اسٹیبلشمنٹ نے ملک و قوم کو روحانی دیوالیہ پن، اخلاقی دیوالیہ پن، سیاسی دیوالیہ پن اور معاشی دیوالیہ پن کا بھی شکار کردیا ہے۔
کبھی پاکستان کی ہر چیز شاندار، بے مثال اور لاجواب تھی۔ پاکستان کا نظریہ شاندار، بے مثال اور لاجواب تھا۔ برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ شاندار، بے مثال اور لاجواب تھی۔ پاکستان کی تہذیب شاندار، بے مثال اور لاجواب تھی۔ پاکستان کی تاریخ شاندار، بے مثال اور لاجواب تھی۔ قائداعظم کی صورت میں پاکستان کی قیادت شاندار، بے مثال اور لاجواب تھی۔ حفیظ جالندھری ایک پست مزاج انسان اور اوسط درجے سے کم صلاحیت رکھنے والے شاعر تھے مگر انہیں پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی تو انہوں نے ایک شاندار، بے مثال اور لاجواب ترانہ لکھ ڈالا۔ آپ نے یہ ترانہ ہزاروں مرتبہ پڑھا اور سنا ہوگا، مگر ایک نئے تناظر میں اسے ایک بار پھر ملاحظہ کیجیے:
پاک سرزمین شاد باد
کشورِ حسین شاد باد
تُو نشانِ عزمِ عالی شان
ارضِ پاکستان
مرکزِ یقین شاد باد
پاک سر زمین کا نظام
قوتِ اُخوّتِ عوام
قوم، ملک، سلطنت
پائندہ تابندہ باد
شاد باد منزلِ مراد
پرچمِ ستارہ و ہلال
رہبرِ ترقی و کمال
ترجمانِ ماضی، شانِ حال
جانِ استقبال
سایۂ خدائے ذوالجلال
اس قومی ترانے پر پاکستان کے نظریے کا سایہ ہے۔ چنانچہ اس قومی ترانے میں ایک جلال ہے، ایک جمال ہے، ایک طنطنہ ہے، ایک جوش ہے، ایک ولولہ ہے، ایک حرارت ہے، ایک حرکت ہے، ایک سرمستی ہے، ایک وقار ہے، ایک متانت ہے، ایک گہرائی ہے، ایک گیرائی ہے، ایک عزم ہے۔ اس میں وحدت کا پیغام ہے، ہمہ گیر ترقی کا پیغام ہے۔ اس ترانے کا آخری مصرع اسلام کے تصورِ توحید کی گونج ہے۔ دنیا کے دو سو ملکوں میں شاید ہی کسی ملک کے پاس ایسا ترانہ ہو۔ لیکن بدقسمتی سے قائداعظم اور شہیدِ ملّت لیاقت علی خان کے بعد پاکستان کو جو قیادت فراہم ہوئی وہ مذکورہ بالا تمام تصورات کی ضد ہے۔ اس قیادت میں ایک پستی ہے، اس پر نکبت و ادبار کا سایہ ہے، اس قیادت کی روح، دل اور دماغ میں نااہلیت بال کھولے سو رہی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے سول اور فوجی حکمرانوں بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کا نہ کوئی خدا ہے، نہ کوئی رسول ہے۔ اس کی نہ کوئی تہذیب ہے، نہ کوئی تاریخ ہے۔ اس کی کوئی اخلاقیات ہے نہ اس کی کوئی قوم ہے۔ پاکستان کے جرنیلوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ بھارت اور امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں اور قوم پر ہتھیار تانتے ہیں۔ پاکستان بنانے میں جرنیلوں کا کوئی کردار نہیں تھا اس لیے کہ اُس وقت کوئی فوج ہی موجود نہ تھی۔ مگر قائداعظم کے بعد جرنیلوں نے پاکستان کی ہر چیز پر قبضہ کرلیا۔ 1958ء سے آج تک وہی پاکستان کا نظریہ ہیں، وہی حکومت ہیں، وہی ریاست ہیں، وہی ملک کا آئین ہیں، وہی ملک کا قانون ہیں، وہی ملک کی عدالت ہیں، وہی ملک کے مالک ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اس صورتِ حال کو اپنی کامیابی سمجھتی ہے مگر یہ اس کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ ملک کا کوئی طبقہ، کوئی ادارہ قوم کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔
اصول ہے کہ جب ایک حکومت ناکام ہوتی ہے تو ایک حکومت ناکام ہوتی ہے، جب دو یا تین حکومتیں ناکام ہوتی ہیں تو پارٹیاں ناکام ہوتی ہیں، مگر جب ہر حکومت ناکام ہونے لگے تو پھر ریاست کی ناکامی کا تاثر ابھر آتا ہے۔ بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ کی ناکامی نے 1971ء میں پاکستان کو ناکام بنادیا اور ملک دولخت ہوگیا۔ اندیشہ ہے کہ ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کی ناکامی کہیں پھر پاکستان کی ناکامی پر منتج نہ ہو۔ لیکن یہ باتیں اپنے مکمل ابلاغ کے لیے تفصیل چاہتی ہیں۔
پاکستان کا نظریہ غیر معمولی ہے۔ اس نے محمد علی جناح کو قائداعظم بنا کر کھڑا کردیا۔ محمد علی جناح صرف افراد کے وکیل تھے، پاکستان کے نظریے نے انہیں ایک قوم، ایک تاریخ، ایک تہذیب اور ایک مذہب کا وکیل بنا کر کھڑا کردیا۔ برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ ایک بھیڑ تھی، پاکستان کے نظریے نے اسے ایک قوم بنادیا۔ پاکستان اوّل و آخر ایک عدم تھا، اس لیے کہ مسلمانوں کا مقابلہ وقت کی واحد سپر پاور اور ہندو اکثریت سے تھا، مگر پاکستان کے نظریے نے پاکستان کو عدم کے اندھیرے سے کھینچ نکالا اور وجود کی روشنی بخش دی۔ چنانچہ پاکستان کا نظریہ پاکستان کو وقت کی سپر پاور بنا سکتا تھا۔ سوشلزم اسلام نہیں تھا، سوشلزم انسانی ساختہ نظریہ تھا اور روس زوال میں ڈوبا ہوا ایک ملک تھا، مگر سوشلزم نے روس میں انقلاب برپا کرکے اسے سوویت یونین اور بالآخر وقت کی ایک سپر پاور میں ڈھال دیا۔ چینی قوم افیون کھانے والی قوم تھی، مگر سوشلزم اور مائو کی قیادت نے چین میں انقلاب برپا کردیا۔ چین میں سوشلسٹ انقلاب نہ آیا ہوتا تو چین آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی طاقت نہ ہوتا۔ اسلام تو اللہ کا دین ہے، وہ مٹی کو سونا اور بالشتیوں کو دیوقامت بنا سکتا ہے جیسا کہ اس نے قیامِ پاکستان کی صورت میں کیا۔ مگر پاکستان کے حکمرانوں بالخصوص پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے ملک کے نظریے سے غداری کی۔ اس غداری کی بنیاد ایک جرنیل جنرل ایوب خان نے رکھی۔ انہوں نے اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک کی سمتِ سفر بدل ڈالی۔ انہوں نے پاکستان کو سیکولر بنانے کی سازش کی۔ انہوں نے اسلام کو پسِ پشت ڈال دیا اور گیارہ سال تک اسے ریاستی طاقت نہ بننے دیا۔ انہوں نے سود کو ’’حلال‘‘ قرار دینے کی کوشش کی۔ انہوں نے پاکستان پر خلافِ اسلام عائلی قوانین مسلط کیے۔ جنرل یحییٰ خان شراب اور شباب کے رسیا تھے۔ انہوں نے بھی ملک کے نظریے کو غیر مؤثر بنایا۔ بھٹو نے اسلامی سوشلزم ایجاد کیا اور اسٹیبلشمنٹ نے انہیں ایسا کرنے دیا، اس لیے کہ ملک کا نظریہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے اہم تھا ہی نہیں۔ جنرل پرویزمشرف نے ملک پر لبرل ازم مسلط کیا۔ ان کے زمانے میں ملک کے الیکٹرانک ذرائع ابلاغ میں عریانی و فحاشی کا سیلاب آگیا۔
جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ رابطے میں تھے، وہ امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں، وہ ملک کو تباہ کردیں گے مگر فوج انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنے دے گی۔ مگر بدقسمتی سے جرنیل سیاست دانوں سے زیادہ نااہل ثابت ہوئے۔ سیاست دانوں نے تو ملک کو کمزور کیا تھا، جرنیلوں کے دور میں تو ملک ہی دو ٹکڑے ہوگیا۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ 1958ء سے 1971ء تک پاکستان پر جرنیل اور اسٹیبلشمنٹ چھائی رہی۔ چنانچہ سقوطِ ڈھاکا کے اصل ذمے دار جرنیل ہیں۔ اصول ہے جس کے پاس طاقت ہوتی ہے، جس کے پاس اختیار ہوتا ہے، نیک و بد کا ذمے دار بھی وہی ہوتا ہے۔ جنرل باجوہ نے حال ہی میں کہا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی عسکری ناکامی کے بجائے ایک سیاسی ناکامی تھی۔ ایسا نہیں ہے۔ پاکستان کے 92 ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے، یہ عسکری ناکامی تھی۔ رہی سیاسی ناکامی، تو سیاست بھی ایک جرنیل جنرل یحییٰ کے ہاتھ میں تھی۔ جنرل یحییٰ اگر شیخ مجیب الرحمٰن کی اکثریت کو تسلیم کرلیتے تو ذوالفقار علی بھٹو اُن کا کیا بگاڑ لیتے! آخر جرنیلوں نے 1977ء میں بھٹو کا تختہ الٹ کر انہیں پھانسی پر چڑھا دیا۔ اس مرحلے پر بھٹو جنرل ضیا یا اُن کے فوجی رفقاء کا کیا بگاڑ سکے؟ کہنے کو ہم نے سقوطِ ڈھاکا کو قومی شعور سے نکال باہر کیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ سقوطِ ڈھاکا ہماری قومی نفسیات میں ایک زلزلے کی طرح موجود ہے، اور اس زلزلے کے جھٹکے ہمیں وقتاً فوقتاً جھنجھوڑتے رہتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ جب جنرل ضیا الحق کے دور میں دیہی سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک چل رہی تھی تو اخبارات میں پروفیسر غفور اور مولانا نورانی کے بیانات شائع ہورہے تھے کہ دیہی سندھ میں مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا ہوگئے ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں کراچی کے حالات خراب ہوئے تو یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ کراچی پاکستان کا حصہ رہے گا یا پاکستان سے الگ ہوجائے گا؟ جنرل پرویز نے نواب اکبر بگٹی کو قتل کرکے بلوچستان کو آتش فشاں بنادیا، اور آج بلوچستان کے مستقبل کے حوالے سے قوم فکرمند ہے کہ وہاں کیا ہوگا؟
اسٹیبلشمنٹ کی ایک بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ ملک کی آزادی اور خودمختاری کا دفاع کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے اور پاکستان امریکہ کی ایک کالونی بن کر رہ گیا ہے۔ بلاشبہ پاکستان کے سیاسی حکمران بھی امریکہ پرست ہیں، مگر پاکستان میں امریکہ پرستی کا پودا جنرل ایوب نے لگایا۔ جنرل یحییٰ، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویزمشرف نے اس پودے کو درخت بنایا۔ جنرل ایوب نے تو صرف بڈھ بیر میں امریکہ کو ہوائی اڈہ قائم کرنے کی اجازت دی تھی مگر جنرل پرویزمشرف نے تو ملک کے تین ہوائی اڈے اور کراچی کی بندرگاہ امریکہ کے حوالے کردی۔ جنرل پرویز کی امریکہ پرستی نے ملک میں خانہ جنگی کی صورتِ حال پیدا کردی، اس کے نتیجے میں 75 ہزار افراد لقمۂ اجل بن گئے اور ملک کو 120 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ یہ سارے کام اگر کسی سول حکمران نے کیے ہوتے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ اُسے کچا چبا جاتی، مگر چونکہ یہ سارے کام جنرل پرویز نے کیے اس لیے یہ بات روا رہی۔
بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ نے کبھی ملک میں حقیقی سیاسی قیادت نہیں ابھرنے دی۔ جرنیلوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ جو بھی سیاسی قیادت ابھرے اُس پر اسٹیبلشمنٹ کی مہر لگی ہوئی ہو۔ بھٹو جی ایچ کیو کی پیداوار تھے۔ وہ جنرل ایوب کی کابینہ کا حصہ تھے اور جنرل ایوب کو ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔ میاں نوازشریف جنرل ضیا الحق اور جنرل جیلانی کی سرپرستی سے رہنما اور ملک کے وزیراعظم بنے۔ وہ جنرل ضیاء الحق کو اپنا روحانی باپ کہا کرتے تھے۔ یہ جنرل ضیاء الحق تھے جنہوں نے الطاف حسین کو الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو ایم کیو ایم بنایا۔ عمران خان گیٹ نمبر چار کی پیداوار نہیں تھے، مگر وہ بہرحال اسٹیبلشمنٹ کے بغیر وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔ بدقسمتی سے یہ تمام رہنما بالآخر اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائے۔ اس صورتِ حال نے پاکستان کی سیاست کو کولہو کا بیل بنایا ہوا ہے۔ کولہو کا بیل سارا دن چلتا ہے اور کہیں نہیں پہنچ پاتا، بس وہ ایک دائرے میں گردش کرتا رہتا ہے۔ پاکستان کی سیاست بھی 1958ء سے اب تک جی ایچ کیو کے کولہو کا بیل بنی ہوئی ہے۔ وہ 64 سال سے چل رہی ہے اور ابھی تک کہیں نہیں پہنچی۔ اس صورتِ حال نے ملک و قوم کو بنیادوں سے ہلا دیا ہے۔ یہ کل کی بات ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پورے شریف خاندان اور آصف علی زرداری کو کرپٹ ترین ثابت کررہی تھی۔ سپریم کورٹ میاں نوازشریف کو گاڈ فادر اور سسلین مافیا قرار دے رہی تھی، اور آج اسٹیبلشمنٹ نے ان تمام لوگوں کو ایک بار پھر ملک و قوم پر مسلط کردیا ہے۔
جنرل ایوب خان کے زمانے سے آج تک ملک کی معیشت بھی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے، مگر اسٹیبلشمنٹ سے معیشت بھی سنبھل نہیں پائی۔ یہ جنرل ایوب خان تھے جنہوں نے شعیب کو ملک کا وزیر خزانہ بنایا۔ شعیب عالمی بینک کے ملازم تھے۔ اس طرح جنرل ایوب نے ملک کی معیشت عملاً امریکہ اور یورپ کے حوالے کردی تھی۔ جنرل ضیا الحق کے وزیر خزانہ محبوب الحق تھے، وہ عالمی بینک سے آئے تھے۔ جنرل پرویز کے وزیر خزانہ شوکت عزیز تھے، وہ بھی ایک غیر ملکی عنصر تھے۔ عمران خان اقتدار میں آئے تو انہوں نے اسد عمر کو اپنا وزیر خزانہ بنایا۔ مگر اسٹیبلشمنٹ نے انہیں چلنے نہ دیا اور عمران خان پر اپنا وزیر خزانہ مسلط کردیا۔ اب معیشت کی صورتِ حال یہ ہے کہ نواز لیگ کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل تک یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم آئی ایم ایف کے پاس نہ گئے تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔ عملی صورتِ حال یہ ہے کہ ملک کا خزانہ خالی ہے۔ خزانے میں تقریباً 6 ارب ڈالر پڑے ہوئے ہیں جن میں سے 3 ارب ڈالر سعودی عرب اور 3 ارب ڈالر چین کے ہیں۔ یعنی ہمارے قومی خزانے میں اب صرف امانتیں رکھی ہوئی ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ نے ملک و قوم کو روحانی دیوالیہ پن، اخلاقی دیوالیہ پن، سیاسی دیوالیہ پن اور معاشی دیوالیہ پن کا بھی شکار کردیا ہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کی ناکامی کی انتہا کا مظہر ہے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے ملک کی ٹھیکے دار بنی ہوئی ہے۔ اس تناظر میں یہ اندیشہ بہت حقیقی اور قوی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ناکامی ایک بار پھر ملک کی ناکامی بن سکتی ہے۔