برطانیہ کے ایک شہزادے اور کرکٹ کے ابتدائی سرپرست جان سیک ولی نے کہا تھا کہ انسان کی زندگی کرکٹ کے کھیل کے سوا کیا ہے؟ کرکٹ برطانیہ کا قومی کھیل ہے اور برطانیہ کا کوئی شہزادہ کرکٹ میں اتنا ڈوبا ہوا ہوسکتا ہے کہ کرکٹ اس کے لیے زندگی کا ہم معنی بن جائے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ جان سیک ولی نے کرکٹ کی تعریف اس لیے کی کہ کرکٹ برطانیہ کا قومی کھیل تھا یا کرکٹ میں واقعتاً کوئی ایسی بات ہے کہ وہ زندگی کا ہم معنی بن جائے۔؟
ہم نے کرکٹ 1978 کی پاک بھارت کرکٹ سیریز میں ’’دریافت‘‘ کیا تھا۔ اس سیریز کی اہمیت یہ تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان یہ سیریز دو دہائیوں کے بعد کھیلی جارہی تھی۔ چنانچہ یہ سیریز دیکھتے ہی دیکھتے دونوں ملکوں کے کروڑوں لوگوں کے لیے اک ’’نشہ‘‘ بن گئی۔ اس نشے کو ٹیلی وژن کی نشریات نے دو آتشہ بنا دیا۔ پاکستان کے لوگوں کے لیے یہ سیریز اس لیے اور بھی ’’دلچسپ‘‘ تھی کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم بھارت کی کرکٹ ٹیم سے بدرجہا بہتر تھی۔ پاکستان کے پاس ظہیر عباس، جاوید میاں داد، آصف اقبال اور ماجد خان جیسے بلّے باز اور عمران خان جیسے بولر تھے۔ ظہیر عباس اپنی باری کھیلنے کے لیے آتے تو لگتا تھا کہ وہ کبھی آئوٹ نہیں ہوں گے۔ چنانچہ ان کے بارے میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان بشن سنگھ بیدی نے کہا کہ ہمارے لیے ظہیر عباس ایک کھلاڑی کے بجائے ایک ٹیم کی طرح ہیں۔ عمران خان نے کراچی میں ہونے والے ٹیسٹ میچ میں اس طرح کی بولنگ کرائی کہ بھارتی کھلاڑی انہیں کھیل ہی نہ سکے چنانچہ پاکستان نے بھارت کو کراچی ٹیسٹ میں شکست سے دوچار کردیا۔ میچ کے بعد بھارت کے عظیم بلے باز سنیل گاواسکر نے عمران کی بولنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی فاسٹ بولر سو اور ڈیڑھ سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند کو اسپن کرائے تو اِسے کوئی کیسے کھیل سکتا ہے۔ گواسکر کی بات غلط نہ تھی۔ گاواسکر عمران کی جس گیند پر آئوٹ ہوئے وہ آف اسٹمپ سے باہر گری تھی مگر اس کے باوجود اس نے گاواسکر کے مڈِل اسٹمپ کو اڑا دیا۔ عمران کی بولنگ اتنی خوب صورت تھی کہ اِسے دیکھ کر خیال آتا تھا کہ عمران کی گیندیں غزلوں اور نظموں کے مصرعوں کی طرح ہیں۔ آصف اقبال پاکستان کی کرکٹ ٹیم لے کر بھارت پہنچے تو دہلی کے فیروز شاہ گوٹلہ گرائونڈ میں کانٹے دار میچ ہوا۔ اس میچ میں آصف اقبال نے اپنی کپتانی کے جوہر دکھائے اور ان کی کپتانی پر تبصرہ کرتے ہوئے بھارت کے ایک مبصر نے کہا کہ آصف اقبال اس طرح کپتانی کررہے تھے جیسے کرکٹ کا میدان ’میدانِ جنگ‘ ہو اور آصف اقبال کھلاڑی نہ ہوں بلکہ کوئی جرنیل ہوں۔ پاک بھارت کرکٹ سیریز کا ایک اثر یہ ہوا کہ پاکستان اور بھارت کے گلی کوچوں میں کرکٹ کھیلی جانے لگی۔ ہمارے گھر کے پاس ایک بڑا سا میدان تھا۔ ہم اسکول سے فارغ ہوتے ہی اپنے دوستوں کے ساتھ میدان میں پہنچ جاتے اور سورج غروب ہونے تک کرکٹ کھیلتے رہتے۔ شام ہوتی تو ہم سب سوچتے کہ دن اتنا چھوٹا کیوں ہوتا ہے؟ اس دور میں کرکٹ ہماری عمر کے لوگوں کے لیے واقعتاً زندگی کے ہم معنی بن گیا تھا۔ لیکن یہ ہمارے بچپن کا زمانہ تھا۔ بڑے ہوئے تو پڑھنے لکھنے کا شوق کرکٹ کے شوق پر غالب آگیا۔ لیکن ہم بچپن کے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ کرکٹ زندگی کا ہم معنی بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کرکٹ پاکستان اور بھارت میں اتنا مقبول کیوں ہے۔؟
اس سوال کا ایک جواب یہ دیا جاتا ہے کہ کرکٹ ہمارے آقائوں کا کھیل ہے۔ یہ بات ایک حد تک درست ہے۔ ظاہر ہے کہ کرکٹ انگریزوں کا کھیل ہے اور یہ کھیل انگریزوں کی سابق نوآبادیوں ہی میں کھیلا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان اور بھارت میں کرکٹ کی مقبولیت کی اصل وجہ کرکٹ کی اصل یا اس کا ماضی نہیں ہے۔ کرکٹ کی مقبولیت کا راز یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے لوگوں نے کرکٹ میں انگریزوں کے برابر بلکہ ان سے زیادہ مہارت حاصل کرکے دکھا دی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ پاکستان نے ایک بار اور بھارت نے دو بار کرکٹ کا عالمی کپ جیتا ہے مگر برطانیہ اب تک ایک بار بھی کرکٹ کا عالمی کپ نہیں جیت سکا۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کرکٹ کی اہمیت یا کرکٹ کا ٹیلنٹ اتنی فراوانی سے میسر ہے جیسے پاکستان اور بھارت میں ایک ڈیڑھ ہزار سال سے کرکٹ کھیلی جارہی ہو۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کرکٹ کے ٹیلنٹ کی فراوانی کیوں ہے؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کرکٹ کو دیکھ کر سیکھا جاسکتا ہے۔ اس تناظر میں برصغیر میں کرکٹ کے ٹیلنٹ کی فراوانی کا مفہوم یہ ہے کہ برصغیر میں کرکٹ بہت بڑے پیمانے پہ دیکھا اور کھیلاجارہا ہے اور اس عمل کے سلسلے میں غیر معمولی سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ برطانیہ اور آسٹریلیا میں کرکٹ ’’میدان کا کھیل‘‘ ہے لیکن پاکستان اور بھارت میں کرکٹ میدان کا محتاج نہیں۔ کروڑوں بچے اور نوجوان اسے گلیوں، محلوں یہاں تک کہ اپارٹمنٹس میں بھی کھیل رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کرکٹ اخبار میں ہے۔ ریڈیو پر ہے۔ ٹیلی وژن پر ہے۔ اس فضا میں کرکٹ کے ٹیلنٹ کی فراوانی نہیں ہوگی تو کیا ہوگی؟ لیکن پاکستان اور بھارت میں کرکٹ کی مقبولیت کی ایک اور وجہ بھی ہے۔
