جرنیل سیاست دانوں کے دشمن ہیں اور سیاست دان تخلیق کرتے رہتے ہیں، دوسری طرف سیاسی جماعتیں انہیں زہر لگتی ہیں مگر وہ خود سیاسی جماعتیں وضع کرتے رہتے ہیں
غالبؔ نے کہا تھا:
مری تعمیر پہ مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولہ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا
مگر پاکستان کی سیاست کا حال یہ ہے کہ اس کی تعمیر میں خرابی کی ایک نہیں ہر صورت مضمر ہے۔ اس سیاست کا ظاہر بھی بیمار ہے اور باطن بھی بیمار ہے۔ اس سیاست کی روح کو دنیا پرستی کا مرض لاحق ہے۔ اس سیاست کے قلب کو شقاوت نے گھیرا ہوا ہے‘ اس سیاست کے سر میں سرے سے دماغ ہی نہیں ہے۔ یہ سیاست خیالات کے سرطان میں مبتلا ہے۔ اس سیاست کے جذبات کو سطحیت کی ٹی بی لاحق ہے‘ اس سیاست کی گندگی کا یہ حال ہے کہ اس حوالے سے اکثر شعر کوٹ کیا جاتا ہے۔
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
لیکن یہ شعر ہماری سیاست کی گندگی کو پوری طرح بیان نہیں کرتا۔ بعض طوائفیں صرف اپنا جسم فروخت کرتی ہیں مگر ہماری سیاست اپنا جسم بھی بیچتی ہے اور اپنی روح بھی فروخت کرتی ہے۔
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا چنانچہ پاکستان کی سیاست کو دین کے تابع ہونا چاہیے تھا۔ ہمارے عہد میں بعض سیکولر دانش وروں نے اب جھوٹ کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے کہ سیاست کے دین کے تابع ہونے کا خیال نیا ہے اور ہمارے کلاسیکل مفکرین سیاست کو دین کے تابع کرنے کے قائل نہیں تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ امام غزالیؒ نے ’’احیاء العلوم‘‘ میں صاف لکھا ہے کہ اسلامی معاشرے میں ریاست و سیاست دین کے تابع ہوتی ہے۔ ابن خلدونؒ نے اپنے مشہور زمانہ مقدمہ میں بھی سیاست اور ریاست کے دین کے تابع ہونے کا خیال پیش کیا ہے۔ الماوردی نے بھی سیاست کو دین کے تابع کہا ہے۔ عہد حاضر میں علامہ اقبال نے صاف کہا ہے:
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
مولانا مودودیؒ عہد حاضر کے مجدد ہیں اور انہوں نے پوری زندگی سیاست اور ریاست کو دین کے تابع کرنے کی جدوجہد میں بسر کر دی۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کو جو فوجی اور سول حکمران اور جو سیاست دان میسر آئے ان کی عظیم اکثریت نے سیاست اور ریاست کو دین سے آزاد کرنے کی جدوجہد کی۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی جماعتوں کی قیادت کا یہ حال ہے کہ ان کا دین سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ پیپلزپارٹی خود کو سیکولر کہتی ہے اور بھٹو خاندان کا کسی دین داری سے دور دور تک بھی کوئی تعلق نہیں۔
میاں نواز شریف کی نواز لیگ خود کو سیکولر کہنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دیا اور میاں نواز شریف اس فیصلے کے خلاف اپیل لے کر کھڑے ہو گئے۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارے نے کہا کہ پاکستان میں زنا بالرضا کی اجازت ہونی چاہیے۔ میاں صاحب کی حکومت نے اس تجویز کو ’’قابل غور‘‘ قرار دے ڈالا۔ نواز لیگ کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے یورپ میں بیٹھ کر نواز لیگ اور تحریک انصاف کا فرق عیاں کیا اور فرمایا کہ تحریک انصاف مذہبی ایجنڈا رکھتی ہے مگر نواز لیگ ایک سیکولر پارٹی ہے۔
