امریکہ کے سابق اعلیٰ اہلکار جان بولٹن کا اعتراف
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن نے سی این این کے اینکر جیک ٹیپر کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ وہ دنیا کے مختلف ممالک میں حکومتیں تبدیل کرانے کے عمل میں شریک رہے ہیں۔ جیک ٹیپر نے اس سلسلے میں مثال پیش کرنے کو کہا تو جان بولٹن نے انہیں بتایا کہ میں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ انہوں نے وینزویلا کے صدر نکولس مدورو کو اقتدار سے ہٹانے کی منصوبہ بند کی تھی۔ جان بولٹن کے بقول انہوں نے اس سلسلے میں وینزویلا کی حزب اختلاف کے قائد جوآن گائیڈو کو برسراقتدار لانے کی کوشش کی تھی مگر یہ کوشش بارآور ثابت نہ ہوسکی۔
جان بولٹن نے یہ اعتراف بھی کیا کہ واشنگٹن نے متعدد مرتبہ حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لئے وہاں کی اپوزیشن جماعتوں کو منصوبہ بندی کے حوالے سے مدد فراہم کی۔ جان بولٹن نے یہ اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ حکومتوں کا تختہ الٹنے کا عمل مذاق نہیں، یہ ایک محنت طلب کام ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ کام ڈونلڈ ٹرمپ کے بس کا نہیں تھا۔ جان بولٹن کے اس اعتراف پر امریکہ میں ہنگامہ برپا ہوگیا ہے۔ امریکی کانگریس کی مسلم رکن الہان عمر نے کہاکہ جان بولٹن اسی طرح کی کوششوں کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔
امریکہ کے سینیٹر کرس مرفی نے کہاکہ وینزویلا میں حکومت کی تبدیلی سے متعلق جان بولٹن کا منصوبہ بدترین ناکامی سے دوچار ہوا تھا۔ امریکی ذرائع ابلاغ میں بھی جان بولٹن کے اعتراف کے حوالے سے تبصرے اور تجزیے جاری ہیں۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے بقول جان بولٹن نے عراق پر بھی حکومت کا تختہ الٹنے کی تجویز دی تھی۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق جب 2004ء میں جان بولٹن اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا حصہ تھے تو ان پر ہیٹی کے صدر کا تختہ الٹنے کا الزام عائد ہوا تھا۔ نیویارک ٹائمز کے بقول فرانس کے سفیر نے اعتراف کیا ہے کہ ہیٹی میں امریکہ اور فرانس نے مل کر صدر کا دھڑن تختہ کیا تھا۔
مذاہب کی تاریخ میں نمرود کی نمرودیت بدنام زمانہ ہے مگر نمرود کا جبر و استحصال مقامی تھا۔ امریکہ عہد حاضر کا ایک ایسا نمرود ہے جس کا جبر و استحصال بین الاقوامی ہے۔ مذاہب کی تاریخ میں فرعون کی فرعونیت کا بھی ذکر ہے مگر فرعون کی فرعونیت مقامی تھی۔ امریکی عصر حاضر کا ایسا فرعون ہے جس کی فرعونیت عالمگیر ہے۔ امریکہ کے ممتاز دانش ور نوم چومسکی امریکی بھی ہیں اور یہودی بھی مگر اس کے باوجود وہ امریکہ کو ’’بدمعاش ریاست‘‘ کہتے ہیں۔
نوم چومسکی صرف امریکہ کو بدمعاش ریاست باور کراکے نہیں رہ جاتے وہ امریکہ کی بدمعاشیوں کی تاریخ بھی بیان کرتے ہیں۔ نوم چومسکی امریکہ کے حوالے سے جو کچھ کہتے ہیں اس کا لب لباب قرآن کی اصطلاح میں یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بحر و بر میں فساد برپا کردیا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی نہ صرف یہ کہ عالمی سیاست کو کنٹرول کررہے ہیں بلکہ عالمی معیشت بھی ان کی مٹھی میں ہے۔ وہ جہاں چاہتے ہیں اپنی مرضی کی حکومت لے آتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں حکومت کے خلاف بغاوت کرادیتے ہیں۔
