’’جدیدیت‘‘ کے نام پر مغربی تہذیب کی گمراہیوں کی اصل جڑ کیا ہے؟
مولانا مودودیؒ جیسے مہذب آدمی نے مغربی تہذیب کو چار ہولناک نام دیے ہیں۔ مولانا نے فرمایا ہے: جدید مغربی تہذیب ’’باطل‘‘ ہے، یہ ’’جاہلیتِ خالصہ‘‘ ہے، یہ ’’تخم خبیث‘‘ ہے، یہ ’’شجر خبیث‘‘ ہے۔ مولانا سے پہلے اقبالؒ مغربی فکر کی اصل حقیقت آشکار کرتے ہوئے ہوئے فرما چکے ہیں:
دانشِ حاضر حجابِ اکبر است
بت پرست و بت فروش و بت گر است
٭٭٭
محسوس پر بنا ہے علومِ جدید کی
اس دَور میں ہے شیشہ عقاید کا پاش پاش
اقبال کہہ رہے ہیں کہ جدید مغربی فکر کو حقیقت تک رسائی دینے والی اور حقائق سے پردہ اٹھانے والی سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دانشِ حاضر انسان اور حقیقت کے درمیان سب سے بڑا حجاب ہے۔ یہ فکر بت تراشتی ہے، بت فروخت کرتی ہے اور بتوں کی پوجا کرتی ہے۔ اقبال نے دوسرے شعر میں یہ حقیقت آشکار کردی ہے کہ مغربی تہذیب کے پیدا کردہ علوم حواسِ خمسہ سے حاصل ہونے والے علم پر کھڑے ہوئے ہیں، چنانچہ یہ انسان کو حقیقتِ اولیٰ یا خدا تک لے جانے والے نہیں ہیں بلکہ ان علوم سے مذہب کے تمام عقاید پاش پاش ہوجاتے ہیں۔
6 ہزار سال کی معلوم تاریخ کا غالب حصہ مذہب کی تاریخ پر مشتمل ہے، اور مذہب کا سب سے بنیادی اور اہم تصور خدا ہے۔ انسان کی زندگی میں خدا کی اہمیت یہ ہے کہ خدا انسان کا خالق ہے، مالک ہے، رازق ہے۔ انسان اسی کی طرف سے دنیا میں بھیجا گیا ہے، اسی کی وجہ سے انسان دنیا میں مقیم ہے اور مرنے کے بعد بالآخر انسان کو خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ چنانچہ خدا انسان کی زندگی کا مرکزی حوالہ ہے۔ خدا کی ذات اور صفات سے انسان کی زندگی کی معنویت کا تعین ہوتا ہے۔ کفر اور شرک اندھیرا ہے، اور خدا پر ایمان انسان کی زندگی کا نور ہے۔
بلاشبہ انسان تاریخ کے مختلف ادوار میں خدا کا انکار کرتا رہا ہے اور اس نے خدا کے شریک بھی ایجاد کیے ہیں، مگر قدیم ادوار میں انسان کبھی بھی اپنے کفر اور شرک کو عالم گیر فکر اور عالم گیر نظام میں نہیں ڈھال سکا تھا۔ جدید مغربی تہذیب کی ہولناکی یہ ہے کہ اس نے خدا کے انکار کو فکر میں ڈھال دیا ہے، فلسفے کا روپ دے دیا ہے، اسے آرٹ میں تبدیل کردیا ہے، اسے سائنس کی صورت دے دی ہے، یہاں تک کہ اسے ایک نظام بنادیا ہے۔
دنیا کی تمام مذہبی تہذیبیں لا الٰہ الا اللہ کے تصور پر کھڑی تھیں، جدید مغربی تہذیب نے اس کلمے کو لا الٰہ الاانسان سے تبدیل کردیا۔ بدقسمتی سے جدید مغربی تہذیب کا انسان ’’آفاقی انسان‘‘ بھی نہیں ہے۔ یہ صرف ’’مغربی انسان‘‘ ہے، ’’سفید فام‘‘ مغربی انسان۔ اس طرح جدید مغربی تہذیب کا انسان ہی حقیقی معنوں میں مہذب انسان ہے۔ اس کے سوا جتنے انسان ہیں غیر مہذب ہیں۔ مغرب کے ممتاز شاعر رڈیارڈ کپلنگ نے کہا ہے کہ غیر مغربی انسان آدھا بچہ ہے اور آدھا شیطان ہے۔ شیطان اس لیے کہ وہ عیسائی نہیں ہے، بچہ اس لیے کہ اس کا ذہنی ارتقا ہی نہیں ہوسکا۔ مغربی تہذیب کی ہولناکی یہ ہے کہ اس نے اس نسل پرستی کو ایک عالم گیر نظام میں ڈھال دیا۔
