جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد اسلام آباد میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ایک ایسے دور میں جب دل کی جگہ سل نے لے لی ہے دل کا دورہ بھی صاحب دل ہونے کی علامت بن گیا ہے اور قاضی حاحب تو یوں بھی دل والوں کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ تھے۔
مفکر اسلام سید ابو الاعلی مودودیؒ کی شخصیت کے تین پہلو تھے۔ تقویٰ، علم اور سیاسی تحرک۔ مولانا کی شخصیت کے ان تینوں پہلوئوں کا کچھ نہ کچھ اثر مولانا کے بعد امارت پر فائز ہونے والوں پر مرتب ہوا ہے۔ لیکن میاں طفیل محمد ان تینوں پہلوئوں میں تقوے کی سب سے نمایاں علامت تھے۔ یعنی میاں صاحب کو جس طرح مولانا کے تقوے سے حصہ فراہم ہوا کسی اور کو نہیں ہوا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو قاضی صاحب کی شخصیت مولانا مودودیؒ کے سیاسی تحرک یا Political Activism کا استعارہ تھی۔ قاضی صاحب کے اس سیاسی تحرک نے کاروانِ دعوت ومحبت تخلیق کیا۔ قاضی صاحب کے اس سیاسی تحرک نے آئی جے آئی کی سیاسی مہم میں مرکزی کردار ادا کیا۔ قاضی صاحب کے اس سیاسی تحرک نے پاکستان اسلامی فرنٹ کا تجربہ ایجاد کیا۔ قاضی صاحب کے اس سیاسی تحرک نے پاسبان کی صورت گری کی۔ قاضی صاحب کے سیاسی تحرک نے متحدہ مجلس عمل کی بنیاد فراہم کی۔ ان تمام چیزوں نے جماعت اسلامی کی سیاسی اہمیت میں بے پناہ اضافہ کیا۔ یہ قاضی صاحب کی بڑی کامیابی تھی مگر اس بڑی کامیابی کی ناکامی یہ تھی کہ سیاسی تحرک مولانا مودودیؒ کی شخصیت کا جز تھا لیکن قاضی صاحب نے اس جز پر اتنی توجہ مرکوز کی اور اس پر اتنا اصرار کیا کہ جز کل بن گیا۔ ہم نے کئی بار قاضی صاحب سے عرض کیا کہ بلاشبہ جماعت اسلامی میں پڑھنے لکھنے کی صورت حال دوسری جماعتوں سے بدرجہا بہتر ہے مگر اس کی سطح وہ نہیں ہے جو ہونی چاہیے۔ قاضی صاحب کو اس مسئلے کا علم تھا اور وہ کہتے تھے کہ بلاشبہ جماعت اور جمعیت میں مطالعے کا رحجان کم ہوا ہے مگر وہ اس مسئلے کو بہت بڑا مسئلہ نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ سیاسی جماعت کے لیے اصل چیز تحرک یا Activism ہے اور اس Activism سے ہر کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ ان کے اس نقطۂ نظر کی وجہ یہ تھی کہ وہ ’’صاحب عمل‘‘ تھے اور اکثر صاحبِ عمل لوگوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ’’عمل‘‘ کو ہر چیز کا نعم البدل سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عمل کی بنیاد ’’علم‘‘ ہوتا ہے جیسا جس کا علم ہوتا ہے ویسا اس کا عمل ہوتا ہے۔ صحیح عمل کے لیے صحیح علم ناگزیر ہے اور علم کے لیے مطالعہ ناگزیر ہے۔
قاضی صاحب ملک کے واحد سیاست دان تھے جو اقبال کی اردو اور فارسی شاعری پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔ انہیں اقبال کے سیکڑوں اشعار یاد تھے اور وہ اپنی تحریروں میں اقبال کا حوالہ اس سہولت اور برجستگی کے ساتھ دیتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی۔ اقبالیات کے سلسلے میں ان کا علم اور فہم اقبال کے بہت سے ماہرین سے بھی زیادہ تھا۔ اقبال سے ان کا تعلق ادبی نہیں نظریاتی تھا۔ یعنی وہ اقبال کے فن سے زیادہ اس کے نظریات سے دلچسپی رکھتے تھے اور یہ دلچسپی زندگی کے کسی ایک دور سے متعلق نہیں تھی بلکہ انہوں نے اپنی عمر کے ایک بڑے حصے میں اقبال کو پڑھا اور جذب کیا تھا۔ اقبال کی تفہیم کے سلسلے میں قاضی صاحب کی غیر معمولی لسانی اہلیت کا بھی دخل تھا۔ پشتو قاضی صاحب کی مادری زبان تھی لیکن وہ اردو بھی اہل زبان کی طرح بولتے اور لکھتے تھے۔ ان کی فارسی زبان کی اہلیت اتنی اور ایسی تھی کہ وہ اقبال جیسے شاعر کے کلام کو فارسی میں پڑھ سکتے تھے۔ انگریزی اور عربی بھی قاضی صاحب کو اچھی خاصی آتی تھی۔ اتنی زبانوں کا علم اب اہل سیاست کیا علماء اور دانش وروں میں بھی کمیاب ہے۔
اقبال اور مولانا مودودیؒ کی فکر اور جماعت اسلامی کی جدوجہد نے قاضی صاحب کی شخصیت میں ایک ایسی بین الاقوامیت پیدا کردی تھی جو ہر اعتبار سے تحریک اسلامی کے رہنما کے شایان شان ہے۔ قاضی صاحب کو اس بین الاقوامیت پر بعض لوگ یہ کہہ کر تنقید کرتے تھے کہ ہمیں باہر سے زیادہ اپنے ملک کی پروا ہونی چاہیے اور یہ کہ ہم بیرونی دنیا پر بہت زیادہ توجہ کر کے اسلام دشمن طاقتوں کو خوامخواہ اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ مگر قاضی صاحب کبھی اس طرح کے تجزیوں کو خاطر میں نہیں لائے اور وہ اسلامی تحریکوں سے قریبی تعلقات اور امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے آخری وقت تک سرگرم عمل رہے۔