حکمرانو ں کی شرمناک ’’ناکامیاں‘‘
کبھی پاکستان سے متعلق ہر چیز عظیم تھی۔ پاکستان کا نظریہ عظیم تھا، پاکستان کی قیادت عظیم تھی، پاکستان بنانے والی قوم عظیم تھی، پاکستان کا مستقبل عظیم تھا۔ پاکستان کے نظریے کی عظمت یہ تھی کہ اس نے محمد علی جناح کو قائداعظم بنادیا۔ اس نے بھیڑ کو قوم میں ڈھال دیا۔ اس نے پاکستان کے عدم کو وجود میں تبدیل کردیا۔ قائداعظم کی عظمت یہ تھی کہ اسٹینلے والپرٹ کے بقول دنیا میں ایسے لوگ کم ہوئے ہیں جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رُخ بدلا ہے، ایسے لوگ اور بھی کم ہوئے ہیں جنہوں نے جغرافیہ تبدیل کیا ہے، اور ایسا تو شاید ہی کوئی ہو جس نے قومی ریاست کو وجود بخشا ہو۔
قائداعظم نے بیک وقت یہ تینوں کام کیے۔ پاکستان بنانے والی قوم کی عظمت یہ تھی کہ پاکستان سندھ، پنجاب، کے پی کے، بلوچستان اور بنگال میں بن رہا تھا اور قیامِ پاکستان کی تحریک دلی، یوپی اور سی پی میں چل رہی تھی۔ دلی، یو پی اور سی پی کے لوگوں کو معلوم تھا کہ وہ پاکستان کا حصہ نہیں ہوںگے، مگر انہیں پاکستان کے نظریے یعنی اسلام سے محبت تھی، چنانچہ انہوں نے پاکستان کے لیے تن، من، دھن کیا، اپنے حال اور مستقبل کی بھی قربانی دے دی۔ پاکستان کے مستقبل کی عظمت یہ تھی کہ پاکستان کو عہدِ جدید میں اسلام کی تجربہ گاہ بن کر پوری دنیا کے لیے ایک مثال بننا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے قائداعظم کے بعد پاکستان کو جو حکمران میسر آئے انہوں نے پاکستان سے اس کی ساری عظمت چھین لی۔ وہ خود چھوٹے تھے، چنانچہ انہوں نے پاکستان کو بھی چھوٹا بنادیا۔ وہ خود حقیر تھے، چنانچہ انہوں نے پاکستانی قوم کو بھی حقیر بنادیا۔
پاکستان کا نظریہ ہر اعتبار سے تاریخ ساز تھا، لیکن پاکستان کے حکمرانوں نے قائداعظم کے رخصت ہوتے ہی پاکستان کے نظریے کو فراموش کردیا۔ چنانچہ جس نظریے نے بھیڑ کو قوم بنایا تھا اس کی عدم موجودگی نے قوم کو ایک بار پھر بھیڑ میں تبدیل کردیا۔
اقبالؒ نے کہا تھا:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
لیکن پاکستان کے حکمرانوں نے اقبال کیا، خدا اور رسولؐ کو بھی فراموش کردیا۔ انہوں نے پاکستان کو ایک ماڈل اسلامی ریاست بنانے کی رتی برابر بھی کوشش نہ کی۔ اس کے برعکس انہوں نے پاکستان کو سیکولر، لبرل اور سوشلسٹ ریاست بنانے کی سازش کی۔ جنرل ایوب خود سیکولر تھے اور انہوں نے ملک و قوم کو سیکولر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ انہوں نے سودی نظام کو اسلامی جواز فراہم کرنے کی سازش کی۔ انہوں نے ایسے عائلی قوانین قوم پر مسلط کیے جو اسلام کی ضد تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ ایجاد کر ڈالا، حالانکہ اسلام اور سوشلزم میں کوئی قدر مشترک نہ تھی۔ اسلام سوشلزم کی اور سوشلزم اسلام کی ضد تھا، مگر بھٹو صاحب نے سوشلسٹ فکر کے زیراثر صنعتوں اور تعلیمی اداروں کو قومیا لیا اور ملک میں صنعتوں اور تعلیمی اداروں کا بھٹہ بٹھا دیا۔ انہوں نے ملک میں عریانی و فحاشی کو فروغ دیا۔ ان کی دختر نیک اختر بے نظیر بھٹو کا فہمِ اسلام یہ تھا کہ ایک بار جلسے سے خطاب کے دوران اذان کی آواز آئی تو وہ یہ کہتے ہوئے خاموش ہوگئیں کہ ’’اذان بج رہا ہے‘‘۔
