پاکستان دیو قامت قائداعظم نے بنایا تھا مگر اس پر نوازشریف، الطاف حسین اور آصف زرداری جیسے بالشتیے قابض ہوگئے۔
عمران خان نے سندھ کے نئے گورنر کامران ٹیسوری کو ’’مولا جٹ‘‘ قرار دیا ہے، ایسے آدمی سے کسی کام کی بات کی توقع رکھنا عبث ہے۔ مگر چند روز پیشتر کامران ٹیسوری نے کراچی کی ایک مجلس میں پاکستان کے بارے میں ایک بنیادی بات کہہ کر ہمیں حیران کردیا۔ کامران ٹیسوری نے فرمایا کہ ’’اگر آصف زرداری پاکستان کا صدر اور کامران ٹیسوری سندھ کا گورنر بن سکتا ہے تو پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے۔‘‘
دنیا کے کتنے ہی ملک ہیں جہاں درجنوں باتیں ناممکن ہیں۔ مثلاً چین سرمایہ دار ملک بن گیا ہے مگر وہاں آج بھی سوشلزم اور کمیونسٹ پارٹی کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ امریکہ ایک سیکولر ملک ہے اور امریکہ کو دنیا کی کوئی طاقت اسلامی نہیں بنا سکتی۔ اسرائیل ایک صہیونی ریاست ہے اور اسرائیل میں یہودیت کے خلاف کوئی زبان نہیں کھول سکتا۔ اس کے برعکس پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا مگر جنرل ایوب نے پاکستان کو سیکولر بنانے کی پوری کوشش کی۔ انہوں نے ایسے عائلی قوانین متعارف کرائے جو خلافِ اسلام تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر فضل الرحمن کے ذریعے سود کو اسلامائز کرنے کی سر توڑ کوشش کی۔
بھٹو صاحب نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’’اسلامی سوشلزم‘‘ ایجاد کر لیا۔ حالانکہ اسلام اور سوشلزم میں کوئی قدر مشترک نہیں تھی۔ اسلام اور سوشلزم ایک دوسرے کی ضد تھے۔ اسلام حق تھا تو سوشلزم باطل تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو لبرل بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ انہوں نے بسنت کو اتنا فروغ دیا کہ لوگ انہیں ’’مشرف سنگھ بسنتی‘‘ کہنے لگے۔ یہ ساری باتیں ناممکن تھیں مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ممکن ہو گئیں۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ دنیا کے کسی ملک کی نظریاتی اساس کو اُس ملک کے اندر رہتے ہوئے چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
مگر پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش ور 75 سال سے یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ قائداعظم پاکستان کو اسلامی نہیں سیکولر بنانا چاہتے تھے۔ حالانکہ سیکولرازم ایسا لفظ ہے جسے قائداعظم نے کبھی استعمال ہی نہیں کیا۔ دو قومی نظریہ اسلام تھا اور قائداعظم دو قومی نظریے کے سب سے بڑے علَم بردار تھے۔ قائداعظم کی درجنوں تقاریر اور انٹرویو ایسے ہیں جن میں انہوں نے کھل کر پاکستان اور اسلام کا تعلق ثابت کیا ہے، لیکن پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش ور قائداعظم کی اگست 1947ء کی ایک تقریر کو پکڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ریاست ان کا ہاتھ اور زبان پکڑنے کے لیے تیار نہیں۔ چنانچہ کامران ٹیسوری نے بالکل درست کہا کہ پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے۔
