عام طور پر لوگ درست سوال کا غلط جواب دیتے ہیں مگر ملک کے معروف کالم نویس حسن نثار کا اعزاز یہ ہے کہ وہ اکثر سوال بھی غلط اٹھاتے ہیں اور اس کا جواب بھی غلط دیتے ہیں۔ ہمارے سامنے اس وقت حسن نثار کے 15 اور 16 مئی 2013ء کے کالم رکھے ہوئے ہیں۔ ان کالموں میں حسن نثار نے پوری دنیا کو جلی کٹی سنائی ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ گزشتہ چند صدیوں میں یورپ کے چند ملکوں اور امریکہ کے سوا ساری دنیا تخلیق‘ تحقیق‘ تعمیر‘ ایجاد‘ دریافت اور اختراع کے حوالے سے اس قدر بانجھ اور بے فیض کیوں ہے؟ انہوں نے اس سوال کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا ہے کہ آخر بنی نوع انسان کو آگے لے جانے کا ’’ٹھیکہ‘‘ صرف چند ملکوں نے کیوں اٹھایا ہوا ہے اور باقی دنیا ان ملکوں کا خون چوسنے والی مخلوق یا ’’پیرا سائٹ‘‘ کیوں بنی ہوئی ہے؟ حسن نثار نے مزید لکھا ہے کہ بجلی‘ ریل‘ کار‘ فون اور کمپیوٹر ہی نہیں ہر ایجاد اور اختراع انہی ملکوں سے آرہی ہے۔ مثلاً Antibiotics جیسی انقلابی دوائیں انہی ملکوں سے آئیں‘ Anaesthesia کا نسخہ انہی ملکوں سے آیا۔ بیکٹریا بھی انہی ملکوں میں سے ایک ملک کے سائنس دان نے دریافت کیا۔ ٹیکے لگانے کے عمل یا Vaccination کی نعمت بھی انہی ملکوں نے مہیا کی۔ خون کے گروپ کی دریافت کا سہرا بھی انہی ملکوں کے سر ہے۔ یہاں تک کہ Vitamin کی دولت بھی انہی ملکوں کی عطا ہے وغیرہ وغیرہ۔ حسن نثار یہ سوال اٹھا کر نہیں رہ گئے بلکہ انہوں نے اپنے قارئین سے ان تمام سوالات کے جواب طلب کیے ہیں۔ چنانچہ ان کے کسی قاری نے کہا کہ ان ملکوں کے لوگ باقی دنیا کے لوگوں سے جینیاتی طور پر یا Geneticaly بہتر ہیں۔ کسی نے کہا کہ ان ملکوں کے لوگوں کی ذہانت ان ملکوں کے موسم کا حاصل ہے۔ کسی نے کہا کہ اصل چیز ان ملکوں کا ’’معیارِ تعلیم‘‘ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام جواب استرداد کے لائق تھے چنانچہ حسن نثار نے انہیں مسترد کر دیا۔ اس کے بعد حسن نثار نے ان سوالات کو اپنا جواب مہیا کیا۔ ذرا دل تھام کر پڑھیے کہ حسن نثار نے اس سوال کا کیا جواب دیا۔ انہوں نے فرمایا: اس کی وجہ ان ملکوں کی کم آبادی ہے۔ اس کے برعکس دوسرے ملکوں اور دوسری اقوام کے بانجھ ہونے کی وجہ ان کی بڑی آبادی ہے۔ اس کو کہتے ہیں کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم نے حسن نثار کے سوال کو غلط کیوں کہا؟
ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے دائرے میں یورپ اور امریکہ کی ترقی کو سلام پیش کرتے ہیں مگر حسن نثار کا یہ خیال سو فیصد سے بھی زیادہ غلط ہے کہ تخلیق و تحقیق اور ایجاد و اختراع کا تعلق صرف سائنس سے ہے۔ آئن اسٹائن 20 ویں صدی کا عظیم ترین سائنس دان ہے اور اس نے کہا ہے کہ تخیل کی اعلیٰ ترین سطح پر شاعری اور سائنس ایک ہو جاتے ہیں۔ اس بات پر اضافہ کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ آئن اسٹائن نے شاعری اور سائنس کو ایک مقام پر اس لیے کھڑا کیا ہے کہ وہ شاعری کی حقیقی عظمت سے آگاہ نہیں تھا۔ وہ شاعری کی سطح پر مطلع ہوتا تو کہتا کہ اعلیٰ ترین شاعری سائنس سے ہزاروں میل آگے کھڑی ہوتی ہے۔ اسی لیے ہماری شعری روایت میں شاعر کو تلمیذ الرحمن یا رحمن کا شاگرد کہا گیا ہے۔ یہی معاملہ حقیقی مذہبی تفکر کا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلم دنیا نے گزشتہ سات‘ آٹھ سو سال کے دوران تخلیق و تحقیق کے دریا بہا دیے ہیں اور ان میدانوں میں بہت بڑی بڑی ’’ایجادات‘‘ و ’’اختراعات‘‘ پیش کی ہیں۔ کسی بھی انسانی تہذیب کی سب سے بڑی عظمت یہ ہے کہ وہ کتنی ’’خدا شناس‘‘ ہے‘ وہ انسان کو کتنا جانتی ہے اور وہ کتنی ’’انسان ساز‘‘ ہے۔ ان سوالوں سے اگر برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کا جائزہ لیا جائے تو حیرت انگیز حقائق سامنے آتے ہیں۔ برصغیر کی ملتِ اسلامیہ نے حالیہ صدیوں میں مجدد الف ثانیؒ‘ معین الدین چشتیؒ‘ نظام الدین اولیاؒ‘ علی ہجویریؒ‘ شاہ ولی اللہؒ‘ مولانا اشرف علی تھانویؒ اور مولانا مودودیؒ پیدا کیے ہیں۔ یہ لوگ ایک جانب خدا شناسی کے بلند ترین مقام پر فائز ہیں‘ دوسری جانب یہ لوگ انسان کے ظاہر و باطن کا بے مثال فہم رکھتے ہیں، تیسری جانب ان کی شخصیتیں انسانیت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہیں، چوتھی جانب انہوں نے اپنے فکر و عمل سے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کرکے انہیں بہتر انسان اور بہتر مسلمان بنایا ہے۔ کیا مغرب نے گزشتہ پانچ سو سال میں ان جیسی کوئی ایک بھی شخصیت پیدا کی؟ برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کو دیکھا جائے تو اس ملت نے گزشتہ پانچ سو سال میں اردو تخلیق کی ہے جو دنیا کی عظیم ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ زبان کی تخلیق کسی فرد یا گروہ کی ایجاد نہیں ہوتی بلکہ پوری قوم‘ اس کی اجتماعی تخلیقی قوت اور اس کا پورا کلچر زبان تخلیق کرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اردو کی تخلیق میں کروڑوں لوگوں کا حصہ ہے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ برصغیر کے چند ہزار یا چند لاکھ لوگ نہیں بلکہ کروڑوں لوگ اعلیٰ تخلیقی صلاحیت کے حامل ہیں‘ اس کے بغیر اردو وجود میں نہیں آسکتی تھی۔ برصغیر کی ملتِ اسلامیہ نے گزشتہ دو سو سال میں تفسیر کا اتنا بڑا علم پیدا کیا ہے کہ یورپ اور امریکہ اس علم کا ایک فیصد بھی پیدا نہیں کرسکے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے گزشتہ تین سو سال میں میر‘ غالب‘ اقبال اور اکبر الٰہ آبادی جیسے عظیم شاعر پیدا کیے ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو ان شاعروں کا تخلیقی جوہر یورپ اور امریکہ کے بڑے سے بڑے سائنس دان سے زیادہ ہوگا‘ کم نہیں۔ فرق یہ ہے کہ میر‘ غالب اور اقبال نے ’’شعر کی سائنس‘‘ تخلیق کی ہے اور یورپ اور امریکہ کے سائنس دانوں نے سائنس کے دائرے میں شاعری کی ہے۔ لیکن شعبوں کے فرق سے ان کی صلاحیتوں میں فرق نہیں کیا جاسکتا۔ تخلیق و ایجاد تو تخلیق و ایجاد ہے‘ خواہ وہ شاعری میں ہو یا سائنس کے شعبے میں۔ لیکن یہ صرف مذہبیات اور شاعری کا معاملہ نہیں‘ مسلمانوں نے کئی اور شعبوں میں بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ تاج محل کو لوگ صرف محبت کی علامت کے طور پر لیتے ہیں، مگر تاج محل فنِ تعمیر کے شعبے میں ایک ایسا انقلاب تھا کہ یورپ اور امریکہ تاج محل کی تعمیر کے زمانے میں تاج محل کی تعمیر کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ حسن نثار اس سلسلے میں کچھ اور نہیں تو تاج محل کے سلسلے میں بنائی گئی نیشنل جغرافک کی دستاویزی فلم ہی دیکھ لیں۔ اہم بات یہ ہے کہ جس وقت تاج محل تعمیر ہورہا تھا‘ اُس وقت عالمِ اسلام میں کوئی آکسفورڈ‘ کیمبرج یا ہارورڈ جیسی یونیورسٹی موجود نہ تھی جہاں سے تعلیم حاصل کرکے کوئی تاج محل تعمیر کرنے کھڑا ہوگیا ہو۔ دراصل مسلم دنیا میں فنِ تعمیر کا اتنا غیر معمولی علم موجود تھا کہ مسلم ماہرین تاج محل جیسا شاہکار تخلیق کرنے میں کامیاب رہے۔ حسن نثار نے شاید کبھی طبِ اسلامی‘ طبِ یونانی اور آیورویدک طریقۂ علاج کے غیر معمولی پن پر غور نہیں کیا۔ دو سو سال پہلے طبِ اسلامی یا طبِ یونانی اتنا ترقی یافتہ تھا کہ اس کے بعض ماہرین نبض دیکھ کر یہ بتا دیتے تھے کہ مریض نے رات کے کھانے میں کیا کھایا ہے۔ آیورویدک طریقۂ علاج کی پشت پر ہزاروں سال کی دانش کھڑی تھی اور یہ طریقہ اپنے زمانے کے تمام امراض کا شافی علاج پیش کررہا تھا۔ اگر برصغیر کے لوگوں کے پاس اپنے زمانے کے امراض کا شافی علاج نہ ہوتا تو کروڑوں افراد پر مشتمل برصغیر مریضوںکا برصغیر ہوتا۔ بلاشبہ طب یونانی اور آیورویدک طریقۂ علاج میں جراحی ترقی یافتہ صورت میں موجود نہیں تھی، لیکن کیا ہر قوم کی ہر چیز کامل ہوتی ہے؟
غور کیا جائے تو حسن نثار کے جواب میں ایک اور نقص ہے۔ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ ہر قوم اور ہر تہذیب کے عروج کا ایک مخصوص زمانہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافتِ راشد کا زمانہ دنیا کی تاریخ کا بہترین زمانہ تھا۔ اس کے بعد مسلمانوں نے گیارہویں صدی سے چودھویں صدی تک مابعدالطبعیات ہی نہیں، طبعیات کے دائروں میں بھی پوری دنیا کی امامت کی۔ اُس زمانے میں یورپ پسماندہ و درماندہ تھا۔ اب اگر اُس زمانے میں کوئی شخص یہ سوال اٹھاتا کہ کیا انسانیت کی ترقی کا سارا بوجھ صرف مسلمان اٹھائیں گے‘ یورپ اس سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گا؟ تو یہ ایک غلط سوال ہوتا، اس لیے کہ اُس زمانے میں یورپ کو جدید علوم کی ہوا بھی نہیں لگی تھی۔ دنیا کے حالیہ منظرنامے کو دیکھا جائے تو جاپان نے پچاس سال میں وہ ترقی کرکے دکھا دی جو یورپ نے دو سو سال میں کی۔ یہاں تک کہ جاپان اپنی ترقی کی بنیاد پر دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر کھڑا ہوگیا۔ چین کی مثال اس سلسلے میں اور بھی غیر معمولی ہے۔ چین نے 35 سال میں وہ ترقی کرکے دکھا دی جو یورپ نے ڈیڑھ سو سال میں کی تھی۔ اسی ترقی کی بنیاد پر اب چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور وہ آئندہ پانچ سال میں امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گا۔ جاپان اور چین پچاس اور پینتیس سال میں امریکہ اور یورپ کی ہمسری کرسکتے ہیں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ آئندہ پچاس سال میں کیا کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ سوال بہرحال اب بھی جواب طلب ہے کہ مغرب نے سائنسی علوم کے دائرے میں جو تخلیقی کارنامے انجام دیے اس کے اسباب کیا ہیں؟ حسن نثار یورپ اور امریکہ سے مرعوب تو بہت ہیں‘ یہاں تک کہ اقبال کی اصطلاح میں انہوں نے اپنی خودی بھی امریکہ اور یورپ کے سپرد کردی ہے‘ مگر بدقسمتی سے انہیں مغرب کی مادی ترقی کے اسباب کی ہوا بھی نہیں لگی۔
