مذہب کہتا ہے: اہمیت خدا کی ہے، اس کے آگے سر جھکائو۔ مذہب کہتا ہے: دوسری سطح پر اہمیت رسول کی ہے، اسے مانو۔ مذہب کہتا ہے: تیسری سطح پر اہمیت آسمانی ہدایت کی ہے، آسمانی کتاب کی ہے، اسے تسلیم کرو۔ مذہب کہتا ہے: ایک اور سطح پر اہمیت صداقت کی ہے، اسے گردانو۔ مذہب کہتا ہے: ایک اور سطح پر اہمیت آخرت کی ہے، اسے اہم خیال کرو۔ انسانی تاریخ میں عوام کی عظیم اکثریت نے ان تمام باتوں کو آسانی سے تسلیم نہیں کیا۔ تسلیم کیا تو اہمیت سیاسی طاقت اور سیاسی غلبے کو دی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بہترین عہد ہے۔ آپؐ سردار الانبیا تھے، خاتم النبیین تھے، لیکن آپؐ کے عہد میں انسانوں کی پانچ اقسام سامنے آئیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ مبارک میں انسانوں کی پہلی قسم وہ تھی جس نے کسی سوال جواب کے بغیر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاکر دکھایا۔ اس سلسلے میں تین شخصیات خاص طور پر قابل ذکر ہیں: حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت خدیجہؓ اور حضرت علیؓ۔ حضرت ابوبکرؓ ایک روز جب شام کو گھر پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ آپ کے دوست محمدؐ نے نبی ہونے کا دعویٰ کردیا ہے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور دریافت کیا کہ کیا آپؐ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ایسا ہی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے بس اتنا سنا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ارزاہِ تجسس بھی کوئی سوال نہ کیا۔ حضرت خدیجہؓ اور حضرت علیؓ کا معاملہ بھی یہی رہا۔
کچھ لوگ مکّے میں ایسے تھے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نہیں تھے، جو آپؐ کو براہِ راست نہیں جانتے تھے، اُن کے لیے قرآن مجید فرقانِ حمید ہدایت کا سبب بنا۔ اس کی سب سے بڑی مثال حضرت عمرؓ ہیں۔ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے گھر سے نکلے تھے، راستے میں انہیں بتایا گیا کہ پہلے اپنے گھر کی تو خبر لیجیے، آپؓ کی بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہوگئے ہیں۔ حضرت عمرؓ غصے کے عالم میں اپنی بہن کے گھر پہنچے مگر قرآن کی صرف چند آیات سن کر آپؓ پر آشکار ہوگیا کہ اسلام سچا دین اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبیِ برحق ہیں۔ چنانچہ آپؓ فوراً ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ایمان لے آئے۔
مکّے میں انسانوں کی تیسری قسم وہ تھی جس نے ایمان لانے کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا۔ ایسے لوگوں کی بھی دو اقسام تھیں۔ ایک قسم کے لوگ وہ تھے جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ دکھانے کا تقاضا کیا، معجزہ دیکھا اور ایمان لے آئے۔ دوسری قسم اُن لوگوں کی تھی جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا، معجزہ دیکھا اور یہ کہہ کر ایمان لانے سے انکار کردیا کہ یہ تو جادو ہے۔
مکّے میں پانچویں قسم اُن انسانوں کی تھی جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے۔ فتح مکہ کا مطلب تھا اب جزیرہ نمائے عرب کا سیاسی اقتدار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوگا۔ اب ریاست و سیاست، معیشت و معاشرت سب کچھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مٹھی میں ہوگا۔ اس قسم کے لوگوں کی سب سے بڑی مثال خود ابوسفیان تھے۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں فاتحانہ داخل ہوگئے تو ابوسفیان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے روانہ ہونے لگے۔ ان کی بیوی نے کہا یہ تم کیا کررہے ہو؟ ابوسفیان نے جو کچھ کہا اس کا مفہوم یہ ہے کہ تم دیکھ نہیں رہی ہو اقتدار کی کنجی اب محمدؐ کے ہاتھ میں ہے۔ اب جو اُن کے ساتھ ہوگا وہی صاحبِ تکریم ہوگا، جو اُن کے ساتھ نہیں ہوگا وہ ذلیل و خوار ہوگا۔ یہ تنہا ابوسفیان کی رائے نہیں تھی، یہ پورے عالمِ عرب کا تجزیہ تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کہاں تو مکی زندگی کے 13 سال میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چند سو افراد تھے، اور کہاں یہ صورتِ حال پیدا ہوئی کہ روزانہ ہزاروں لوگ مدینہ آکر آپؐ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے لگے۔ اس سے ثابت ہوا کہ عوام کی عظیم اکثریت کے لیے اہمیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدا پرستی کی نہیں تھی، اہمیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کی نہیں تھی، اہمیت قرآن کی نہیں تھی، اہمیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزے کی نہیں تھی، بلکہ اہمیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سیاسی غلبے کی تھی، اہمیت آپؐ کی سیاسی طاقت کی تھی۔ یہاں ہمیں ایک حدیث شریف یاد آئی جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو کام قرآن سے نہیں ہوتا وہ ڈنڈے سے ہوجاتا ہے۔ اقبال نے کہا ہے ؎
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
پھونک ڈالے یہ زمیں و آسمانِ مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
……٭٭٭……
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن
گفتار میں، کردار میں، اللہ کی برہان!
