قوم آج بھی اس سوالی کے جواب کی تلاش میں ہے!
گھر میں بچہ دس روپے کا گلاس توڑ دیتا ہے تو بھی والدین اس امر کی تحقیق کرتے ہیں کہ گلاس کیوں ٹوٹا؟ لیکن 16 دسمبر 1971ء کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت ٹوٹ گئی اور پاکستان کے حکمران طبقے نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ پاکستان کیوں ٹوٹا؟ بلکہ اس کے برعکس پاکستان کے حکمران طبقے نے سقوطِ ڈھاکہ کو جلد از جلد بھلانے کی کوشش کی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حوالے سے حمودالرحمن کمیشن قائم کیا گیا مگر اس کا دائرۂ کار انتہائی محدود تھا، لیکن اس کے باوجود حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کو بھی تین دہائیوں تک سامنے نہیں آنے دیا گیا۔ جنرل پرویزمشرف نے اپنے مقاصد کے لیے اس رپورٹ کے کچھ حصے شائع کیے لیکن پوری رپورٹ ابھی تک راز ہے۔ یہ صورت ِحال حکمران طبقے کی مجرمانہ ذہنیت کی عکاس ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران طبقے کے لیے اپنے مفادات کے سوا کچھ اہم نہیں۔ ملک تک نہیں۔ اس طبقے کے لیے اس کے مفادات ہی ملک ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان کیوں ٹوٹا؟
اس سوال کا جواب پانچ نکات میں مضمر ہے:
(1) ریاستی امور سے اسلام کی بے دخلی
(2) فوجی ذہنیت
(3) سماجی و معاشی ناانصافی
(4) تذلیل
(5) مغربی و مشرقی پاکستان میں مؤثر ابلاغ کا فقدان
پاکستان کے سیکولر طبقے کہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی اور مشرقی پاکستان کے اتحاد کی بنیاد اسلام نہیں تھا۔ یا یہ کہ دونوں حصوں کے درمیان اسلام کو Binding force قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن پاکستان کے دوٹکڑے ہونے کی بنیادی وجہ ہی یہ تھی کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور قیام پاکستان کے بعد اسلام ہی کو ریاستی معاملات سے بے دخل کردیا گیا۔
لوگ کہتے ہیں کہ بنگالیوں میں قوم پرستی بہت تھی اور یہی قوم پرستی مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کا سبب بن گئی۔ لیکن تحریکِ پاکستان کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ اسلام نے تحریک ِ پاکستان کے سات برسوں میں بنگلہ قوم پرستی کو تحلیل کردیا تھا۔ بنگالی قوم پرستی سے اوپر اٹھ گئے تھے۔ ان کے دل لاالہ الا اللہ کے لیے دھڑک رہے تھے۔ اور یہ صرف بنگالیوں کی بات نہیں تھی۔ یوپی، سی پی، پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کے لوگ بھی اپنی لسانیتوں، اور اپنے جغرافیوں سے بلند ہوگئے تھے اور اسلام اُن کے تشخص کا مرکزی حوالہ بن گیا تھا۔
لوگ کہتے ہیں کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا اور یہ فاصلہ بھی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب بنا۔ لیکن تحریک ِپاکستان کے سات برسوں میں ایک آدمی نے بھی یہ شکایت نہیں کی کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان بڑا فاصلہ ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام کی کشش نے دلوں کے فاصلے مٹا دیے تھے، اور جہاں دلوں کے فاصلے مٹ جاتے ہیں وہاں جغرافیائی فاصلوں کی اہمیت نہیں رہتی۔
