پاکستان سیاست اور صحافت میں اخلاقی اور تاریخی دھماکے پاکستان کی سیاست اور صحافت میں اخلاقیات اور پاکستان کے اُس تاریخی تناظر کی کوئی اہمیت ہی نہیں جس پر مذہب کا مکمل غلبہ ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست اور صحافت پر کھلے سیکولر، لبرل اور پوشیدہ سیکولر اور لبرل عناصر کا غلبہ ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست اور صحافت پر تقریباً ایک پیشہ ورانہ نفسیات کا قبضہ ہے۔ اقبال نے کہا تھا ؎
دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم
اس شعر کے دوسرے مصرعے کے سلسلے میں پاکستان کی سیاست اور صحافت کا ایک ہی فیصلہ ہے، اور وہ ہے ’’شکم‘‘۔ چنانچہ اس امر میں رتی برابر حیرت کی بات نہیں ہے کہ انتخابی عمل کے دوران ریٹرننگ افسروں نے آئین کی دفعہ 62 اور 63 کا پرچم لہرایا تو ملک کی سیاست اور صحافت میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ سیکولر سیاست دان اور صحافی ہی نہیں، اسلام پسند نظر آنے والے بعض صحافی بھی سوال کرتے نظر آئے کہ آخر انتخابی امیدواروں کے امین اور صادق ہونے کا مفہوم کیا ہے؟ اسلامی تعلیمات کا خاطرخواہ علم رکھنے کے معنی کیا ہیں؟ اسلام کے مقرر کردہ فرائض کی پابندی اور کبیرہ گناہوں سے پاک ہونے کا معیار کیا ہے؟ نظریۂ پاکستان اور اس کی مخالفت کا کیا مطلب ہے؟
یہ حقیقت راز نہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا، لیکن جنرل ایوب اقتدار میں آئے تو انہوں نے ملک پر سیکولر تناظر مسلط کردیا۔ یہ ملک کے نظریے،قیامِ پاکستان کی جدوجہد اور اقبال اور قائداعظم کی فکر سے کھلی غداری تھی۔ لیکن پاکستان کی سیاست اور صحافت نے جنرل ایوب کے دور میں کبھی یہ سوال اٹھانے کی زحمت ہی نہیں کی کہ ایک ایسے ملک میں جو اپنی پیدائش سے اسلامی ہے، سیکولرازم کی کیا گنجائش ہے؟ اور جنرل ایوب سیکولر تناظر کو قوم پر مسلط کرنے کے لیے ’’اتھارٹی‘‘ کہاں سے لائے ہیں؟ پاکستان کی سیاست اور صحافت نے مجموعی طور پر جنرل ایوب سے یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ آپ کے سیکولرازم کا کیا مفہوم ہے؟ کیا آپ کا سیکولرازم سوشلسٹ ریاستوں کے سیکولرازم کی طرح ہے؟ یا یہ مغرب کی سیکولر ریاستوں کے سیکولرازم جیسا ہے؟
ذوالفقار علی بھٹو سیاست میں آئے تو انہوں نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کی اصطلاح وضع کی۔ یہ ایک مضحکہ خیز اصطلاح تھی۔ اس لیے کہ اسلام کا سوشلزم سے اور سوشلزم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد تھے۔ چنانچہ ہماری سیاست اور صحافت کو اس سوال پر بحث کرنی چاہیے تھی کہ ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا مفہوم کیا ہے؟ اور ہماری ریاست کو ایسے نادرِ روزگار منتخب نمائندے کہاں سے فراہم ہوں جو ’’نظریاتی زیبرا کراسنگ‘‘ کا شاہکار ہوں، یعنی تھوڑے سے اسلامی ہوں اور تھوڑے سے سوشلسٹ ہوں؟ یہ سوال تو خود بھٹو صاحب سے بھی پوچھا جا سکتا تھا کہ آپ کتنے فیصد اسلامی اور کتنے فیصد سوشلسٹ ہیں؟ مزے کی بات یہ تھی کہ بھٹو صاحب نہ اسلامی تھے نہ سوشلسٹ تھے۔
