ہمارے زمانے میں روحانیت کا اتنا شور برپا ہے کہ ہمارا عہد روحانیت کا عہد محسوس ہوتا ہے۔ لیکن کسی چیز کے شور سے اس کی موجودگی ثابت نہیں ہوتی، بلکہ بسا اوقات کسی چیز کے حوالے سے برپا ہونے والا غوغا اس بات کی چغلی کھاتا ہے کہ جس چیز کا تذکرہ عام ہے وہ چیز موجود نہیں ہے، ہوتی تو اس کے سلسلے میں اتنا شور برپا نہ ہوتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بعض غیر موجود چیزوں کے حوالے سے باطن کا خلا ظاہر کا شور بن جاتا ہے۔ روحانیت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ہماری دنیا میں روحانیت کے حوالے سے سامنے آنے والا یہ واحد مسئلہ نہیں ہے۔ ہماری دنیا میں روحانیت کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ روحانیت کا مفہوم تقریباً ’’پُراسراریت‘‘ ہو کر رہ گیا ہے۔ ہم لوگوں کو جو شخص اور جو عمل جتنا پراسرار معلوم ہوتا ہے ہم اس سے اتنی ہی روحانیت وابستہ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ سفلی علم کے ماہرین بھی روحانی شخصیات کے طور پر مشہور ہوجاتے ہیں۔ حالاں کہ روحانیت پُراسراریت کی ضد ہے۔ اس لیے کہ روحانیت کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں اپنی آیات کھول کھول کر بیان کی ہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ روحانیت کا مفہوم کیا ہے؟
روحانیت کو عام طور پر لوگ اس عنصر سے متعلق سمجھتے ہیں جیسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ’’امر‘‘ قرار دیا گیا ہے اور جو زندگی کا ’’راز‘‘ ہے۔ لیکن یہ روحانیت کا صحیح مفہوم نہیں ہے۔ اسلام میں روحانیت کا صرف ایک مفہوم ہے۔ قربِ الٰہی۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے جتنے قریب ہے وہ اتنی ہی روحانی شخصیت ہے۔ لیکن اسلام میں قربِ الٰہی کا تعلق قرآن و سنت پر عمل سے ہے۔ قرآن دین کا نظری علم ہے اور سنت اس علم کی تجسیم ہے۔ ایک حدیث قدسی کے مطابق دین کے تین درجے ہیں۔ اسلام، ایمان اور احسان۔ اسلام یہ ہے کہ انسان زبان سے لاالہ الااللہ محمد الرسول اللہ کہہ دے۔ ایمان یہ ہے کہ کلمہ طیبہ انسان کے قلب میں راسخ ہوجائے۔ احسان یہ ہے کہ اسلام اور ایمان انسان کے عمل میں حسن کے ساتھ ظاہر ہوں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ روحانیت کا تعلق مرتبہ احسان میں مسلسل ترقی کرنے سے ہے۔ انسان کی زندگی جیسے جیسے مرتبہ احسان میں آگے بڑھتی ہے انسان کی روحانیت میں ویسے ویسے اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے واضح کرنا ہو تو کہا جائے گا رسول اکرمؐ روحانیت کا ماہتاب کامل اور ہم ان کے مقابلے میں زیرو واٹ کا بلب ہیں۔ اب ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ماہتاب کامل پر نظر رکھیں اور اپنے ’’واٹس‘‘ میں مسلسل اضافہ کرتے رہیں۔ یعنی ہم زیرو واٹ سے 20 واٹ کا بلب بن جائیں۔ 20 واٹ سے 100 واٹ کی طرف پیش قدمی کریں اور 100 واٹ سے 1000 واٹ کی طرف رنجِ سفر کھینچیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس سفر میں ہمیں کہیں رکنا نہیں چاہیے۔ لیکن روحانی سفر کے لیے توفیق الٰہی کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ توفیق الٰہی کا مفہوم کیا ہے؟ توفیق الٰہی کا مفہوم یہاں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دین پر عمل کو آسان بنادیں۔ لیکن توفیق کوشش سے حاصل نہیں کی جاسکتی۔ البتہ اس کے لیے دعا کی جاسکتی ہے۔ اس کی تمنا کی جاسکتی ہے۔ روحانی سفر کی ایک منزل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اپنا ولی یا اپنا دوست بنالیں۔ لیکن جس طرح نبوت کوشش سے حاصل نہیں ہوتی، بلکہ وہ اوّل و آخر اللہ تعالیٰ کی عطا ہوتی ہے، اسی طرح ولایت بھی اکستابی نہیں ہوتی، ولایت بھی اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے۔ البتہ اقبال کا خیال ہے کہ ولایت ایمان کا حاصل ہے۔ اقبال کا شعر ہے۔
