بدقسمتی سے ہمارے جرنیلوں نے فوج کو ایک سیاسی جماعت بناکر کھڑا کردیا ہے۔
دنیا میں پاکستان کے سوا شاید ہی کوئی ملک ہو جس کے بارے میں 75 سال سے کہا جارہا ہو کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ پاکستان 1947ء میں قائم ہوا تو کہا جارہا تھا کہ ملک نازک صورت حال سے گزر رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ملک کا خزانہ خالی تھا، ملک کا دفاع کمزور تھا، ایک کروڑ سے زیادہ افراد ہجرت کرکے پاکستان آرہے تھے، ہندوستان نے ہمارے حصے کی رقم روک لی تھی اور طاقت کے زور پر کشمیر ہتھیا لیا تھا، ریاست اور معاشرے میں فکری وحدت اور ہم آہنگی موجود نہ تھی۔ قائداعظم 11 ستمبر 1948ء کو انتقال کرگئے تو کہا گیا کہ ملک ایک بار پھر نازک صورتِ حال سے دوچار ہے، اس لیے کہ قائداعظم ملک و قوم کی واحد امید تھے، قوم کے پاس اُن کا متبادل موجود نہ تھا۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں مارشل لا لگایا تو فرمایا کہ ملک سیاسی بحران کا شکار تھا اور انہوں نے مارشل لا لگا کر ملک کو استحکام فراہم کیا ہے۔ لیکن دس سال بعد جنرل ایوب اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہوئے تو معلوم ہوا کہ ملک پہلے سے زیادہ بحران کا شکار ہے۔
دنیا بھر میں انتخابات ملک و قوم کو مضبوط کرتے ہیں، مگر 1970ء کے انتخابات نے ملک کو دو نیم کرکے سقوطِ ڈھاکہ کی راہ ہموار کردی اور پاکستان ایک بار پھر نازک حالات سے دوچار ہوگیا۔ جنرل ضیاء الحق نے 1977ء میں مارشل لا لگایا تو انہوں نے مارشل لا کا جواز پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہونے ہی والا تھا۔ 1980ء کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف دیہی سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک چلی تو پروفیسر غفور احمد اور مولانا نورانی جیسے جید سیاست دان یہ کہتے نظر آئے کہ ملک میں مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا ہوگئے ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں کراچی میں فوجی آپریشن شروع ہوا تو بریگیڈیئر ہارون نے فرمایا کہ ایم کیو ایم کراچی کو جناح پور بنانے کی سازش کررہی ہے۔ یعنی اُس وقت بھی ملک نازک حالات سے دوچار تھا۔ جنرل پرویزمشرف نے نائن الیون کے بعد ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکہ کے حوالے کیا تو ملک میں خانہ جنگی کی صورتِ حال پیدا ہوگئی جو چند برسوں میں 75 ہزار لوگوں کو نگل گئی اور ملک کو 120 ارب ڈالر کے معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اُس وقت بھی یہی کہا گیا کہ ملک ایک بار پھر نازک صورتِ حال سے گزر رہا ہے۔
بدقسمتی سے 2022ء کے آخری حصے میں بھی صورتِ حال مختلف نہیں ہے۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار تھا مگر عمران خان پر قاتلانہ حملے نے ملک کی سیاسی صورتِ حال کو انتہائی دھماکہ خیز بنادیا ہے اور یہ بات ایک بار پھر کروڑوں لوگوں کی زبان پر آگئی ہے کہ ملک نازک حالات سے گزر رہا ہے۔
عمران خان پر حملہ ’’غیر متوقع‘‘ نہیں تھا۔ عمران خان کئی بار اس امر کا اظہار کرچکے تھے کہ انہیں راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک وڈیو بھی ریکارڈ کرائی ہے جس میں مبینہ طور پر چار افراد کے نام لیے گئے ہیں۔ عمران خان کے بقول یہ وڈیو ان کی ہلاکت کے بعد جاری کی جائے گی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان پر قاتلانہ حملے میں ’’نئی بات‘‘ قاتلانہ حملہ نہیں بلکہ عمران خان کا معجزاتی طور پر بچ جانا ہے۔ یہ ہماری قومی تاریخ کا دوسرا واقعہ ہے جس میں حملے کے ذمے داروں کے نام راز نہیں رہے۔
