ہر معاشرے کی سماجیات کا تانا بانا چند تصورات کے گرد تشکیل پاتا ہے۔ ان میں سے کچھ بنیادی ہوتے ہیں اور کچھ ثانوی‘ تاہم یہ تمام تصورات ایک دوسرے کے ساتھ اس طور پر مربوط ہوتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک تصور میں تبدیلی دوسرے تصور میں تبدیلی کا سبب بنتی ہے۔ یہ تبدیلی مثبت بھی ہوسکتی ہے اور منفی بھی۔
جب کسی معاشرے کا ٹھوس ماحول بدلتا ہے، انسانی رویئے تبدیل ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس معاشرے کا کوئی مرکزی تصور یا تصورات تبدیل ہورہے ہیں۔ زوال آمادہ معاشروں کا ایک مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان معاشروں کے عام افراد تو عام افراد دانشور بھی معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے اسباب معاشرے کے مرکزی تصورات میں ڈھونڈنے کے بجائے معاشرتی اداروں میں تلاش کرتے ہیں جو کہ خود ان مرکزی تصورات کی ہی پیداوار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس وقت ہمارے معاشرے کے ہمہ گیر بحران کا سبب کبھی سیاسی اداروں کے عدم استحکام میں تلاش کیا جاتا ہے کبھی معاشرتی غلامی میں، کبھی سائنس اور ٹیکنالوجی میں دوسروں پر انحصار کو اس کا سبب ٹھہرایا جاتا ہے اور کبھی تعلیمی صورتِ حال کی ابتری کو اور کبھی ان سب کو۔ یہ تصور عام ہے کہ اگر ہم ان سب اداروں کی کارکردگی کو درست کرلیں تو ہمارا معاشرہ جنت کی نظیر پیش کرنے لگے گا۔ میرے نزدیک یہ ایک سادہ دلانہ بلکہ احمقانہ تصور ہے۔
میرے نزدیک ہمارے معاشرے کے ہمہ گیر بحران کا سبب ان اداروں کی شکست وریخت یا بُری کارکردگی نہیں بلکہ اس کا اصل سبب یہ ہے کہ ہمارا تصورِ انسان بدل چکا ہے ہم ایک اعلیٰ تصورِ انسان کو رد کرکے ایک ناقص تصورِ انسان کو اپنا چکے ہیں ہم چاہے اس کا اعتراف کریں یا نہ کریں مگر حقیقت یہی ہے۔ تصور انسان کی یہ بحث ذرا فلسفیانہ سی ہے مگر چونکہ میرے بعض قارئین کو مجھ سے شکایت ہے کہ میرے کالم بڑے ثقیل ہوجاتے ہیں اس لیے میری کوشش ہوگی کہ میں اس بحث کو جہاں تک ممکن ہو سادہ لفظوں میں آپ کے سامنے پیش کروں۔
خاکسار کا خیال ہے کہ ہمارے معاشرے میں ’’اچھے انسان‘‘ کی جگہ ’’کامیاب انسان‘‘ کا تصور رائج و پسندیدہ ہوگیا ہے۔ ہمیں اچھے انسان کی نہیں کامیاب انسان کی ضرورت ہے۔ والدین، بھائی، بہن، احباب غرض یہ کہ پورا معاشرہ کامیاب انسان کا طالب ہے۔ کامیاب انسان ایک آئیڈیل انسان ہے۔
بالعموم یہ ہوتا ہے کہ جب معاشرے کے کسی مرکزی رویئے کو دوسرا رویہ Replace کرتا ہے تو Replace کرنے سے قبل وہ اسے رد کرتا ہے۔ تا کہ اپنے وجود کو منطقی بنیاد فراہم کرسکے۔ لیکن ہمارے یہاں تصور انسانی کے ذیل میں ایسا نہیں ہوا۔ کامیاب انسان کے تصور نے اچھے انسان کے تصور کی جگہ تو لے لی مگر اسے رد نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں ذہنی انتشار کی فراوانی ہے انسان کی فطرت ہے کہ وہ بیک وقت دو یکساں مرکزی رویوں سے وابستہ رہ کر ذہنی طور پر پُرسکون اور صحت مند نہیں رہ سکتا۔
یہاں آپ سوال کرسکتے ہیں کہ ہم نے پہلے یہ کہا کہ ہمارے یہاں کامیاب انسان کا تصور رائج و پسندیدہ ہوگیا ہے جبکہ گزشتہ سطور میں ہم نے کہا ہے کہ ہم لوگ اچھے انسان اور کامیاب انسان دونوں تصورات سے وابستہ ہیں تو اس کا کیا مطلب ہے؟ دراصل اس سے میری مراد یہ ہے کہ اگرچہ عملی طور پر ہم نے کامیاب انسان کے تصور کو قبول کرلیا ہے لیکن چونکہ اس تصور نے اچھے انسان کے تصور کو فلسفیانہ یا منطقی بنیادوں پر رد نہیں کیا ہے اس لیے وہ تصور بھی بحیثیت ایک تصور کے ہمارے ذہنوں میں موجود ہے۔ ہمارے معاشرے کا ذہنی انتشار بنیادی طور پر ان دونوں تصورات کے درمیان کھینچا تانی سے پیدا ہورہا ہے۔