قائداعظم بانیِ پاکستان ہیں اور وہ تاریخ کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ان کے بارے میں اسٹینلے ولپرٹ نے بالکل درست کہا ہے کہ تاریخ میں ایسے کم لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رخ بدلا ہے، ایسے لوگ اور بھی کم ہوتے ہیں جنہوں نے جغرافیے کو بدلا ہے، اور ایسا توشاید ہی کوئی ہو جس نے ایک قومی ریاست بنائی ہو۔ ولپرٹ کے بقول قائداعظم نے بیک وقت یہ تینوں کام کیے مگر پاکستان میں قائداعظم کے ساتھ یہ سلوک ہوا کہ انہیں بیماری کی حالت میں زیارت سے کراچی منتقل کیا جارہا تھا تو ان کی ایمبولینس راستے ہی میں خراب ہوگئی اور قائداعظم گھنٹوں اپنی ایمبولینس میں بے یارومددگار پڑے رہے۔
گھنٹوں بعد ان کی ایمبولینس کی خرابی کی اطلاع کراچی پہنچی تو نواب زادہ لیاقت علی خان ایک اور ایمبولینس لے کر قائداعظم کو لینے پہنچے۔ کیا بھارت میں گاندھی اور نہرو کے ساتھ یہ سلوک ممکن تھا؟ مگر پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے۔ قائداعظم کے ساتھ مزید بڑا ظلم یہ ہوا کہ پاکستان کے فوجی اور لبرل حکمرانوں نے قائداعظم کی فکر اور ورثے کو چند برسوں میں بھلا دیا۔ قائداعظم کی بہن فاطمہ جناح مادرِ ملت تھیں، انہوں نے ساری زندگی قائداعظم کی خدمت کی تھی، مگر جب محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کیا تو ان کے خلاف قومی اخبارات میں نصف نصف صفحے کے ایسے اشتہارات شائع کرائے گئے جن میں قائداعظم کی بہن کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا تھا۔ اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہوا کہ انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے فاطمہ جناح کو ہرا دیا گیا۔ فاطمہ جناح مغربی پاکستان میں صرف کراچی سے کامیاب ہوسکیں۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ تحریکِ پاکستان میں جرنیلوں اور فوج کا کوئی کردار ہی نہیں تھا۔ تحریکِ پاکستان دو قومی نظریے، قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت اور عوام کے اتحاد کی مظہر تھی۔ اہم بات یہ تھی کہ تحریکِ پاکستان کے وقت کوئی پاکستانی فوج موجود ہی نہیں تھی، چنانچہ پاکستان کی سیاست کا فوجی کردار ممکن ہی نہیں تھا۔ خود قائداعظم جرنیلوں اور فوج کی سیاست میں مداخلت کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے اِس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کو فوجیوں نے عشائیے پر مدعو کیا، قائداعظم عشائیے پر پہنچے تو انہیں کافی پیش کی گئی۔ اس دوران گفتگو کا سلسلہ چل نکلا۔ اس موقع پر ایک فوجی افسر نے قائداعظم سے کہا کہ آپ نے ایک انگریز جنرل گریسی کو فوج کا سربراہ بنا دیا ہے حالانکہ مقامی فوجی افسروں میں کئی لوگ اس عہدے کے لیے زیادہ موزوں تھے۔
یہ بات سنتے ہی ایک ناگواری قائداعظم کے چہرے پر پھیل گئی۔ قائداعظم نے فرمایا کہ پاکستان میں فیصلے سول قیادت کرے گی، فوجی نہیں۔ قائداعظم نے اس افسر سے کہا کہ اگر آپ کے یہی خیالات ہیں تو آپ کا پاکستان نہ آنا ہی بہتر تھا۔ قائداعظم نے یہ کہا اور رات کا کھانا کھائے بغیر فوجی میس سے روانہ ہوگئے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں مارشل لا کے نفاذ کا کوئی امکان ہی نہیں تھا، مگر پاکستان میں چونکہ کچھ بھی ممکن ہے اس لیے جنرل ایوب نے قائداعظم کے انتقال کے صرف دس سال بعد ہی ملک پر پہلا مارشل لا مسلط کردیا اور وہ بھی امریکہ کے ساتھ سازباز کرکے۔ امریکہ کی جو خفیہ دستاویزات عام ہوچکی ہیں ان کے مطابق جنرل ایوب نے مارشل لا 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکہ کے ساتھ رابطے میں تھے۔ وہ امریکیوں کو باور کرا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک تباہ کردیں گے۔ جنرل ایوب نے امریکیوں کو بتایا کہ فوج سیاست دانوں کو ملک تباہ نہیں کرنے دے گی۔ چنانچہ جنرل ایوب نے 1958ء میں قائداعظم کے پاکستان کو فوجی آمریت کے شکنجے میں جکڑ لیا۔ اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے سیاسی عدم استحکام کو بنیاد بناکر مارشل لا لگایا تھا، مگر جب جنرل ایوب خود اقتدار سے رخصت ہوئے تو ملک پہلے سے کہیں زیادہ سیاسی عدم استحکام کا شکار تھا۔
