رسالت کی تاریخ میں ہر نبی کی تاریخ انسانیت کے کمال اور انسانیت کے جمال کی تاریخ ہے‘ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کمال کے کمال اور جمال کے جمال کی تاریخ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت و رسالت کی تاریخ کا خلاصہ بھی ہیں اور اس پر اضافہ بھی ہیں۔ یعنی ایک لاکھ 24 ہزار انبیاءاور مرسلین کو جو کمالات حاصل ہوئے وہ سب رسول اکرم کو حاصل تھے‘ اور جو کمالات تمام انبیاءو مرسلین کو حاصل نہیں ہوسکے وہ بھی رسول اکرم کو فراہم ہوئے۔ مثال کے طور پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ ہیں‘ حضرت موسیٰؑ کلیم اللہ ہیں اور حضرت عیسیٰؑ روح اللہ ہیں‘ مگر ان میں سے کوئی بھی شافع محشر نہیں ہی‘ ان میں سے کسی کو تمام امتوں پر گواہ نہیں بنایا گیا‘ اور ان میں سے کسی کو معراج کی سعادت حاصل نہ ہوسکی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ جامعیت آپ کی ذاتِ گرامی کا سب سے بڑا انقلابی پہلو ہے۔ آپ کے عہدِ مبارک میں آپ کی جامعیت پوری طرح آشکار تھی اور صحابہ کرامؓ اس جامعیت کا کامل مظہر تھے۔ آپ صحابہؓ کرام کے لیے خاتم النبیین تھے۔ معجزے کی روایت کا بلند ترین مقام تھے۔ ہدایت کا آفتاب تھے۔ قیادت کا نقطۂ عروج تھے۔ مثالی باپ تھے۔ مثالی شوہر تھے۔ مثالی دوست تھے۔ مثالی پڑوسی تھے۔ یہاں تک کہ صحابہؓ کرام آپ کی ایک ایک ادا کے عاشق اور مقلد تھے۔ لیکن آپ کی جامعیت کا یہ تصور بعد کے زمانوں میں باقی نہ رہا اور سیرت نگاری کی روایت پر زمانی اثرات غالب آنے لگے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ آپ کی ذاتِ گرامی کے معجزاتی پہلو کو سیرت نگاری میں مرکزی اہمیت حاصل ہوگئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نوآبادیاتی طاقتوں کے غلبے نے ایک جانب دین کی جامعیت کے تصور کو کمزور کردیا تھا اور دوسری جانب روایتی علماءدین اور سیرت کی جامعیت کے اطلاق کی اہلیت سے محروم ہوگئے تھے۔
انہیں محسوس ہوتا تھا کہ اجتماعی زندگی کے بیشتر معاملات ان کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں اور ان دائروں میں سیرت کی ہدایت دستیاب تو ہے مگر یہ ہدایت قابلِ عمل نہیں رہی۔ چنانچہ انہوں نے رفتہ رفتہ ان دائروں میں سیرت کے بیان سے گریز شروع کردیا۔ سرسید انگریزوں سے مرعوب تھے اور انگریز پروٹسٹنٹ تھے‘ اور پروٹسٹنٹ معجزے کی روایت کے قائل ہی نہیں تھے۔ چنانچہ سرسید نے سیرت کے معجزاتی پہلو کو یکسر نظرانداز کیا۔ ان کو یقیناً رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہوگی‘ مگر ان کی عقل پرستی نے انہیں سیرت کے حوالے سے عقیدت سے بڑی حد تک محروم کردیا۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر عقیدت اور جذبے سے اتنا عاری ہوکر کیا کہ انہوں نے سرورِ کونین‘ خاتم النبیین‘ سردار الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم کو صرف ”محمد صاحب“ لکھنا شروع کردیا۔ حالی کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے سچی محبت تھی‘ اور یہ محبت سرسید کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت سے کہیں بڑھی ہوئی تھی۔ لیکن حالی بھی سرسید کے زیراثر تھے‘ اس لیے انہوں نے نعت نگاری میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے معجزاتی‘ الٰہیاتی اور مابعدالطبیعاتی پہلو پر اصرار کرنے کے بجائے آپ کی ذات کے سماجی پہلو پر اصرار کیا۔
شبلی نعمانیؒ کی ”سیرت النبی“ سیرت کے برصغیری سرمائے میں قابل فخر مقام رکھتی ہے اور اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ شبلی نے سیرت کی جامعیت کو بھی ملحوظ رکھا ہے‘ لیکن عصری رجحانات کے جبر نے شبلی کے اسلوب کو اتنا زیادہ عقلی اور فلسفیانہ بنادیا ہے کہ سیرت کی جامعیت پس منظر میں چلی گئی ہے اور اسلوب کو مرکزیت حاصل ہوگئی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے 20 ویں صدی میں دین کی جامعیت اور کلیت کو زندہ کرنے میں مرکزی اور تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے‘ لیکن بیسویں صدی میں انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی گئی ہے۔