جنرل پرویزمشرف لبرل تھے اور انہوں نے ملک پر لبرل ایجنڈا مسلط کرنے کی سازش کی۔ جنرل ضیا الحق اسلام پسند تھے اور انہوں نے ملک میں نظام زکوٰۃ اور نظام صلوٰۃ متعارف کرایا مگر اس طریقے سے کہ یہ دونوں نظام مذاق بن گئے۔ اصل میں جنرل ضیا الحق کا مسئلہ اسلام تھا ہی نہیں، وہ اسلامی اقدامات کے ذریعے عوام میں پذیرائی حاصل کرنا چاہتے تھے اور بس۔ چنانچہ ان کا اسلام حقیقی اسلام نہیں تھا، سیاسی اسلام تھا۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا مگر 1956ء اور 1962ء کے آئین میں اسلام کو اس کا مقام نہ مل سکا۔ بھٹو صاحب نے عوامی دبائو میں آکر 1973ء میں ملک کو ایک اسلامی دستور دیا، مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے آج تک اسلام کو اس دستور سے نکل کر مؤثر ہونے کی اجازت نہیں دی۔ پاکستان کے حکمرانوں نے 1973ء کے آئین کو اسلام کا قید خانہ بنایا ہوا ہے، چنانچہ ہماری پوری معیشت سود پر کھڑی ہوئی ہے اور سود اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ ہے۔
ہمارے پورے عدالتی نظام میں کہیں اسلام کا گزر نہیں، ہمارا تعلیمی نظام الف سے ے تک مغرب زدہ ہے، ہماری سیاست کو اسلام چھو کر بھی نہیں گزرا، ہمارے ذرائع ابلاغ اسلامی اخلاقیات کا رتی برابر بھی خیال نہیں رکھتے۔ میاں نوازشریف کے دور میں شرعی عدالت نے سود کو خلافِ اسلام قرار دے دیا تھا، مگر میاں نوازشریف نے شرعی عدالت کے فیصلے کو قبول کرنے کے بجائے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی۔
اِس وقت بھی شرعی عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دیا ہوا ہے اور نواز لیگ کی حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار فرما رہے ہیں کہ سود کے خاتمے میں ابھی آٹھ سال لگیں گے۔ مطلب یہ کہ شریف خاندان سود کے خاتمے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ اسلام سے پاکستانی حکمرانوں کی بے زاری کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی قوم ایک وحدت بننے کے بجائے ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ ایک طرف ہمارے یہاں فرقہ وارانہ تقسیم ہے، دوسری طرف مسالک کی تقسیم ہے، تیسری طرف ہم ذاتوں میں اور برادریوں میں بٹے ہوئے ہیں، چوتھی طرف ہم سندھی، پنجابی، پشتون، بلوچی اور مہاجریت کے تعصبات کا شکار ہیں، پانچویں جانب ہم سول اور فوجی کی تقسیم کا شکار ہیں، چھٹی جانب ہم جدید اور قدیم کی تقسیم میں مبتلا ہیں، ساتویں جانب ہم بالائی طبقے، متوسط طبقے اور نچلے طبقے کی اقتصادی تقسیم کے مرض کی گرفت میں ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ کہ ہمارا ماضی تو شاندار ہے مگر حال اور مستقبل تاریک ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے ملک کے نظریے کو سینے سے لگایا ہوتا تو پاکستان آج پوری امتِ مسلمہ کا قائد اور علاقائی سپر پاور ہوتا۔ جو نظریہ جناح کو قائداعظم، اور بھیڑ کو قوم بنا سکتا تھا وہ ایک قوم کو پوری امت کا رہنما بنا سکتا تھا۔
قوموں کی زندگی میں آئین کی اہمیت بنیادی ہے۔ آئین قوم کی آرزوئوں کا مظہر اور اُس کی سمتِ سفر کا ایک اشاریہ ہوتا ہے۔ آئین سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم کیا ہے اور کیا ہونا چاہتی ہے۔ چنانچہ عہدِ جدید میں ہر قوم کے حکمرانوں نے آئین کو تکریم دی ہے، اسے سینے سے لگایا ہے اور اس کی پاسداری کی ہے۔ بھارت ہمارے ساتھ آزاد ہوا تھا اور اس نے 26 نومبر 1949ء کو آئین بنا لیا تھا، بھارت کے حکمرانوں نے 26 جنوری 1950ء کو یہ آئین نافذ کردیا تھا، مگر پاکستان کا نااہل حکمران طبقہ آزادی کے 9 سال بعد تک آئین نہ بنا سکا۔ 1956ء میں آئین بنا جسے جنرل ایوب نے 1958ء میں معطل کردیا۔ پھر 1962ء میں آئین بنا، مگر یہ آئین بھی نہ چل سکا۔ چنانچہ 1973ء میں ایک اور آئین وضع ہوا، مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے کبھی اس آئین کی پاسداری نہیں کی۔ فوجی آمر جب بھی آتے ہیں آئین کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ فوجی آمروں کی نظر میں آئین کی کتنی عزت ہے اس کا اندازہ جنرل ضیا کے اس تبصرے سے بہ خوبی کیا جاسکتا ہے کہ ’’آئین چند صفحوں کی ایک دستاویز کے سوا کیا ہے، میں اسے جب چاہوں پھاڑ کر پھینک سکتا ہوں۔‘‘ پاکستان کے سول حکمرانوں نے بھی کبھی آئین کو اہمیت نہیں دی۔ 1973ء کا آئین کہتا ہے: اسلام کو قومی زندگی میں بالادست بنائو، اور اسلام ہماری قومی زندگی میں کہیں بالادست نہیں۔ آئین کہتا ہے: اردو کو سرکاری زبان بنائو، مگر اردو آج تک سرکاری زبان نہیں بن پائی۔ آئین کہتا ہے: انسانی حقوق کی پاسداری ناگزیر ہے، مگر ہمارے حکمران انسانی حقوق کی پامالی کی علامت ہیں۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں جرنیلوں اور فوج کا کوئی کردار ہی نہیں تھا، مگر قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی جرنیل ملک کے مالک بن کر کھڑے ہوگئے۔ قائداعظم سول معاملات میں فوجی مداخلت کے سخت خلاف تھے اور انہوں نے فرمایا تھا کہ ملک میں پالیسیاں سول قیادت بنائے گی، مگر جنرل ایوب نے قیام پاکستان کی روح، تحریکِ پاکستان کے ورثے اور قائداعظم کے وژن کو روندتے ہوئے 1958ء میں ملک میں مارشل لا مسلط کردیا۔
جنرل ایوب کے مارشل کو پہلا اور آخری مارشل لا ہونا چاہیے تھا، اس لیے کہ اس مارشل لا سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکا۔ لیکن اس کے برعکس جنرل ایوب کا مارشل لا مزید دو مارشل لائوں کا تسلسل بن گیا۔ چنانچہ 1977ء میں جنرل ضیا الحق، اور میاں نوازشریف کے دور میں جنرل پرویز نے ملک پر مارشل لا مسلط کردیا۔ دنیا میں آمریتوں کی ایک تاریخ ہے۔ چین پر کمیونسٹ پارٹی کی آمریت کا غلبہ ہے، لیکن اس آمریت نے چین کو دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور دوسری بڑی قوت بنا کر کھڑا کردیا ہے، اس آمریت نے 40 سال میں 80 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔
پسماندہ سنگاپور کو لی کوآن یو کی آمریت نے چالیس سال میں دنیا کا ترقی یافتہ ملک بنا دیا ہے۔ ملائشیا میں مہاتیر محمد کی حکومت بھی نیم آمریت کی ایک شکل تھی مگر اس آمریت نے ملائشیا کو بڑی اقتصادی طاقت بناکر ابھارا۔ مگر ہماری فوجی آمریتوں نے ملک و قوم کو نہ نظریاتی بنایا، نہ ترقی یافتہ بنایا، نہ تعلیم یافتہ بنایا۔ اس کے برعکس جرنیلوں نے پاکستانی قوم کو بالشتیوں کی قوم بناکر کھڑا کردیا۔
پاکستان کا نظریہ عظیم تھا۔ اس کا حال عظیم تھا۔ چنانچہ اس کے مستقبل کو بھی عظیم ہونا چاہیے تھا۔ چنانچہ قیامِ پاکستان کے بعد ہمارے حکمرانوں کو بھارت سے اپنا کشمیر چھین لینا چاہیے تھا، انہیں بھارت سے جوناگڑھ اور حیدرآباد دکن کو پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا، اور اس حوالےسے قومی پالیسی وضع کرنی چاہیے تھی۔ مگر اس کے برعکس ہمارے حکمرانوں نے سقوطِ ڈھاکہ کی صورت میں آدھا پاکستان گنوا دیا۔
ہم پاکستان، پاکستان بہت کرتے ہیں مگر ہم میں سے اکثر کے شعور میں یہ بات نہیں ہے کہ موجودہ پاکستان قائداعظم کا اوریجنل پاکستان نہیں ہے۔ یہ آدھا، ادھورا، بچا کھچا پاکستان ہے۔ آدھا پاکستان ہم کھو چکے ہیں۔ بدقسمتی سے آدھا پاکستان ہم نے خود گنوا دیا۔ مغربی پاکستان کا حکمران طبقہ پہلے دن سے بنگالیوں کی اکثریت سے خوف زدہ تھا۔ اس نے 1948ء سے 1971ء تک بنگالیوں کو دیوار سے لگا کر رکھا۔
بنگالی قومی آبادی کا 56 فیصد تھے، مگر 1960ء تک فوج میں ایک بھی بنگالی نہیں تھا۔ بنگالی قومی آبادی کا 56 فیصد تھے اور 1971ء میں فوج میں صرف آٹھ سے دس فیصد بنگالی تھے۔ بیوروکریسی میں بھی پنجابیوں، پشتونوں اور مہاجروں کا غلبہ تھا۔ دنیا کی تاریخ یہ ہے کہ جمہوریت قوم کو مضبوط کرتی ہے، مگر 1970ء میں پاکستان میں جو انتخابات ہوئے انہوں نے ملک توڑ دیا، اس لیے کہ مغربی پاکستان کے غاصب حکمرانوں نے شیخ مجیب الرحمٰن کی جماعت کی اکثریتی جیت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ یہی نہیں، بنگالیوں کی قوت کو فوجی آپریشن کے ذریعے کچلا گیا۔ چنانچہ ملک ٹوٹ گیا اور ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے نہایت شرم ناک انداز میں بھارت کے آگے ہتھیار ڈالے۔ اس کے نتیجے میں بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ ’’ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا اور ہم نے آج ایک ہزار سال کی تاریخ کا بدلہ لے لیا۔‘‘
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جب ہم غلام تھے تو آزادی کے ساتھ سوچ رہے تھے اور وقت کی واحد سپر پاور یعنی برطانیہ کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے تھے، لیکن جب ہم آزاد ہوگئے تو ہمارا حکمران طبقہ غلامانہ انداز میں سوچنے لگا۔ بدقسمتی سے اس شرم ناک کام کا آغاز جنرل ایوب نے کیا۔ انہوں نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر امریکی خفیہ دستاویزات کے مطابق وہ 1954ء سے امریکہ کے ساتھ رابطے میں تھے اور امریکہ کو بتا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک کو تباہ کردیں گے، لیکن فوج انہیں ایسا نہیں کرنے دے گی۔