پاکستانی جرنیل جنرل ایوب کے ناکام فوجی تجربے سے کچھ سیکھ لیتے تو بڑی بات ہوجاتی۔ مگر جرنیلوں نے پاکستان پر تسلط کو اپنا حق بنا لیا۔ چنانچہ جنرل ضیا الحق نے بھٹو، اور جنرل پرویزمشرف نے میاں نوازشریف کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ بلاشبہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے۔
قیام پاکستان کے وقت پوری پاکستانی قوم کا یہ سیاسی عقیدہ تھا کہ پاکستان ہمیشہ قائم رہنے کے لیے بنا ہے، مگر چونکہ پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے پاکستان میں کچھ بھی ممکن بنادیا ہے اس لیے ہم 1971ء میں پاکستان کو نہ سنبھال سکے اور ملک دولخت ہوگیا۔ اس سے قبل ملک میں وہ چیزیں ہوئیں جو دنیا کے کسی بھی ملک میں ممکن ہی نہیں تھیں۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ مشرقی پاکستان کے لوگ ملک کی آبادی کا 56 فیصد تھے مگر انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ قومی وحدت کے لیے خود کو صرف 50 فیصد باور کریں۔ بنگالیوں نے اس ناممکن نظر آنے والے مطالبے کو تسلیم کرلیا، مگر بنگالیوں کے ساتھ زیادتیاں جاری رہیں۔
بنگالی آبادی کا 56 فیصد تھے مگر 1960ء تک فوج میں ایک بھی بنگالی نہیں تھا۔ 1971ء میں جب ملک دولخت ہوا تو فوج میں بنگالیوں کی موجودگی صرف آٹھ سے دس فیصد تھی حالانکہ بنگالی آبادی کا 56 فیصد تھے۔ میجر صدیق سالک نے اپنی معرکہ آرا تصنیف ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ 1971ء کے بحران میں ایک فوجی چھائونی کے دورے پر پہنچے تو ایک بنگالی افسر نے ان سے کہا کہ جنرل یحییٰ خان نے اپنی تقریر میں یہ کیا فرما دیا ہے کہ فوج میں بنگالیوں کی تعداد میں سو فیصد اضافہ کردیا جائے گا۔ اس نے کہا کہ اگر جنرل یحییٰ کے بیان پر من و عن عمل ہو بھی گیا تو فوج میں بنگالیوں کی تعداد بڑھ کر پندرہ، بیس فیصد ہوجائے گی حالانکہ ہم آبادی کا 56 فیصد ہیں۔
بنگالی پاکستان کی آبادی کا 56 فیصد تھے مگر ہمارے جرنیلوں کی نظروں میں ان کی یہ عزت تھی کہ جنرل نیازی نے 1971ء کے بحران میں فرمایا کہ ہم بنگالی عورتوں کا اس بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل بدل کر رہ جائے گی۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں کوئی جرنیل اپنی ہی قوم کے کسی حصے کے بارے میں یہ بات نہیں کہہ سکتا، مگر پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے، چنانچہ جنرل نیازی نے بنگالیوں کی نسل بدلنے کا اعلان کردیا۔ اس سے پہلے ملک میں انتخابات ہوئے اور شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کرلی۔
