عمران خان کے اس ’’انکشاف‘‘ نے ملک میں ایک ہنگامہ برپا کر رکھا ہے کہ امریکہ نے اپنے ایک اعلیٰ اہلکار ڈونلڈ لُو کے ذریعے پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت تحریک عدم اعتماد کے ذریعے برطرف نہ ہوئی تو پاکستان کو سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، البتہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب رہی تو پاکستان کی تمام غلطیوں کو معاف کر دیا جائے گا۔ عمران خان کے اس انکشاف کے حوالے سے ملک میں اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ امریکہ نے ’’سازش‘‘ کی ہے یا ’’مداخلت‘‘ کی ہے؟ فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے ایک نیوز کانفرنس میں اس بات کی تردید کی کہ امریکہ نے کوئی سازش کی ہے۔ البتہ انہوں نے کہا کہ مراسلے میں مداخلت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مغرب کی تاریخ سے آگاہ لوگوں کے لیے یہ ساری باتیں فضول گوئی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ اس لیے کہ مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کی توہین بھی کی ہے۔ تذلیل بھی کی ہے۔ تحقیر بھی کی ہے۔ مغرب ان کے خلاف ’’سازش‘‘ کا مرتکب بھی ہوا ہے۔ مغرب نے مسلم دنیا میں مداخلت بھی کی ہے۔ مغرب نے مسلم ممالک پر قبضہ بھی کیا ہے۔ مغرب نے مسلم ممالک کو اپنا ’’غلام‘‘ بھی بنایا ہے۔
بدقسمتی سے مسلمانوں کی عظیم اکثریت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کی ریشہ دوانیوں سے آگاہ نہیں ہے۔ مغرب کے پروپیگنڈے کے زیراثر مسلمانوں میں یہ خیال عام ہے کہ مسلمانوں اور مغرب کے تعلقات میں پہلے مسلمان کچھ ’’گڑبڑ‘‘ کرتے ہیں پھر مغرب اس گڑبڑ کا جواب دیتا ہے۔ لیکن یہ خیال جتنا عام ہے اس سے زیادہ غلط ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مغرب نے اسلام کو آج تک ایک سچا مذہب تسلیم نہیں کیا۔ عیسائیت کا عقیدہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معاذ اللہ پیغمبر نہیں ہیں بلکہ انہوں نے کچھ چیزیں توریت سے لیں، کچھ چیزیں انجیل سے لیں اور ان کو ملا کر قرآن شریف تصنیف کر لیا۔ عیسائیت کا یہ نظریہ 1095ء میں اُس وقت کے پوپ اربن دوئم کی ناپاک زبان پر آگیا۔ اس نے کسی ’’مراسلے‘‘، کسی ’’خفیہ دھمکی‘‘ یا کسی ’’سازش‘‘ کے ذریعے کلیسا میں کھڑے ہو کر اسلام پر روحانی، اخلاقی، نفسیاتی اور تہذیبی حملہ نہیں کیا۔ اس نے کہا کہ معاذ اللہ اسلام ایک شیطانی مذہب ہے اور اس کے ماننے والے ایک شیطانی مذہب کے پیروکار ہیں۔ پوپ اربن نے دعویٰ کیا کہ اللہ نے یہ بات اس کے قلب پر القا کی ہے کہ عیسائیوں کا فرض ہے کہ وہ شیطانی مذہب اور اس کے پیروکاروں کو فنا کر دیں۔ پوپ اربن کی یہ آواز صدا بہ صحرا ثابت نہ ہوئی۔ 1099ء میں پورا عیسائی یورپ ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوا اور ان صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جو کم و بیش دو سو سال جاری رہیں۔ یہ مغرب کا اسلام اور مسلمانوں پر پہلا حملہ تھا، مغرب کی پہلی یلغار تھی۔ اس حملے اور اس یلغار کے سلسلے میںمسلمانوں کا کوئی کردار نہ تھا۔ مغرب نے مسلمانوں کے خلاف جارحیت ’’ایجاد‘‘ کی تھی۔ اس جارحیت کا ’’جواز‘‘ بھی مغرب نے خود ہی تخلیق کیا تھا۔ مغرب کی اس یلغار اور اس جارحیت کے پہلے مرحلے میں مغرب کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔ مغرب نے مسلمانوں سے ان کا ’’روحانی مرکز‘‘ بیت المقدس چھین لیا۔ لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ نے کچھ عرصے بعد مغرب کی اس یلغار کا توڑ سلطان صلاح الدین ایوبی کی صورت میں پیدا کیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے نہ صرف یہ کہ صلیبیوں کو شکستِ فاش دی بلکہ بیت المقدس کو بھی آزاد کرا لیا۔
مغرب کا مسلمانوں پر دوسرا حملہ فکری تھا۔ یونان کے فلسفے نے مسلمانوں میں جڑیں پیدا کرلیں اور مسلم دنیا کے بہت سے ممتاز دانش ور اور مفکر یونانی فلسفے کے اسیر ہو گئے۔ یونان کے فلسفے کی اسیری نے مسلمانوں کے کئی بنیادی عقاید کو خراب کر دیا، یونانی فلسفے کے اثرات کے عام ہونے سے پہلے مسلمانوں کا عقیدہ تھا کہ قدیم صرف اللہ کی ذات ہے، صرف وہی ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ لیکن یونانی فلسفے نے مسلم دانش وروں میں اس خیال کو عام کیا کہ یہ کائنات بھی ’’قدیم‘‘ ہے، یہ کائنات بھی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اس طرح یونانی فلسفے نے مادی کائنات کو خدا کا ہم مرتبہ بنا دیا۔ یہ ایک بہت بڑی گمراہی اور بہت بڑی ضلالت تھی۔ ابن سینا اور ابن رشد جیسے فلسفی اس خیال کے زیر اثر تھے۔یونان کے فلسفے نے دوسری خرابی یہ پیدا کی کہ حیات بعدالموت کو ناممکن ثابت کرناشروع کر دیا۔ یونانی فلسفے سے پہلے مسلمان حیات بعدالموت کے قائل تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ جسمانی صورت میں اٹھایا جائے گا۔ مگر یونانی فلسفے نے اس عقیدے پر زبردست حملہ کیا۔ مسلمانوں کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے یہ عقیدہ تھا کہ خدا کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔ مگر یونانی فکر نے اس خیال کو عام کیا کہ خدا کلیات کا علم تو رکھتا ہے، جزیات کا علم نہیں رکھتا۔ یہ کھلا کفر تھا اور اس فکر کے عام ہونے سے مسلمانوں کا تصورِ خدا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسخ ہو کر رہ جاتا۔ یونانی فکر نے یہ خرابی بھی پیدا کی کہ وحی کو عقل پر فوقیت اور بالادستی حاصل نہیں۔ مغرب کا یہ فکری حملہ ہولناک تھا اور اگر اس حملے کا جواب نہ دیا جاتا تو مسلم دنیا میں اسلام کا وہی حشر ہوتا جو مغربی دنیا میں عیسائیت کا ہوا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مغرب کے ہولناک حملے کو ناکام بنانے کے لیے امام غزالیؒ کو کھڑا کر دیا۔ غزالی نے یونانی فکر کا مدلل رد لکھا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ یونانی فکر مذہبی اعتبار سے بھی غلط ہے اور عقلی اعتبار سے بھی قابلِ بھروسا نہیں۔ غزالی کا رد اتنا شاندار اور جاندار تھا کہ اس نے مسلم دنیا میں مغربی فلسفے کا بیج ہی مار دیا اور سنی دنیا میں یہ فلسفہ پھر کبھی مذہب کے مقابل نہ آسکا البتہ شیعت نے فلسفے کے اثرات قبول کیے۔ خیر یہ ایک الگ ہی موضوع ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ غزالی نے تنِ تنہا وہ کام کیا جس کی توقع پوری امت اور پوری تہذیب سے کی جا سکتی ہے۔