مغرب کی مادی ترقی کا اصل راز یہ ہے کہ مغرب نے خدا اور مذہب کا انکار کردیا، چنانچہ اس کی توجہ مابعد الطبعیات سے ہٹ کر صرف طبعیات یا طبعی علوم پر مرکوز ہوگئی۔ اس سے مغرب کی تہذیب میں ایک ایسا ہولناک عدم توازن پیدا ہوا کہ مغرب کی تہذیب حقیقی معنوں میں دجالی یا ایک آنکھ والی تہذیب بن گئی اور مغرب کے بڑے بڑے مفکرین‘ مغربی تہذیب کی موت کا اعلان اور ماتم کرنے لگے۔ مگر مغرب نے اس ہولناک عدم توازن کو ہی اپنی عظمت سمجھ لیا۔ مغرب کی مادی ترقی کا دوسرا سبب یہ ہے کہ مغرب اپنے باطل نظریات کو نظام میں ڈھالنے یا انہیں Systematize کرنے میں کامیاب رہا۔ مغرب کی مادی ترقی کی تیسری وجہ یہ ہے کہ مغرب گزشتہ چار صدیوں میں کسی کا غلام نہیں رہا۔ چنانچہ مغرب کی تمام اقوام اپنی اپنی زبانوں میں علم حاصل کرتی رہیں اور تخلیق کے راستے پر چلتی رہیں۔ انہیں اس عرصے میں اجنبی اور غیر مانوس زبانوں کو سیکھنے کا بوجھ نہیں اٹھانا پڑا۔ مغرب کی غیر معمولی مادی ترقی کا ایک سبب یہ ہے کہ مغرب نے سائنسی علوم کو مذہب کی جکڑ بندیوں سے نجات دلانے والا سمجھا جس کی وجہ سے مغرب کے ذہین لوگ سائنس کے عشق میں مبتلا ہوگئے۔ مغرب کی مادی ترقی کی ایک وجہ یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور سرمائے کے فروغ میں ایک تعلق استوار ہوگیا اور سرمایہ داروں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ہونے والی تحقیق کو کبھی سرمائے کی قلت کا شکار نہیں ہونے دیا۔ مغربی تہذیب کے مجموعی غلبے نے مغربی معاشروں کو دنیا بھر کے ذہین افراد کے لیے اتنا دلکش بنادیا ہے کہ دنیا بھر کی ذہانت مغرب میں جمع ہونے لگی۔ مغرب کی مادی ترقی کا سرسری جائزہ بھی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ مغرب کے ذہین افراد کا بڑا حصہ یہودی النسل ہے، اور یہودیوں کی غیر معمولی ذہانت کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے آسمانی غذا یعنی من و سلویٰ کھائی ہوئی ہے۔ جہاں تک عالمِ اسلام اور باقی دنیا میں مادی علوم کے فروغ نہ پانے کا سوال ہے تو اس کی کئی بنیادی وجوہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوںکی ذہانت مابعد الطبعیاتی علوم کے فروغ پر زیادہ صرف ہوئی ہے کیوں کہ مسلمانوں کے لیے یہ علوم زیادہ اہم ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کے کمزور رہ جانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے دو سو سال غلامی میں بسر کیے ہیں۔ اس طویل زمانے میں مسلمان اپنی تقدیر کے مالک نہ تھے۔ پھر مسلمانوں کے مادی علوم سیکھنے کا مرحلہ آیا تو مسلمانوں کو یہ علوم غیر ملکی زبانوں میں سیکھنے پڑے جس سے ان علوم کی تفہیم کی سطح بہت پست ہوگئی۔ تفہیم کی سطح کے پست ہونے سے تخلیق کی سطح ازخود پست ہوجاتی ہے۔ عہدِ غلامی کے اثر سے مسلم معاشروں میں وسائل کی بھی قلت ہوگئی۔ پھر مسلمانوں کو وہ سیاسی قیادت فراہم ہوئی جو ابھی تک ذہنی و نفسیاتی اعتبار سے مغرب کی غلام ہے۔ اس قیادت کے سامنے کوئی بڑا ہدف ہے ہی نہیں۔ مسلمانوں کو جیسے ہی بہتر قیادت اور بہتر ماحول فراہم ہوگا وہ طبعی علوم میں بھی ماضی کی طرح دنیا کے امام بن کر ابھریں گے۔