جدید مغربی تہذیب نے انسان سے اس کا خدا ہی نہیں چھینا، اس نے انسان سے اس کا تصورِ انسان بھی چھین لیا۔ مذاہب کی طویل تاریخ میں انسان کی سب سے بڑی حقیقت اس کا ’’عبد‘‘ ہونا تھا، لیکن مغرب کے انکارِِ خدا نے انسان سے اس کی عبدیت کا تصور ہی چھین لیا۔ مغرب نے اس کی جگہ اس تصور کو عام کیا کہ انسان اپنی تقدیر کا خود مالک ہے، وہ اپنی زندگی گزارنے کے لیے کسی آسمانی طاقت کا محتاج نہیں۔ مذ
اہب کے تصورِ انسان کی ایک خاص بات یہ تھی کہ انسان روح، نفس اور جسم کا مجموعہ تھا۔ لیکن جدید مغربی تہذیب نے خدا اور مذہب کا انکار کیا تو اس کے ساتھ ہی روح کا انکار بھی کردیا۔ اس نے انسان کے نفس اور اس کے مدارج کا بھی انکار کردیا۔ مغربی تہذیب نے کہا کہ انسان صرف جسمانی وجود ہے۔ جدید مغربی تہذیب نفس کے مدارج کا کوئی تصور نہیں رکھتی۔ اسلامی اصطلاح میں بات کی جائے تووہ انسان کو ’’نفسِ امارہ‘‘ سے آگے نہیں پہچانتی۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو جدید مغربی تہذیب کو ’’نفسِ امارہ‘‘ کی تہذیب بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے مقابلے پر اسلامی تہذیب ’’نفسِ مطمئّنہ‘‘ کی تہذیب ہے۔ وہ انسان کے نفس کے تزکیہ کے ذریعے اُسے نفسِ امارہ سے نفسِ لوامہ کی طرف لاتی ہے، اور نفسِ لوّامہ کو نفسِ مطمئّنہ میں ڈھالتی ہے۔ بدقسمتی سے جدید مغربی تہذیب نے انسانی نفس کی ’’امّاریت‘‘ کو بھی ہولناک عالمی نظام میں ڈھال دیا ہے۔ چنانچہ جدید مغربی تہذیب کا فلسفہ اماریت کا فلسفہ ہے۔
تمام مذاہب کی تاریخ بتاتی ہے کہ مذاہب کا تصورِ علم یہ تھا کہ سب سے برتر علم وحی کا علم ہے، اس لیے کہ وحی خدا کی طرف سے ہوتی ہے اور خدا کا علم ہر نقص سے پاک ہے۔ لیکن جدید مغربی تہذیب نے خدا اور مذہب کے انکار کے ساتھ ہی وحی سے حاصل ہونے والے علم کا بھی انکار کردیا۔ اس کے برعکس جدید مغربی تہذیب نے اعلان کیا کہ اصل علم عقل سے حاصل ہونے والا علم ہے۔ لیکن عقل صرف اُسی علم کا تجزیہ کرتی اور نتائج اخذ کرتی ہے جو اسے حواسِ خمسہ سے فراہم ہوتا ہے۔
حواس کے علم کا یہ حال ہے کہ صحرا میں چمکتی ہوئی ریت انسان کو پانی کا چشمہ معلوم ہوتی ہے۔ آپ ایک ڈنڈا پانی سے بھرے ہوئے ٹب میں ڈال دیں تو وہ ڈنڈا سیدھا ہونے کے باوجود ٹیڑھا نظر آنے لگتا ہے۔ جہاں تک خدا، دوزخ، جنت اور فرشتوں کے علم کا تعلق ہے تو حواس کسی بھی طرح ان چیزوں کا علم حاصل نہیں کرسکتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جدید مغربی تہذیب کا تصورِ علم انتہائی ناقص ہے، مگر جدید مغربی تہذیب کے عالم گیر غلبے نے اس تصورِِ علم کو بھی عالمی نظام بنا کر کھڑا کردیا ہے۔