مغرب کا عالمِ اسلام پر تیسرا حملہ بیک وقت عسکری بھی تھا اور فکری بھی۔ اس حملے سے پہلے مسلمانوںنے لندن یا پیرس کو نشانہ نہیں بنایا تھا۔ مغربی اقوام نئی منڈیوں اور خام مال کی تلاش میں اپنے اپنے جغرافیے سے نکلیں اور انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے عالم ِاسلام کو اپنا غلام بنا لیا۔ یہ غلامی عسکری بھی تھی ،فکری بھی… سیاسی بھی تھی اور تہذیبی بھی۔ اکثر لوگ غلامی کو صرف سیاسی مسئلہ سمجھتے ہیں، مگر اقبال نے غلامی کے بارے میں ایک بنیادی بات کہی ہے۔انہوں نے کہا ہے؎
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اقبال کہہ رہے ہیں کہ غلامی صرف سیاسی مسئلہ نہیں۔ غلامی اتنی ہولناک چیز ہے کہ وہ افراد کیا قوموں کے ضمیر کو بدل دیتی ہے۔ غلاموں کو غلامی میں مبتلا ہونے کے بعد اپنی اچھی چیزیں بھی بری لگنے لگتی ہیں اور آقائوں کے عیب بھی انہیں ’’ہنر‘‘ دکھائی دینے لگتے ہیں۔ برصغیر میں اس کی سب سے بڑی مثال سرسید ہیں۔ غلامی کے تجربے سے پہلے سرسید آپ کی اور میری طرح ایک ’’نارمل مسلمان‘‘ تھے، مگر غلامی کو قبول کرنے کے بعد سرسید کی یہ حالت ہوگئی کہ انہوں نے قرآن کا انکار کردیا، وہ منکرِ حدیث بن کر کھڑے ہو گئے، انہوںنے مسلمانوں کی پوری تفسیری روایت کو مسترد کردیا، انہوںنے اجماع کے اصول کا انکار کردیا، انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ عربی، فارسی اور اردو میں کیا رکھا ہے! سیکھنی ہے تو انگریزی اور فرانسیسی سیکھو۔ دنیا کے تمام آزادی پسند لوگ بھی جنگ ِآزادی لڑنے والوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں، جبکہ سرسید نے 1857ء کی جنگ ِآزادی لڑنے والوں کو وحشی، ڈاکو اور حرامزادے قرار دیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو غلامی کے تجربے نے سرسید کی پوری شخصیت ہی کو بدل ڈالا۔ لیکن مسئلہ صرف سرسید کا نہیں، مسلم دنیا کے مختلف ممالک میں ہر جگہ سرسید جیسے لوگ پیدا ہوئے۔ انہوں نے مغربی آقائوں کے آگے سرِِتسلیم خم کیا۔ انہوںنے مغرب کو آئیڈیل بنا کر اپنے سامنے رکھا اور اپنی مذہبی اور تہذیبی روایت کی تحقیر کی۔ غلامی کے اس تجربے کا سب سے ہولناک نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم دنیا میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا جو رنگ و نسل کے اعتبار سے مقامی تھا مگر اپنی روح، اپنے تناظر اور حسیت کے اعتبار سے ’’مغربی‘‘ تھا۔ انگریز ہندوستان سے اور فرانسیسی الجزائر سے چلے گئے مگر اُن کا پیدا کیا ہوا طبقہ آج بھی پاکستان اور الجزائر پر حکومت کررہا ہے۔ کہیں یہ طبقہ بادشاہوں پر مشتمل ہے۔ کہیں یہ طبقہ جرنیلوں سے عبارت ہے۔ کہیں یہ طبقہ سیاست دانوں کی صورت میں موجود ہے۔