لیکن قیام پاکستان کے بعد مغربی پاکستان کے غاصب حکمران طبقے نے اسلام کی قوت اور اس کے حسن و جمال کو استعمال ہی نہیں کیا۔ 1954ء میں جو عبوری دستور بنا وہ اسلامی نہیں تھا۔ 1956ء کا دستور اسلامی نہیں تھا۔ جنرل ایوب سیکولر تھے۔ جنرل یحییٰ سیکولر تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک ِ پاکستان کا اسلامی جذبہ کمزور پڑتا چلا گیا، حالانکہ پاکستان کے قیام کے بعد اس جذبے کو مزید توانا ہونا چاہیے تھا۔ سوال یہ ہے کہ جو جذبہ ریاست کے بغیر لوگوں کو متحد کرنے کے سلسلے میں ’’معجزہ‘‘ دکھا سکتا تھا وہ جذبہ ریاست کے قیام کے بعد کیا نہیں کرسکتا تھا؟ لیکن اس جذبے کو دبا دیا گیا، بھلا دیا گیا۔ نتیجہ یہ کہ دلوں میں فاصلے پیدا ہوگئے۔ قوم پرستی ابھر آئی۔ دلوں کے فاصلے نے جغرافیائی فاصلوں کے احساس کو شدید کردیا۔ برداشت کی صلاحیت کم سے کم ہوتی چلی گئی۔
تجزیہ کیا جائے تو فوجی ذہنیت مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا دوسرا بڑا سبب ہے۔ یہ فوجی ذہنیت ہی تھی جس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا۔ اس نظریے کے تحت مشرقی پاکستان کو کبھی بھاری توپ خانہ فراہم نہ کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1971ء کی جنگ میں طاقت کا توازن ہولناک حد تک بھارت کے حق میں ہوگیا اور بھارت تیزی کے ساتھ مشرقی پاکستان میں پیش قدمی کرتا چلا گیا۔
1970ء کے انتخابات کے ’’منصفانہ‘‘ ہونے کا بڑا چرچا کیا جاتا ہے اور جنرل یحییٰ کو انتخابات کے منصفانہ ہونے پر سراہا جاتا ہے، لیکن ان منصفانہ انتخابات کی حقیقت یہ تھی کہ جنرل یحییٰ چاہتے تھے کہ مشرقی پاکستان میں مجیب اور مغربی پاکستان میں بھٹو کامیاب ہو۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس صورت حال میں جنرل یحییٰ خود کو جمہوری صدر بنانے کے لیے سودے بازی کی پوزیشن میں آجاتے۔ اگر بھٹو یا مجیب میں سے کوئی ایک بھاری اکثریت سے کامیاب ہوجاتا تو جنرل یحییٰ کی سودے بازی کی صلاحیت کمزور پڑجاتی۔ لیکن یہ محض ایک تجزیہ ہے، ورنہ 1971ء میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل ریٹائرڈ بریگیڈیئر صدیقی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ جنرل یحییٰ اور مولانا بھاشانی کے درمیان طے پایا تھا کہ جنرل یحییٰ مولانا بھاشانی کو دو کروڑ روپے فراہم کریں گے اور بھاشانی کے امیدوار مشرقی پاکستان کے دیہی علاقوں میں مجیب الرحمن کے امیدواروں کا مقابلہ کریں گے۔ صدیقی صاحب کے بقول بھاشانی شیخ مجیب کے خلاف انتخابات میں حصہ لیتے تو مشرقی پاکستان کے انتخابی نتائج کچھ اور ہوتے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ایسا کیوں نہیں ہوا، اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے صدیقی صاحب نے کہا کہ جنرل یحییٰ پاکستان توڑنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔
اس سلسلے میں حالات کی سنگینی کا اندازہ کئی اور شہادتوں سے بھی ہوتا ہے۔ میجر جنرل رائو فرمان علی جو اُس وقت مشرقی پاکستان میں خدمات انجام دے رہے تھے، دعویٰ کرتے ہیں،
’’میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے خلاف تھا۔ مقامی کمانڈر آپریشن کے خلاف تھے۔ لیکن مغربی پاکستان کے جنرل فوجی ایکشن کے حق میں تھے۔‘‘
(The separation of east pakistan by- Hasan Zaheer page-159)
مشرقی پاکستان کے مخدوش حالات میں فوجی آپریشن ہورہا تھا۔ ملک کی وحدت اور سلامتی دائو پر لگی ہوئی تھی لیکن جنرل یحییٰ کا فوجی ذہن کس طرح کام کررہا تھا اس کا ذکر جنرل غلام عمر کی زبانی سنیے:
’’مشرقی پاکستان میں مشیروں کا کوئی باضابطہ ادارہ موجود نہ تھا۔ چنانچہ صدر (یحییٰ) کو مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنے فوجی رفقا میں سے ہر ایک کو کوئی ایک شعبہ دے دیں جو اس شعبے کے ہر پہلو کا گہرائی میں مطالعہ کرے گا اور پھر صدر اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں معاملات کا فیصلہ کریں گے۔ لیکن عام طور پر ہوتا یہ تھا کہ یحییٰ خان کی شام کی نشستوں میں معاملات زیربحث آجاتے اور وہاں اتفاق سے جو کوئی گورنر یا فوجی افسر موجود ہوتا وہی بحث میں شریک ہوجاتا تھا۔‘‘
)The separation of east pakistan by- Hasan Zaheer page -113(
اس اقتباس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انتہائی سنگین حالات میں بھی ملک کی تقدیر سے متعلق فیصلے کس طرح ہورہے تھے۔ لیکن فوجی ذہنیت کا شاہکار خود جنرل یحییٰ کا اعترافی بیان ہے، انہوں نے ایک موقع پر فرمایا:
’’میں نے یہ جاننے کی کبھی خاص کوشش نہیں کی کہ حکومت کیسے چلائی جاتی ہے۔ میں نے حکومت چلانے کے لیے اپنے تربیت یافتہ ذہن پر انحصار کیا۔ میں 32 سال تک فوج کے مختلف عہدوں پر فائز رہا تھا۔ ان میں اعلیٰ ترین عہدے شامل ہیں۔ ان عہدوں پر فائز رہتے ہوئے میں نے لاکھوں لوگوںکو کنٹرول کیا، ان کے ذہنوںکو پڑھا، ان کے مسائل کو سمجھا اور انہیں حل کیا۔ چنانچہ میرا خیال یہ تھا کہ ملک چلانا فوج کو چلانے سے مختلف کام نہیں ہوگا۔‘‘
(The seperation of east pakistan by- Hasan Zaheer page-159(
ظاہرہے کہ یہ صرف جنرل یحییٰ کا ’’تناظر‘‘ نہیں تھا۔ جنرل ایوب کا تناظر بھی یہی تھا۔ جنرل ضیاء الحق کا تناظر بھی ایسا ہی تھا اور جنرل پرویزمشرف کے تناظر کی نوعیت بھی یہی تھی۔ یہ سب لوگ معاشرے کو سمجھے بغیر اسے چلاتے رہے ہیں۔ ان تمام لوگوں نے فوج کو چلانے کے تجربے کو معاشرے پر حکومت کے لیے کافی سمجھا ہے۔ اس طرزعمل سے ملک دولخت نہ ہوتا تو کیا ہوتا! اس طرزعمل سے موجودہ پاکستان سنگین خطرات سے دوچار نہ ہو تو اورکیا ہو؟