وہ سیکولر تھے اور جاگیردار تھے، اور ان کی زبان پر سوشلزم کا نام بھی نہیں آنا چاہیے تھا، کیونکہ ایک جاگیردار کی زبان پر سوشلزم کے نام کا آنا سوشلزم کی کھلی توہین تھی۔ مگر چند مذہبی رہنمائوں اور چند اسلام پسند صحافیوں کے سوا ان امور کی نشاندہی بھی کسی نے نہ کی۔ ایم کیو ایم 25 سال سے کراچی پر مسلط ہے۔ اس نے شہر میں خونیں ہڑتالوں اور جبرو تشدد کی بدترین تاریخ رقم کی ہے، مگر ہماری صحافت کی دیانت، امانت اور صداقت کا یہ عالم ہے کہ جب کراچی میں آگ لگی ہوتی تھی تو ہمارے اخبارات اور ٹیلی وژن چینلز خبر دے رہے ہوتے تھے کہ کراچی میں ’’نامعلوم افراد‘‘ نے فائرنگ کی، گاڑیوں کو نذرِ آتش کیا، دکانیں بند کرائیں، اور سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے ٹریفک بند کیا۔
آخر ہماری انتہائی حساس اور باخبر صحافت قوم اور پوری دنیاکو یہ کیوں نہیں بتاتی کہ ’’نامعلوم افراد‘‘ کے کیا معنی ہیں؟ اس اصطلاح کا کیا مفہوم ہے؟ اور قوم یہ کیسے طے کرے کہ نامعلوم افراد کا تشخص کیا ہے؟ جنرل پرویزمشرف نے نائن الیون کے بعد ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا کر پورا ملک امریکہ کے حوالے کردیا لیکن سیاست دانوں اور چند صحافیوں کے سوا کسی نے ان سے نہیں پوچھا کہ سب سے پہلے پاکستان کا مطلب کیا ہے؟ کیا اس کے معنی امریکہ کے جوتے چاٹنا ہے؟ کیا اس کا مفہوم امریکہ کے لیے کرائے کے فوجی کا کردار ادا کرنا ہے؟ کیا اس کا مطلب گھر پھونک تماشا تخلیق کرنا ہے؟ ان کے حامیوں اور مخالفوں دونوں کو معلوم تھا کہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا مفہوم کیا ہے؟ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جیسے ہی ریٹرننگ افسروں نے آئین کا تقاضا پورا کرتے ہوئے انتخابی امیدواروں پر آئین کی دفعہ 62 اور 63 کا ’’ہلکا پھلکا‘‘ اطلاق کیا پورے ملک میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور کہا جانے لگا کہ پہلے اسلام کے ہر تصور کی تعریف متعین کرو پھر امیدواروں پر اس کا اطلاق کرو۔
زندگی کا عام تجربہ ہے کہ ہم اپنی گفتگو اور اپنی تحریروں میں روزانہ ایسے درجنوں الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جن کے بارے میں یہ بحث ہوسکتی ہے کہ ان کا مفہوم کیا ہے۔ مثلاً ہم محبت کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور ہم سے کوئی نہیں پوچھتا کہ اس کا مفہوم کیا ہے؟ حالانکہ محبت کے لفظ پر بحث کی جائے تو پانچ چھ ہزار صفحات کا انسائیکلو پیڈیا مرتب کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ انسان ہزاروں سال سے محبت پر گفتگو کررہا ہے اور ابھی تک محبت کے امکانات ختم نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن ہم ایسا اس لیے نہیں کرتے کہ ہم سب کو محبت کا عمومی مفہوم خوب اچھی طرح معلوم ہے۔ اسی طرح تعلق، معنی، حسن، تہذیب، کلچر، اخلاق اور ان جیسے بے شمار الفاظ روزمرہ زندگی میں استعمال ہوتے ہیں اور ان پر بحث کے وسیع امکانات ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود ہم ان پر کسی سے سوال نہیںکرتے، کیونکہ تھوڑا بہت پڑھا لکھا شخص ان الفاظ کا عمومی مفہوم اچھی طرح سمجھتا ہے۔ دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ اسلام صرف نظریہ یا فلسفہ نہیں ہے بلکہ وہ چودہ سو سال سے ایک عمل کی کائنات تخلیق کیے ہوئے ہے، لیکن اس کے باوجود بھی اس کے بعض بنیادی تصورات کے بارے میں سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ان کا مفہوم کیا ہے؟
