انسانی تاریخ میں فرد کا انقلابی کردار

انقلاب سیاسی ہو یا فکری، مذاق نہیں ہوتا۔ اس کے لیے زمانے کا رُخ موڑنا پڑتا ہے، ایک نئے شعور کی آبیاری کرنی پڑتی ہے۔

یہ خیال عام ہے کہ تاریخ کو عوام اور ان کی طاقت نے بدلا ہے۔ فرانس میں انقلاب عوام نے برپا کیا، روس کا انقلاب عوام کی قوت سے آیا، چین کے انقلاب کی پشت پر بھی عوام تھے۔ لیکن یہ خیال جتنا عام ہے اس سے زیادہ غلط ہے۔ تاریخ کو عوام نے نہیں بلکہ خاص انسانوں نے بدلا ہے۔ تاریخ کا طویل سفر عوام کا نہیں، فرد کی انقلابی جدوجہد کا حاصل ہے۔

تاریخ کے عظیم انسان انبیاء و مرسلین ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ کفر اور شرک کے حاضر و موجود کو چیلنج کیا۔ انہوں نے ہمیشہ وقت کی غالب قوت سے پنجہ آزمائی کی۔ حضرت ابراہیمؑ ایک فرد تھے، ان کے پاس نہ ریاست کی طاقت تھی، نہ فوج کی قوت۔ ان کے پاس قوم کی اجتماعی طاقت بھی نہیں تھی، مگر اس کے باوجود انہوں نے نمرود اور اس کے حاضر و موجود کو چیلنج کیا۔ حضرت موسیٰؑ کے پاس بھی نہ ریاست تھی، نہ فوج تھی، نہ قوم تھی، مگر اس کے باوجود انہوں نے فرعون کی فرعونیت کو چیلنج کیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں عربوں کا کیا حال تھا اس کی جھلکیاں حالیؔ نے اپنی مسدس میں دکھائی ہیں:

عرب جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا
جہاں سے الگ اک جزیرہ نما تھا
زمانے سے پیوند جس کا جدا تھا
نہ کشورستاں تھا نہ کشور کشا تھا
تمدن کا اس پر پڑا تھا نہ سایا
ترقی کا تھا واں قدم تک نہ آیا
٭٭
نہ آب و ہوا ایسی تھی روح پرور
کہ قابل ہی پیدا ہوں خود جس سے جوہر
نہ کچھ ایسے سامان تھے واں میسر
کنول جس سے کھل جائیں دل کے سراسر
نہ سبزہ تھا صحرا میں پیدا نہ پانی
فقط آبِ باراں پہ تھی زندگانی
٭٭
زمیں سنگلاخ اور ہوا آتش فشاں
لوئوں کی لپٹ بادِ صرصر کے طوفاں
پہاڑ اور ٹیلے سراب اور بیاباں
کھجوروں کے جھنڈ اور خارِ مغیلاں
نہ کھیتوں میں غلہ نہ جنگل میں کھیتی
عرب اور کُل کائنات اس کی یہ تھی
٭٭
نہ واں مصر کی روشنی جلوہ گر تھی
نہ یونان کے علم و فن کی خبر تھی
وہی اپنی فطرت پہ طبع بشر تھی
خدا کی زمیں بن جتی سر بسر تھی
پہاڑ اور صحرا میں ڈیرا تھا سب کا
تلے آسماں کے بسیرا تھا سب کا
٭٭
کہیں آگ پجتی تھی واں بے محابا
کہیں تھا کواکب پرستی کا چرچا
بہت سے تھے تثلیث پر دل سے شیدا
بتوں کا عمل سو بسو جا بجا تھا
کرشموں کا راہب کے تھا صید کوئی
طلسموں میں کاہن کے تھا قید کوئی
٭٭
نہ ٹلتے تھے ہرگز جو اڑ بیٹھتے تھے
سلجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے
جو دو شخص آپس میں لڑ بیٹھتے تھے
تو صدہا قبیلے بگڑ بیٹھتے تھے
٭٭
قبیلے قبیلے کا بت اک جدا تھا
کسی کا ہبل تھا کسی کا صفا تھا
یہ عزا پہ وہ نائلہ پر فدا تھا
اسی طرح گھر گھر نیا اک خدا تھا
نہاں ابرِ ظلمت میں تھا مہرِ انور
اندھیرا تھا فاران کی چوٹیوں پر
چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اک لوٹ اور مار تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ
٭٭
وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے

یہ عربوں کی حالت کی ایک سچی تصویرکشی ہے۔ مگر یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برپا کردہ انقلاب نے کافروں اور مشرکوں کو سب سے بڑا توحید پرست بنادیا۔ وہ جو تہذیب سے عاری تھے، وہ تہذیب و تمدن میںدنیا کے امام بن کر ابھرے۔ جن کی زندگی رزائل میں لتھڑی ہوئی تھی، وہ اخلاق کا اعلیٰ ترین نمونہ بن کر ابھرے۔ انہوں نے ریاست، سیاست، معیشت، معاشرت، آرٹ اور کلچر میں صدیوں تک دنیا کی امامت کی۔

حضرت عمرؓ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدا کردہ شخصیت تھے۔ وہ کبھی صرف عمر ابنِ خطّاب تھے مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ نے انہیں ’’فاروقِ اعظمؓ‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ انہوں نے اپنے دورِ خلافت میں وقت کی دو سپر پاورز کو منہ کے بل گرا دیا، انہوں نے اسلامی کلینڈر کی بنیاد رکھی اور اس کا آغاز ہجرت سے کیا۔ انہوں نے باقاعدہ نمازِ تراویح کی بنیاد رکھی، انہوں نے اسلامی ریاست کے افراد کا وظیفہ مقرر کیا، انہوں نے باضابطہ فوج یا Standing Army کے تصور کو حقیقت بنایا، انہوں نے پولیس کا محکمہ قائم کیا، انہوں نے مردم شماری کرائی، نئے شہر آباد کیے۔ غرضیکہ حضرت عمرؓ نے پچاس سے زیادہ ایسی اصلاحات متعارف کرائیں جن کی تاریخ میں پہلے کوئی مثال نہیں ملتی تھی۔ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتے۔ دنیا کی عظیم شخصیات نے بھی حضرت عمرؓ کی عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ گاندھی نے کہیں کہا ہے کہ اگر اسلام کو ایک اور عمرؓ فراہم ہوجاتا تو آج ساری دنیا مسلمان ہوتی۔ لیکن یہاں کہنے کی اہم بات یہ ہے کہ حضرت عمرؓ ایک فرد تھے، ان کا انقلاب ایک فرد کا برپا کیا ہوا انقلاب تھا۔ اس انقلاب کی پشت پر حاضر و موجود سے بے زاری اور دنیا کو منقلب کرنے کا عزم تھا۔

انبیاء اور صحابہؓ سے نچلی سطح پر بھی ہمیشہ فرد کی انقلابی جدوجہد نے تاریخ کے دھارے کا رُخ موڑا ہے۔ امام غزالیؒ کہنے کو ایک فرد تھے مگر وہ ایک رکنی فوج یا One Man Army تھے۔ ان کے زمانے میں یونانی فلسفے کا زہر مسلم مفکرین کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ یونانی فلسفے کے زیراثر مسلم فلسفیوں میں یہ عقیدہ پروان چڑھ چکا تھا کہ یہ کائنات بھی خدا کی طرح قدیم ہے، جس طرح خدا ہمیشہ سے ہے اسی طرح کائنات بھی ہمیشہ سے ہے، اور جس طرح خدا ہمیشہ رہے گا اسی طرح یہ کائنات بھی ہمیشہ رہے گی۔ مسلم مفکرین میں فلسفے کے زیر اثر یہ خیال بھی عام ہوگیا تھا کہ خدا کا علم کامل نہیں ہے، خدا کلیات کا علم تو رکھتا ہے مگر جزیات کا علم نہیں رکھتا۔ بہت سے مسلم فلسفی عقل پر وحی کی بالادستی کے قائل نہیں رہ گئے تھے۔ یہ عقائد ایسے تھے کہ اگر عام ہوجاتے تو اسلام کا بھی وہی حشر ہوتا جو یورپ میں عیسائیت کا ہوا۔ مگر امام غزالیؒ تنِ تنہا اس چیلنج کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے مثالی علم اور اپنے وجود کی پوری قوت سے ’’تہافت الفلاسفہ‘‘ لکھی اور یونانی فلسفے کا بیج مار کر رکھ دیا۔ چنانچہ تاریخ کے دھارے کا رخ بدل کر رہ گیا اور اصل اسلامی فکر یونانی فلسفے پر غالب ہوگئی۔ یونانی فلسفہ غزالیؒ کے زمانے کا حاضر و موجود تھا۔ امام غزالیؒ نے اس حاضر و موجود کو زیر و زبر کرکے مسلم فکر کو اس کی اصل سے جوڑ دیا۔

برصغیر میں مغل بادشاہ اکبر نے دینِ الٰہی ایجاد کرکے اسلامی فکر پر بڑا حملہ کیا تھا۔ اکبر کی پیدا کردہ صورتِ حال کے اثرات جہانگیر کے زمانے تک موجود تھے۔ دربار میں سجدۂ تعظیمی رائج تھا۔ دربار میں آنے والا ہر شخص بادشاہ کو سجدہ کرتا تھا، اس لیے کہ بادشاہ ’’ظلِ الٰہی‘‘ تھا۔ ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے گائے کے ذبیحے پر پابندی تھی، بادشاہ کے محل میں ہندوئوں کے تہوار ہولی اور دیوالی تزک و احتشام کے ساتھ منائے جاتے تھے۔ اس صورتِ حال میں حضرت مجدد الف ثانیؒ حق کی تلوار بن کر اٹھے، انہوں نے جہانگیر کو تنِ تنہا چیلنج کیا اور طویل جدوجہدکے بعد جہانگیر کو تمام خلافِ اسلام باتوں سے روکنے میں کامیاب ہوئے۔ مجدد الف ثانیؒ کے پاس بھی نہ ریاست کی قوت تھی، نہ فوج کی طاقت۔ ان کے پاس سیاسی جماعت تک نہ تھی، مگر اس کے باوجود انہوں نے تاریخ کے دھارے کا رُخ موڑ کر رکھ دیا۔

شاہ ولی اللہؒ بھی مجددِ وقت تھے۔ ان کے زمانے تک آتے آتے ہندوستان میں اسلامی فکر کا یہ حال ہوگیا تھا کہ قرآن و حدیث کا علم تقریباً اٹھ چکا تھا۔ شاہ ولی اللہؒ نے پہلی بار فارسی میں قرآنِ پاک کا ترجمہ کیا اور قرآن کے دروس کا سلسلہ قائم کیا۔ بعدازاں ان کے فرزند شاہ عبدالقادر نے قرآن کا اردوئے مبین میں ترجمہ کرکے قرآن کے علم کوعوام تک پہنچا دیا۔ شاہ ولی اللہ نے ہندوستان کے مختلف حصوںمیں درسِ حدیث کا بھی اہتمام فرمایا۔ چنانچہ برصغیر میں دیکھتے ہی دیکھتے قرآن و حدیث کا علم زندہ ہوگیا، اور برصغیر میں قرآن و حدیث کا جتنا علم ہے اس کا تصور شاہ ولی اللہ اور ان کے خانوادے کی جدوجہد کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ شاہ ولی اللہ کے زمانے میں مرہٹوں نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ مرہٹوں کا زور توڑنے کے لیے شاہ ولی اللہ نے افغانستان کے بادشاہ سے مدد طلب کی اور اس کے نتیجے میں مرہٹوں کا زور ٹوٹ گیا۔