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں، وہ طوفان
ان چیزوں کی اہمیت کی وجہ بھی اقبال نے بتادی ہے۔ اقبال نے کہا ہے ؎
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!
اسلامی تاریخ کا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو اس تاریخ میں سیاسی غلبے کے تصور کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ بلاشبہ ہجرت ایک سطح پر روحانی تصور ہے۔ یہ نفسِ امارہ سے نفسِ مطمئنہ کی طرف مراجعت کا نام ہے۔ لیکن دوسری سطح پر یا خارج میں ہجرت ایک سیاسی تصور ہے۔ اس تصور کی اسلامی تاریخ میں یہ اہمیت ہے کہ حضرت عمرؓ نے سن ہجری کا آغاز ہجرت سے کیا۔ حالانکہ سنِ ہجری کا آغاز نزولِ وحی سے بھی ہوسکتا تھا۔ خود حضرت عمر فاروقؓ کی شخصیت روحانیت، دانش وری کی اعلیٰ ترین سطح اور سیاسی بصیرت کا حسین امتزاج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسا سیاسی استحکام ان کے عہد میں تھا ویسا سیاسی استحکام مسلمانوں کے کسی عہد میں نہیں تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ کی سیاسی بصیرت تھی جس کے باعث ان کے عہد میں وقت کی دو سپر طاقتوں کو مسلمانوں نے منہ کے بل گرا دیا۔ حضرت عمرؓ کی عظمت کا ایک مظہر یہ ہے کہ گاندھی جیسے متعصب ہندو نے کہا ہے کہ اگر اسلام کو ایک اور عمرؓ مل جاتا تو آج پوری دنیا مسلمان ہوتی۔
محمد بن قاسم نے 711ء میں سندھ پر حملہ کیا تو برصغیر میں گنتی کے مسلمان موجود تھے۔ آج برصغیر میں مسلمانوں کی تعداد 60 کروڑ سے زیادہ ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں اور غلط نہیں کہتے کہ برصغیر میں اسلام صوفیہ اور علما نے پھیلایا۔ یہ بات سو فیصد درست ہے، لیکن یہ بات بھی سو فیصد صحیح ہے کہ اگر صوفیہ اور علما کی پشت پر سیاسی طاقت موجود نہ ہوتی تو ہندو کبھی بھی صوفیہ اور علما کو آزادی کے ساتھ کام نہ کرنے دیتے۔ اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر ریاست ہندوئوں کو مسلمان بنانے کی معمولی سی بھی کوشش کرتی تو آج پورا برصغیر مسلمان ہوتا۔
سیاسی غلبہ یا سیاسی طاقت صرف مسلمانوں کی تاریخ میں اہم نہیں رہی۔ پوری دنیا کی تاریخ اس طاقت کے فیصلہ کن کردار پر گواہ ہے۔ بدھ ازم برہمن ازم کے خلاف ایک بغاوت تھا۔ بدھ ازم میں دیوی دیوتائوں کا کوئی سلسلہ نہیں تھا۔ نہ ہی اس میں ذات پات کا کوئی نظام تھا۔ چنانچہ برہمنوں نے اسے بھارت کے قلب یعنی یو پی، سی پی میں نہ پھیلنے دیا، حالانکہ ایک روایت کے مطابق گوتم بدھ بھارتی ریاست بہار کے علاقے ’گیا‘ میں پیدا ہوئے تھے۔ برہمنوں نے بدھ ازم کو ہندوستان کے مضافات میں دھکیل دیا، لیکن ایک وقت آیا کہ ایک ہندو راجا اشوک نے جنگ و جدل سے اکتا اور گھبرا کر ہندوازم چھوڑ کر بدھ ازم اختیار کرلیا۔ اس کے بعد بدھ ازم کو بھارت میں ریاست کی سرپرستی حاصل ہوگئی، چنانچہ بدھ ازم جتنا اشوک کے دور میں پھیلا، اتنا کبھی بھی دوسرے دور میں نہیں پھیلا۔
عیسائیت کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کو اُس دور کے حکمرانوں نے اپنے تئیں پھانسی دے دی، یا صلیب پر لٹکا دیا۔ اس کے ساتھ ہی عیسائیت کی ابتلا کا زمانہ شروع ہوگیا۔ اس ابتلا کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ عیسائیت اپنی کتاب انجیل تک کی حفاظت نہ کرسکی۔ مگر تاریخ کے ایک مرحلے پر سلطنتِ روما نے عیسائیت کو قبول کرلیا، اس کے ساتھ ہی عیسائیت کے احیا اور عروج کا دور شروع ہوا، یوں عیسائیت دیکھتے ہی دیکھتے پورے یورپ کا مذہب بن گئی، کروڑوں انسانوں نے سیاسی طاقت کے سائے میں عیسائیت کو قبول کرلیا۔ روس ایک عیسائی ملک تھا، لیکن 1917ء کے سوشلسٹ انقلاب کے بعد روس کے عوام کی عظیم اکثریت دیکھتے ہی دیکھتے بے خدا اور لامذہب ہوگئی اور انہوں نے سوشلزم کو ایک مذہب کی طرح سینے سے لگالیا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد روس میں جو حکمران برسراقتدار آئے وہ کسی نہ کسی حد تک عیسائی تھے۔ مثلاً روس کے صدر پیوٹن ایک آرتھوڈوکس عیسائی ہیں۔ چنانچہ اب ان کے عہد میں روس کے اندر عیسائیت کا احیا ہورہا ہے، چرچ آباد ہوئے ہیں، عیسائی روایات زندہ کی جارہی ہیں۔ مائو کے سوشلسٹ انقلاب سے پہلے چین کے عوام کی اکثریت چینی مذہب کے زیراثر تھی۔ اس مذہب کی شریعت کنفیوشزم اور طریقت تائو ازم تھا۔ مگر مائو کے سوشلسٹ انقلاب کے آتے ہی کنفیوشزم اور تائو ازم چین کے عوامی منظرنامے سے اس طرح غائب ہوئے جیسے ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ سوشلسٹ انقلاب کی سیاسی طاقت نے دیکھتے ہی دیکھتے عوام کی کایاکلپ کردی اور 100 فیصد عوام سوشلسٹ ہوگئے۔ صرف چین کے مسلمان اپنے مذہب سے چمٹے رہے، مگر اب چین کی ریاستی طاقت اُن کے مذہب کو بھی فنا کرنے کے لیے متحرک ہے۔
انسانی تاریخ میں حکمرانوں کے شخصی اور جماعتی اثرات نے بھی عوام پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے ہیں۔ مغل بادشاہ اکبر کا ذہن مذہبی نہیں تھا، سیاسی تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ہندوستان ہندو اکثریت کا ملک ہے چنانچہ ہندوئوں کو خوش رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ اس نے ایک ہندو عورت سے شادی کی۔ اس سے بھی زیادہ ہولناک حرکت اُس نے یہ کی کہ اسلام کو ترک کرکے ’دینِ الٰہی‘ ایجاد کرلیا۔ دینِ الٰہی مختلف مذاہب کے اصول و ضوابط کا مجموعہ تھا۔ اس کے نتیجے میں دربار اور معاشرے میں بے عقیدگی عام ہوگئی۔ اس کے برعکس اورنگ زیب عالمگیری ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھا۔ وہ ہندوئوں کے بجائے خدا کو خوش کرنے پر یقین رکھتا تھا۔ چنانچہ اس کے عہد میں علما کو دربار میں غلبہ حاصل ہوا، معاشرے میں دین داری کا چلن عام ہوا۔ اس نے ’فتاویٰ عالمگیر‘ مرتب کرکے دین کی بڑی خدمت کی۔ اس سے عوام کے مذہبی شعور میں بہتری پیدا ہوئی۔