قصہ کوتاہ ہمارے یہاں کامیاب انسان کا تصور رائج ہوگیا ہے۔ یہاں یہ وضاحت کردینا ضروری ہے کہ کامیاب انسان سے مراد سماجی طور پر کامیاب انسان ہے۔ جس میں معاشی پہلو کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
اس کامیاب انسان کا خمیر مقابلے و مسابقت سے اٹھا ہے مقابلے و مسابقت سے جیت اور ہار کے تصورات پیدا ہوتے ہیں۔ مقابلے میں کسی کی جیت کسی کی ہار سے پیدا ہوتی ہے اور کسی کی ہار کسی کی جیت سے نمودار ہوتی ہے۔ جیتنے والا کامیاب اور ہارنے والا ناکام ہوتا ہے یعنی انسان کی اہمیت کا تعین جیت اور ہار سے ہوتا ہے۔
شاید آپ کو معلوم ہو کہ جب ہاکی کا آغاز ہوا تھا تو وہی ٹیم جیتتی تھی جس کے پاس سب سے زیادہ جسمانی طور پر طاقتور لوگ ہوتے تھے۔ کھیل کے اصول و ضوابط ابھی مرتب نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ جو کھلاڑی طاقتور ہوتا ہے وہ دوسری ٹیم کے کھلاڑیوں کو دھکا مکی کرتا ہوا آگے بڑھ کر گول کردیا کرتا تھا البتہ پھر رفتہ رفتہ اس کھیل نے اپنے قوانین پیدا کرلیے۔ قوانین پیدا ہوئے تو کھلاڑیوں کی توجہ قوت سے ہنر کی طرف منتقل ہوئی۔ یوں کھیل میں کرافٹ پیدا ہوا لیکن اس عمل میں خاصا وقت صرف ہوگیا۔
کامیابی اور ناکامی کا کھیل چونکہ ہمارے یہاں ابھی نیا ہے اس لیے اس کا مرکزی اصول بھی قوت ہے۔ دوسرے کو گراکر، کچل کر آگے بڑھنا جائز ہے بقول ندا فاضلی کے؎
یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا
اگر کسی کو گرا کر نکل سکو تو چلو
ممکن ہے کہ کچھ وقت کے بعد یہ کھیل بھی اپنے قوانین پیدا کرلے۔ مگر تجربہ شاہد ہے کہ جن معاشروں میں بھی اس کھیل نے اپنے کچھ قوانین پیدا کرلیے ہیں وہاں بھی انسانی زندگی میں سکون کا زمانہ تو کیا لمحہ بھی پیدا نہیں ہوا کیونکہ بنیادی طور پر یہ ایک غیر انسانی کھیل ہے۔
اب آئیے اس مسئلے کی کچھ اور جہات پر نظر ڈالیں۔ اچھے آدمی کا مسئلہ کم یا زیادہ اچھا ہونا ہوتا ہے۔ ہار یا جیت نہیں اس لیے اس کی زندگی میں نہ جیت کا تکبر ہوتا ہے نہ ہار کی بددلی۔ البتہ زیادہ سے زیادہ اچھائی کی جدوجہد میں ملنے والی کامیابی اور ناکامی سے اسے خوشی اور دکھ حاصل ہوتا ہے مگر اس کی یہ خوشی دوسرے کی ہار سے اور اس کا دکھ دوسرے کی جیت سے پیدا نہیں ہوتا۔ اس کا مقابلہ تو اپنے آپ سے ہی ہوتا ہے اس کی فکر مکالمے سے نہیں خود کلامی سے پیدا ہوتی ہے۔
آپ غور کریں گے تو پائیں گے کہ آپ کے معاشرے کا ہر ادارہ خواہ وہ گھر ہو، یونیورسٹی ہو یا سیاست ہو ایک کامیاب آدمی کے تصور کو Propagate کررہا ہے۔ یوں وہ معاشرے کے ہر فرد کو ایک بے اصول مقابلے و مسابقت کے لیے اکسارہا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ پھر اس سے شکایت بھی کررہا ہے کہ تم ایسے کیوں ہو؟
چنانچہ صاحبو! اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے معاشرے میں تبدیلی آئے تو اپنے تصور انسان کو تبدیل کیجیے۔ میں چونکہ کسی بھی اعتبار سے اس قابل نہیں ہوں اس لیے اہل علم حضرات سے گزارش کرتا ہوں کہ براہ کرم یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ ہمارے معاشرے کا ’تصور خدا‘‘ اور ’’تصور مذہب‘‘ کیا وہی ہے جو کہ کبھی تھا؟ یا ہم نے اس میں بھی کوئی تبدیلی کر ڈالی ہے۔