ولایت، پادشاہی، علمِ اشیاء کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں فقط اِک نکتۂ ایماں کی تفسیریں
لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ ولایت کا حاصل ہوجانا بھی روحانیت کی تکمیل نہیں۔ دنیا میں جتنے ولی ہیں اتنے ہی ولایت کے مرتبے ہیں۔ دنیا میں ایسے ولی بھی ہوتے ہیں جو اپنی ولایت پر مطلع نہیں ہوتے۔ اس کی ایک مثال سیدنا موسیٰؑ کے مشہورِ زمانہ واقعے میں موجود ہے۔ سیدنا موسیٰؑ کے بارے میں آیا ہے کہ انہوں نے ایک دن اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسا شخص ہے جسے آپ سے بہت محبت ہو۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہاں ہے؟ فلاں مقام پر چلے جائو اس سے ملاقات ہوجائے گی۔ سیدنا موسیٰؑ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے مقام پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص بیٹھا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرکے کہہ رہا ہے کہ اگر تو مجھے مل جائے تو میں تیری خدمت کروں، میں تیرے بالوں میں کنگھی کروں، تیرے بالوں سے جوئیں نکالوں۔ سیدنا موسیٰؑ نے یہ سنا تو اس شخص پر ناراض ہوگئے اور کہنے لگے کہ تو یہ کیا اول فول بک رہا ہے، اللہ تعالیٰ کا ان چیزوں سے کیا تعلق جو تو اس سے منسوب کررہا ہے۔ وہ شخص ڈر کر خاموش ہوگیا۔ سیدنا موسیٰؑ واپس لوٹے تو اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰؑ سے کہا۔ موسیٰؑ تم نے میرے بندے کو ڈرا دیا۔ سیدنا موسیٰؑ نے کہا یا اللہ وہ باتیں ہی ایسی کررہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا موسیٰؑ تم نے یہ تو دیکھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے مگر یہ نہ دیکھا کہ کتنی محبت اور خلوص سے کہہ رہا ہے۔
روحانیت کی تاریخ میں تین تصورات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ یعنی ایمان، عمل اور اخلاص۔ سیدنا آدمؑ سے جنت میں گناہ ہو گیا تو وہ جنت میں اِدھر ُادھر چھپنے لگے، اللہ تعالیٰ نے کہا آدم یہ کیا کررہے ہو۔ کہا آپ سے شرم آتی ہے۔ اس لیے کہ میں نے وہ کام کیا جس سے آپ نے منع فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، آدم تم اپنے فعل کے صدور کو خود سے منسوب کررہے ہو۔ تم اپنے افعال کے خالق کب سے ہوگئے۔ سیدنا آدمؑ نے فرمایا، افعال کے خالق تو آپ ہی ہیں مگر مجھے آپ سے معصیت منسوب کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ سیدنا آدمؑ کی اس مثال کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پاس ایمان بھی تھا، عمل بھی تھا، اخلاص بھی تھا، اسی لیے آپ اپنے کیے پر نادم تھے۔ چناں چہ آپ کو توبہ سکھائی گئی اور توبہ کو قبول کیا گیا۔ اس کے برعکس مثال شیطان کی ہے۔ اس نے آدمؑ کو سجدے سے انکار کرکے اللہ کی حکم عدولی کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی وجہ پوچھی تو کہا کہ آگ مٹی سے بہتر ہے۔ میں آگ سے بنا ہوں اور آدم مٹی سے۔ چناں چہ برتر کمتر کو سجدہ نہیں کرسکتا۔ لیکن بات یہیں تک محدود نہ رہی۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے ایک روایت میں لکھا ہے اور اقبال نے اسے اپنے ایک شعر میں استعمال کیا ہے کہ شیطان نے اپنی حکم عدولی کا الزام اللہ پر لگا دیا اور کہا کہ چوں کہ تونے میری قسمت میں بھٹکنا لکھ دیا تھا اس لیے میں بھٹک گیا۔ شیطان کی مثال بتاتی ہے کہ اس کے پاس ایمان بھی تھا اور عمل بھی مگر اخلاص نہیں تھا۔ چناں چہ آدمؑ کی مثال ’’روحانیت‘‘ کی مثال بن گئی اور شیطان کی مثال ’’نفسانیت‘‘ کی مثال بن گئی۔
روحانیت اور نفسانیت کی ایک اور مثال ہابیل اور قابیل ہیں۔ ہابیل حق پر تھا اس کی قربانی قبول کرلی گئی۔ قابیل کے ظلم کے جواب میں وہ اور کچھ نہیں تو ’’انصاف‘‘ کا علمبردار ضرور بن سکتا تھا مگر ہابیل نے احسان کا راستہ اختیار کیا۔ اس نے قابیل کے ظلم سے بچنے کے لیے دفاعی اقدام کی زحمت گوارا نہ کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پاس ایمان بھی تھا، عمل بھی اور اخلاص بھی۔ قابیل کا معاملہ اس کے برعکس یہ تھا کہ اس کے پاس ایمان تو تھا مگر اس کے پاس نہ عمل تھا نہ اخلاص تھا۔