بدقسمتی سے جنرل ایوب نے ایک ایسی امریکہ پرستی کا آغاز کیا جس نے پاکستان کو امریکہ کی کالونی بنادیا۔ ہمارا پورا دفاع امریکہ مرکز ہوگیا، ہماری پوری معیشت آئی ایم ایف مرکز ہوئی، ہم سیاسی اعتبار سے امریکہ کے غلام ہوگئے اور معاشی اعتبار سے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی غلامی میں چلے گئے۔ اِس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ہم دیوالیہ ہونے کے قریب نہیں بلکہ معاشی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ہم دیوالیہ ہوچکے ہیں، صرف دیوالیہ پن کا اعلان ہونا باقی ہے۔ اس وقت ہمارے قومی خزانے میں 7 ارب ڈالر پڑے ہیں، ان میں سے 3 ارب ڈالر سعودی عرب اور ساڑھے 3 ارب ڈالر چین کی امانت ہیں۔
یہ دیوالیہ پن کی صورت نہیں تو اور کیا ہے؟ چلیے پاکستان کا حکمران طبقہ ملک کو اسلامی ریاست نہ بناتا مگر وہ قوم کو مادّی اعتبار سے ہی خوش حال بنادیتا۔ مگر ہمارا حال یہ ہے کہ ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم‘‘۔ ہم نہ عظیم اسلامی ریاست بن سکے، نہ ہمیں مادّی خوش حالی نصیب ہوسکی۔ اس وقت ہماری معاشی حالت یہ ہے کہ 23 کروڑ لوگوں میں سے 10 کروڑ خطِ غربت سے نیچے کھڑے ہیں۔ مزید 5 کروڑ لوگ خطِ غربت سے ذرا سا اوپر بیٹھے ہیں۔
متوسط طبقے کی کمر پر 27 فیصد مہنگائی کے کوڑے برس رہے ہیں۔ قوم 120 ارب ڈالر سے زیادہ قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ آزادی کے 75 سال بعد بھی ہماری آدھی قوم ناخواندہ ہے، 70 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، 70 فیصد لوگ بیمار پڑتے ہیں تو انہیں کوالیفائیڈ ڈاکٹر دستیاب نہیں ہو پاتا۔ ہماری فوجی آمریت ہی نہیں، ہماری جمہوریت بھی جعلی ہے۔
نواز لیگ شریف خاندان کی رکھیل ہے، پیپلزپارٹی بھٹو خاندان کی باندی ہے، تحریک انصاف عمران خان کی جیب میں پڑا ہوا رومال ہے، جمعیت علمائے اسلام پر فضل الرحمٰن خاندان کا قبضہ ہے۔ کبھی جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مفتی محمود تھے، آج اُن کے فرزند مولانا فضل الرحمٰن ہیں، کل وہ نہیں ہوں گے تو اُن کے بیٹے اُن کی جگہ لے لیں گے۔ ہماری جمہوریت میں سرمائے اور الیکٹ ایبلز کا غلبہ ہے اور انتخابات کے نتائج کو فوجی اسٹیبلشمنٹ “Manage” کرتی ہے۔ وہ چاہتی ہے تو نواز لیگ جیت جاتی ہے، وہ چاہتی ہے تو تحریک انصاف کامیاب ہوجاتی ہے۔ پاکستانی فوج کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے مطابق احتساب کے نظام سے بالاتر ہے۔ عمران خان سابق وزیراعظم ہیں۔ پنجاب، کے پی کے، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ان کی حکومت ہے، مگر وہ اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج نہیں کرا پاتے، اس لیے کہ اس ایف آئی آر میں میجر جنرل فیصل کا نام بھی درج ہوگا۔