جہاں تک امین اور صادق کا تعلق ہے تو یہ دونوں تصورات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے متعلق ہیں، اور اسوۂ حسنہ کی جملہ تفصیلات سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بھی اچھی کتاب میں موجود ہیں۔ اس سلسلے میں رتی برابر بھی ابہام موجود نہیں۔ لیکن کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو صداقت اور امانت کا آفتاب ہیں، ہم ان کی طرح تھوڑی ہوسکتے ہیں۔ بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صداقت اور امانت کا آفتاب ہیں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کو صداقت اور امانت کا چراغ تو ہونا ہی چاہیے۔
چلیے ہمارے سیاست دانوں اور صحافیوں کو صداقت اور امانت کا تجربہ نہیں ہوگا مگر انہیں جھوٹ اور بددیانتی کا تجربہ تو ہے۔ اب انہیں صرف یہ کرنا ہے کہ وہ جان لیں کہ جو جھوٹ اور بددیانتی نہیں ہے وہ ہی صداقت اور امانت ہے۔ مطلب یہ کہ وہ اپنے تجربے کی روشنی میں صداقت اور امانت کو ان کی اضداد سے پہچان لیں۔ اگر ان میں یہ صلاحیت بھی نہیں تو ایسے سیاست دانوں اور صحافیوں کو سیاست اور صحافت کے میدانوں میں داخلے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ریٹرننگ افسروں نے غضب کیا کہ انہوں نے کسی سے تیسرا کلمہ سنانے کو کہا اور کسی سے دعائے قنوت اور آیت الکرسی سنانے کی فرمائش کی۔
ان چیزوں کا تعلق نہ اسلام کے علم سے ہے نہ عمل سے ہے۔ ان چیزوں کے یاد ہونے کا تعلق رٹنے اور حافظے کے عمل سے ہے۔ ہمارے انتخابی امیدواروں سے اصل میں اس طرح کے سوالات ہونے چاہئیں کہ ایمان دنیا کی سب سے بڑی دولت کیوں ہے؟ کلمہ طیبہ کے انفرادی اور اجتماعی زندگی پر اطلاق کا مفہوم کیا ہے اور اس اطلاق سے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں؟ آپ کی نظر میں سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس بڑے واقعات کیا ہیں؟ آپ کے خیال میں ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونۂ عمل سے کتنی دور کھڑے ہیں اور کیوں؟ آپ کی رائے میں عصر حاضر میں حق و باطل کی کشمکش کا مفہوم کیا ہے؟ اسلام میں تصورِ عدل کی کیا اہمیت ہے اور کیوں؟ اسلام کا تصورِ علم یا تصورِ تعلیم کیا ہے؟ اسلام کے تصورِ معیشت کے دو بنیادی تصورات کی نشاندہی کیجیے۔ وغیرہ وغیرہ۔
بعض صحافیوں نے فرمایا ہے کہ آئین کی دفعہ 62 اور 63 منتخب نمائندوں پر اسلام کا علم حاصل کرنے کی پابندی عائد کرتی ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ اس سلسلے میں کتنے علم کو کافی سمجھا جائے گا؟ ظاہر ہے کہ اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ منتخب نمائندوں کو امام غزالیؒ، امام رازیؒ، مولانا اشرف علی تھانویؒ یا مولانا مودودیؒ ہونا چاہیے، لیکن اس کا یہ مفہوم ضرور ہے کہ انہیں اسلام کی مبادیات کا علم ہونا چاہیے، بالکل اسی طرح جس طرح ایک مالدار کو مال کمانے، سیاست دان کو سیاست اور کھلاڑی کو کھیل کی مبادیات کا علم ہوتا ہے۔
جہاں تک کبیرہ گناہوں کا تعلق ہے تو ان کی مکمل فہرست احادیث میں موجود ہے اور اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امر کی تحقیق کا پورا اہتمام کرے کہ منتخب ایوانوں میں جانے والے لوگوں میں سے کون کبائر میں مبتلا ہے۔ یہاں یہ امر واضح رہنا چاہیے کہ کبائر کا تعلق صرف اسلام سے نہیں ہے۔ سوشلسٹ اور سیکولر ریاستوں کے اپنے کبائر تھے اور ہیں۔ مثلاً کیا یہ تصور کیا جاسکتا تھا کہ کوئی شخص مارکس یا مائو کے بنیادی نظریات کا مخالف ہونے کے باوجود سپریم سوویت یا چین کی کمیونسٹ پارٹی کا رکن ہے؟ کیا اس بات کا کوئی امکان کہیں موجود ہے کہ ایک شخص آزادی، جمہوریت اور آزاد منڈی کے تصورات اور امریکہ کے وجود کا مخالف ہوکر بھی امریکہ کے ایوانِ نمائندگان یا سینیٹ کا رکن ہے؟
