یہ انسانی تاریخ کا ایک بہت بڑا تجربہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف صدیوں سے سازشیں ہورہی ہیں، مسلمانوں کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے، مگر ساری دنیا مل کر بھی مسلمانوں کو فنا نہیں کرسکی ہے
ایک وقت تھا کہ انسانوں سے انسان کے اچھے تعلقات کا انحصار دو چیزوں پر ہوتا تھا، ایک یہ کہ انسانوں کی زندگی کتنی خدا مرکز یا God Centric ہے۔ دوسرے یہ کہ انسانوں کی شخصیتیں کتنی محبت مرکز یا Love Centric ہیں۔ جن لوگوں کی زندگی خدا مرکز ہوتی تھی وہ دوسرے لوگوں سے بھی محبت کرتے تھے، ان کا احترام کرتے تھے اور ان کے لیے خیر چاہتے تھے۔ اسی طرح جن لوگوں کی زندگی محبت مرکز ہوتی تھی وہ بھی دوسرے انسانوں کو چاہتے تھے، ان کا احترام کرتے تھے۔ لیکن انسانی تاریخ میں جہاں یہ دونوں معیارات موجود نہیں ہوتے تھے وہاں طاقت کی حرکیات یا Power Dynamics انسانوں سے انسانوں کے تعلقات کا تعین کرتی تھیں۔
مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تاریخ کا بڑا عرصہ خدا مرکز زندگی بسر کرتے ہوئے گزارا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے تاریخ کے ہر دور میں دوسرے مذاہب کے انسانوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا ہے۔ مسلمانوں نے چھے سو سال تک اسپین پر حکومت کی، اس طویل عرصے میں ایک عیسائی کُش یا یہودی کُش فساد نہیں ہوا۔ اس کے برعکس مسلم اسپین میں عیسائی اور یہودی، معاشرے کے بالائی طبقات میں شامل تھے۔ وہ دربار میں موجود تھے، وہ مفکر تھے، فلسفی تھے، دانش ور تھے، شاعر تھے، ادیب تھے، تاجر تھے۔ لیکن جیسے ہی اسپین مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل کر عیسائیوں کے ہاتھ میں آیا، عیسائیوں نے مسلمانوں کے سامنے تین امکانات رکھ دیے: عیسائی ہوجائو، اسپین سے نقل مکانی کرجائو، یا مرنے کے لیے تیار ہوجائو۔ بدقسمتی سے عیسائیوں نے اسپین میں یہ تینوں کام کیے۔
انہوں نے مسلمانوں کو جبراً عیسائی بھی بنایا، انہیں قتل بھی کیا اور انہیں نقل مکانی پر مجبور بھی کیا۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی۔ اس طویل عرصے میں مسلمانوں نے نہ ہندوئوں کے مذہب کو چھیڑا، نہ ان کی تہذیب کو ہاتھ لگایا، نہ ان کی تاریخ کے ساتھ کوئی کھیل کھیلا۔ اس کے برعکس ہندو، درباروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے، فوج میں اعلیٰ مناصب تک پہنچے۔ انہوں نے عربی سیکھی، فارسی سیکھی، اردو سیکھی، اور تینوں زبانوں میں مہارت حاصل کرکے معاشرے کی فکری اور تہذیبی زندگی میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن جیسے ہی طاقت مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلی، ہندوئوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کردیا۔ انہوں نے مسلمانوں کے پرسنل لا میں مداخلت کی، انہوں نے دن دہاڑے بابری مسجد کو شہید کیا۔ ہندوستان میں گزشتہ 75 سال کے دوران پانچ ہزار سے زیادہ چھوٹے بڑے مسلم کُش فسادات ہوچکے ہیں۔ ہندوئوں نے مسلمانوں کی معاشی زندگی کو تباہ کردیا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کی تعلیمی اور سیاسی زندگی کو آگ لگادی ہے۔