حکمرانوں کے حوالے سے خود پاکستان کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے۔ بھٹو لبرل بھی تھے اور سوشلسٹ بھی۔ چنانچہ ان کے دور میں عوام کے اندر مذہب سے انحراف کا رجحان پیدا ہوا۔ بھٹو نے اعلان کیا کہ ہم بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔ بھٹو کے اس بیانیے سے ملک میں بھارت مخالف جذبات اور ایک طرح کی قوم پرستی کو عروج حاصل ہوا۔ بھٹو نے شلوار قمیض کو ’’عوامی سوٹ‘‘ قرار دیا اور اسے زیب تن کیا۔ چنانچہ شلوار اور قمیض دیکھتے ہی دیکھتے عوام و خواص میں مقبول ہوگئے، ورنہ اس سے پہلے یہ صرف عوام کا لباس تھا۔ بھٹو کے برعکس جنرل ضیا الحق مذہبی انسان تھے، وہ روزے نماز کے پابند تھے، چنانچہ ان کی شخصیت کے اثر سے معاشرے میں روزے نماز کا رواج بڑھا۔ جنرل ضیا الحق نعتِ رسولِ مقبولؐ کے عاشق تھے، چنانچہ ان کے دور میں نعت کی صنف اتنی مقبول ہوئی کہ بائیں بازو کے شعرا بھی نعت لکھتے ہوئے پائے گئے۔ جنرل ضیا الحق نے قراردادِ مقاصد کو آئین کا حصہ بنادیا جس سے ریاست کا مذہبی تشخص بہت مضبوط ہوا۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں 14 اگست کو تزک و احتشام کے ساتھ منانے کا آغاز ہوا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
1857ء میں انگریزوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی شکست اپنی اصل میں صرف ’’عسکری شکست‘‘ تھی، مگر سرسید پر انگریزوں کی سیاسی طاقت کا اتنا گہرا اثر تھا کہ انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کی عسکری شکست کو مکمل تہذیبی شکست میں تبدیل کردیا۔ سرسید کے ذہن پر انگریزوں کے سیاسی غلبے نے اتنا گہرا اثر ڈالا کہ انہوں نے قرآن و حدیث کا انکار کردیا۔ انہوں نے تفسیر کی 13 سو سالہ روایت کو مسترد کردیا۔ انہوں نے اجماع کے اصول کو ماننے سے انکار کردیا۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہاکہ عربی، فارسی اور اردو میں کیا رکھا ہے؟ سیکھنا ہے تو انگریزی سیکھو، سیکھنی ہے تو فرانسیسی سیکھو۔ سرسید کی مغلوبیت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے انگریزوں کے تسلط کو اللہ کی رحمت قرار دیا۔
آج پوری دنیا پر مغرب کے سیاسی غلبے کا نتیجہ یہ ہے کہ پوری دنیا کی سیاست مغرب کی سیاست ہے، پوری دنیا کی معیشت کا ماڈل مغربی ہے، پوری دنیا مغربی لباس زیب تن کیے ہوئے ہے، پوری دنیا مغرب کی زبانیں سیکھ رہی ہے، مغرب کی فلمیں دیکھ رہی ہے، مغرب کی موسیقی سن رہی ہے، مغرب کے کھانے کھا رہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ آدھی سے زیادہ دنیا پر سوویت یونین کا سیاسی غلبہ تھا۔ چنانچہ آدھی سے زیادہ دنیا کا سیاسی نظام بھی سوشلزم سے ماخوذ تھا، ان کی معیشت کا ماڈل بھی سوشلزم سے برآمد ہورہا تھا، ان کا تصورِ ادب یہ تھا کہ ادب کو ’’سوشلسٹ ادب‘‘ ہونا چاہیے۔ آج سوویت یونین ٹوٹ چکا ہے، سوشلزم کو فنا ہوئے مدتیں ہوگئی ہیں۔ چنانچہ اب پاکستان جیسے ملکوں میں بھی سابق سوشلسٹ عناصر سوشلزم کو گالیاں دیتے ہیں۔ انہیں اب سابق سوشلسٹ ریاستوں میں کوئی خوبی ہی نظر نہیں آتی۔ وہ کہتے ہیں سوشلزم میں آزادیِ اظہار نہیں تھی، جمہوریت نہیں تھی، آزادی منڈی کی معیشت نہیں تھی۔ کل مغرب کا سیکولرازم اور لبرل ازم ناکام ہوگا تو ایسے کروڑوں لوگ اسے بھی گالیاں دیں گے جو آج سیکولرازم اور لبرل ازم کے گیت گاتے ہیں۔ تاریخ میں عوام کی یہی اوقات ہے، یہی بساط ہے۔