بعض صحافیوں نے یہ بحث بھی اٹھائی ہے کہ نظریۂ پاکستان کیا ہے؟ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی پوری رامائن سن کر سوال کرے کہ اچھا یہ بتائو رام کون تھا اور سیتا کون تھی؟ ارے بھائی! نظریۂ پاکستان دو قومی نظریے کے سوا کچھ بھی نہیں، اور دو قومی نظریہ اوّل و آخر اسلام ہے۔ اس سلسلے میں اسلام کے کئی پہلو اہم ہیں۔ مثلاً اسلام عقائد کا نظام ہے، چنانچہ انتخابی امیدواروں کو اسلام کے نظام عقائد پر کامل یقین کرنے والا ہونا چاہیے اور اس کے کسی قول یا فعل سے ان عقائد کی مخالفت یا مزاحمت ثابت نہیں ہونی چاہیے۔ اسلام عبادات کا ایک نظام ہے اور منتخب نمائندوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اسلام کے نظام عبادات کو تسلیم کرنے والے اور اس پر عمل کرنے والے ہوں گے۔
اسلام اخلاقیات کا ایک نظام ہے، چنانچہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کسی بھی ریاستی ادارے کا رکن بننے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلام کے نظامِ اخلاق پر ایمان رکھنے والا اور اس کی پاسداری کرنے والا ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کے لیے نمونۂ عمل ہیں، چنانچہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونۂ عمل ہونے پر کامل یقین بھی ہونا چاہیے اور انہیں اس نمونے کی پیروی کرنے والا بھی ہونا چاہیے۔ یہ نظریۂ پاکستان کی مختصر تعریف ہے اور فکرِ اقبال اور قائداعظم کے سیکڑوں اقوال سے ثابت بھی ہے۔ لیکن نظریۂ پاکستان پر طویل جدوجہد کرکے اور ملک بناکر بھی لوگ آج یہ سوال کررہے ہیں کہ نظریہ پاکستان کیا ہے؟ کتنی عجیب بات ہے کہ جو ثابت نہیں تھا پاکستان میں اس پر تو عمل ہورہا ہے، اور جو ثابت ہے اس کے بارے میں سوال اٹھایا جارہا ہے کہ وہ کیا ہے؟ مثلاً یہ بات کسی طرح ثابت نہیں کی جاسکتی کہ ملک پر جرنیلوں کی حکومت ہونی چاہیے، مگر ہم چار جرنیلوں کی حکومتوں کا تجربہ کیے بیٹھے ہیں۔ یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان پر نااہل، بدعنوان اور متعصب لوگوں کی حکومت ہونی چاہیے، مگر ہم ان برائیوں میں مبتلا ایک درجن سے زائد حکومتیں بھگتائے بیٹھے ہیں۔
کسی زمانے میں بعض صحافیوں کو معروف کالم نگار ایاز امیر کے نااہل قرار پانے سے شدید تکلیف ہوئی اور انہوں نے یہ تاثر دیا کہ ایاز امیر کو نظریۂ پاکستان کی مخالفت میں کالم لکھنے پر نااہل قرار دیا گیا۔ مگر انصار عباسی نے اپنے تجزیے میں صاف لکھا تھا کہ ایاز امیر کو شراب نوشی اور اس پر اصرار اور اسمبلی میں کھڑے ہوکر یہ کہنے کی وجہ سے نااہل قرار دیا گیا تھا کہ شراب پر پابندی ختم ہونی چاہیے۔ اگرکوئی شخص چھپ کر شراب پیتا ہے تو یہ گناہِ کبیرہ تو ہے مگر یہ اُس کا ذاتی فعل ہے اور اللہ تعالیٰ اسے چاہے تو پکڑ لے، کسی بندے کا اس سلسلے میں کوئی کردار نہیں۔ ہمارے بہت سے شعراء نے مے نوشی کی ہے اور اس پر شعر بھی کہے ہیں، مگر انہوں نے اسے معاشرے میں قدر یا Value بناکر دوسروں کو شراب پینے کی تلقین نہیں کی۔