جمہوریت کا اصول اکثریت ہے، مگر مغربی پاکستان کی فوجی اور سول قیادت نے اکثریت کے اصول کو تسلیم نہیں کیا۔ چنانچہ اقتدار شیخ مجیب کو منتقل نہ ہوسکا۔ اس کے برعکس مغربی پاکستان کی فوجی قیادت نے بنگالیوں پر فوجی آپریشن مسلط کردیا۔ حالات خراب ہوئے تو جنرل نیازی نے قوم سے فرمایا کہ ’’بھارتی فوجی میری لاش سے گزر کر ہی ڈھاکہ میں داخل ہوسکیں گے۔‘‘ سقوطِ ڈھاکہ سے چند روز پیشتر جنرل یحییٰ نے بھی قوم سے خطاب فرمایا اور کہا کہ ’’قوم ہرگز نہ گھبرائے، ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔‘‘ مگر جب بھارتی فوج ڈھاکہ میں داخل ہوئی اور پاکستان کے 90 ہزار فوجیوں نے بھارت کے آگے شرم ناک انداز میں ہتھیار ڈالے تو نہ کہیں جنرل نیازی کی لاش پڑی ہوئی تھی، نہ ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں نظر آرہا تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ ایک ناممکن بات تھی مگر پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ اگر گھر میں کسی بچے سے گلاس بھی ٹوٹ جاتا ہے تو والدین تحقیق کرتے ہیں کہ گلاس کیسے ٹوٹا، مگر 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان ٹوٹ گیا اور آج تک اس بات کا تعین ہی نہ ہوسکا کہ پاکستان کس نے توڑا؟ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد جسٹس حمودالرحمٰن کی سربراہی میں حمودالرحمٰن کمیشن قائم کیا گیا تھا۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جنرل یحییٰ سمیت کئی سینئر فوجی افسران کو سقوطِ ڈھاکہ کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے ان کے کورٹ مارشل کی سفارش کی تھی، مگر تمام ذمے دار افسران کا کچھ بھی نہ بگاڑا جاسکا۔ جنرل یحییٰ شان سے زندہ رہے اور مرنے کے بعد انہیں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ رخصت کیا گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے ممتاز صحافی آصف جیلانی کو ایک بار بتایا تھا کہ امریکہ نے سقوطِ ڈھاکہ کے بعد جنرل یحییٰ کے خلاف کوئی اقدام نہ کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ امریکہ کا کہنا یہ تھا کہ جنرل یحییٰ نے امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اس لیے انہیں کچھ نہ کہا جائے۔ بلاشبہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے۔
پاکستان دیو قامت قائداعظم نے بنایا تھا مگر اس پر نوازشریف، الطاف حسین اور آصف زرداری جیسے بالشتیے قابض ہوگئے۔ اس سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے۔ دنیا میں کمزور مسلمانوں کی کمی نہیں، مگر کمزور سے کمزور مسلمان بھی قرآن پر جھوٹ نہیں بول سکتا، مگر شریف خاندان نے اس ناممکن کو بھی ممکن بنادیا۔ چودھری شجاعت نے اپنی خودنوشت ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں لکھا ہے کہ انہوں نے شریف خاندان کے ساتھ سیاسی معاہدہ کیا تو شہبازشریف قرآن اٹھا لائے اور قرآن کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے کہ ’’یہ ہمارے اور آپ کے درمیان اس بات کا ضامن ہے کہ ہم آپ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی ایک ایک شق پر عمل کریں گے۔‘‘ مگر چودھری شجاعت کے بقول بعد میں شریف خاندان نے معاہدے کی کسی شق پر بھی عمل نہیں کیا۔ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ میجر جنرل اسد درانی نے اپنی تصنیف ’’اسپائی کرونیکلر‘‘ میں لکھا ہے کہ میاں شہبازشریف بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ دونوں پنجابوں کو ایک کرنے کے منصوبے پر مذاکرت کررہے تھے۔ یہ مذاکرات بے نظیر بھٹو یا عمران خان نے کیے ہوتے تو ان کی گردن مار دی جاتی، مگر شریف خاندان سے آج تک اس غداری کے بارے میں کچھ بھی نہیں پوچھا گیا۔ ان حقائق سے بھی یہی حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے۔