اس وقت پورے عالم اسلام کی صورت حال یہ ہے کہ اس کا سیاسی نظام مغرب سے آیا ہے۔ اس کی معیشت کا ماڈل مغرب کی عطا ہے۔ اس کا عدالتی نظام مغرب سے ماخوذ ہے۔ اس کا تعلیمی نظام مغرب زدگی کا شکار ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں کی خواہشیں، آرزوئیں، تمنائیں اور خواب بھی مغرب سے آرہے ہیں۔ ہمارا لباس مغربی ہوچکا ہے۔ ہم نے مغرب کی غذائوں کو اپنا لیا ہے۔ ہم مغرب کی موسیقی سن رہے ہیں۔ ہم مغرب کی تفریح “Consume” کررہے ہیں۔ مغرب پیسے کو پوجتا ہے، ہم بھی دولت کے پجاری بن گئے ہیں۔ مغرب ’’طاقت پرست‘‘ ہے، ہم بھی طاقت پرستی میں مبتلا ہیں۔ اسلام کہتا ہے فضیلت صرف تقویٰ اور علم کو حاصل ہے۔ پوری مسلم دنیا میں ہر جگہ تقویٰ اور علم کا کوئی خریدار موجود نہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت مغرب کو نزلے زکام کی طرح کی بیماری سمجھتی ہے۔ مغرب مسلمانوں کے لیے نزلہ یا زکام نہیں، وہ پورے عالم اسلام کے لیے ایک سرطان ہے۔ مغرب روح کا سرطان ہے۔ نفس کا سرطان ہے۔ جسم کا سرطان ہے۔ اس سرطان کی دوا مغرب کی ہمہ جہت اور ہمہ گیر مزاحمت ہے۔ روحانی مزاحمت، فکری مزاحمت، نفسیاتی مزاحمت، ذہنی مزاحمت، سماجی مزاحمت، تہذیبی مزاحمت۔ خوش قسمتی سے برصغیر کے مسلمانوں کا ریکارڈ مزاحمت کے سلسلے میں باقی دنیا کے مسلمانوں سے کہیں بہتر ہے۔ ہم نے مغرب کے کئی بڑے مزاحمت کار پیدا کیے ہیں۔
ان مزاحمت کاروں میں پہلا بڑا نام اکبر الہٰ آبادی کا ہے۔ اکبر الہٰ آبادی کی عظمت یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان جو جنگ میدانِ جنگ میں ہار گئے تھے، اکبر نے اپنی شاعری میں جیت کر دکھا دی ہے۔ اکبر کی دوسری عظمت یہ ہے کہ اقبال جیسی شخصیت نے ان کے انتقال پر ان کے فرزند کے نام تار میں لکھا کہ آپ کے والد اتنے بڑے آدمی تھے کہ پورے ایشیا میں ان جیسی کوئی شخصیت موجود نہیں۔ اکبر نے اپنی شاعری میں مغرب کی جو مزاحمت کی ہے اس کی چند مثالیں یہ ہیں:
خدا کی ہستی میں شبہ کرنا اوراپنی ہستی کو مان لینا
پھر اس پہ طرہ اس ادعا کا کہ ہم ہیں اہلِ شعور ایسے
٭
دنیا میں بے خبر ہے جو پروردگار سے
شاید ہے زندہ اپنے ہی وہ اختیار سے
٭
تُو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے
٭
منزلوں دور ان کی دانش سے خدا کی ذات ہے
خردبیں اور دوربیں تک ان کی بس اوقات ہے
٭
کفر نے سائنس کے پردے میں پھیلائے ہیں پائوں
بے زباں ہے بزمِ دل میں شمعِ ایماں ان دنوں
٭
علومِ دنیوی کے بحر میں غوطے لگانے سے
زباں گو صاف ہو جاتی ہے دل طاہر نہیں ہوتا
٭
نئی تعلیم کو کیا واسطہ ہے آدمیت سے
جناب ڈارون کو حضرت آدم سے کیا مطلب
٭
نئی تہذیب میں بھی مذہبی تعلیم شامل ہے
مگر یوں ہے کہ گویا آبِ زم مے میں داخل ہے
٭
نہ کتابوں سے نہ کالج کے ہے در سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
٭
مذہب کبھی سائنس کو سجدہ نہ کرے گا