امریکہ کے ہولناک عالمی کردار کے حوالے سے ہم نے ایک بار عرض کیا تھا کہ اگر ہمیں شیطان اور امریکہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہی پڑے تو ہم شیطان کا انتخاب کریں گے، اس کی دلیل یہ ہے کہ شیطان کی شیطنت سے اربوں انسان آگاہ ہیں، مگر امریکہ کی شیطنت کا شعور عام نہیں، دنیا میں اربوں انسان امریکہ کو ترقی کی علامت سمجھتے ہیں، خوش حالی کا استعارہ گردانتے ہیں۔ بدقسمتی سے امریکہ کا حال ہی شیطنت میں ڈوبا ہوا نہیں ہے اس کا ماضی بھی شیطنت میں غرق ہے۔ سوسین سونٹیگ امریکہ کی ممتاز دانش ور تھیں۔
انہوں نے برطانیہ کے معروف اخبار گارجین میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا کہ امریکہ کی بنیاد نسل کشی پر رکھی ہوئی ہے۔ امریکہ کے کئی ممتاز سیاست دانوں نے سوسین سونٹیگ کو ’’غدار‘‘ قرار دیا اور کہاکہ ان پر غداری کا مقدمہ چلنا چاہئے۔ لیکن سوسین سونٹیگ نے جو بات کہی تھی وہ غلط نہ تھی۔ امریکہ کی بنیاد درحقیقت نسل کشی پر رکھی ہوئی ہے اور نسل کشی بھی معمولی نوعیت کی نہیں ہے۔ مغربی دنیا کے ممتاز دانش ور مائیکل مان نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’ڈارک سائیڈ آف دی ڈیمو کریسی‘‘ میں لکھا ہے کہ سفید فاموں نے امریکہ پر قبضے کے بعد وہاں کے 8 سے 10 کروڑ لوگوں کو قتل کیا۔
امریکہ سفید فاموں کا ملک نہیں تھا۔ امریکہ ریڈ انڈینز کا ملک تھا مگر سفید فاموں نے امریکہ پر قبضے کے بعد اس کے اوریجنل باشندوں کی نسل کشی شروع کی اور چند دہائیوں میں 8 سے 10 کروڑ لوگ مار ڈالے۔ مثل مشہور ہے افراد اور قوموں کا آغاز ہی ان کا انجام ہوتا ہے۔ سفید فاموں نے 8 سے 10 کروڑ ریڈ انڈینز کے قتل عام کے بعد پوری دنیا کا رخ کیا اور انہوں نے بیسویں اور اکیسویں صدی میں دنیا کے اندر وہ تباہی مچائی جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ امریکہ نے کوریا کی جنگ میں 30 لاکھ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، ویت نام کی جنگ میں امریکہ نے دس برسوں میں دس لاکھ ویتنامیوں کو مار ڈالا۔ امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جس نے جاپان کے خلاف ایک نہیں دو ایٹم بم استعمال کئے اور وہ بھی کس حال میں؟ امریکہ کے ممتاز دانش ور ہاورڈزن نے اپنی تصنیف ’’پیپلز ہسٹری آف دی یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ‘‘ میں لکھا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے آخری ایام میں امریکی فوج نے جاپانی فوج کے وہ پیغامات پکڑلئے تھے جن میں بتایا گیا تھا کہ جاپانی فوج امریکہ کے خلاف لڑنے کے قابل نہیں رہی اور وہ ہتھیار ڈالنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ مگر اس کے باوجود امریکہ نے جاپان پر ایک نہیں دو ایٹمی حملے کئے۔