پہلا واقعہ بے نظیر بھٹو کا تھا۔ بے نظیر کے پاس خود پر حملے کی اطلاعات تھیں اور انہوں نے ایک ای میل کے ذریعے کئی لوگوں کو مطلع کیا تھا کہ اگر ان پر قاتلانہ حملہ ہوا تو اس کے ذمے دار جنرل پرویزمشرف ہوں گے۔ عمران خان نے بھی خود پر حملے کے بعد میاں شہبازشریف، رانا ثناء اللہ اور میجر جنرل فیصل نصیر کے نام لیے ہیں۔ لیکن جس طرح بے نظیر پر حملے کے بعد جنرل پرویز کا کچھ نہیں بگڑا تھا اسی طرح عمران خان پر حملے کے بعد یہ صورتِ حال ہے کہ عمران اپنی تمام تر سیاسی طاقت کے باوجود تین لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کرا سکے ہیں۔
ممکن ہے کہ عمران خان کا الزام درست نہ ہو اور عدالت میں کچھ بھی ثابت نہ ہوسکے، لیکن عمران خان کو ملک کا آئین اور قانون اپنی مرضی کی ایف آئی آر درج کرانے کا حق دیتا ہے۔ چنانچہ عمران خان سے یہ حق نہیں چھینا جانا چاہیے۔ بدقسمتی سے اس سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار افسوس ناک ہے۔ اسٹیبلشمنٹ یہ تاثر دے رہی ہے کہ عمران خان افراد پر نہیں ’’ادارے‘‘ پر حملے کررہے ہیں، حالانکہ عمران خان نے اپنے الزام میں کہیں ادارے کا نام نہیں لیا۔ انہوں نے الزام لگایا ہے تو افراد پر۔ جہاں تک اداروں کا تعلق ہے تو خود ادارے بھی آئین اور قانون سے ماورا نہیں ہوسکتے۔ حضرت علیؓ کا مشہورِ زمانہ قول ہے کہ ’’معاشرے کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں مگر انصاف کے بغیر نہیں۔‘‘ اور ظاہر ہے کہ معاشرے میں انصاف اُسی وقت آسکتا ہے جب ملک کا ہر فرد اور ہر ادارہ قانون کے ماتحت ہو۔
اگر جنرل ایوب، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف پر مارشل لا لگانے کے حو الے سے تنقید کی جاتی ہے تو کیا یہ اداروں پر تنقید ہے؟ اگر فوج پر اس کے سیاسی کردار کے حوالے سے رائے دی جائے تو کیا یہ رائے غداری ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے جرنیلوں نے فوج کو ایک سیاسی جماعت بناکر کھڑا کردیا ہے۔ چنانچہ فوج پر تنقید ہوتی ہے تو فوج کی حیثیت سے نہیں ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے۔ 1958ء سے پہلے فوج کا کوئی سیاسی کردار قوم کے سامنے نہیں تھا، چنانچہ اُس زمانے میں فوج پر تنقید بھی نہیں ہوتی تھی۔ مگر جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز اور دیگر جرنیلوں نے فوج کو ملک کی سب سے طاقت ور سیاسی جماعت بناکر کھڑا کردیا۔ چنانچہ فوج پر اسی حوالے سے تنقید کا ظہور ہوا۔ یہ چند روز پیشتر کی بات ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ یہ پریس کانفرنس ہر اعتبار سے سیاسی رہنمائوں کی پریس کانفرنس محسوس ہورہی تھی۔ جرنیلوں کا دعویٰ ہے کہ وہ موجودہ سیاسی منظرنامے میں ’’نیوٹرل‘‘ ہیں، مگر ان کا ہر بیان اور ہر پریس کانفرنس انہیں ایک ’’سیاسی فریق‘‘ کی حیثیت سے سامنے لاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ سیاسی فریق کو ’’نیوٹرل‘‘ تصور نہیں کیا جاسکتا۔
سوال یہ ہے کہ آخر عمران خان پر حملے کی نوبت کیوں آئی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ملکی تاریخ میں ہمیشہ یہ ہوا ہے کہ سیاست دان یا تو خاموش ہوگئے یا ملک سے فرار ہوگئے، مگر عمران خان نہ خاموش ہونے کے لیے تیار ہیں، نہ وہ ملک سے فرار ہونے پر آمادہ ہیں۔ چنانچہ انہیں راستے سے ہٹا دینا ہی واحد حل ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو عمران خان پر ہونے والا قاتلانہ حملہ پہلا تو قرار دیا جاسکتا ہے مگر آخری نہیں۔ عمران خان پر حملے کا ایک خوف ناک پہلو یہ ہے کہ نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی قیادت نے اس سلسلے میں جلتی پر تیل چھڑکنے کی کوشش کی ہے۔