عمران کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایک ہی سانس میں ریاست مدینہ اور چین کے ماڈل کی بات کرتے ہیں۔ چلیے وہ گڑ نہیں کھلاتے گڑ جیسی بات تو کرتے ہیں۔ ورنہ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت العلمائے اسلام تک کا یہ حال ہے کہ اس کو ہم نے اپنی شعوری زندگی میں کبھی غلبۂ دین کی جدوجہد کرتے نہیں دیکھا۔ ایم کیو ایم کھل کر کہتی ہے کہ وہ سیکولر ہے۔ صرف جماعت اسلامی ایسی جماعت ہے جو اپنے دستور اور منشور دونوں میں غلبۂ دین کا تصور پیش کرتی ہے۔
چلیے پاکستان کی سیاست دین کے تابع نہیں ہے تو اس کا کوئی نظریہ ہی ہوتا۔ یادش بخیر بھٹو صاحب اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگاتے تھے مگر ان کو اتنی سی بات معلوم نہ تھی کہ اسلام سوشلزم کی اور سوشلزم اسلام کی ضد ہے۔دونوں کی الٰہیات‘ تصور علم اور تصور انسان میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ مگر چلیے بھٹو صاحب نام کو سہی نظریے کی بات تو کرتے تھے۔ چنانچہ ان کے زمانۂ اقتدار میں ملک کے اندر دائیں اور بائیں بازو کی کشمکش عروج پر تھی۔ اس کشمکش کا اظہار قومی سیاست میں بھی ہو رہا تھا‘ طلبہ کی سیاست پر بھی اس کا اثر تھا اور صحافت بھی اس کشمکش کے زیر اثر تھی۔
مگر جنرل ضیا الحق کی آمد کے بعد صورت حال بدلتی چلی گئی۔ نظریہ سیاست سے منہا ہوتا چلا گیا اور اس کی جگہ شخصی اور خاندانی کشمکش نے لے لی۔ چنانچہ 1990ء کی پوری دہائی میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی کشمکش کی نذر ہو گئی۔ یہ کشمکش ایک سطح پر شخصی اور دوسری سطح پر خاندانی تھی۔ اب مدتوں سے ملک میں شریفوں اور عمران خان کی کشمکش برپا ہے‘ یہ بھی شخصیات اور دو پارٹیوں کی کشمکش ہے‘ اس کشمکش کا کسی نظریے سے کوئی تعلق نہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ نظریے کا زمانہ گزر گیا مگر یہ ایک فضول‘ بے ہودہ اور بہت سرسری بات ہے۔ حق و باطل کی کشمکش دائمی ہے۔ جب تک انسان زندہ ہیں یہ کشمکش جاری رہے گی۔ اس کے عنوان بدل جائیں گے‘اس کی علامتیں تبدیل ہو جائیں گی مگر یہ کشمکش جاری رہے گی اور اس کشمکش کو جاری رہنا چاہیے۔ زندگی نظریے سے عبارت ہے‘ جس آدمی کا کوئی نظریہ نہیں وہ انسان کہلانے کا مستحق نہیں۔ بدقسمتی سے ہماری قومی سیاست نظریے سے بے نیاز ہوئی تو ہماری صحافت اور طلبہ کی سیاست بھی نظریے سے محروم ہو گئی۔
ہماری سیاست کا ایک بہت بڑا مرض اس کا ’’امریکہ مرکز‘‘ یا America Centric ہونا ہے۔ ہمارے یہاں مارشل لاء آتا ہے تو امریکہ کی آشیرباد سے۔ جمہوریت بحال ہوتی ہے تو امریکہ کے حکم پر‘ انتخابات ہوتے ہیں تو امریکہ کی مرضی سے‘ انتخابات نہیں ہوتے تو امریکہ کی پسند سے۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ جنرل ایوب خان نے مارشل لاء تو 1958ء میں لگایا تھا مگر وہ 1954 سے امریکہ کے ساتھ خفیہ رابطے استوار کیے ہوئے تھے۔
جنرل ایوب حقیقی پاکستانی ہوتے تو وہ امریکہ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتے۔ مسلمانوںکا عقیدہ ہے کہ عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اقتدار‘ دولت اور شہرت عطا کرنے والا بھی وہی ہے۔ چنانچہ ایک سچا مسلمان جو کچھ مانگتاہے اللہ سے مانگتا ہے۔ مگر جنرل ایوب پوری ڈھٹائی کے ساتھ امریکہ کے آگے سرنگوں تھے۔ جنرل ایوب کی امریکہ پرستی اتنی بڑھی کہ دوستی غلامی میں تبدیل ہو گئی۔ جنرل ایوب کو خود اس کا احساس تھا چنانچہ انہوں نے ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی یا الطاف گوہر سے لکھوائی۔ اس کتاب کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ہم امریکہ کے دوست ہیں غلام نہیں۔
مگر جس دوستی میں انسان کو یہ بتانے کی ضرورت پڑ جائے کہ وہ دوست ہے غلام نہیں‘ وہ دوستی‘ دوستی نہیں غلامی ہی ہوتی ہے۔ جنرل ایوب نہ صرف یہ کہ امریکہ کے دبائو پر سیٹو اور نیٹو کا حصہ بنے بلکہ انہوں نے بڈبیر میں امریکہ کو ایک فوجی اڈا بھی فراہم کر دیا۔ یہاں سے امریکہ سوویت یونین کی نگرانی کرتا تھا۔ جنرل ایوب نے امریکہ کی جو غلامی اختیار کی تھی وہ ’’شخصی‘‘ تھی مگر رفتہ رفتہ یہ غلامی’’اداراتی‘‘ اور ’’قومی‘‘بن گئی۔ چنانچہ جنرل ایوب کے بعد نہ صرف یہ کہ ہماری فوج امریکہ مرکز ہو گئی بلکہ ہمارا دفاع اور ہماری معیشت بھی امریکہ مرکز ہوگئی۔ پاکستان کے معاملات میں امریکہ کا دخل اتنا بڑھا کہ میاں نواز شریف جنرل پرویز سے خفیہ معاہدہ کرکے سعودی عرب فرار ہوئے تو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے بجا طور پر یہ فرمایا کہ امریکہ اب ہماری آرمی کو شکار کرے گا۔؎
یہ بات بھی اب ہماری قومی تاریخ کا حصہ ہے کہ جنرل پرویز اور بے نظیر کے درمیان این آر او ہوا تو امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر کنڈالیزا رائس نے اس سلسلے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ یہ بات کونڈا لیزا رائس نے اپنی خود نوشت میں تحریر فرمائی ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ قرض دینے میں تاخیر کی تو آرمی چیف جنرل باجوہ نے امریکہ کی اعلیٰ اہلکار کو فون کیا اور کہا کہ وہ آئی ایم ایف سے پاکستان کو قرض جلد دلانے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں۔
پاکستانی سیاست بین الاقوامی سطح پرامریکہ کی غلام ہے تو قومی سطح پروہ جرنیلوں کی باندی ہے۔ جرنیل جب چاہتے ہیں بھٹو پیدا کر لیتے ہیں‘ جب چاہتے ہیں نواز شریف تخلیق کر لیتے ہیں‘ جب چاہتے ہیں الطاف حسین ایجاد کر لیتے ہیں‘ جب چاہتے ہیں عمران خان کو وجود بخش دیتے ہیں۔ جرنیل سیاست دانوں کے دشمن ہیں اور سیاست دان تخلیق کرتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف سیاسی جماعتیں انہیں زہر لگتی ہیں مگر وہ خود سیاسی جماعتیں وضع کرتے رہتے ہیںجنرل ایوب نے کنونشن لیگ بنائی‘ جنرل ضیا الحق نے جونیجو لیگ قائم کی‘ جنرل پرویز نے ق لیگ کو جنم دیا۔ ہماری تاریخ کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ جب چاہتے ہیں مارشل لاء لگا دیتے ہیں اور دس دس سال تک قوم کو غلام بنائے رکھتے ہیں لیکن جب جرنیل خود اقتدار میں نہیں ہوتے تو یہ ان کے پیچھے بیٹھ کر سیاست دانوں کی ڈوریاں ہلاتے رہتے ہیں اور انہیں کٹھ پتلیوں کی طرح نچاتے رہتے ہیں۔