جہاں تک حکومتیں گرانے اور بدلنے کے معاملے کا تعلق ہے تو امریکہ نے پوری دنیا کو مدتوں سے اپنی چراگاہ بنایا ہوا ہے۔ امریکہ نے 1954ء میں ایران کے صدر مصدق کی حکومت کو گرادیا۔ مصدق کا جرم یہ نہیں تھا کہ انہوں نے امریکہ کے ٹوئن ٹاورز گرادیئے تھے یا لندن پر حملہ کردیا تھا، مصدق کا ’’جرم‘‘ یہ تھا کہ انہوں نے اپنے ملک کی تیل کی صنعت کو قومیالیا تھا اور اس عمل سے امریکہ اور برطانیہ کے ملٹی نیشنلز اداروں کے مفادات پر زک پڑتی تھی۔ چنانچہ امریکہ نے لاکھوں ڈالر خرچ کرکے ایران میں صدر مصدق کے خلاف مظاہرے کرائے۔ امریکہ کے ممتاز اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ نے 1947ء سے 1989ء تک دنیا کی 72 حکومتوں کو گرانے کی سازشیں کیں۔
ان سازشوں میں 66 سازشیں خفیہ تھیں جبکہ 6 بار امریکہ نے کھل کر حکومتیں گرانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ کی 66 خفیہ کوششوں میں سے 26 کامیاب اور 40 ناکام ہوئیں۔ امریکہ نے مختلف ادوار میں مختلف ممالک کی حکومتیں گرانے کے لئے فوجی بغاوتوں کا سہارا لیا۔ ان میں 14 میں سے 9 بغاوتیں کامیاب ہوئیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ امریکہ نے 16 ممالک میں خفیہ سرمائے اور پروپیگنڈے کے ذریعے انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ ان کوششوں میں سے 75 کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہوئیں۔ واشنگٹن پوسٹ ہی کی ایک خبر کے مطابق امریکہ نے 1954ء ہی میں گوئٹے مالا کے جیکب آربینز کی منتخب حکومت کے خلاف بغاوت منظم کی۔ اس سلسلے میں امریکی سی آئی اے نے مرکزی کردار ادا کیا۔ سی آئی اے کی بغاوت کی مہم اتنی موثر تھی کہ جیکب آربینز اقتدار پر گرفت قائم نہ رکھ سکے۔
1981ء میں امریکہ نے نکارا گوا کی منتخب حکومت کو اقتدار سے محروم کیا۔ امریکہ کے فارن پالیسی میگزین کے مطابق امریکی سی آئی اے نے ایک دھماکا خیز سگار کے ذریعے کیوبا کے انقلابی رہنما فیڈل کاسترو کو ہلاک کرنے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔ 1960ء میں امریکی سی آئی اے کانگو کے پہلے منتخب وزیراعظم پیٹرس لوا ممبا کو برطرف کرادیا۔ سی آئی اے نے اس سلسلے میں کانگو کے صدر کاسا بُوبُو کو استعمال کیا۔ 1963ء میں امریکہ نے ویت نام میں نگوڈن ڈیم کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کرادی۔ امریکہ نے 1964ء میں برازیل میں جاوا کولاٹ کی حکومت کو گرادیا۔ کولاٹ کا ’’جرم‘‘ یہ تھا کہ وہ چین کے انقلاب سے متاثر تھے اور اس کے مطابق برازیل کی ترقی چاہتے تھے۔
مسلم دنیا میں حکومتیں گرانے، بنانے اور حکمرانوں کو راستے سے ہٹانے کا کھیل بہت پرانا ہے۔ شاہ فیصل کو اگرچہ ان کے بھتیجے نے شہید کیا مگر باخبر لوگوں کی عظیم اکثریت کا خیال ہے کہ شاہ فیصل کی شہادت کی پشت پر امریکی سی آئی اے موجود تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شاہ فیصل نے تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے پوری مغربی دنیا کو ہلا دیا تھا۔ شاہ فیصل کہنے کو بادشاہ تھے مگر ان میں دینی حمیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ انہوں نے ایک روز امریکہ کے سفیر کو دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ شاہ فیصل نے دوپہر کے کھانے کے لئے صحرا میں خیمہ نصب کرایا۔ انہوں نے امریکی سفیر کو ’’لنچ‘‘ میں چند کھجوریں اور قہوے کا ایک کپ پیش کیا اور کہاکہ ہمارے آبا و اجداد کی زندگی اتنی قلیل غذا پر ہوتی تھی اور ہم اپنے بزرگوں کے وارث ہیں۔