مودی بھارت کے وزیراعظم ہیں اور اُن کا تصورِ مسلمان یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو ’’کتے کا پِلاّ‘‘ سمجھتے ہیں۔ ان سے جب ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا آپ کو فسادات میں مسلمانوں کی ہلاکت پر افسوس نہیں ہوتا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اگر آپ کی کار کے نیچے کتے کا پلا آجائے گا تو آپ کو افسوس ہوگا۔ یوگی ادتیہ ناتھ بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کا وزیراعلیٰ ہے۔ اس کی موجودگی میں بی جے پی کے ایک رہنما نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمیں مسلمان عورتوں کو قبروں سے نکال کر ریپ کرنا پڑے تو ہمیں یہ کام ضرور کرنا چاہیے۔
بی جے پی کے رہنما کے اس فقرے پر ادتیہ ناتھ خاموش رہا۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے بدھ مذہب کے ماننے والوں کا بھی کچھ نہیں بگاڑا، مگر میانمر میں بدھ دہشت گردوں نے ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا ہے، سیکڑوں خواتین کی بے حرمتی کی ہے، انہوں نے مسلمانوں کے گھر جلائے ہیں، فصلوں کو آگ لگائی ہے، سات لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو جلا وطن کیا ہے۔ سری لنکا میں بھی بدھسٹوں نے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ انہوں نے مساجد پر حملے کیے ہیں، انہوں نے کورونا سے جاں بحق ہونے والے مسلمانوں کو دفن کرنے کی اجازت نہیں دی، انہوں نے ایسے مسلمانوں کو آگ میں جلوایا ہے۔ مسلمانوں نے اپنی پوری تاریخ میں یہودیوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا ہے، مگر اب گزشتہ 80 سال سے یہودی فلسطین کو مسلمانوں کے لیے جہنم بنائے ہوئے ہیں۔
انہوں نے برطانیہ، امریکہ اور روس کی مدد سے فلسطین میں جبراً اسرائیل کے نام سے یہودی ریاست قائم کردی ہے۔ انہوں نے 50 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو جلا وطن کردیا ہے۔ یہودی مسلمانوں کے قبلۂ اوّل کو نذرِ آتش کرچکے ہیں، انہوں نے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل بنادیا ہے۔ یہودی عورتوں اور بچوں تک کو نہیں بخشتے۔ اسرائیلی فوجیوں نے 2000ء میں ایک سال میں 245 سے زیادہ فلسطینی بچوں کو گولی مار کر شہید کیا۔ اُس وقت یہ بچے یا تو اسکول جارہے ہوتے تھے یا اسکول سے آرہے ہوتے تھے۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ یہ بچے دراصل اسرائیلی فوج اور فلسطینی دہشت گردوں کے درمیان ہونے والی کراس فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔ یورپ خود کو مہذب کہتا ہے، یورپ سیکولرازم کا علَم بردار ہے، اور سیکولرازم صاف کہتا ہے کہ ریاست کا شہریوں کے مذہب اور مذہبی معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔
مگر یورپ کے سب سے لبرل، سب سے زیادہ سیکولر ملک فرانس نے برقعے کیا اسکارف پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ اس نے مسلمان بچوں کی ’’مذہبی‘‘ تعلیم کو ناممکن بنادیا ہے۔ ریاست فرانس نے فرانس کی تمام مساجد کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے، اور اب فرانس کی مساجد میں فرانسیسی کے سوا کسی زبان میں خطبہ نہیں دیا جا سکتا۔ یہ خطبہ بھی مانیٹر ہوتا ہے۔ یورپ میں مسلمانوں کو روحانی، نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی تکلیف سے دوچار کرنے کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون بنائے جارہے ہیں۔ امریکہ اور یورپ مل کر مسلم معاشروں کو سیکولر بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔
امریکہ اور یورپ مسلم ممالک میں اسلامی تحریکوں کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ انہوں نے اخوان کو پورے عالم عرب میں دہشت گرد تنظیم بنا کر کھڑا کردیا ہے، انہوں نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی ہے۔ چین کا تجربہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ چینیوں پر مسلمانوں نے کبھی کوئی ظلم نہیں کیا، مگر آج چین کی ریاست اویغور مسلمانوں سے ان کا مذہب، ان کی تہذیب اور ان کی روایات چھین رہی ہے۔ انہیں کیمپوں میں قید کیا جارہا ہے۔ مسلم خواتین سے ان کے بچے چھینے جارہے ہیں، مسلمانوں کو خصوصی پروگرام کے ذریعے لادین بنایا جارہا ہے۔
یہ انسانی تاریخ کا ایک بہت بڑا تجربہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف صدیوں سے سازشیں ہورہی ہیں، مسلمانوں کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے، مگر ساری دنیا مل کر بھی مسلمانوں کو فنا نہیں کرسکی ہے۔ ایسا کیوں ہوا ہے؟ اس پر اقبال نے اپنی معرکہ آرا نظم ’’ترانۂ ملّی‘‘ میں روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے:
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تُو امتحاں ہمارا
سالارِ کارواں ہے میرِ حجاز اپنا
اس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا
یہ تمام حقائق اپنی جگہ اہم ہیں، مگر یہاں سوال یہ ہے کہ آخر ساری دنیا مسلمانوں سے نفرت کیوں کرتی ہے؟ کیا اس کا سبب خود مسلمان اور ان سے حاصل ہونے والا تاریخی تجربہ ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ مذکورہ بالا سطور میں بتایا جا چکا ہے کہ مسلمانوں نے بحیثیتِ مجموعی آج تک کسی قوم پر ظلم نہیں کیا۔ انہوں نے کسی قوم کے مذہب، اس کی تہذیب، اس کی تاریخ اور اس کی اقدار کی توہین نہیں کی۔ تجزیہ کیا جائے تو مسلمانوں سے دوسری اقوام کی نفرت کا ایک سبب مسلمانوں کے عقائد ہیں۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ دنیا کی ہر قوم کو اللہ تعالیٰ نے توحید کا عظیم الشان تحفہ دیا۔ اسے ایک خدا کی عبادت اور ایک خدا کی پرستش سکھائی۔ قوموں کو کفر اور شرک کا انکار کرنے والا بنایا۔ مگر مسلمانوں کے سوا ہر قوم نے یا تو کفر اختیار کرلیا، یا شرک کو گلے لگا لیا۔ ہندو ازم دنیا کا قدیم ترین مذہب ہے، اس کی مقدس آسمانی کتاب ’وید‘ میں صاف لکھا ہوا ہے کہ خدا صرف ایک ہے، اس کی کوئی شبیہ نہیں ہے، اس کی کوئی مورتی نہیں ہے، مگر ہندوئوں نے اپنی آسمانی کتاب کی تعلیم کے برعکس ایک سطح پر 3 اور دوسری سطح پر 33 کروڑ خدا ایجاد کرلیے۔
انہوں نے اپنے خدائوں کی مورتیاں بنا لی ہیں اور ہندو ان کو پوجتے ہیں۔ اسی طرح عیسائیوں نے خدائے واحد کے دو شریک ایجاد کرکے تثلیث گھڑ لی ہے۔ وہ حضرت عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا کہہ کر انہیں خدا کی خدائی میں شریک کرتے ہیں، اور دوسری جانب وہ حضرت جبرائیلؑ کو بھی خدا کی خدائی میں شریک سمجھتے ہیں۔ یہودی بھی حضرت عزیرؑ کو خدا کا بیٹا بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ بدھ ازم میں خدا کا تصور پس منظر میں دھکیل دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس مسلمان اپنی تمام تر خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود ایک خدا کے تصور کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ ہم نے بعض عیسائی دانش وروں کی ایسی تحریریں پڑھی ہیں جن میں انہوں نے کہا ہے کہ تثلیث کا عقیدہ اتنا برتر و اعلیٰ یا اتنا Sophisticated ہے کہ وہ مسلمان جیسے ’’گنواروں‘‘ کی سمجھ میں آہی نہیں سکتا، مسلمان سمجھ ہی نہیں سکتے کہ ایک خدا تین خدائوں میں کیسے ڈھل سکتا ہے اور تین خدا ایک خدا میں کیسے تحلیل ہوسکتے ہیں۔
ہمیں یاد ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ کے صدر جارج بش کے اسٹار جنرل نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے تصورِ خدا پر براہِ راست حملہ کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ عیسائیت کا خدا اسلام کے خدا سے برتر ہے کیونکہ عیسائیت کے خدا نے پوری انسانیت کی نجات کے لیے اپنے بیٹے یعنی حضرت عیسیٰؑ کو سولی پر لٹکا دیا، اس کے برعکس اسلام کا خدا ایسا خدا ہے جو اپنی عظمت کے اظہار کے لیے مسلمانوں سے جہاد و قتال کی صورت میں قربانی طلب کرتا ہے۔ ان دنوں بھارت کے ہندو دانش وروں کی جانب سے یہ بات کھل کر کہی جارہی ہے کہ اگر مسلمان اپنے تین عقائد بدل لیں تو ان کے ساتھ ہندوئوں کے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں۔ ان کے مطابق مسلمانوں کا ایک عقیدہ یہ ہے کہ وہ ہندوئوں کو ’’کافر‘‘ سمجھتے ہیں۔ ہندو دانش وروں کا کہنا یہ ہے کہ ہندو خدا کو مانتے ہیں اور انہیں ہرگز کافر نہیں کہا جاسکتا۔ یہ مسئلہ اقبال تک کے یہاں موجود ہے۔ اقبال کی نظم ’’زہد اور رندی‘‘ کا ایک شعر ہے:
سنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا
ہے ایسا عقیدہ اثرِ فلسفہ دانی
مطلب یہ کہ اقبال بھی ہندو کو کافر نہیں سمجھتے تھے، چنانچہ ہندو دانش وروں کا مطالبہ ہے کہ مسلمان ہندوئوں کو کافر قرار دینا بند کردیں تو ان کے ساتھ ہندوئوں کے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں۔ دوسری بات ہندو دانش ور یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اسلام ’’ہی‘‘ حق ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ مسلمان ہندوازم کو حق نہیں سمجھتے۔ چنانچہ مسلمانوں کو یہاں بھی اپنے عقیدے میں تبدیلی کرنی ہوگی، انہیں کہنا ہوگا کہ اسلام ’’بھی‘‘ حق ہے۔ ہندو دانش وروں کے مطابق اگر مسلمان ’’ہی‘‘ کو ’’بھی‘‘ سے بدل دیں تو ان کے ساتھ تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں۔ ہندو دانش ور کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کا ایک اور عقیدہ ’’امت‘‘ ہے۔ ہندو دانش وروں کے مطابق جب تک مسلمان ’’قوم‘‘ پر ’’امت‘‘ کو ترجیح دیتے رہیں گے ہندوستان کے ساتھ ان کی وفاداری مشکوک رہے گی۔ ہندو دانش وروں کے مطابق مسلمان امت کے تصور سے دست بردار ہوجائیں تو ہندو انہیں گلے لگا لیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ ساری باتیں محض ’’کہانیاں‘‘ ہیں۔ ہندو مسلمانوں سے دوچار چیزیں نہیں بلکہ پورا مذہب ہی چھڑوانا چاہتے ہیں، مگر ان ’’کہانیوں‘‘ سے اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندو مسلم کشمکش صرف ’’سیاسی‘‘ نہیں ہے، اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔
مسلمانوں کی عظیم اکثریت تو نیند میں چلنے والوں یا Sleep Walkers پر مشتمل ہے، ایسا نہ ہوتا تو مسلمانوں کے حافظے میں یہ بات ہوتی کہ عیسائیوں کی عظیم اکثریت آج بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی نہیں مانتی۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ صدیوں سے توہینِ رسالت کا ارتکاب کررہا ہے۔ وہ کبھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کی تعداد پر اعتراض کرتا ہے، کبھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریاست و سیاست سے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ معاذ اللہ آپؐ کو حکمرانی کا شوق تھا، کبھی وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد سے معاذ اللہ خوں آشامی وابستہ کرتا ہے۔ اصل میں عیسائی یورپ کی نظر میں اصل تصور حضرت عیسیٰؑ کا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ نے نہ شادی کی، نہ جہاد کیا، نہ ریاست قائم کی۔ عیسائی یورپ کو لگتا ہے کہ پیغمبر حضرت عیسیٰؑ جیسے ہوتے ہیں۔ معاذ اللہ محمدؐ جیسے نہیں ہوتے۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ 2009ء میں اس کے پوپ بینی ڈکٹ شش دہم نے توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا تو اس نے یہی کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کو تلوار کے زور سے پھیلایا۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ یورپ نے صلیبی جنگیں ایجاد کیں تو اُس وقت کے پوپ نے اسلام کو معاذ اللہ ’’شیطانی مذہب‘‘ قرار دیا اور کہا کہ عیسائیوں کا فرض ہے کہ وہ شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں۔ یورپ کی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک ہزار سال سے صلیبی جنگوں کی پیدا کردہ ذہنیت کے زیراثر ہے۔
پوپ بینی ڈکٹ شش دہم نے 2009ء میں توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا تھا تو اُس وقت اُن کی ایک خفیہ گفتگو بھی عام ہوئی تھی۔ یہ گفتگو ایک عیسائی وفد اور پوپ بینی ڈکٹ کے درمیان ہوئی تھی۔ عیسائی وفد نے پوپ بینی ڈکٹ سے پوچھا تھا کہ ’’کیا مسلمانوں کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں؟‘‘ پوپ بینی ڈکٹ نے کہا ’’یہ ممکن نہیں۔‘‘ وفد نے اس کی وجہ پوچھی تو پوپ بینی ڈکٹ نے کہا کہ ’’مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس قرآن کی صورت میں Word of God ہے، اس کے برعکس عیسائیوں نے انجیل کو بدل ڈالا ہے اور عیسائیوں کے پاس اب Word of God نہیں ہے‘‘۔ ہندو بھی اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں قرآن اور ویدوں، اور قرآن اور گیتا کا موازنہ کرتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن بھی درست ہے اور وید بھی درست ہیں۔ قرآن بھی عظیم ہے، گیتا بھی عظیم ہے۔ قرآن بھی ذریعۂ نجات ہے اور گیتا بھی ذریعۂ نجات ہے۔
دنیا کی مختلف اقوام بالخصوص مغربی اقوام کو مسلمانوں سے اس لیے بھی نفرت ہے کہ وہ اسلام، اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کو فنا کرنے کے لیے صدیوں سے کام کررہی ہیں مگر نہ اسلام فنا ہوا، نہ اسلامی تہذیب نے دم توڑا، نہ مسلمان اپنی مذہبیت سے دست بردار ہوئے۔ بلاشبہ مسلمانوں میں درجنوں خامیاں ہیں اور ان سے درجنوں کوتاہیاں ہوئی ہیں، مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے ابھی تک نہ اپنے خدا کو چھوڑا، نہ رسولؐ کو ترک کیا، نہ اسلام کو خیرباد کہا۔ مسلمانوں سے مختلف اقوام کی نفرت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو اس وقت روئے زمین پر کوئی طاقت حاصل نہیں، ان کے پاس نہ سیاسی طاقت ہے، نہ معاشی قوت ہے، نہ عسکری صلاحیت ہے، نہ ان کے پاس سائنس ہے، نہ ٹیکنالوجی ہے، یہاں تک کہ مسلمانوں کے پاس کردار کی وہ خوبی بھی نہیں ہے جو کبھی کروڑوں غیر مسلموں کو مسلمان بنایا کرتی تھی۔
اس کے باوجود یورپ اور امریکہ میں ہر سال ہزاروں افراد اسلام قبول کررہے ہیں۔ یہ صرف عام افراد نہیں ہوتے، ان میں دانش ور ہوتے ہیں، موسیقار ہوتے ہیں، صحافی ہوتے ہیں، ڈاکٹر اور انجینئر ہوتے ہیں، معاشی اعتبار سے خوش حال لوگ ہوتے ہیں۔ مغربی اقوام یہ دیکھتی ہیں اور حسد کی آگ میں جلتی ہیں۔ مغربی اقوام مسلمانوں اور اسلام سے اس لیے بھی نفرت کرتی ہیں کہ اسلام آج بھی مسلم معاشروں میں مغربی نظام کا ’’متبادل‘‘ بنا کھڑا ہے۔ مسلمان اسلام پر جتنا عمل کرتے ہیں سب کو معلوم ہے، مگر وہ اپنے ہر مسئلے کا حل اسلام میں دیکھتے ہیں۔