تمام مذاہب میں تاریخ کا تصور دائروی یا Cyclic ہے، یعنی مذاہب کے تصورِ تاریخ میں تاریخ دائرے کی صورت میں سفر کرتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیثِ مبارکہ ہے جس میں آپؐ نے فرمایا ’’میرا زمانہ رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا، اس کے بعد خلافتِ راشدہ ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا، اس کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا عہد رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی، اس کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی اور اس کا دور رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ پسند فرمائیں گے۔ لیکن اس کے بعد خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا زمانہ آئے گا۔‘‘
اس حدیث ِ پاک میں تاریخ دائرے کی صورت میں سفر طے کررہی ہے۔ ہندوازم میں چار زمانوں کا تصور موجود ہے: ست یُگ، تررتیایُگ، دوایر یُگ اور کل یُگ۔ ہندو ازم کے مطابق کل یگ یا کلجگ کے بعد ایک بار پھر ست یُگ کا عہد شروع ہو جائے گا۔ عیسائیت کا تصور یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کو پھانسی ہوگئی مگر وہ ایک بار پھر دنیا میں لوٹ کر آئیں گے۔ اس کے برعکس جدید مغربی تہذیب تاریخ کے دائروی تصور پر یقین نہیں رکھتی۔ اس کے تصورِ تاریخ کے مطابق تاریخ خطِ مستقیم میں مسلسل آگے کی طرف سفر کررہی ہے اور وہ کبھی خود کو نہیں دہرائے گی۔
چنانچہ جیمز فریزر نے اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف ’’گولڈن بائو‘‘ میں انسانی تاریخ کو چار زمانوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس کے مطابق تاریخ کا پہلا دور انسانیت کا عہدِ طفولیت تھا۔ یہ زمانہ جادو کا دور کہلاتا ہے۔ پھر انسان کچھ بڑا ہوا تو اس نے مذہب ایجاد کرلیا، اور مذہب کا زمانہ بہت عرصے تک موجود رہا، مگر انسانی ذہن نے مزید ترقی کی تو فلسفے کا عہد شروع ہوگیا۔ اب جب کہ انسان پوری طرح بالغ ہوگیا ہے تو ہم سائنس کے عہد میں سانس لے رہے ہیں۔ جدید مغربی تہذیب کا یہ تصورِ تاریخ بھی ایک عالم گیر فکر اور ایک عالم گیر نظام کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
مغرب مسلمانوں سے نفرت کرتا ہے تو اس کی ایک وجہ اُس کا تصورِ تاریخ بھی ہے۔ مغرب کو لگتا ہے کہ مسلمان کتنے پسماندہ ہیں جو اب تک مذہب سے چمٹے ہوئے ہیں۔ مغرب کو محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو بھی مغرب کی طرح مذہب کو ترک کرکے سائنس پر ایمان لے آنا چاہیے اور زندگی کو سائنس کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اردو کے سب سے بڑے نقاد محمد حسن عسکری کو مغرب کی گمراہیوں اور ہولناک فکری و عملی انحرافات کا جیسا شعور تھا اس کی مثال اردو میں موجود نہیں۔ عسکری صاحب نے اپنی معرکہ آرا تصنیف ’’جدیدیت‘‘ میں مغربی تہذیب کی گمراہیوں کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔
ذرا دیکھیے تو محمد حسن عسکری ’’جدیدیت‘‘ کے ایک باب میں مغربی تہذیب کی گمراہیوں کے حوالے سے کیا فرما رہے ہیں:
’’عام طور سے یورپ میں مشہور ہے کہ’’نئی دنیا‘‘ یعنی جدیدیت کا آغاز 1453ء سے ہوتا ہے جب ترکوں نے قسطنطنیہ فتح کیا اور یونانی عالم اپنی کتابیں لے کر وہاں سے بھاگے اور سارے یورپ میں پھیل گئے۔ انہوں نے یونانی علوم یورپ والوں کو پڑھائے۔ اس دور کو ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یونان اور روم کے زوال کے بعد یورپ کا ذہن گویا مر گیا تھا، اور ہزار سال تک مدفون رہا۔ پندرہویں صدی میں جب یونانی علوم پھیلے تو مغرب کا ذہن دوبارہ پیدا ہوا۔
یہ بیان سراسر غلط ہے۔ یونانی علوم ازمنۂ وسطیٰ میں بھی رائج تھے، مگر انہیں ثانوی حیثیت دی جاتی تھی، سب سے بڑا درجہ دینی علوم کا تھا، پندرہویں صدی میں سب سے اونچی جگہ یونانی علوم کو دی گئی۔ یہ علوم وحی پر مبنی نہیں تھے، بلکہ عقلی تھے۔ دوسرے، یونانی علوم میں ہر مسئلے پر انسانی نقطہ نظر سے غور کیا جاتا تھا اور انسان ہی کو کائنات کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔
چنانچہ ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ کا اصلی مطلب ہے، وحی پر مبنی اور نقلی علوم کو بے اعتبار سمجھنا، اور عقلیت اور انسان پرستی اختیارکرنا۔ اسی لیے اس تحریک کا دوسرا نام ’’انسان پرستی‘‘ (Humanism) بھی ہے۔
چونکہ نیا دور اسی زمانے میں شروع ہوتا ہے، اور جدیدیت کے خدوخال نمایاں ہونے شروع ہوتے ہیں، اس لیے اس دور کی فکری اور عملی خصوصیات پیش کی جاتی ہیں:
-1 یونانی علوم کو دینی علوم پر ترجیح دینا۔
-2 انسان پرستی… یعنی انسان کو موجودات میں سب سے اہم سمجھنا اور ہر بات پر انسان کے نقطہ نظر سے غور کرنا۔
-3 چونکہ عوام مذہبی رنگ میں رنگے ہوئے تھے، اس لیے عموماً خدا کے وجود سے انکار نہیں کیا گیا، لیکن خدا پر ایمان محض ایک رسمی چیز بن گیا۔
-4 آخرت سے بھی انکار نہیں کیا گیا، لیکن ایک بہت بڑا فرق پیدا ہوا۔ ازمنۂ وسطیٰ کے لوگ کہتے تھے کہ اصل حقیقت تو آخرت ہی ہے، یہ دنیا محض فریب ہے۔ اب لوگ کہنے لگے کہ آخرت بھی حقیقی ہے، اور یہ دنیا بھی حقیقی ہے۔
-5 آخرت چونکہ نظر نہیں آتی، اس لیے کہا گیا کہ آخرت کی فکر میں گھلنا بے کار ہے، مرنے کے بعد دیکھا جائے گا۔ دنیا نظروں کے سامنے ہے، پہلے اس کا بندوبست کرو۔ اس رجحان کی بہترین مثال انگریز فلسفی بیکن ہے جسے ’’سب سے پہلا جدید مفکر‘‘ کہا جاتا ہے۔
-6 یہ خیال بھی اسی زمانے میں بہت مقبول ہوا کہ خدا کی دو کتابیں ہیں، ایک تو انجیل اور دوسری فطرت۔ چنانچہ انجیل کے مطالعے کی طرح فطرت کا مطالعہ بھی دینی فریضہ ہے۔ کچھ لوگ اس سے بھی آگے گئے اور کہنے لگے کہ انجیل کو فطرت کے مطالعے کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ یہ نقطہ نظر گیلیلیو کا بھی تھا (اسی لیے کلیسا نے اسے سزا دی تھی۔ یہ محض افسانہ ہے کہ کلیسا سائنس کی ترقی کا مخالف تھا)۔