لیکن ایاز امیر نے شراب کو معاشرے کی قدر اور معمول کی بات بنانے کی کوشش کی تھی۔ چنانچہ ان کا معاملہ انفرادی نہیں رہا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ شراب نوشی پر پابندی کسی ملاّ، مولوی یا مذہبی جماعت نے نہیں لگائی، بلکہ اس کا حرام ہونا نصِ قرآنی سے ثابت ہے۔ چنانچہ جو شخص مسلمان ہونے کے باوجود نہ صرف کھلے عام شراب پیتا ہے بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ شراب پر پابندی نہیں ہونی چاہیے اسے کم از کم کسی اسلامی معاشرے کا سیاسی رہنما بننے کا موقع فراہم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ مسئلہ صرف ایاز امیر تک محدود نہیں، ان کو ٹکٹ دے کر میاں نواز شریف نے پوری قوم کو بتادیا کہ ان کی نگاہ میں قرآن و سنت کی کیا وقعت ہے۔
بعض لوگوں نے دفعہ 62 اور 63 کو ضیاء الحق کے بھوت سے بھی منسوب کیا تھا، لیکن پروفیسر خورشید احمد نے 19 اپریل 2013ء کے دی نیوز کراچی میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں ثابت کردیا ہے کہ اب دفعہ 62 اور 63 کا تعلق ضیاء الحق سے نہیں 18 ویں ترمیم سے ہے، اس لیے کہ 18 ویں ترمیم کے تحت 62 اور 63 کا ازسرنو جائزہ لیا گیا ہے اور اس میں ترمیم و اضافہ کیا گیا ہے، چنانچہ اب ان دفعات کا جنرل ضیاء سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ ایاز امیر خود 18 ویں ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے لوگوںمیں شامل تھے۔ کچھ لوگوں نے نظریہ پاکستان یا Islamic Ideology کی اصطلاح کو بھی جنرل ضیاء الحق سے منسوب کیا ہے، لیکن پروفیسر خورشید احمد نے اپنے مذکورہ مضمون میں مثال سے ثابت کیا ہے کہ قائداعظم نے یہ اصطلاح 17 جنوری 1945ء میں خود استعمال کی تھی۔ انہوں نے پشاور میں ہونے والی مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی کانفرنس کے نام اپنے پیغام میں کہا تھا:
“Pakistan not only means freedom and Independence but Islamic Ideology which has to be Preserved.”
یعنی پاکستان کا مطلب صرف غلامی سے نجات اور آزادی نہیں بلکہ ایسا اسلامی نظریہ بھی ہے جس کی حفاظت کی جانی چاہیے۔ اسی طرح Islamic Ideology کی اصطلاح خود بھٹو صاحب کے دور میں تیار ہونے والے آئین میں بھی استعمال ہوئی۔ اس آئین کا ایک فقرہ ہے:
“Islamic’s Ideology is the basis for the creation of Pakistan.”
یعنی اسلامی نظریہ یا نظریۂ پاکستان ہی قیام پاکستان کی بنیاد تھا۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ملک میں ہونے والے تمام اخلاقی و تاریخی دھماکوں کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے اور اس سے اس خیال کو بھی تقویت حاصل ہوتی ہے کہ لوگ جب تک دفعہ 62 اور 63 پر پورا اترنے والوں کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور نہیں دیں گے اُس وقت تک ملک میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں لائی جاسکے گی۔ مذکورہ واویلا سے یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کے لیے اخلاقی اور علمی شرائط کے معیار کو مسلسل بلند کرتے چلے جانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایک دن ایسا آئے کہ پاکستان کا ہر منتخب نمائندہ تقویٰ اور علم کی اُس فضیلت کا حامل ہو جو اسلامی معاشرے کی حقیقی پہچان ہے۔