعبے کی جامعات میں تعلیم حاصل کررہی ہے۔ 2013ء کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں نجی اسکولوں کی تعداد 60 ہزار اور سرکاری اسکولوں کی تعداد صرف 45 ہزار تھی۔ لیکن مسئلہ صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ بنیادی اور اعلیٰ تعلیم نجی شعبے کے حوالے ہوگئی ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ سرکاری اسکولوں میں ہزاروں اسکول جعلی یا Ghost اسکول ہیں۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی تعلیمی و تدریسی اہلیت افسوس ناک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیم کے شعبے میں بڑے پیمانے پر ’’سیاسی تقرریاں‘‘ ہوتی رہی ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں نجی شعبے کے بڑھتے ہوئے کردار کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں تعلیم اب صرف مالدار طبقے کا ’’حق‘‘ بن گئی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ جامعہ کراچی میں ہمارے ایم اے کے آخری سمسٹر کی فیس ساڑھے 4 سو روپے تھی۔ جبکہ اب جامعہ کراچی میں ایم اے کے آخری سمسٹر کی فیس 12 ہزار روپے ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اب غریب اور متوسط طبقے کے نوجوان پرائیویٹ یونیورسٹی میں کیا پبلک یونیورسٹی میں بھی تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اگر 1990-91 میں جامعہ کراچی کے ایم اے کے آخری سمسٹر کی فیس 12 ہزار ہوتی تو ہم اور ہمارے جیسے متوسط طبقے کے ہزاروں طالب علم یونیورسٹی کی تعلیم حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ مذہبی تعلیم کے دائرے پر نظر ڈالی جائے تو ملک میں پچیس تیس ہزار مدارس کا جال پھیلا ہوا ہے اور ان تمام مدارس کا بوجھ حکومت یا ریاست کے بجائے معاشرہ یا نجی شعبہ اٹھائے ہوئے ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ملک میں تعلیم کی صورت حال علم، شعور اور خود ریاست پاکستان کے نصب العین کے خلاف ایک منظم سازش ہے اور اس سازش کا ذمے دار امریکا یا ہندوستان نہیں خود پاکستان کا حکمران طبقہ ہے۔ پاکستان کی سول اور فوجی اشرافیہ ہے۔
ملک کے لوگوں کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنا بھی حکومت یا ریاست کی ذمے داری ہے مگر اس شعبے کی صورت حال بھی یہ ہے کہ آزادی کے 75 سال بعد ملک کی 70 فی صد آبادی کو سند یافتہ ڈاکٹر اور اس کا علاج فراہم نہیں۔ چوں کہ ملک کی 70 فی صد آبادی کو پینے کا صاف پانی فراہم نہیں اس لیے عوام بالخصوص دیہی علاقوں کے بچوں میں پیٹ کے امراض عام ہیں، اعداد وشمار کے مطابق ملک میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔ ملک میں 40 لاکھ سے زیادہ افراد ٹی بی میں مبتلا ہیں۔ سرطان اور دل کے امرض میں مبتلا افراد کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ گردوں کے امراض میں مبتلا افراد کی تعداد بھی کم نہیں۔ یہ صورت حال اس امر کا ثبوت ہے کہ حکمرانوں نے قوم کی صحت اور علاج کا بوجھ اٹھانے سے صاف انکار کردیا ہے۔ اس شعبے میں حکومت کی کارکردگی کی کلاسیکل مثال پولیو کی روک تھام کے سلسلے میں حکومت کی ناکامی ہے۔ پولیو کے خلاف عالمی مہم آج سے 35 سال پہلے شروع ہوئی تھی اور 2022ء دنیا کے بیش تر ملک پولیو سے محفوظ ہوگئے ہیں۔ لیکن پاکستان میں آج بھی پولیو کے کیس رپورٹ ہورہے ہیں۔ حالاں کہ پاکستان کے حکمران پولیو کے خاتمے کے سلسلے میں اب تک کروڑوں ڈالر کی امداد وصول کرچکے ہیں۔ اس منظرنامے میں پاکستان کے نجی شعبے کو قوم کی صحت اور علاج کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔ چناں چہ شوکت خانم اسپتال سرطان کے مریضوں اور ڈاکٹر ادیب الحسن کا SIUT گردے کے مریضوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ دوسری جانب الخدمت اور اس جیسے دیگر ادارے درجنوں اسپتالوں اور سیکڑوں شفا خانوں کے ذریعے لاکھو افراد کو علاج کی مفت یا کم قیمت سہولت فراہم کررہے ہیں۔ اگر ان اداروں کو پاکستان کے طبی منظرنامے سے منہا کردیا جائے تو پاکستان میں علاج معالجے کی صورت حال ایک دن میں ’’ہولناک‘‘ ہوجائے گی۔
بعض لوگ بالخصوص سیکولر اور لبرل عناصر پاکستان کو ’’قلعہ بندر ریاست‘‘ یا Security State کہتے ہیں۔ ان کی یہ بات اس حد تک درست ہے کہ ملک کے بجٹ کا 25 سے 30 فی صد دفاع پر خرچ کیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان کے حکمران اتنے نااہل ہیں کہ انہوں نے ملک کا دفاع بھی عرصے سے نجی شعبے کے حوالے کیا ہوا ہے۔ چناں چہ کشمیر میں جتنا جہاد ہوا نجی شعبے میں ہوا۔ اس جہاد کے لیے ریاست نے نہیں معاشرے نے جانی اور مالی قربانیاں پیش کیں۔ اس جہاد کو پاکستان کے حکمران طبقے نے نقصان تو پہنچایا ہے مگر اس طبقے سے اس جہاد کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے افغانستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنائے کی کوشش کی تو یہاں بھی نجی شعبہ ہی بروئے کار آیا۔ اس سے پہلے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف آنے والا جہاد بھی نجی شعبے کا جہاد تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ پاکستان کا حکمران طبقہ قوم کے 30 فی صد وسائل دفاع کے لیے وقف کرنے کے باوجود قومی سلامتی سے متعلق ذمے داری کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں اور پاکستان صرف نام ہی کی ’’سیکورٹی اسٹیٹ‘‘ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کے اسباب کیا ہیں؟
دنیا میں حکمرانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ حکمران یا تو خدا سے ڈرتے ہیں اور خوف خدا کی وجہ سے اچھی حکمرانی کرتے ہیں یا پھر وہ عوام کے سامنے جواب دہی کے خیال سے گھبراتے ہیں اور بہتر حکمرانی کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی سول اور فوجی اشرافیہ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ نہ خدا سے ڈرتی ہے نہ عوام سے گھبراتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کامل بحران کی صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔ لیکن مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔ اس سلسلے میں حکمرانوں کے ’’تصور عوام‘‘ کا بھی بڑا دخل ہے۔ اس تصور کے دائرے میں عوام حکمرانوں کے لیے ایک بوجھ ہیں اور بوجھ کو سر سے اُتارا جاتا ہے۔ اس سے نجات حاصل کی جاتی ہے۔ چناں چہ پاکستان کے سول اور فوجی حکمران 1958ء سے اب تک عوام کے بوجھ سے نجات حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان کا مسئلہ آبادی کا دھماکا یا Population Explosion ہے۔ ہمارے وسائل کم ہیں اور آبادی زیادہ ہے لیکن خالصتاً دنیاوی نقطہ ٔ نظر سے بھی یہ ایک پٹا ہوا خیال ہے۔ چین اور بھارت نے گزشتہ چالیس سال کے دوران اپنی آبادی کو ’’بوجھ‘‘ کے بجائے اپنا ’’اثاثہ‘‘ بنایا ہے چناں چہ ان کے لیے بڑی آبادی بوجھ نہیں ایک ’’بڑی منڈی‘‘ ہے۔ لیکن پاکستان کے حکمران بڑی منڈی کو بھی بڑا بوجھ بنائے ہوئے ہیں۔ لیکن مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔
پاکستان کے حکمران طبقے کا ایک بڑا مسئلہ ’’عارضیت‘‘ یا ’’ایڈہاک کی ازم‘‘ ہے۔ پاکستان کے سول حکمرانوں کو اقتدار میں آتے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کے اقتدار کی عمر دو تین سال سے زیادہ نہیں۔ چناں چہ وہ ملک کے لیے کچھ کرنے کے بجائے صرف اس بات پر توجہ دیتے ہیں کہ دوتین سال تک اقتدار سے کامیابی کے ساتھ چمٹے رہیں۔ فوجی آمروں کو زیادہ عرصہ ملتا ہے مگر وہ اپنی طاقت کے زعم میں عوام کو گھاس ہی نہیں ڈالتے۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں فوج ہے۔ چناں چہ وہ فوج کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں اور عوام کے تصور کو صرف سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں کی عارضیت یا ایڈہاک ازم کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ ایک حکمران سوشلزم کا نعرہ لگاتا ہوا اقتدار میں آتا ہے تو دوسرا سرمایہ دارانہ نظام کا علمبردار بن کر سامنے آتا ہے۔ ایک حکمران صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی اختیار کرتا ہے اور دوسرا نجکاری راہ پر سرپٹ دوڑنے لگتا ہے۔ چناں چہ تصور اور پالیسی کی سطح پر ’’تسلسل‘‘ کا خیال بھی عنقا ہو کر رہ گیا ہے۔ لیکن پاکستان میں نجی شعبے کے سرگرم کردار سے ایک مثبت حقیقت بھی نمایاں ہوتی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کی حکومت ضرور کمزور ہے لیکن پاکستان کا ’’معاشرہ‘‘ بڑا جان دار ہے۔ جو کسی خاص رہنمائی، مثبت فضا اور حوصلہ افزائی کے بغیر ریاست کا بوجھ اٹھائے کھڑا ہے۔ ملک میں زلزلہ آئے یا سیلاب، معاشرہ ہی قوم کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے آگے بڑھتا ہے۔