چنانچہ مغربی دنیا ہمیں اس بات سے نہ ڈڑایا کرے کہ وہ ہمارے تیل پر قبضہ کرلے گی۔ اس سے پہلے کہ مغربی دنیا ہمارے تیل کے کنوئوں پر قبضہ کرے ہم اپنے تیل کے کنوئوں کو خود آگ لگادیں گے۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ہمیں کھانے کے لئے جو کھجوریں اور پینے کے لے جو قہوہ درکار ہے وہ ہم تیل کے بغیر بھی پیدا کرلیں گے، البتہ مغربی دنیا کو سوچنا چاہیے کہ جب تیل نہیں رہے گا اس کی ترقی کا کیا بنے گا۔ شاہ فیصل کی یہ فکر انقلابی تھی اور امریکہ اسے کیسے ہضم کرسکتا تھا۔ یہ امر بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان میں اسلامی ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس کی پشت پر بھی شاہ فیصل ہی موجود تھے چنانچہ مغرب کے لئے شاہ فیصل کو راہ سے ہٹانا ناگزیر ہوگیا تھا۔
بھٹو صاحب کا جرم یہ تھا کہ وہ کہا کرتے تھے ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔ بھٹو کا خیال تھا کہ اگر پاکستان کا ایٹم بم اور عربوں کا پیٹروڈالر مل گیا تو مسلم دنیا ایک بڑی طاقت بن سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو دھمکی دی تھی کہ ہم تمہیں ایک عبرت ناک مثال بنادیں گے۔ جنرل ضیا الحق افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد کے وقت امریکہ کے اتحادی تھے مگر بعدازاں وہ امریکہ سے آزاد ہوکر سوچنے لگے۔ انہوں نے کشمیر میں جہاد کے عمل کو آگے بڑھایا۔ وہ افغانستان کے حال اور مستقبل کے حوالے سے بھی امریکہ سے الگ سوچتے تھے۔ چنانچہ امریکہ ان کی جان کے لالے ہوگیا۔ جنرل ضیا الحق نے اپنے طیارے کے حادثے سے پہلے ملک میں اپنی نقل و حرکت محدود کردی تھی مگر امریکہ نے ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ میں نقب لگا کر جنرل ضیا الحق کے طیارے کو اڑا دیا اور اپنے سفیر کی قربانی دے دی۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ امریکہ ہی نے مصر میں صدر مرسی کی حکومت کو برطرف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکہ نے جنرل سیسی کے اقتدار پر قبضے کو مارشل لا تسلیم نہیں کیا کیونکہ پھر امریکہ کو مصر پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنی پڑ جاتیں۔ ترکی کے صدر ایردوان کے خلاف فوجی بغاوت کی پشت پر بھی امریکہ ہی موجود تھا۔ صدر ایردوان نے کھل کر کہاکہ امریکہ اپنے یہاں موجود فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کرے کیونکہ وہ فوجی بغاوت کے ذمے دار ہیں۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان کا یہ شور و غوغا کہ امریکہ نے ان کی حکومت کے خلاف سازش کی اور مقامی کرداروں کو استعمال کیا قابل فہم بات ہے۔ جان بولٹن نے اب سرعام کھل کر اس بات کا اعتراف کرلیا ہے کہ امریکہ مختلف ممالک میں بغاوت کراتا ہے اور ناپسندیدہ حکومتوں کو گراتا ہے۔ جان بولٹن سابق امریکی صدر کے قومی سلامتی کے مشیر ہی نہیں تھے وہ اقوام متحدہ میں امریکہ کے سفیر بھی رہے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جان بولٹن امریکہ کے گھر کے بھیدی ہیں اور ان کی گواہی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