حضرت علیؓ کا یہ قول آپ نے کبھی نہ کبھی ضرور سنا یا پڑھا ہوگا کہ معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے لیکن ناانصافی کے ساتھ نہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ایک سبب یہی تھا کہ ہمارے حکمران طبقے نے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے اتحاد کو ناانصافی کے ذریعے چلانے کی کوشش کی۔ مشرقی پاکستان کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد تھی لیکن مشرقی پاکستان سے کہا گیا کہ آپ اپنی آبادی کو 50 فیصد تسلیم کریں اور اسی بنیاد پر وسائل کی تقسیم پر آمادہ ہوجائیں۔ مشرقی پاکستان نے یہ قربانی دی، لیکن اس قربانی کی بھی قدر نہ کی گئی۔ اعدادوشمار کے مطابق 1955-60ء کے پانچ سالہ منصوبے کے لیے 9230 ملین روپے مختص کیے گئے، جس میں سے مشرقی پاکستان کے لیے صرف 3000 ملین روپے کی رقم مختص کی گئی۔ مغربی پاکستان کے لیے 3500 ملین روپے رکھے گئے، جب کہ وفاق اور کراچی کے لیے 2730 ملین روپے مختص کیے گئے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ مشرقی پاکستان کو اس کے حصے کا 50 فیصد بھی ادا نہیںکیا گیا۔
اعدادوشمار کے مطابق 1948-49ء اور 1949-50 میں مشرقی پاکستان نے بالترتیب 1254 ملین روپے اور 597 ملین روپے کی اشیاء برآمد کیں، جبکہ ان برسوں میں اس کی درآمدات بالترتیب 231 ملین روپے اور 214 ملین روپے رہیں۔ جب کہ اسی عرصے میں مغربی پاکستان کی برآمدات 526 ملین روپے اور 518 ملین روپے رہیں۔ اسی عرصے میں مغربی پاکستان کی درآمدات کی مالیت بالترتیب 648 ملین روپے اور 632 ملین روپے رہی۔ اس بنیاد پر مشرقی پاکستان کے رہنمائوں نے دعویٰ کیا کہ مشرقی پاکستان کی کمائی ہوئی دولت مغربی پاکستان میں خرچ کی جارہی ہے۔
تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ آدمی بھوک برداشت کرلیتا ہے، ناانصافی برداشت کرلیتا ہے مگر اس سے تذلیل برداشت نہیں ہوتی۔ مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کی تذلیل میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ مغربی پاکستان کے لوگوں نے فوج میں شمولیت کے لیے مارشل ریس کا نظریہ ایجاد کیا جس کے تحت بنگالیوں کو پستہ قد باور کراکے انہیں فوج میں شامل ہونے سے روکا گیا۔ ان کے رنگ، ان کے کھانے پینے اور ان کے لباس کا مذاق اڑایا گیا۔ یہ صورت حال بھارتی پروپیگنڈے کے ساتھ آمیز ہوکر آتش فشاں بن گئی۔
ہماری تاریخ کا ایک المیہ یہ ہے کہ مشرقی پاکستان تیزی کے ساتھ علیحدگی کے راستے پر گامزن تھا مگر مغربی پاکستان کے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ نوبت علیحدگی تک پہنچ گئی ہے۔ حکمران انہیں بتا رہے تھے کہ مٹھی بھر بھارتی ایجنٹ گڑبڑ کررہے ہیں ورنہ مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے لیے محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغربی پاکستان کے لوگ مشرقی پاکستان کو علیحدگی سے روکنے کے سلسلے میں کوئی کردار ادا نہ کرسکے۔ انہیں اصل حقیقت اُس وقت معلوم ہوئی جب سقوط ڈھاکہ ہوگیا اور ہمارے 90ہزار فوجیوں نے بھارت کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے آزاد ذرائع ابلاغ کا کردار بھی مجرمانہ ہے۔ انہیں مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان ’’ابلاغی پل‘‘ کا کام انجام دینا چاہیے تھا، لیکن اس کے برعکس وہ پہلے دن سے آخری دن تک ’’سرکاری سچ‘‘ رپورٹ کرتے رہے۔