سیدنا ابراہیمؑ خلیل اللہ تھے اور آپ کی روحانیت کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپ سے سیدنا اسمعٰیلؑ کی قربانی طلب کی گئی۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ صرف سیدنا ابراہیمؑ کی محبت کا امتحان تھا۔ انسانی فطرت اور انسانی طبیعت محرکات کی اسیر ہوتی ہے، لیکن سیدنا اسمعٰیلؑ کے قتل کا اللہ کے حکم کے سوا کوئی محرک موجود نہ تھا۔ سیدنا ابراہیمؑ اللہ کے ایسے ’’مسلم‘‘ اور ایسے ’’مطیع‘‘ تھے ان کا شعور فطرت اور طبیعت کو بھی پھلانگ کر کھڑا ہوگیا۔ یہ دراصل مقام ’’ابراہمیت‘‘ کو حقیقت بنانے یا اسے Actualize کرنے کا عمل تھا۔ یہی سیدنا ابراہیمؑ کی روحانیت تھی۔ سیدنا ابراہیمؑ کی روحانیت کا ایک پہلو یہ تھا کہ جب آپ کو آتش نمرود میں ڈالا جارہا تھا تو حضرت جبرائیلؑ آپ کے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ کہیں تو میں آپ کی مدد کروں۔ سیدنا ابراہیمؑ کو معلوم تھا کہ حضرت جبرائیل جو کچھ کہتے اورکرتے ہیں اللہ کے حکم سے کہتے اور کرتے ہیں مگر آپ نے ان کی مدد لینے سے انکار کردیا اور اس موقع پر آپ نے جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یہ تھا کہ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ مجھے کس طرح کی مدد درکار ہے۔ اس کے معنی یہ تھے کہ سیدنا ابراہیمؑ عظیم آزمائش کے اس لمحے میں بھی صرف اللہ تعالیٰ پر انحصار کررہے تھے۔ روحانیت کے اکستابی نہ ہونے کی ایک مثال یہ ہے کہ سیدنا موسیٰؑ جیسے جلیل القدر نبی نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ میں آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم مجھے نہیں دیکھ سکتے۔ سیدنا موسیٰؑ نے اس کے باوجود اصرار کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے کوہِ طور پر ایک تجلی کی جس سے سیدنا موسیٰؑ بے ہوش ہوگئے اور طور جل گیا۔ مگر رسول اللہ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی خواہش نہ کی۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آپؐ (باقی صفحہ07بقیہ 01)
کو معراج پر بلایا اور خود کو دکھا دیا۔ یہ سیدنا موسیٰؑ اور رسول اکرمؐ کی روحانیت اور مرتبے کا ایک فرق ہے۔
بعض لوگ روحانیت کو تصرفات کا حامل سمجھتے ہیں حالاں کہ تصرفات خود روحانیت کا حاصل ہوتے ہیں اور ان کی حیثیت ’’اضافی‘‘ ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال حیرت انگیز، دلچسپ اور عبرت ناک ہے۔ فرید الدین عطار ہمارے عظیم ترین صوفیا میں سے ہیں۔ تاتاری لشکر جس وقت مسلم علاقوں پر یلغار کررہے تھے عطار اس وقت نیشا پور میں تھے۔ تاتاری لشکر نیشا پور کے قریب پہنچا تو عطار نے اپنی خانقاہ میں رکھا ہوا پیالہ الٹ دیا اور نیشا پور تاتاری لشکر کی آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ تاتاری لشکر کا سپہ سالار یہ دیکھ کر حیران رہ گیا اور لوٹ گیا۔ اگلے دن وہ پھر آیا۔ عطار نے دوسرے دن بھی خانقاہ میں رکھے پیالے کو الٹ دیا۔ نیشا پور پھر تاتاری لشکر کو نظر آنا بند ہوگیا۔ تاتاری لشکر کا سپہ سالار اس بار حیران ہوا اور ڈرا بھی۔ اس روز وہ پھر پلٹ گیا۔ مگر تیسرے دن وہ پھر نیشا پور پر یلغار کے لیے پہنچا۔ عطا نے پیالہ الٹنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ آواز آئی اب بس کرو۔ عطار کا ہاتھ رک گیا۔ تھوڑی دیر بعد تاتاری لشکر نے نیشا پور پر یلغار کردی۔ تاتاریوں کے ابتدائی حملوں میں جو لوگ شہید ہوئے ان میں عطار بھی شامل تھے۔ ایسے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح انبیا کے معجزے حکم الٰہی کے پابند ہوتے ہیں اسی طرح اولیا کی کرامات بھی حکم الٰہی ہی کا نتیجہ اور حکم الٰہی کی پابند ہوتی ہیں۔