نعت

نعت اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف اور توصیف ہے تو نعت کے تصور کو شاعری تک محدود سمجھنا ٹھیک نہیں۔ غور کیا جائے تو سیرت نگاری دراصل ’’نثر کی نعت‘‘ ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلامی تہذیب میں نعت کی روایت ایک بحرِ زخار ہے جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شایانِ شان ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو نعت کو سرے سے شاعری نہیں سمجھتے۔ ان کا خیال ہے کہ نعت محض عقیدت کا اظہار ہے اور اس میں ’’شاعرانہ عنصر‘‘ یا تو ہوتا ہی نہیں، یا ہوتا ہے تو بہت کم۔ لیکن یہ ایک غلط خیال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نعت کیا نعت کا تصور بھی شاعرانہ ہے۔ مگر اس دعوے کی دلیل کیا ہے؟
دنیا میں شاعری کا بڑا حصہ محبوب اور اس کی محبت کے تجربے کا بیان ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ یہ ہے کہ آپؐ انسانوں ہی کے نہیں اس کائنات کے خالق ومالک کے بھی محبوب ہیں۔ آپؐ انسانِ کامل ہیں۔ خاتم الانبیاء ہیں۔ باعثِ تخلیقِ کائنات ہیں۔ چنانچہ آپؐ سے بڑھ کر شاعری کا موضوع اور کون ہوسکتا ہے! اور نصف سے زیادہ شاعرانہ صنف اور کون سی ہوسکتی ہے! مگر مسئلہ یہ ہے کہ نعت لکھنا غزل، نظم، قطعہ یا رباعی لکھنے سے ہزار گنا زیادہ مشکل ہے۔ اس مشکل کی بہت بڑی بڑی وجوہ ہیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک کا مشہور واقعہ ہے کہ آپؐ صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ تشریف لائے اور آپؐ کے چہرۂ انور کی جانب دیکھ کر فرمایا کہ میں نے آج تک ایسا خوبصورت چہرہ نہیں دیکھا۔ آپؐ نے فرمایا: تم نے درست کہا۔ کچھ دیر بعد وہاں سے ابوجہل کا گزر ہوا۔ اُس نے آپؐ کے چہرۂ مبارک کی جانب دیکھا اور آپؐ کے چہرۂ مبارک سے نقص منسوب کیا۔ آپؐ نے فرمایا: تم نے درست کہا۔ صحابہ نے پوچھا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکرؓ اور ابوجہل نے دو مختلف باتیں کہیں اور آپؐ نے دونوں کے بارے میں ایک ہی جواب دیا۔ آپؐ نے فرمایا: میرا چہرہ ایک آئینہ ہے، اس میں ہر شخص کو اپنا چہرہ نظر آتا ہے۔ نعت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں نعت لکھنے والا ’’حقیقتِ محمدیؐ‘‘ کو بیان کررہا ہے، حالانکہ وہ صرف یہ بتارہا ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے اس کے تعلق کی نوعیت کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقتِ محمدیؐ کی حقیقت یا تو خدا جانتا ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ نعت لکھنے والا ایک ’’ذرّہ‘‘ ہوکر ’’آفتاب‘‘ پر کلام کرتا ہے۔ ایک ’’قطرہ‘‘ ہوکر ’’سمندر‘‘ پر گفتگو کرتا ہے۔ ’’موجود‘‘ ہوکر ’’ممکن‘‘ کو بیان کرتا ہے۔ عام شاعری میں بھی محبوب عاشق سے بڑا ہوتا ہے۔ لیکن اس تعلق میں ایک اور دس یا ایک اور سو کی سہی، نسبت ہوتی ہے۔ مگر نعت میں نسبت کا اندازہ بھی دشوار ہوتا ہے۔ چنانچہ نعت کے مواد پر شعور کی گرفت غزل یا نظم کے مواد پر گرفت سے کہیں زیادہ مشکل ہوتی ہے۔ نعت کا کمال یہ ہے کہ نعت لکھنے والا ’’تاریخ‘‘ کو ’’تجربہ‘‘ بناتا ہے۔ نعت لکھنے والے نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا، ان سے نہیں ملا، مگر وہ اپنی محبت اور جذبے کی قوت سے چودہ سو سال کے فصل کو یاد کرجاتا ہے اور ماضی کو حال بنادیتا ہے۔ اس کے برعکس عام شاعری صرف موجود کا بیان ہوتی ہے۔ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نعت کا حقیقتِ محمدیؐ سے کیا تعلق ہے اور ہماری مذہبی روایت میں حقیقتِ محمدیؐ کا کیا تصور ملتا ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حقیقتِ محمدیؐ کے تصور کے بغیر نعت لکھی ہی نہیں جاسکتی۔ اور جس کا حقیقتِ محمدیؐ کا جیسا تصور ہوتا ہے اس کی نعت ویسی ہی ہوتی ہے۔ جہاں تک حقیقتِ محمدیؐ کا تعلق ہے تو ہماری مذہبی روایت بتاتی ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ آپؐ نور ہیں اور دوسرا یہ کہ آپؐ بشر ہیں۔ آپؐ کے نوری پہلو کا شعور اور اس پر اصرار ضروری ہے تاکہ آپؐ کی عظمت اور امتیازی شان نمایاں ہوکر سامنے آسکے۔ آپؐ کی بشریت کا بیان اور اس پر اصرار بھی ضروری ہے تاکہ آپؐ کا واجب الاتباع ہونا ثابت ہوسکے۔ نعت لکھنے کے لیے ان دونوں جہتوں کا جمع ہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر حقیقتِ محمدیؐ کی کلیّت کا بیان ممکن نہیں ہوسکتا۔ لیکن نعت نگاری کی تاریخ میں اکثر یہ ہوا ہے کہ ان دونوں پہلوئوں میں سے کوئی پہلو نعت نگاری کے رجحان پر غالب آجاتا ہے۔ مثال کے طور پر مولانا حالی سے پہلے اردو نعت نگاری پر حقیقتِ محمدیؐ کی نوری جہت کا غلبہ تھا۔ لیکن مولانا حالی نے اپنی نعت میں آپؐ کی بشریت پر اتنا اصرار کیا کہ نوری جہت نہ صرف یہ کہ پس منظر میں چلی گئی بلکہ آپؐ کی بشریت صرف ایک افادی اور سماجی حقیقت نظر آنے لگی۔ مثلاً حالی نے اپنی نعت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات بیان کرتے ہوئے کہا کہ آپؐ خطاکار سے درگزر کرنے والے تھے۔ اپنے پرائے کا غم کھانے والے تھے۔ مصیبت میں غیروں کے کام آنے والے تھے۔ یتیموں کے والی اور غلاموں کے مولا تھے۔ مگر آپؐ یہ سب کچھ نورِ مجسم اور عبد کامل ہونے کی وجہ سے تھے۔ آپؐ کی ان صفات کی جڑیں سیاست یا سماجیات میں پیوست نہیں تھیں جیسا کہ مولانا حالی کے طرزِفکر سے محسوس ہوتا ہے۔ عسکری صاحب نے حالی کے اس طرزِ فکر پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ حالی کی نعت میں سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً ایک معلّم بن کر سامنے آتے ہیں۔ عسکری صاحب کا یہ اعتراض غلط نہیں ہے۔ حالی نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات تو ٹھیک ٹھیک بیان کیں مگر انہیں مابعدالطبیعاتی جہت سے کاٹ دیا۔ اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کے آغاز کے بعد ایک ایسی صورت حال پیدا ہوئی کہ شاعروں کی اکثریت نے نعت لکھنے کا سلسلہ ہی ترک کردیا اور یہ سمجھا جانے لگا کہ نعت کوئی شاعرانہ صنف ہی نہیں ہے۔