پاکستان کے موجودہ منظرنامے کو دیکھا جائے تو قومی تاریخ کے تجربات کی روشنی میں ایک بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل اسلام کے ساتھ وابستگی میں ہے۔ صرف اسلام ہماری کمزوری کو طاقت میں بدل سکتا ہے۔ صرف اسلام ہمارے انتشار کو اتحاد میںڈھال سکتا ہے۔ صرف اسلام ہمارے تضاد کو تنوع بناسکتا ہے۔ صرف اسلام کے سہارے ہم بھیڑ سے ایک قوم بن سکتے ہیں۔ صرف اسلام ہمیں ہمارے صوبائی، لسانی، گروہی اور مسلکی تعصبات سے بلند کرسکتا ہے۔ صرف اسلام کے ذریعے ہم امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کرسکتے ہیں۔ صرف اسلام کے ذریعے ہماری خفتہ صلاحیتیں بیدار ہوسکتی ہیں۔ صرف اسلام کے لیے ہم بڑی سے بڑی قربانی دے سکتے ہیں۔ صرف اسلام کے لیے ہم بڑے سے بڑے انفرادی اور اجتماعی نقصان کو جذب کرسکتے ہیں۔ صرف اسلام ہمیں منزل کا شعور عطا کرسکتا ہے۔ صرف اسلام ہماری سمت ِسفر کو درست کرسکتا ہے۔ لیکن ماضی کی طرح ہمارا حکمران طبقہ آج بھی اسلام سے گریزاں ہے۔ اس وجہ سے ملک میں ہونے والے انتخابات میں لسانی اور صوبائی تعصبات کھل کر اپنا اظہار کرتے ہیں۔
تجزیہ کیا جائے تو سماجی اور معاشی انصاف کے حوالے سے بلوچستان کی شکایات مشرقی پاکستان کی شکایات سے ملتی جلتی ہیں۔ صوبہ بلوچستان سارے ملک کو گیس فراہم کرتا ہے مگر خود اسے گیس میسر نہیں۔ گیس کی رائلٹی کا جھگڑا اس کے سوا ہے۔ بلوچستان کا شکوہ ہے کہ ملک کی نوکریوں میں اس کے نوجوانوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بلوچستان کو شکایت ہے کہ اس کے معدنی وسائل استعمال کیے جارہے ہیں اور اس کو نہ اعتماد میں لیا جارہا ہے نہ اس کو اس کا حصہ دیا جارہا ہے۔ اس امر پر ملک میں کامل اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ بلوچستان نواب اکبربگٹی کے قتل کے بعد آتش فشاں بنا اور یہ کام ایک بار پھر فوجی ذہن سے انجام پایا۔ اہم بات یہ ہے کہ جنرل پرویزمشرف نے صرف نواب اکبر بگٹی کو قتل نہیںکیا، انہوں نے نواب اکبر بگٹی کے وسیلے سے بلوچ کردار کی تذلیل کی۔ انہوں نے کہا کہ نواب اکبر بگٹی کو ایک چیز ہٹ کرے گی اور انہیں پتا بھی نہیں چلے گا کہ انہیں کس چیز نے ہٹ کیا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ بلوچستان جل رہا ہے اور ہمارے ذرائع ابلاغ کی عظیم اکثریت اس وقت بھی سرکاری سچ رپورٹ کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ چنانچہ ملک بالخصوص پنجاب کے لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ بلوچستان میں کیا ہورہا ہے؟ جس دن نواب اکبر بگٹی قتل ہوئے ہم لاہور میں تھے اور لاہور میں اس ہولناک واقعے کا کوئی اثر ہی نہیں تھا۔
ان حقائق کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے ایک ایسے مرحلے میں ہیں جہاں صرف اسلام ہی ہمارا تحفظ کرسکتا ہے۔ جہاں اسلام ہی ہماری تلوار اور اسلام ہی ہماری ڈھال بن سکتا ہے۔ اس کے سوا ہر راستہ تباہی کی طرف جاتا ہے۔ اجتماعی خودکشی کی طرف جاتا ہے۔ اقبال نے ایک صدی قبل کتنی صداقت، کتنی قوت اور کتنی سرمستی کے ساتھ کہا تھا ؎
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں