پوپ فرانسس نے یورپ کی موجودہ نسل کو گمشدہ نسل یا Lost Generation قرار دیا ہے مگر انہوں نے پوپ ہونے کے باوجود ’’گمشدگی‘‘ کی بنیاد ’’معاشیات‘‘ پر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یورپ کی موجودہ نسل کے پاس کرنے کے لیے کوئی کام ہی نہیں ہے۔ یورپ کا معاشی بحران وقت گزرنے کے ساتھ سنگین ہورہا ہے اور یورپ کے بعض ملکوں میں بیروزگاری کی شرح پچاس ساٹھ فیصد تک جاپہنچی ہے، اس کے نتیجے میں یورپ کے کروڑوں نوجوان بیروزگار ہیں۔ پوپ نے کہا ہے کہ کام انسانی زندگی میں ایک وقار پیدا کرتا ہے۔ اور پوپ کی بات غلط نہیں ہے۔ مذہب بالخصوص اسلام انسان کے معاشی مسئلے کو نظرانداز نہیں کرتا، اور وہ معاشی جدوجہد کو بھی عبادت میں ڈھال دیتا ہے۔
مگر کام کا وقار خود زندگی کی بنیادی معنویت سے پیدا ہوتا ہے، اور یہ معنویت مذہب کے سوا کہیں سے آنہیں سکتی۔ لیکن عیسائی دنیا، یہاں تک کہ عیسائی دنیا کی سب سے بڑی مذہبی شخصیت بھی معاشی مسئلے کو اس کے وسیع تناظر میں دیکھنے اور بیان کرنے سے قاصر ہے۔ ورنہ یورپ کی موجودہ نسل کا مسئلہ معاشی گمشدگی کا نہیں، مذہبی اور تہذیبی گمشدگی کا ہے۔ لندن کے ہفت روزہ The Economist کے ایک نسبتاً پرانے سروے کے مطابق مغربی یورپ کے 75 فیصد اور مشرقی یورپ کے تقریباً80 فیصد لوگ کسی مذہب پر ایمان نہیں رکھتے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پورا براعظم یورپ ہی ایک گمشدہ براعظم ہے۔ چنانچہ اس براعظم میں برسر روزگار لوگ بھی زندگی کی حقیقی معنویت سے ناواقف ہیں اور وہ روحانی اعتبار سے خطِ غربت سے کہیں نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ لیکن گمشدہ نسل کا مسئلہ صرف یورپ یا امریکہ تک محدود نہیں۔ یہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے اور اسلامی معاشرے بھی ایک حد تک اس مسئلے کا شکارہیں، اس لیے کہ اسلامی معاشروں میں بھی انسانوں کا تناظر زیادہ سے زیادہ معاشی ہوتا جارہا ہے۔
اس کی ایک چھوٹی سی مگر اچھی مثال کراچی سے نمودار ہوئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کراچی میں بی کام کے نصاب سے اردو کو لازمی مضمون کی حیثیت سے خارج کردیا گیا ہے اور اب کراچی میں بی کام کے طلبہ کو اردو پڑھنے کے ’’بوجھ‘‘ سے ’’نجات‘‘ مل گئی ہے۔ کراچی کے بعض اہلِ علم کہلانے والے لوگوں نے اس صورت حال پر احتجاج کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ فیصلہ اردو کے خلاف ایک سازش ہے۔ یہ فیصلہ یقینا اردو کے خلاف ایک سازش ہوگا لیکن اس مسئلے کا ایک افادی اور نفسیاتی پہلو بھی ہے۔ ہم نے انٹر کامرس کے مضامین میں کیا، اور جب ہم کامرس کالج کے طالب علم تھے تو ہماری کلاس کے اکثر طلبہ کہا کرتے تھے کہ بھائی ہم تو کامرس کے طالب علم ہیں بھلا ہمارا ادب اور شعر و شاعری سے کیا تعلق؟ آخر ہم پر یہ اردو کیوں ٹھونسی گئی ہے؟ اس کی جگہ اگر ہمیں کامرس کا کوئی مضمون پڑھایا جاتا تو اس سے ہماری پیشہ وارانہ ذہانت و اہلیت میں اضافہ ہوتا، ہمیں بہتر روزگار حاصل کرنے میں مدد ملتی۔
بھلا شعرو شاعری پڑھ کر ہمارے کیا ہاتھ آئے گا! کیا ہم بینکوں اور دیگر معاشی اداروں میں بیٹھ کر شاعری ’’ڈرافٹ‘‘ کیا کریں گے؟ ظاہر ہے کہ یہ محض ایک کالج کے طلبہ کا معاملہ نہیں تھا۔ یہ زندگی کے بارے میں ایک زاویہ اور نقطۂ نظر ہے جو گزشتہ بیس برسوں میں پروان چڑھ کر اتنا مضبوط ہوگیا کہ اس کی گونج نے ملک کے سب سے بڑے اور تعلیم یافتہ شہر میں اردو کو نصاب سے خارج کرادیا۔ ممکن ہے اس فیصلے کی پشت پر کوئی سازش ہو، مگر معاشی نقطہ نظر کی سازش کا معاملہ تو بالکل واضح ہے۔ بظاہر اس واقعے اور پوپ فرانسس کے بیان میں کوئی مماثلت نہیں، لیکن تھوڑا سا گہرائی میں دیکھا جائے تو ان دونوں واقعات میں گہرا معنوی اشتراک موجود ہے۔