حالی کے بعد اقبال پہلے بڑے شاعر تھے جنہوں نے اپنے وجود کی پوری قوت صرف کرکے نعت لکھی اور نعت کو اس کی اصل سے منسلک کردیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ نعت میں غلو نہیں ہونا چاہیے اور وہ غلط نہیں کہتے۔ اس لیے کہ عبدکو معبود کے مقام پر فائز کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جاسکتی۔ لیکن جو لوگ نعت میں غلو کا شور مچاتے ہیں ان میں سے اکثر کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود حقیقتِ محمدیؐ کا شعور نہیں رکھتے۔ عصرِ حاضر میں اس شعور کی علامت اقبال کا یہ شعر ہے ؎

کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

یوں تو معنی اور کیفیت شاعری کی ہر صنف کے لیے ناگزیر ہیں، مگر نعت کی شاعری میں معنی اور کیفیت کی یکجائی کے بغیر اچھی نعت لکھی ہی نہیں جاسکتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ نعت کی شاعری میں معنی اور کیفیت کی یکجائی کس طرح پیدا کی جاسکتی ہے؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مثالیہ یا Ideal بنائے بغیر نعت میں معنی اور کیفیت پیدا نہیں ہوسکتے۔ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مثالیہ یا Ideal ہونے کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ آپؐ کی ذات ہمارے لیے ایک نمونۂ عمل ہو، اور دوسرے یہ کہ ہمیں اس بات کا صرف خیال ہی نہ ہو بلکہ احساس بھی ہو کہ ہم اسوۂ حسنہ سے کتنی دور ہیں۔ ہماری شاعری کی روایت میں ایسے بہت سے شاعر ہوئے ہیں جو اسلامی نقطۂ نظر سے بے عملی کا شکار تھے مگر انہوں نے نعت کے بڑے نمونے پیدا کیے۔ ایسا اس وجہ سے ممکن ہوسکا کہ انہیں اپنے باطن میں پوری سچائی کے ساتھ اپنی بے عملی کا اعتراف اور ادراک تھا۔
پاکستان میں نعت کے حوالے سے ایک عجیب وغریب تجربہ سامنے آیا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور سے پہلے پاکستان میں نعت نگاری ہماری شاعری کے مرکزی رجحانات میں شامل نہیں تھی، مگر جنرل ضیاء الحق کے دور میں مذہب کا غلغلہ بلند ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے تمام ادبی مراکز میں نعت کا احیاء ہوگیا۔ یہاں تک کہ ترقی پسند کہلانے والے شعراء بھی نعت کہتے نظر آئے۔ ایک سطح پر یہ صورت حال حکمرانوں کے اثرات کی عکاس ہے۔ دوسری سطح پر اس سے پاکستانی معاشرے کی گہری مذہیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اور تیسری اور زیادہ گہری سطح پر اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ ہماری تہذیب اور تاریخ زندہ ہے اس لیے ہمارے ظاہر میں ذرا سی مثبت تبدیلی بھی ہمارے باطن پر پڑی ہوئی گرد کو صاف کردیتی ہے۔

, , , ,

Leave a Reply