حکومت نے عمران خان پر حملے کو مذہبی جنونی کی واردات باور کرایا، لیکن عمران خان مذہب دشمنی کی کوئی شہرت نہیں رکھتے۔ بلاشبہ وہ حد درجہ بے احتیاطی کے ساتھ گفتگو کے عادی ہیں مگر وہ سیکولر یا لبرل شخص نہیں ہیں۔ چنانچہ ان پر قاتلانہ حملے کو مذہبی جنونی سے منسلک کرنا قاتلانہ حملے پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے، اور یہ بجائے خود ایک جرم ہے۔ اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمٰن نے تو پست مزاجی کی حد ہی کردی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان خود پر حملے کی ’’اداکاری‘‘ کررہے ہیں اور انہوں نے اداکاری کے سلسلے میں شاہ رخ خان اور سلمان خان کو مات دے دی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن بھارتی اداکاروں شاہ رخ خان اور سلمان خان کی گھٹیا اور لچر فلمیں دیکھتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ انہیں بھارتی فلمیں اتنی ہی پسند ہیں تو انہیں چاہیے کہ دلیپ کمار کی فلمیں دیکھا کریں، اس سے مولانا کے ’’فلمی ذوق‘‘ میں نمایاں بہتری آئے گی۔
عمران خان پر حملے سے یہ حقیقت ایک بار پھر آشکار ہوئی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ گہری تقسیم کا شکار ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا ایک دھڑا عمران خان کے خلاف ہے تو دوسرا دھڑا خاموشی کے ساتھ خفیہ طریقے سے عمران خان کی مدد کررہا ہے۔ اس سلسلے میں ملک اور اسٹیبلشمنٹ کی تاریخ ایک شہادت کے طور پر موجود ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جنرل ایوب کی اقتدار سے علیحدگی کی بنیادی وجہ ’’عوامی دبائو‘‘ نہیں تھا، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل یحییٰ کی قیادت میں ایک دھڑا جنرل ایوب کے خلاف ہوگیا تھا، اور جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے کہ جنرل یحییٰ نے ایک شام ایوانِ صدر میں جنرل ایوب سے پانچ چھے سینئر فوجی اہلکاروں کے ساتھ ملاقات کی اور کہا کہ جنابِ صدر اب آپ کو جانا ہوگا۔ چنانچہ جنرل ایوب کو معلوم ہوگیا کہ تاریخ کے دھارے کا رخ بدل گیا ہے اور انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ جنرل ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں مارے گئے اور یہ حقیقت راز نہیں کہ جنرل ضیاء الحق کے طیارے تک عام آدمی پہنچ ہی نہیں سکتا تھا۔ چنانچہ طیارے میں دھماکہ خیز مواد اسٹیبلشمنٹ ہی کے کسی شخص یا افراد نے رکھا ہوگا۔
جنرل پرویز کے خلاف وکلا کی تحریک معروف ہے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ اس تحریک کی پشت پر جنرل اشفاق پرویز کیانی کھڑے تھے۔ ایسا نہ ہوتا تو وکلا کی تحریک نہ برپا ہوتی نہ کامیابی سے ہمکنار ہوتی۔ بلاشبہ عمران خان نوازشریف کی طرح بزدل نہیں، وہ بہادر انسان ہیں، مگر وہ جس طرح کی مزاحمت کررہے ہیں وہ اسٹیبلشمنٹ کے کسی دھڑے کی پشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں تھی۔
ملک کی دھماکہ خیز سیاسی صورت حال کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس وقت ملک میں جو جنگ برپا ہے اس کا کوئی ’’اخلاقی اصول‘‘ نہیں ہے۔ اس کا ایک ٹھوس ثبوت پی ٹی آئی کے رہنما اور سینیٹر کی وڈیو ہے۔ اب تک ہم نے دنیا میں جتنی بھی وڈیوز کے بارے میں سنا اور پڑھا ہے ان میں مرد کسی دوسری عورت یا طوائف کے ساتھ موجود رہے ہیں، مگر اعظم سواتی کی وڈیو میں وہ اپنی شریکِ حیات کے ساتھ موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی وڈیوز ایجنسیوں کے پاس ہوسکتی ہیں۔کیا اس وڈیو کے ذریعے ہماری ایجنسیوں نے قوم کو یہ بتایا ہے کہ وہ کسی اخلاقی ضابطے کی قائل نہیں؟