اس صورت حال نے ہماری سیاست کو کٹھ پتلیوں کا تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔ جرنیلوں نے ملک میں آئین اور عدالتوں کی وقعت کو بھی باقی نہیں رہنے دیا۔ ہر فوجی آمر آتا ہے اور آئین کو عضو معطل بنا کر رکھ دیتا ہے۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ ہمارے سپریم کورٹ کے ججوں نے جنرل ایوب‘ جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز کی آمریت کو سند جواز عطا کی ہے۔ عام آدمی عدالت کے بارے میں ذرا سی تنقیدی بات کر دے تو توہین عدالت کا مقدمہ بن جاتا ہے مگر اعلیٰ عدالتوں کے جج فوجی آمروں کے اقتدار پر قبضے کو سند جواز عطا کریں تو اس سے کوئی توہین عدالت نہیں ہوتی۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو جرنیلوں کا تحریک پاکستان اور تخلیق پاکستان میں کوئی کردار ہی نہیں تھا بلکہ انہوں نے تو دفاع پاکستان کی ذمے داری بھی دیانت دری سے ادا نہیں کی۔ کی ہوتی تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ بنتا اور ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے بھارت کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے ہوتے۔
پاکستان کی سیاست کا ایک بڑا مرض یہ ہے کہ پاکستان کی ساری سیاسی جماعتیں جمہوریت کا راگ الاپتی ہیں مگر جماعت اسلامی کے سوا جمہوریت کسی جماعت میں موجود نہیں۔ نواز لیگ جب سے بنی ہے اس پر شریف خاندان کا قبضہ ہے۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم نہیں رہے تو ان کی جگہ شہباز شریف نے لے لی۔ وہ نہیں ہوں گے تو ان کی جگہ مریم نواز لے لیں گی۔ یہی قصہ پیپلزپارٹی کاہے۔ جب تک ذوالفقار علی بھٹو زندہ تھے وہی پیپلزپارٹی تھے‘ وہ نہیں رہے تو ان کی بیٹی پارٹی پر قابض ہو گئی۔ بے نظیر دنیا سے رخصت ہو گئیں تو آصف علی زرداری اور بلاول نے پارٹی کو اپنے زیر سایہ لے لیا۔
یہی کھیل جمعیت علمائے اسلام جیسی مذہبی جماعت میں جاری ہے۔ کبھی جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مفتی محمود تھے‘ وہ نہیں رہے تو ان کے بیٹے فضل الرحمن پارٹی پر چھا گئے۔ فضل الرحمن نہیں رہیں گے تو ان کے فرزند پارٹی پارٹی کھیلیں گے۔ اے این پی میں بھی یہی تماشا ہو رہا ہے۔ ولی خان‘ ولی خان کے بعد ان کی بیوی‘ بیوی کے بعد ولی خان کا بیٹا اب بیٹے کی جگہ اس کا بیٹا۔ لاحول ولا قوۃ۔ میاں نواز شریف کو جب دیکھو ووٹ کو عزت دو کی بات کرتے رہتے ہیں مگر انہوں نے خود آج تک پارٹی میں انتخابات کرا کے ووٹ کو عزت نہیں دی۔ پیپلزپارٹی نے بھی پچاس سال میں کبھی اندرونی طور پر انتخابات نہیں کرائے۔ عمران خان نے ایک بار انتخابات کرائے تھے مگر ان میں اتنی دھاندلی ہوئی تھی کہ جسٹس وجیہ الدین نے انہیں کالعدم قرار دے دیا تھا۔
پاکستان کی سیاست کا ایک مرض اس کا سرمایہ مرکز ہونا ہے۔ سیاست پاکستان میں اربوں کھربوں کا کھیل ہے۔ گزشتہ انتخابات میں نواز لیگ اور تحریک انصاف نے ٹی وی پر اشتہارات کی مد میں دس دس ارب روپے خرچ کیے تھے۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ سیاست پر سرمایہ خرچ کرکے منتخب ہوتے ہیں پھر وہ اقتدار میں لاکھ کے کروڑ اور کروڑ کے ارب بناتے ہیں۔ اسی سے منتخب لوگوں کی ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی سیاست کی کوئی کل سیدھی نہیں۔