رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر بچہ اپنی فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے مگر اس کے ماں باپ اسے عیسائی یا یہودی بنادیتے ہیں۔
یہ حدیث ِمبارکہ ماحول کی اہمیت اور اس کی قوت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اس حدیثِ پاک کا مفہوم یہ ہے کہ ماحول اتنی زبردست قوت ہے کہ وہ انسان کی فطرت تک کو بدل دیتا ہے۔
ماحول کی قوت یہ ہے کہ انسان جس ماحول میں پیدا ہوتا ہے اسی کا اسیر ہوجاتاہے۔ اس کے ماحول میں جو مذہب ہوتا ہے وہ اسے اختیار کرلیتا ہے۔ اس کے ماحول میں جو زبان بولی جاتی ہے وہ اسی زبان میں کلام کرنے لگتا ہے۔ اس کے ماحول میں جو لباس موجود ہوتا ہے وہ اسی کو زیب تن کرلیتا ہے۔ اس کے ماحول میں جو کھانے میسر ہوتے ہیں وہ انہی کو تناول کرنے لگتا ہے… یہاں تک کہ انسان کے ماحول میں جو برائیاں ہوتی ہیں وہی انسان کا ذوق وشوق بن جاتی ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ماحول انسان کی فطرتِ ثانیہ بن جاتا ہے اور اس فطرتِ ثانیہ میں یہ قوت ہوتی ہے کہ وہ انسان کی اصل فطرت کو بدل سکتی ہے یا اسے مسخ کرسکتی ہے۔
فطرت کے اعتبار سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے قریش اور عرب دنیا کے بہترین انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمانے کا ارادہ کیا تو حضرت جبرائیل ؑ کو زمین پر اس امر کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا کہ اہلِ زمین کے کس خطے، کس قبیلے اور کس خاندان میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا جائے۔ حضرت جبرائیل ؑ نے عربوں، قریش اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کو بہترین قرار دیا۔ حالانکہ عربوں میں طرح طرح کی برائیاں عام تھیں۔ وہ شرک میں مبتلا تھے، ذرا ذرا سی بات پر جنگ کے لیے آمادہ ہوجاتے تھے، شرم اور معاشی بوجھ کے خیال سے لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے۔ لیکن یہ ان کے ماحول کا جبر تھا… ورنہ اہلِ قریش سے بڑھ کر علم پرور، مہمان نواز، دوست دار، فیاض اور شعروادب کا دلدادہ کوئی نہ تھا۔
انبیاء ومرسلین کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہر نبی ماحول کے جبر کو توڑنے اور انسانوں کے لیے ایک نیا ماحول تخلیق کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ غور کیا جائے تو دین کا مقصد یہ ہے کہ حق محض تصور نہ رہے بلکہ وہ مشاہدہ اور تجربہ یعنی انسان کا ماحول بن جائے، اور باطل مشاہدہ اور تجربہ نہ رہے صرف تصور بن کر رہ جائے۔ یعنی باطل انسانوں کا ماحول نہ رہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان نے تاریخ کے ہر دور میں گمراہی کے لیے دلائل ماحول ہی سے اخذ کیے ہیں۔ مثلاً نمرود بادشاہ تھا اور اسی کا غلبہ و تسلط تھا، چنانچہ اس کی رعیت سمجھتی تھی کہ نمرود جو کہتا اور کرتا ہے وہی حق ہے۔ یہی معاملہ فرعون کا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسلام کا پیغام اہلِ مکہ کو پہنچایا تو انہوں نے کہا کہ تم ہمیں ہمارے آبا و اجداد کے راستے سے ہٹارہے ہو۔ ظاہر ہے کہ ان کے آبا و اجداد کا راستہ کفر اور شرک کا راستہ تھا اور یہ چیزیں ان کے ماحول کا حصہ تھیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے کافروں کی ایک دلیل یہ تھی کہ بھلا جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو دوبارہ کیسے زندہ ہوں گے؟ یہ دلیل بھی ماحول کے جبر کا حاصل تھی، ورنہ ان سب کو معلوم تھا کہ ایک وقت تھا کہ وہ اس دنیا میں موجود نہ تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو پانی کی ایک بوند سے انسان میں تبدیل کیا۔ تو جو ہستی پانی کی بوند سے جیتا جاگتا انسان بنا سکتی ہے وہ مٹی سے بھی زندہ انسان اٹھا سکتی ہے۔ لیکن ماحول کا جبر انہیں اس بیّن شہادت کی طرف جانے ہی نہیں دیتا تھا۔ ماحول کی اس اہمیت کے پیش نظر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے برے ماحول کے خلاف جہاد کا حکم دیا ہے۔ اس سلسلے میں آپؐ نے ایمان کے اعتبار سے برائی کی مزاحمت کے تین درجے متعین کیے ہیں:
(1)برائی کی مزاحمت کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان طاقت سے برائی کو روک دے۔ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ برائی فروغ پاتے پاتے اتنی توانا ہوجاتی ہے کہ وہ معاشرے کی سب سے بڑی طاقت بن جاتی ہے اور انسانوں کی عظیم اکثریت طاقت کو پوجنے لگتی ہے، چنانچہ برائی کی منظم طاقت کے خلاف نیکی کی منظم طاقت کا سامنے آنا ضروری ہے تاکہ طاقت سے متاثر ہونے والوں کو معلوم ہوسکے کہ معاشرے میں طاقت کا صرف ایک ہی مرکز نہیں ہے بلکہ نیکی نے بھی معاشرے میں طاقت کا ایک متوازی مرکز پیدا کرلیا ہے اور وہ برائی کے ساتھ اس کی پسند کے میدان میں لڑنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ اسلامی تاریخ میں اس مزاحمت کی سب سے بڑی مثال غزوہ بدر ہے۔ برائی کی طاقت کے مقابلے پر نیکی کی طاقت کے لانے سے برائی کے ماحول کا جبر ٹوٹ جاتا ہے اور ثابت ہوجاتا ہے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے، یعنی اس کی کوئی جڑ بنیاد نہیں ہوتی۔
(2) برائی کی مزاحمت کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ اس کے خلاف زبان سے جہاد کیا جائے۔ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ برائی کا ماحول اپنے جواز کے لیے دلائل و براہین کا ایک نظام پیدا کرلیتا ہے اور انسانوں کی ایک قسم دلائل وبراہین کے اس نظام سے متاثر ہوتی ہے۔ چنانچہ جہاد باللسان کا مقصد برائی سے پیدا ہونے والے ماحول کے دلائل و براہین کے تضادات اور کمزوریوں کو نمایاں کرکے انہیں غیر مؤثر بنانا ہے۔
(3) برائی کے پیدا کردہ ماحول کی مزاحمت کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ آدمی کم از کم برائی کو دل میں برا جائے۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ کہیں ظاہر کے ساتھ ساتھ ہمارے باطن میں بھی برائی کا سکہ نہ چلنے لگے۔ مگر یہ ایمان کا سب سے کمتر درجہ ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ برائی کے ماحول کے جبر کی مزاحمت کیوں دشوار ہوتی ہے؟
اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ جب باطل اپنا ماحول پیدا کرلیتا ہے تو ’’متبادل‘‘ کا شعور معاشرے سے غائب ہوجاتا ہے اور انسانوں کی عظیم اکثریت کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ باطل ہی حق ہے۔ تاریخ کے کسی مرحلے پر معاشرے میں باطل کے مقابلے پر حق ظاہر ہوتا ہے تو وہ اتنا اجنبی محسوس ہوتا ہے کہ انسانوں کی اکثریت کو معاشرے کے خلاف بغاوت بلکہ سازش نظر آتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سردار الانبیاء تھے، مگر آپؐ کے لائے ہوئے پیغام کو ابتداء میں صرف سعید روحوں نے قبول کیا۔
ماحول کے جبر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب برائی ماحول بن جاتی ہے تو وہ لوگوں کے لیے بہت سے مفادات تخلیق کردیتی ہے۔ انسان حق کی طرف راغب بھی ہوتا ہے تو اس کے مفادات آڑے آجاتے ہیں اور ماحول کی مزاحمت دشوار ہوجاتی ہے۔
سیکھنے کے عمل کی ایک دشواری یہ ہے کہ انسان نئی بات آسانی سے سیکھ لیتا ہے مگر پرانی بات کو آسانی سے فراموش نہیں کرپاتا، اور جب تک آدمی پرانی بات کو فراموش نہ کردے، سیکھنے کا عمل مکمل نہیں ہوتا۔ برائی جب ماحول بن جاتی ہے تو اسے فراموش یا Un-learn کرنا دشوار ہوجاتا ہے، اس لیے کہ ماحول کا اثر جذبات اور احساسات تک میں درآتا ہے۔ چنانچہ ماحول کی تبدیلی کھال اتارنے کی طرح تکلیف دہ ہوجاتی ہے۔
ماحول کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ’’حال ‘‘ہوتا ہے اور حال ’’معلوم‘‘ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مستقبل ’’نامعلوم‘‘ ہوتا ہے، چنانچہ جب بھی حال کو چیلنج کیا جاتا ہے اور اس کے مقابلے پر بہتر مستقبل کی بات کی جاتی ہے تو عام لوگوں کی بڑی تعداد نامعلوم کے خوف کے تحت حال یعنی ماحول سے چمٹ جاتی ہے، اِلّا یہ کہ حال بہت ہی مخدوش ہو اور مستقبل کی بہت واضح تصویر سامنے ہو۔
عصرِ حاضر کا معاملہ یہ ہے کہ ہمارے دور میں ماحول کا جبر کسی بھی زمانے کے ماحول کے جبر سے بڑھ گیا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ باطل نے خود کو جس طرح نظام میں ڈھالا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اسلامی معاشروں میں بھی اب ایسے لوگ بڑی تعداد میں مل جاتے ہیں جو دل میں بھی برائی کو برائی خیال نہیں کرتے، بلکہ اب تو ہمارے درمیان ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو برائی کے لیے جواز جوئی کرتے ہیں، یعنی اسے Justify کرتے ہیں، چنانچہ ماحول کا جبر اگر کبھی ہاتھی تھا تو اب وہ ڈائناسور بن چکا ہے۔