انقلاب سیاسی ہو یا فکری، مذاق نہیں ہوتا۔ اس کے لیے زمانے کا رُخ موڑنا پڑتا ہے، ایک نئے شعور کی آبیاری کرنی پڑتی ہے۔ برصغیر میں 1857ء کی جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریز پورے ہندوستان پر قابض ہوگئے۔ ان کا حکم ہی نہیں ان کی فکر بھی سکۂ رائج الوقت بن گئی۔ اس منظرنامے میں ضرورت اس بات کی تھی کہ کوئی اٹھے اور مغربی فکر کو سمجھ کر اس کا جواب دے۔ اس سلسلے میں اکبر الٰہ آبادی کی شاعری نئے شعور اور مزاحمت کا استعارہ بن کر ابھری۔ اکبر کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ مسلمان جو جنگ، میدانِ جنگ میں ہار گئے تھے، اکبر نے وہ جنگ اپنی شاعری میں جیت کر دکھا دی۔ مغربی فکر اس خیال کو عام کررہی تھی کہ خدا کا کوئی وجود نہیں، جو لوگ خدا کو مانتے ہیں وہ کسی وہم میں مبتلا ہیں۔ مغربی سائنس خدا بن کر بول رہی تھی۔ مغرب کا تصورِ ارتقا کروڑوں اذہان کو متاثر کررہا تھا۔ مغربی فلسفے کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بج رہا تھا۔ مغرب کا تصورِ ترقی اپنی بہار دکھا رہا تھا۔ اکبر ان سمیت دوسرے سیکڑوں تصورات کے خلاف صف آرا ہوگئے اور فکر کے میدانِ جنگ میں دادِ شجاعت دینے لگے۔ ذرا اکبر کی دادِ شجاعت کا حال تو دیکھیے:

خدا کی ہستی میں شبہ کرنا اور اپنی ہستی کو مان لینا
پھر اس میں طرہّ اس ادعا کا کہ ہم ہیں اہلِ شعور ایسے
٭٭
دنیا میں بے خبر ہے جو پروردگار سے
شاید ہے زندہ اپنے ہی وہ اختیار سے
٭٭
تُو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے
٭٭
منزلوں دور ان کی دانش سے خدا کی ذات ہے
خردبیں اور دوربیں تک ان کی بس اوقات ہے
٭٭
کفر نے سائنس کے پردے میں پھیلائے ہیں پائوں
بے زباں ہے بزمِ دل میں شمعِ ایماں اِن دنوں
٭٭
مذہب کبھی سائنس کو سجدہ نہ کرے گا
انسان اُڑیں بھی تو خدا ہو نہیں سکتے
٭٭
علومِ دنیوی کے بحر میں غوطے لگانے سے
زباں گو صاف ہو جاتی ہے دل طاہر نہیں ہوتا
٭٭
نئی تعلیم کو کیا واسطہ ہے آدمیت سے
جنابِ ڈارون کو حضرتِ آدم سے کیا مطلب
٭٭
شانِ مذہب پہ رہا فلسفہ حیران مدام
اس قدر جوشِ جنوں اور اس اعزاز کے ساتھ
٭٭
شکر ہے راہِ ترقی میں آگے بڑھتے ہو
یہ تو بتلائو کہ قرآں بھی کبھی پڑھتے ہو
٭٭
سید کی روشنی کو اللہ رکھے قائم
بتّی بہت ہے موٹی روغن بہت ہی کم ہے

اقبال نے جب اپنے فکری اور تخلیقی سفر کی ابتدا کی تو ہر طرف مغرب غالب تھا، ہر طرف مغرب کا ڈنکا بج رہا تھا، مغرب عروج کی طرف محوِ سفر تھا۔ مغرب کا حاضر و موجود سکۂ رائج الوقت تھا، اور اس حاضر و موجود کے خلاف بغاوت کا خیال بھی کسی ذہن میں نہیں آسکتا تھا۔ مگر اقبال نے اپنی نظم ’’امامت‘‘ میں فرمایا:

تُو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بے زار کرے
موت کے آئنے میں تجھ کو دکھا کر رخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنہ ملتِ بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے

مارچ1907ء میں مغرب عروج پر تھا، اس کی تہذیب عروج پر تھی، اس کی سیاست عروج پر تھی، اس کی فکر عروج پر تھی، مگر اقبال کی انقلابی فکر مغرب کے حاضر و موجود کو کسی اور ہی زاویے سے دیکھ رہی تھی۔ آپ نے اقبال کی نظم ’’مارچ 1907ء‘‘ کے یہ شعر شاید پہلے بھی پڑھے ہوں، ذرا ایک بار پھر پڑھ لیجیے، اقبال کہہ رہے ہیں:

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہو گا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا
کبھی جو آوارہ جنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خارزار ہو گا
سنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا، پھر استوار ہو گا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
دیار مغرب کے رہنے والو، خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زر کم عیار ہو گا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
سفینہ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا

یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ اقبال بھی کوئی ’’ادارہ‘‘ نہیں تھے، وہ بھی ایک فرد تھے، مگر انہوں نے سیکڑوں اداروں سے بڑھ کر کام کیا اور اپنی فکر سے کروڑوں لوگوں کی فکر کو تبدیل کیا۔

بیسویں صدی مغربی تہذیب اور کمیونزم کے غلبے کی صدی تھی۔ 1950ء کی دہائی میں لبرل ازم بھی ہر طرف پھیل رہا تھا اور کمیونزم بھی مسلسل پیش قدمی کررہا تھا، مگر مجدّ دِ وقت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ 1950ء کے اوائل میں فرما رہے تھے کہ ایک وقت آئے گا جب ماسکو میں کمیونزم کو پناہ نہیں ملے گی اور لبرل ازم لندن اور پیرس میں لرزہ براندام ہوگا۔ مولاناؒ کی پیشگوئی کا آدھا حصہ پورا ہوچکا ہے۔ کمیونزم کو 1992ء میں واقعتاً ماسکو کے اندر پناہ نہیں ملی۔ مولانا کی پیشگوئی کا دوسرا حصہ بھی ضرور پورا ہوگا۔ لبرل ازم بحران کی زد میں ہے اور یہ بات اب خود مغرب کے دانش ور تسلیم کررہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مولانا نے امام غزالیؒ کی روایت کے مطابق مغربی تہذیب پر شدید حملہ کیا۔ انہوں نے ایک جگہ مغربی تہذیب کو باطل قرار دیا، دوسری جگہ مغربی تہذیب کو ’’تخمِ خبیث‘‘ کا نام دیا، تیسری جگہ اسے شجرِ خبیث کہہ کر پکارا۔ اسی طرح جب اسلام کے بارے میں سمجھ لیا گیا تھا کہ اب اسلام صرف عقائد، عبادات اور اخلاقیات تک محدود ہوگا، اور اس کا ریاست و سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوگا تو مولانا نے اپنی انقلابی فکر کے ذریعے اس خیال کو عام کیا کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ جس عہد میں مسلمان غلام تھے اور پٹ رہے تھے مولانا نے پوری قوت اور صداقت سے مسلمانوں سے کہا کہ ’’قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو‘‘۔ اہم بات یہ ہے کہ مولانا بھی صرف ایک فرد تھے اور انہوں نے تن تنہا مسلمانوں کے قومی دھارے کا رخ موڑ کر دکھادیا۔

برصغیر میں بیسویں صدی کا حاضر و موجود ایک اعتبار سے انگریز سامراج تھا، ہندو اکثریت تھی۔ اس حاضر و موجود کے جبر میں پاکستان ایک امکان کی صورت میں بھی موجود نہ تھا۔ مگر قائداعظم نے حاضر و موجود کے جبر کو توڑ کر رکھ دیا۔ قائداعظم کے سوانح نگار اسٹینلے ولپرٹ نے قائداعظم کے بارے میں کہا کہ تاریخ میں ایسے لوگ کم ہوئے ہیں جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رُخ بدلا ہے، ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوئے ہیں جنہوں نے جغرافیے کو بدلا ہے، اور ایسا تو شاید ہی کوئی ہو جس نے ایک قومی ریاست قائم کرکے دکھائی ہو۔ قائداعظم نے یہ تینوں کام بیک وقت کرکے دکھائے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ قائداعظم نہ ہوتے تو پاکستان بھی نہ ہوتا۔

فرد نے صرف اسلام کی تاریخ ہی میں اہم کردار ادا نہیں کیا، اس نے عمومی تاریخ کے دائرے میں بھی تاریخ کے دھارے کو بدلا ہے۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو دو ہزار سال سے انسانی فکر پر اثرانداز ہیں۔ مارکس کی فکر نے روس میں انقلاب برپا کیا، مائو نے چین میں انقلاب کو حقیقت بنایا، ڈینگ زیائو پنگ جدید چین کے بانی ہیں اور یہ تمام لوگ ’’افراد ‘‘ ہیں۔

Leave a Reply