اگر ان واقعات میں کوئی فرق ہے تو وہ مسئلے کی سنگینی کا ہے۔ عیسائیت کی سب سے بڑی شخصیت کو یہ معلوم نہیں کہ زندگی کے معنی اور اس کا سارا وقار مذہب سے آتا ہے، ورنہ معاشی جدوجہد نے ساری دنیا میں اربوں معاشی حیوان اور اقتصادی روبوٹس پیدا کردیے ہیں۔ کراچی میں اردو کو بی کام کے نصاب سے نکلوانے والوں کو یہ معلوم نہیں کہ اسلامی تہذیب میں ادب مذہب کے بعد انسان کے باطن پر اثرانداز ہونے والی دوسری بڑی قوت ہے، اور مذہب و ادب کے مطالعے کے بغیر انسان کو مہذب بنانے کا تصور محال ہے، چنانچہ ادب کا مطالعہ بی کام ہی نہیں ایم بی اے اور سی اے کے طلبہ کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
لیکن یہ مسئلہ صرف کراچی کے بی کام کے طلبہ تک محدود نہیں۔ زندگی کے بارے میں معاشی تناظر کے استحکام نے ایک ایسی صورت حال پیدا کردی ہے کہ ملک کی جامعات میں زبانوں اور فلسفے کی تعلیم کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے۔ لوگ آرٹس کے مضامین کا ذکر حقارت سے کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں آرٹس کے مضامین کی تعلیم فضول اور محض ڈگری کے حصول کا ذریعہ ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آرٹس کے مضامین کے فہم اور ان میں کمال حاصل کرنے کے لیے سب سے زیادہ ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کامرس اور سائنس میں دوسرے درجے کی ذہانت سے کام چل سکتا ہے، مگر آرٹس کے مضامین کے لیے اعلیٰ درجے کی ذہانت ہی کفایت کرتی ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ یہ صورت حال مذہب سے دوری ہی کا نتیجہ ہے۔ ورنہ ایک ایسی تہذیب جس میں انسانوں کی بڑی تعداد کی ذہانت اور علم صرف دو شعبوں یعنی مذہب اور ادب پر صرف ہوا ہو، اس کے دائرے میں سماجی علوم کے لیے حقارت پیدا ہوہی نہیں سکتی تھی۔
ہمارے مذہبی طبقات اس بات پر ناراض رہتے ہیں کہ ہماری نئی نسل فلموں اور ڈراموں کی نذر ہوگئی ہے، لیکن انہیں یہ بات معلوم نہیں کہ ہماری نئی نسل فلموں اور ڈراموں میں بھی معیار کے تصور سے بیگانہ ہوچکی ہے۔ یہاں تک کہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ فلم اور ڈرامے کی طویل روایت میں اچھی فلم اور اچھا ڈراما کس کو کہتے ہیں؟ ہمیں جامعہ کراچی میں چند ماہ ایم اے کے طلبہ کو پڑھانے کا موقع ملا تو طلبہ نے چند روز بعد شکایت کی کہ آپ ہم سے بہت مشکل موضوعات پر مضامین لکھوا رہے ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ: اور آسان موضوع کون سا ہے؟ کہنے لگے: آپ ہم سے فلموں پر مضامین لکھوا لیجیے۔
ہم نے ان سے کہا کہ ٹھیک ہے، آپ پانچ منٹ میں سوچ کر طے کرلیجیے کہ آپ کی پسندیدہ فلم کون سی ہے، اور پھر چالیس منٹ میں اپنی پسندیدہ فلم پر ایک ایسا تبصرہ لکھ کر دکھایئے جو ایک جانب فلم کا تنقیدی جائزہ پیش کرتا ہو اور دوسری جانب اسے پڑھ کر کوئی قاری آپ کی پسندیدہ فلم دیکھنے کی خواہش کرے۔ طلبہ و طالبات نے ہمارے مشورے کی روشنی میں اپنے تبصرے لکھے، اور انہیں پڑھ کر معلوم ہوا کہ ہماری نئی نسل تو غور سے فلم بھی نہیں دیکھ رہی اور اسے فلم کی مبادیات تک کا شعور نہیں۔ یہ صورت حال بھی مقامی نہیں عالمگیر ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی میں کس حد تک معنی کا فقدان پیدا ہوچکا ہے۔