-7 فطرت کے حُسن کی طرف بھی خاص طور سے توجہ کی گئی۔ انسان کا فریضہ قرار پایا کہ فطرت کے حسن اور دنیا کی رنگینیوں سے پوری طرح لطف اندوز ہو۔ سیکڑوں شاعر اس موضوع پر نظمیں لکھنے لگے کہ زندگی چند روزہ ہے، اس سے جتنا لطف اٹھایا جا سکے، اٹھا لو۔ یعنی نفس پرستی کو اصولِِ زندگی بنایا گیا۔
-8 فطرت کا مطالعہ برائے مطالعہ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ تسخیر فطرت کے لیے، تاکہ انسان فطرت کی قوتوں کو اپنے کام میں لاسکے۔
-9 مطالعۂ فطرت کا طریقہ بھی بیکن نے مقرر کردیا۔ جس چیز کو ’’سائنس کا طریقہ‘‘ کہا جاتا ہے، وہ اسی سے شروع ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چیزوں کی حقیقت صرف مشاہدے اور تجربے سے معلوم ہوسکتی ہے۔ اس سے براہِ راست منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو چیز مشاہدہ نہ کی جاسکے اور حسی تجربے میں نہ آسکے وہ حقیقت نہیں۔ (اس کا اعلان انیسویں صدی میں ہوا۔)
-10 لفظ ’’فطرت‘‘ کا مفہوم بھی اس دور میں بدلنے لگا۔ ازمنۂ وسطیٰ کے مفکر دو چیزوں میں امتیاز اور فرق ملحوظ رکھتے تھے۔ ایک تو ہےNatura Naturans جس کی حیثیت ’’جوہر‘‘ کی ہے، لہٰذا غیر مادّی چیز ہے۔ دوسری چیز ہے Natura Naturata جس کی حیثیت ’’عرض‘‘ کی ہے، لہٰذا مادّی چیزہے۔ اس دَور سے یہ دوسرے معنی غالب آنے لگے اور عرض کو جوہر کی جگہ دی جانے لگی۔ آہستہ آہستہ لوگ جوہر کو بھول ہی گئے۔ (سرسید اور دوسرے ’’نیچری‘‘ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ لفظ ’’نیچر‘‘ انگریزی میں کتنے معنی رکھتا ہے۔)
-11 تسخیرِ فطرت سے مراد ہے طاقت کا حصول۔ یہ اس دور کا سب سے بنیادی اور مرکزی اصولِ حیات تھا۔ انسان کا سب سے بڑا فریضہ یہ قرار پایاکہ طاقت حاصل کرے، خواہ کسی شعبے میںہو، اور کسی طریقے سے ہو۔
-12 طاقت کے اصول سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اخلاقیات کوئی چیز نہیں، جو آدمی طاقت حاصل کر لے وہ اچھا ہے اور اس کا طریقہ کار بھی اچھا ہے۔ جو آدمی طاقت حاصل نہ کرسکے وہ برا ہے اور اس کا طریقہ کار بھی برا ہے، اور پھر طاقت بھی لامحدود ہونی چاہیے۔ اس دور کے مصنف صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ انسان کو خدا بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نعوذ باللہ۔
-13 اس ’’نئی اخلاقیات‘‘ کو فلسفے کی شکل اٹلی کے مفکر میکیاویلی نے دی، وہ کہتا تھا کہ عام افراد کو تو اخلاقیات کا پابند ہونا چاہیے، لیکن بادشاہ اخلاقی اصولوںسے بالکل آزاد ہے۔ بادشاہ اپنی قوم کی خاطر جو چاہے کرسکتا ہے، جو چیز بھی اسے مفید معلوم ہو وہ اچھی ہے، چاہے قتل ہو یا جھوٹ۔