اس وجہ کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کرکٹ قومی انائوں اور غلبے کی نفسیات کے اظہار کی ایک صورت بن گیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ نہیں ہوتا جنگ ہوتی ہے اور اس کی پشت پر ایک ہزار سال کی تاریخ اور ہندو مسلم کشمکش کے حوالے موجود ہوتے ہیں۔ اس عمل کی ابتداء 1978-79 کی پاک بھارت سیریز سے ہوئی تھی۔ اگرچہ پاک بھارت مقابلوں میں جوش وجذبہ پہلے بھی بہت ہوتا تھا مگر 1978-79 کی کرکٹ سیریز ٹیلی وژن سے نشر ہوئی تھی اور ٹیلی وژن کی پیشکش نے اس سیریز کو اتنا موثر بنا دیا تھا کہ اس سیریز کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ اس سیریز سے پہلے پاکستان اور بھارت کے درمیان قومی انائوں اور غلبے کی نفسیات کے اظہار کا ذریعہ ہاکی کے مقابلے تھے مگر 1978-79 کی پاک بھارت کرکٹ سیریز نے ہاکی کے مقابلوں کو ثانوی اہمیت کا حامل بنا دیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن کرکٹ برصغیر میں قومی انائوں اور غلبے کی نفسیات کے اظہار کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ اس صورت حال نے کرکٹ میں صرف یہ کہ جوش وجذبے کو بڑھا دیا ہے بلکہ پاک بھارت کرکٹ میں اس حوالے سے ایک طرح کی ’’قومی تقدیس‘‘ بھی پیدا ہوگئی ہے۔
ایک زمانے میں کہا جاتا تھا۔ پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب، کھیلو گے کودو گے ہوگے خراب۔ لیکن زمانے کے تغیرات نے اس مثال کو کچھ الٹ سا دیا ہے۔ ہمارے زمانے میں پڑھ لکھ کر کوئی نواب بنے یا نہ بنے مگر کھیل کود کر بہت سے لوگ نواب ضرور بن جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہاں نوابی کا مفہوم پیسہ اور شہرت ہے اور کرکٹ میں اتنا پیسہ اور اتنی شہرت ہے کہ جو کسی بھی شخص کو دیوانہ بنا سکتی ہے۔ بلاشبہ عمران خان بڑے کرکٹر تھے مگر بہرحال تھے وہ کھلاڑی ہی۔ لیکن عمران خان کے کھیل ہی سے ان کا کینسر ہسپتال اور ان کی سیاست طلوع ہوئی۔ یہ صورت حال پاکستان اور بھارت میں کرکٹ کے ایک اور پہلو کو ہمارے سامنے لاتی ہے۔ پاکستان اور بھارت میں عمل کے نمونوں یا رول ماڈلز کا کال پڑا ہوا ہے۔ اس صورت حال میں نئی نسل کے بہت سے لوگوں کے لیے کرکٹر رول ماڈلز کی حیثیت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ بھارت میں فلم انڈسٹری بہت طاقت ور ہے اس لیے وہاں فلم انڈسٹری بھی رول ماڈلز کی فراہمی کا ذریعہ ہے مگر پاکستان میں فلم انڈسٹری طاقت ور نہیں چنانچہ ٹیلی وژن اور کرکٹ کی دنیا رول ماڈلز کی فراہمی کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ اس اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو کرکٹ ہمارے لیے کھیل کے بجائے زندگی بنا ہوا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا مگر پاکستان کے جرنیل اور سیاست دان 75 برسوں میں کبھی بھی اسلام کو پاکستان میں قومی وحدت کی بنیاد نہیں بنا سکے۔ ایسا ہوتا تو ہماری تاریخ میں سقوط ڈھاکا نہ ہوتا اور ملک میں کبھی ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا نعرہ بلند ہوتا نہ سندھیت اور مہاجریت کا تعصب ہوتا۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو کرکٹ کی ایک اہمیت یہ ہے کہ وہ ملک میں قومی وحدت پیدا کرنے والی طاقت بن گیا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے مگر ایک حقیقت ہے۔