بھارت کے ممتاز اداکار دلیپ کمار سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا تھا کہ اب ہندوستان کیا مغرب میں بھی اچھی فلمیں کیوں نہیں بن رہیں اور ماضی میں وہاں اچھی فلمیں کیوں بنی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں دلیپ کمار نے کہا کہ مغرب میں پچاس ساٹھ بڑے ناول اور ڈھائی تین سو بڑے افسانے لکھے گئے تھے، اور جب تک فلم والے ادب کو خام مواد کے طور پر استعمال کررہے تھے اُس وقت تک اچھی فلمیں تخلیق ہورہی تھیں، لیکن چونکہ اب بڑا ادب بالخصوص بڑا فکشن تخلیق نہیں ہورہا اس لیے اب اچھی فلمیں بھی نہیں بن رہیں۔ اس صورت حال کو دیکھا جائے تو اس نسل کے المیے اور گمشدگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے جو اچھی فلمیں دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئی ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان گمشدہ نسلوں کی بازیابی کا کوئی امکان ہے؟ اگر ہے تو کس صورت میں؟
انسانی زندگی میں معنی، مقصد، گہرائی و گیرائی اور حسن و جمال کا مرکز اللہ ہے۔ مغرب کا سیکولر تو خدا کے تصور سے بیگانہ ہوچکا ہے اور عیسائیت تثلیث کے پھندے اور سیکولرازم کے رعب اور اس کی اتھارٹی کے لرزے میں مبتلا ہے۔ چنانچہ مغرب کو جب تک ان مسائل سے نجات نہیں ملے گی اُس وقت تک مغرب اپنی نسلوں کو کھوتا رہے گا۔ اسلامی معاشرے خدا کے تصور کے حامل ہیں مگر ہمارے مذہبی علم کلام کا بڑا حصہ اور ہمارے علماء کی تقریروں کے بہتے ہوئے دریا نئی نسل کو خدا سے محبت کرنا نہیں سکھا رہے، بلکہ وہ اپنے زورِبیان کا بڑا حصہ خدا کو خوفناک بناکر پیش کرنے پر صرف کررہے ہیں، اور ان کی تقریروں کا باقی ماندہ حصہ فرقے‘ مسلک‘ مکتب اور فروعی معاملات کے بیان پر صرف ہورہا ہے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ قوموں کے ہیروز نئی نسلوں کے لیے نمونۂ عمل ہوا کرتے تھے اور یہ ہیروز تاریخ سے آتے تھے۔ لیکن مغرب نے مذہب کو مسترد کیا تو اپنی تاریخ کے بڑے حصے سے بھی لاتعلق ہوگیا، چنانچہ اہلِ مغرب کی نئی نسلوں کے سامنے حقیقی ہیرو موجود ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی دنیا کی نئی نسلیں اداکاروں‘ گلوکاروں اور کھلاڑیوں میں ہیروز یا Icons تلاش کررہی ہیں مگر ان شعبوں کی نمایاں شخصیات حقیقی ہیروز کا سایہ بھی نہیں ہوتیں۔ مسلم دنیا میں اس حوالے سے صورت حال قدرے بہتر ہے، لیکن مسلمانوں کا تاریخی شعور بھی کمزور پڑا ہے۔ چنانچہ مسلم معاشروں میں بھی بالشتیے دیوقیامت لوگوں کی جگہ لیتے جارہے ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کی تاریخ میں حقیقی ہیروز کی اتنی فراوانی ہے کہ مسلمانوں کا تاریخی اُفق ستاروں سے بھرا ہوا ہے اور ضرورت اس افق سے ایک زندہ رشتہ استوار کرنے کی ہے۔
ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ زندگی ترجیحات کے درست تعین سے زندگی بنتی ہے۔ معاشیات زندگی کی ایک اہم حقیقت ہے لیکن وہ معنی کا سرچشمہ نہیں ہے۔ معنی مذہب کے سوا کہیں سے آہی نہیں سکتے۔ چنانچہ مشرق ہو یا مغرب، جب تک انسانوں کی زندگی میں حقیقی اور سچا مذہب ترجیح اوّل بن کر نہیں ابھرے گا، دنیا بالخصوص نئی نسل کو معنی کے بحران سے نہیں نکالا جاسکے گا۔