چنانچہ مولانا کی تحریروں پر مشتمل ”سیرت ِسرور عالم“ کی دو جلدوں کا مواد سیرت کی جامعیت کو بیان کرنے کے باوجود اپنے اسلوب میں سیاسی محسوس ہوتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سیرت ِطیبہ کی جامعیت کی بازیافت عصر حاضر کا اہم ترین تقاضا ہے‘ اور یہ بازیافت ہر اعتبار سے انقلابی ہوگی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عہد ِحاضر میں انسانی حقیقت جس طرح ریزہ ریزہ ہوئی ہے اس کی کوئی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جدید عمرانیات کہہ رہی ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان کے سوا کچھ نہیں‘ جدید نفسیات دعویٰ کررہی ہے کہ انسان صرف ایک جبلی حقیقت ہی‘ معاشیات دعویٰ کررہی ہے کہ انسان صرف ایک معاشی وجود ہے‘ حیاتیات اصرار کررہی ہے کہ انسان ایک حیاتیاتی تشکیل یا Construct ہے‘ جدید لسانیات اعلان کررہی ہے کہ زبان کے دائرے سے باہر انسانی زندگی کا کوئی وجود ہے نہ اس کا کوئی مفہوم ہے۔ اس صورتِ حال نے سیرتِ طیبہ کیا عام انسان کے تصور کو بھی انسانیت کے حافظے سے محو کردیا ہے۔ مسلمان کہتے ضرور ہیں کہ ان کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ نمونہ ہے‘ لیکن جس طرح دنیا کی دیگر اقوام کی زندگی پر معاشیات یا سیاسیات کا غلبہ ہے اسی طرح مسلمانوں کی زندگی پر بھی انہی چیزوں کا تسلط ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو سیرت طیبہ کی جامعیت کی بازیافت صرف امتِ مسلمہ کی نہیں پوری انسانیت کی ضرورت ہے۔ لیکن پہلے یہ کام امت ِمسلمہ میں ہوگا‘ باقی ماندہ دنیا اس سلسلے میں امتِ مسلمہ ہی کی پیروی کرے گی۔ سیرتِ طیبہ کی انقلابیت کا ایک زاویہ یہ ہے کہ آپ دونوں جہان کے مالک ہونے کے باوجود دونوں جہان سے بے نیاز تھے۔ عصرِ حاضر میں اس بات کی اہمیت یہ ہے کہ دنیا تین منفی رجحانات کے نرغے میں ہے۔ دنیا کے کئی مذاہب انسانوں کو ترک ِ دنیا کی تعلیم دیتے ہیں۔ عیسائیت‘ ہندو ازم اور بدھ ازم میں بلند ترین روحانی زندگی کا تصور ترکِ دنیا سے وابستہ ہے۔
اس روش نے سیکولرازم کے مقابلے پر مذاہب کی اجتماعی قوت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ دنیا کا دوسرا منفی رجحان یہ ہے کہ مذاہب کے دائرے میں جو لوگ ترک ِدنیا کے قائل نہیں ان کی عظیم اکثریت دنیا پرستی کی بدترین صورتوں میں مبتلا ہے۔ اس دائرے میں بعض لوگ دین اور دنیا کا ”امتزاج“ پیدا کرتے ہیں تو اس امتزاج میں غلبہ دنیا کا ہوتا ہے‘ دین کا نہیں۔ چنانچہ یہ امتزاج صرف نام کا امتزاج ہوتا ہے ورنہ اس میں دین دنیا کے تابع ہوکر اس کے پیچھے چلتا ہے۔ دنیا کا تیسرا منفی رجحان یہ ہے کہ اس نے دین اور دنیا کی تفریق پیدا کرکے اسے اجتماعی زندگی میں ایک مستقل اصول بنادیا ہے۔ بلاشبہ اسلام میں دین اور دنیا کی تفریق کا کوئی تصور موجود نہیں‘ لیکن اکثر مسلم ممالک میں دین اور دنیا کی تفریق ایک حقیقت ہے‘ اور مسلم دنیا میں اس تفریق کے لیے جواز جوئی کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔
سیرتِ ِطیبہ کا کمال یہ ہے کہ اس سے فکری سطح پر ہی نہیں‘ عملی سطح پر بھی ان تینوں عالمگیر منفی رجحانات کی بیخ کنی ہوجاتی ہے‘ اس لیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا نمونہ بتاتا ہے کہ آپ نے دنیا میں رہتے ہوئے اور اس کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے دنیا کو ترک کیا ہے۔ اس طرح آپ کی سیرت ِطیبہ کے حوالے سے ترکِ دنیا اپنی مثبت ترین صورت میں سامنے آتی ہے۔ اس ترک میں نہ دنیا سے فرار کی کوئی صورت موجود ہے‘ نہ اس دنیا پرستی کا کوئی امکان جو حقیقی خدا پرستی کو ناممکن بنادیتی ہے۔ اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ِطیبہ سے دین اور دنیا کی تفریق کا تصور بھی باطل قرار پاجاتا ہے اور ثابت ہوجاتا ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی‘ نیز دنیوی اور اخروی فلاح دین اور دنیا کی یکجائی کے تصور میں ہے۔ مسلم دنیا میں دین اور دنیا کی تفریق کی بحث کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ سیکولر عناصر اس بحث کو ایک تجرید یا Abstraction میں شروع کرتے ہیں‘ تجرید میں آگے بڑھاتے ہیں اور تجرید میں اسے ختم کردیتے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں سیرت ِطیبہ کے حوالے کو آنے ہی نہیں دیتے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ سیرتِ طیبہ کا تجربہ اتنا واضح‘ ٹھوس اور تفصیلی ہے کہ اس کو سامنے رکھنے کے بعد کسی چونکہ اور چنانچہ کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ معاصر دنیا کی ایک محرومی یہ ہے کہ اس میں مذاہب تو بہت پائے جاتے ہیں‘ عقائد و عبادات کا نظام اور رسوم و رواج تو بہت پائے جاتے ہیں لیکن اس میں اعلیٰ ترین کرداری نمونوں کا فقدان ہے۔ دنیا میں ایک ارب عیسائی موجود ہیں مگر ان کے سامنے کوئی کرداری نمونہ موجود نہیں۔ عیسائیوں کو حضرت عیسیٰؑ سے محبت ہے مگر حضرت عیسیٰؑ ان کے لیے ترکِ دنیا کی علامت ہیں‘ دنیا کے درمیان رہ کر زندگی بسر کرنے کی علامت نہیں۔
ہندووں کی آبادی بھی ایک ارب سے زیادہ ہے‘ مگر ان کے لیے رام اور کرشن پوجنے کے لائق لوگ ہیں‘ تقلید کے لائق نمونے نہیں۔ خود مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ انہیں داڑھی رکھنی ہو تو سیرت یاد آتی ہے‘ شلوار یا پاجامے کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر کرنے ہوں تو سیرت یاد آتی ہے‘ ہاتھ سے کھانا کھانا ہو تو سیرت یاد آتی ہے‘ لیکن انہیں جب کسی کو معاف کرنا ہو تو پھر یاد نہیں آتا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کتنے معاف کرنے والے تھے‘ انہیں پھر صرف یہ یاد آتا ہے کہ وہ کتنے طاقت ور اور دوسرا کتنا کمزور ہے۔ وہ کتنے غصہ ور اور دوسرا کتنا برفانی مزاج رکھتا ہے۔ وہ کتنے برتر اور دوسرا کتنا حقیر ہے۔
مسلمان جب تجارت کرتے ہیں تو انہیں یاد نہیں آتا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیسے تاجر تھے۔ انہیں اس وقت صرف یہ یاد رہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مال کیسے کمایا جائے۔ مسلمان جب اپنی بیویوں سے معاملہ کرتے ہیں تو انہیں یاد نہیں رہتا کہ اس سلسلے میں سیرت کی مثالیں کیا بتاتی ہیں‘ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امہات المومنین سے کیسی محبت کرنے والے‘ ان کی دل جوئی کرنے والے اور ان کے گھریلو کاموں میں ان کا کیسا ہاتھ بٹانے والے تھے۔ مسلمانوں کو اپنی بیویوں کے حوالے سے کچھ یاد رہتا ہے تو بس یہ کہ عورتیں ان کی پاوں کی جوتی ہیں اور ان کا کام دن رات خدمت کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
ہم کہیں جاکر آباد ہوتے ہیں تو ہمیں کبھی یاد نہیں آتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے پڑوسی تھے۔ ہمیں وعدہ کرتے ہوئے کبھی احساس نہیں ہوتا کہ آپ کس حد تک ایفائے عہد کے پابند تھے۔ ہم پر خودپسندی کا بھوت سوار ہوتا ہے تو ہم کبھی یاد نہیں رکھتے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اتنے متواضع تھے کہ صحابہ کرامؓ کے درمیان بھی نمایاں ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔ مطلب یہ کہ انسانی تعلقات اور معاملات کی پوری کائنات میں ہمیں سیرت کا آفتاب کہیں روشن نظر نہیں آتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسانی تعلقات اور معاملات زہرآلود ہوگئے ہیں۔
چنانچہ عہدِ حاضر میں انسانی تعلقات اور معاملات کے حوالے سے سیرت ِطیبہ کا ”معمول“ بھی ”انقلابی“ رنگ اختیار کرلیتا ہے‘ اس لیے کہ سیرت ِطیبہ کے نمونے کی تقلید کے بغیر انسانی تعلقات کی گہرائی و گیرائی‘ ان کا حسن و جمال اور ان کی بے پناہ معنویت بحال کی جاسکتی ہے نہ معاملات کو صحت مند خطوط پر استوار کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ زندگی میں خدا اور انسان کے سوا کچھ اہم نہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اصل انقلاب خدا اور انسانوں کے ساتھ انسانوں کے تعلقات میں انقلاب ہے۔ ہماری سیاست‘ ہماری سماجیات‘ ہماری معاشیات‘ ہمارے علوم اور ہمارے فنون کا انقلاب بھی یا تو خدا کے لیے ہے یا انسانوں کے لیے۔