آزادی اور غلامی

آزادی کی ضد کیا ہے؟ غلامی… بالکل درست‘ مگر یہ تصورات کی لفظی سطح ہے۔ سوال یہ ہے کہ معنوی اعتبار سے لفظ آزادی کی ضد کیا ہے؟
دراصل آزادی ’’ذمہ داری‘‘ کا نام ہے۔ اگر ذمہ داری نہیں تو آزادی‘ آزادی نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو آزادی کی حقیقی ضد غلامی نہیں ’’غیر ذمہ داری‘‘ ہے مگر یہ بات وضاحت طلب ہے۔
غلامی کے مفہوم کو خواہ روحانی سطح پر متعین کیا جائے یا نفسیاتی سطح پر‘ خواہ اس لفظ کو سیاسی معنوں میں استعمال کیا جائے یا سماجی اور اقتصادی معنوں میں… اس کا سب سے ہولناک اثر بہرحال یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے سلسلے میں غیر ذمہ دار ہو جاتا ہے یہاں تک کہ غیر ذمہ داری کا رجحان ’’عیاشی‘‘ کی سطح کو چھو لیتا ہے۔ معاف کیجیے گا! یہاں عیاشی کا مطلب دادِ عیش دینا یا رنگ رلیاں منانا نہیں بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے وجود اور اپنے جوہر کو کھو دینے کے درپے ہو جائے مگر اسے اس کا احساس تک نہ ہو یا احساس ہو بھی تو اس کے شعور میں اتنی سکت باقی نہ ہو کہ وہ اپنی خواہشات‘ رویوں‘ رجحانات اور آرا و خیالات کی مزاحمت کر سکے۔ عیاشی کی بھی دو سطحیں ہوتی ہیں ایک سطح پر عیاشی میں لذت ہوتی ہے یا معنی ہوتے ہیں۔ دوسری سطح پر عیاشی ’’گناہِ بے لذت‘‘ اور مفہوم سے عاری اور محض ایک مشینی عمل بن جاتی ہے۔ یہ غیر ذمہ داری کے چند نتائج ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ غیر ذمہ داری یا لفظی معنوں میں غلامی کا مفہوم کیا ہے؟
غلامی کا مفہوم یہ ہے کہ زندگی پر میرا اختیار باقی نہ رہا۔ چوں کہ زندگی پر میرا اختیار باقی نہیں رہا اس لیے زندگی کے سلسلے میں میری کوئی ذمہ داری بھی باقی نہیں رہی۔ ذمہ داری ہے تو صرف ان لوگوں کی جو میری زندگی پر اختیار رکھتے ہیں‘ میں جن کا غلام ہوں‘ جو میرے آقا ہیں۔ اس کے برعکس آزادی کا مطلب ہی یہ ہے کہ میری زندگی پر میرا اختیار بحال ہے اور میں اپنی زندگی کی صورت گری کرنے میں آزاد ہوں۔ لیکن زندگی کی صورت گری ازخود نہیں ہو جاتی اس کے لیے ارادے کی قوت اور شعور کی صلاحیت کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ سیاسی معنوں میں دیکھا جائے تو بعض لوگ غلام ہو کر بھی غلامی کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ غلامی کے طوق کو اتار پھینکنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ ان کا یہ فعل اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے غلامی کے زیر اثر اپنی ’’ذمہ داری‘‘ سے دست بردار ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایسے لوگوں کے لیے غلامی بھی غلامی نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو آزادی کو ذمہ داری کے بجائے ہر اصول اور ضابطے سے نجات کا ہم معنی سمجھتے ہیں اور یوں آزادی سے ایک ایسی غیر ذمہ داری کشید کرنے کے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں جو غلامی سے پیدا ہونے والی غیر ذمہ داری سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور ہولناک ہوتی ہے۔ اس کی ایک بہترین مثال پاکستان سے دیارِ مغرب میں جا کر بس جانے والے پاکستانی ہیں۔