انسان اڑیں بھی تو خدا ہو نہیں سکتے
٭
شانِ مذہب یہ رہا فلسفہ حیران مدام
اس قدر جوشِ جنوں اور اس اعزاز کے ساتھ
٭
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
٭
شکر ہے راہِ ترقی میں اگر بڑھتے ہو
یہ تو بتلائو کہ قرآں بھی کبھی پڑھتے ہو
٭
سید اٹھے جو گزٹ لے کے تو لاکھوں لائے
شیخ قرآن دکھاتے پھرے پیسہ نہ ملا
٭
ایمان بیچنے پہ ہیں اب سب لگے ہوئے
لیکن خرید ہو جو علی گڑھ کے بھائو سے
٭
جیسی جسے ضرورت ویسی ہی اس کی چیزیں
یاں تخت ہے تو پھر کیا واں میز ہے تو پھر کیا
٭
نہیں کچھ اس کی پرسش الفتِ اللہ کتنی ہے
یہی سب پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے
٭
موت سے ڈرتے ہیں اب، پہلے یہ تعلیم نہ تھی
کچھ نہیں آتا تھا اللہ سے ڈرنے کے سوا
٭
گو کہ اس میں ذرا ثقالت ہے
پھر بھی بسکٹ سے شیر مال اچھی
اکبر نے مغربی تہذیب کی جو مزاحمت کی اس کا بہت گہرا اثر اقبال نے بھی قبول کیا۔ انہوں نے جو مزاحیہ شاعری کی ہے وہ اکبر کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ مگر اقبال خود ایک عظیم شخصیت تھے چنانچہ انہوں نے مغرب کی مزاحمت کو بلند فکری سطح پر بیان کرکے مغرب کی مزاحمت میں چار چاند لگا دیے۔
اقبال کی مزاحمتی شاعری کے چند نمونے ملاحظہ کیجیے:
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
کبھی جو پروردۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آبسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہو گا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
سفینۂ برگِ گل بنا لے گا قافلہ مورِ ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر وہ دریا کے پار ہو گا
٭
تعلیم پیرِ فلسفۂ مغربی ہے یہ
ناداں ہے جس کو ہستیِ غائب کی ہے تلاش
٭
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
ان کی ملت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
٭
ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تُو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری
مجلس آئین و اصلاح و رعایاتِ حقوق
طبِ مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری
گرمیِ گفتارِ اعضائے مجالس الاماں
یہ بھی اِک سرمایہ داروں کی ہے جنگِ زرگری
٭
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
٭
دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق پر آفتاب ابھرا گیا دورِ گراں خوابی
عروقِ مردۂ مشرق میں خونِ زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہی گوہر کی سیرابی
عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی، ذہنِ ہندی، نطق اعرابی
٭
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
مولانا مودودیؒ مجددِ وقت تھے، چنانچہ وہ مغرب کی فکری اور عملی مزاحمت کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے تھے۔ یوں تو مولانا نے بیک وقت سوشلزم اور مغربی تہذیب کی مزاحمت کی، لیکن جتنا زورِ بیاں مولانا نے مغرب کے خلاف صرف کیا اتنا زورِ بیاں انہوں نے سوشلزم کے خلاف بھی بیان نہیں کیا۔ وہ سوشلزم کو تو صرف باطل نظام کہہ کر رہ جاتے ہیں مگر مولانا نے مغربی تہذیب کو چار ہولناک ناموں سے یاد کیا ہے۔ مولانا نے جدید مغربی تہذیب کو جو چار نام دیے ہیں وہ یہ ہیں:
-1 باطل
-2 جاہلیتِ خالصہ
-3 تخمِ خبیث
-4 شجرِ خبیث
مولانا مودودیؒ نے کراچی میں ادارۂ معارف اسلامی اپنی جیبِ خاص سے رقم صرف کرکے قائم کیا تھا۔ اس ادارے کو مولانا کے اپنے بیان کے مطابق تین کام کرنے تھے۔ مولانا نے اس سلسلے میں جو کچھ فرمایا وہ ان کے الفاظ میں یہ ہے:
-1 سب سے پہلا کام ہم یہ کرنا چاہتے ہیں کہ مغربی فکر اور مغربی فلسفۂ حیات کا جو طلسم بندھا ہوا ہے اسے توڑا جائے۔
-2 جو دوسرا کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے تمام علوم و فنون کو نئے اسلوب اور اپنے طریقے پر مرتب کیا جائے تاکہ وہ اسلامی تہذیب کی بنیاد بن سکیں۔
-3 تیسرا کام ہمارے سامنے یہ ہے کہ ایک نصاب مرتب کیا جائے جو اس طرزِ تعلیم کے قابل کتابیں تیار کرے۔
مولانا مودودی نے اپنی تحریروں میں مغرب کی الٰہیات یا Ontology کو پوری شدت سے رد کیا ہے۔ مولانا نے لکھا:
’’کائنات کے مذہبی نظریے کا بنیادی تخیل یہ ہے کہ عالم طبعی یعنی Physical world کے تمام آثار اور جملہ مظاہر کی علت کسی ایسی طاقت کو قرار دیا جائے جو اس عالم سے بالاتر ہو، لیکن یہ نظریہ چونکہ جدید علمی تحریک کے دشمنوں کا نظریہ تھا اس لیے جدید تحریک کے علَم برداروں نے لازم سمجھا کہ خدا یا کسی فوق الطبیعت (Super Natural) ہستی کو فرض کیے بغیر کائنات کے معمے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ مغربی فلسفہ اور مغربی سائنس دانوں نے جب اپنا سفر شروع کیا تو اگرچہ ان کا رخ خدا پرستی سے بالکل مخالف سمت میں تھا مگر چونکہ وہ مذہبی ماحول میں گھرے ہوئے تھے اس لیے وہ ابتدا نیچریت (Naturalism) کو خدا پرستی کے ساتھ نباہتے رہے، مگر جوں جوں وہ اپنے سفر میں آگے بڑھے نیچریت خدا پرستی پر غالب آگئی۔‘‘
مولانا نے اپنی تحریروں میں نہ صرف مغرب کی الٰہیات کو مسترد کیا بلکہ اس کے تصورِ علم اور تصورِ تخلیق پر بھی کڑی تنقید کی۔ بدقسمتی سے آج پاکستان میں اکبر اور اقبال کی مزاحمتی شاعری اور مولانا کی مزاحمتی نثر سے استفادہ کرنے والا کوئی نہیں۔ مولانا کی برپا کی ہوئی جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ تک نہیں۔ یہ صورت حال بہت ہولناک ہے۔ مغرب کی مزاحمت کوئی شاعرانہ لہر یا فکری شوق نہیں، یہ مسلمانوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ مسلمان مغرب کی مزاحمت نہیں کریں گے تو وہ کبھی روحانی، اخلاقی، علمی، تہذیبی اور سیاسی طور پر صحت مند نہیں ہوسکیں گے۔ امام غزالیؒ نے ایک بار فرمایا تھا: اگر آپ زندہ ہیں تو غلط باتوں کی مزاحمت کرنا سیکھیں، کیوں کہ لہروں کے ساتھ لاشیں بہا کرتی ہیں تیراک نہیں۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ مغرب کی مزاحمت نہ کرنے والے ایک ارب 80 کروڑ مسلمان، مسلمان ہیں یا لاشیں؟