یہ ایک عام تجربے اور مشاہدے کی بات ہے کہ بعض لوگ خاص طور پر نوجوان جب امریکا یا یورپ کے کسی ملک میں جا کر آباد ہوتے ہیں تو ان پر اچانک مذہبی رجحان غالب آجاتا ہے حالانکہ وہ اپنے وطن میں خاصے غیر مذہبی رہے ہوتے ہیں۔ تبدیلی کا یہ عمل دو تہذیبوں اور دو معاشروں کے تقابل سے جنم لینے والے شناخت کے مسئلے یا احساس کا نتیجہ ہوتا ہے۔ لیکن ایک دوسری سطح پر احساسِ بیکراں آزادی کے احساس سے پیدا ہونے والی ذمہ داری کی پیداوار ہوتا ہے۔ بیکراں آزادی کے احساس کے دو دائرے ہیں ایک دائرے میں بیکراں آزادی فرد میں خوف پیدا کرتی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس آزادی کے چنگل میں پھنس کر اپنی شناخت گم کر دے گا۔ اس احساس سے فرد میں مزاحمتی رویہ جنم لیتا ہے اور وہ اپنی اس شناخت کی جانب سنجیدگی سے متوجہ ہوتا ہے جس کو کبھی اس نے اہم بھی نہیں سمجھا ہوتا۔ دوسرے دائرے میں آزادی فرد کے لیے انکشاف ذات کا وسیلہ بن جاتی ہے اور اس خول کے پرخچے اُڑ جاتے ہیں جس کو ماحول اور سطحی تجربات و خیالات نے فرد پر مسلط کر دیا ہوتا ہے۔
اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو وطنِ عزیز میں خاصے مذہبی اور اخلاقیات کے بڑے قائل ہوتے ہیں لیکن آزادی کے بیکراں سمندر میں اترتے ہی ان کی بہت سی خوابیدہ یا دبائی گئی خواہشات عود کر آتی ہیں اور ان پر چھا جاتی ہیں کیوں کہ نئے ماحول میں ان پر کوئی سماجی دبائو نہیں ہوتا اور وہ جانتے ہیں کہ ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے والا کوئی شخص موجود نہیں۔ چنانچہ وہ بہت جلد کھل کھیلنے کی منزل تک جا پہنچتے ہیں۔ ایک صورت حال میں افراد کے ردعمل کے اس اختلاف کا انحصار ان کے جوہر‘ خاندانی پس منظر اور تجربات و مشاہدات کے ذخیرے پر ہوتا ہے اور اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ آزادی کا مطلب محض آزادی نہیں۔
جدید مغربی فکر نے ذمہ داری سے بے نیاز آزادی کے تصور کو پروان چڑھایا ہے‘ یہ فکر ذمہ داریوں کو بوجھ قرار دیتی ہے۔ اس فکر کے لیے تمام مابعد الطبیعیاتی تصورات بوجھ ہیں‘ اخلاقی ضابطے بوجھ ہیں۔ جدید نفسیات ہمیں بتاتی ہے کہ فرد کی صحت مند ذہنی اور نفسیاتی نشوونما کے لیے ضروری ہے کہ فرد کی خواہشات کو دبایا نہ جائے۔ ان پر اخلاقی ضابطوں کا بوجھ نہ ڈالا جائے بلکہ انہیں اظہار کی مکمل آزادی دی جائے۔ بوجھ بری چیز ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ انسانوں کی عظیم اکثریت کے لیے بوجھ بھی ضروری ہوتا ہے کیوں کہ جب تک ان کے کاندھوں پر بوجھ نہ ہو وہ خود کو ذمہ دار ہی محسوس نہیں کرتے۔ یہ کوئی اچھی مثال نہیں لیکن کبھی آپ نے بانسری پر غور کیا ہے؟ بانسری کی سطح پر موجود سوراخوں پر انگلیوں کا دبائو رکھا جائے تو اس سے بے ہنگم‘ بے معنی اور سماعت پر بار بن جانے والی آوازیں برآمد ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس بانسری کے سوراخوں پر انگلیوں کے دبائو اور حرکت سے ’’لَے‘‘ پیدا ہوتی ہے‘ نغمہ جنم لیتا ہے‘ آواز میں تناسب اور توازن پیدا ہوتا ہے۔ انسان کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اسے پابند نہ کیا جائے تو اس کی آزادی بالآخر اس کے لیے ایک زنداں بن کر رہ جاتی ہے… اور زنداں تو زنداں ہوتا ہے اس کے دروازے پر آزادی کا بورڈ ٹانگ دینے سے زندان آزادی کے گہوارے میں تبدیل نہیں ہو جاتا ہے لیکن فی زمانہ انسان بورڈ سے خوش ہو جاتا ہے۔ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر دائرے کے دروازے پر ایسے ہی بورڈ آویزاں ہیں۔ ان میں سے ایک بورڈ 14 اگست کا بھی ہے۔
’’پاک سر زمین شاد باد‘‘

 

 

Leave a Reply