-14 چنانچہ اس دور میں ’’قوم‘‘ اور ’’قومیت‘‘ کا جدید تصور پیدا ہوا۔ ’’قوم‘‘ اور ’’وطن‘‘ کو وہ جگہ دی گئی جو خدا کی ہونی چاہیے۔ لہٰذا اس زمانے میں بادشاہوں کو مطلق اور جابرانہ طاقت حاصل ہوئی، اور انگلستان میں تو کلیسا بھی بادشاہ کے زیر نگیں آگیا۔ یہی دور تجارت کی ترقی کا ہے۔ موجودہ سرمایہ داری کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔
-15 یہی زمانہ سیاحت کی انقلاب انگیز کامیابیوں کا ہے۔ امریکہ جیسا براعظم دریافت ہوا، ہندوستان کا سمندری راستہ معلوم ہوا، بحرالکاہل دریافت ہوا۔ نئی ایجادات کا آغاز بھی اسی دور میں ہوا۔ بارود اور چھاپہ خانہ جن کو دورِ جدید کی بنیاد کہا جاتا ہے اسی زمانے میں بنائے گئے۔ ادھر سائنس کے شعبے میں کوپر نیکس، کیپلراور گیلیلیو نے بطلیموسی نظام اور ارسطو کی طبعیات کو الٹ کے رکھ دیا۔ غرض یورپ کے لوگوں کی نظر میں نہ صرف دنیا بلکہ کائنات ہی کا نقشہ بدلنے لگا اور روایتی علوم بے کار معلوم ہونے لگے۔
-16 ان خارجی اور مادّی کامیابیوں نے مغربی ذہنیت کو ایسا متاثر کیا کہ لوگ ’’فکر‘‘ اور ’’عمل‘‘ کو ایک دوسرے کا مخالف اور متضاد سمجھنے لگے، بلکہ ’’عمل‘‘ (یعنی خارجی اور جسمانی عمل) کو ’’فکر‘‘ پر فوقیت دینے لگے۔
-17 یورپ کے روایتی اور دینی علوم تو خیر برباد ہو ہی رہے تھے، لیکن یہ مادّی کامیابیاں اور ترقیاں بظاہر مثبت چیز معلوم ہوتی ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ایک دوسرا فکری رجحان ابھر رہا تھا جو فی الاصل فکر ہی کی جڑ کھود دیتا ہے۔ اس دور سے پہلے جتنے بھی دین دار یا بے دین لوگ ہوئے ہیں وہ سب یہی دعویٰ کرتے تھے کہ ہم حقیقت یا صداقت یا حق کی تلاش میں ہیں۔ اس دور کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس نے صداقت یا حق کے وجود ہی سے انکار کردیا۔ اس رجحان کا سب سے بڑا نمائندہ فرانس کا مفکر موں تینیہ (Montaigne) ہے جسے انگریز ’’مون ٹین‘‘ کہتے ہیں۔ اس نے ایک مثال سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حق یا صداقت کوئی مطلق یا مستقل چیز نہیں، بلکہ اضافی چیز ہے جو آدمی کے ساتھ اور زمان و مکان کے ساتھ بدلتی رہتی ہے، اس لیے انسانی ذہن کی معراج معرفت یا علم کا حصول نہیں بلکہ تشکیک ہے۔ سب سے عقل مند آدمی وہ ہے جو ہر چیز اور ہر خیال کو شک کی نظر سے دیکھتا ہو۔ تشکیک کا یہ فلسفہ موجودہ مغربی ذہن کا لازمی جزو بن گیا ہے، جس کا آخری نتیجہ مادّی ضروریات اور نفسانی خواہشات کی تسکین کے سوا ہر چیز سے مکمل بے نیازی ہے۔
-18 اس تشکیک کے فلسفے نے ہر چیز پر شک کیا سوائے جسمانی ضروریات اور نفسانی خواہشات کے۔ ان دو چیزوں کی تسکین چونکہ ضروری اور لازمی قرار پائی اس لیے تسکین کا آلہ کار بھی ڈھونڈنا لازمی تھا۔ یہ آلہ کار دو ہوسکتے تھے: عقل جزوی (Reason) اور تخیل۔ چنانچہ اس دور سے مغرب کے لوگ عقلِ کلّی (Intellect) کو بھولنے لگے اور آہستہ آہستہ عقل جزوی ہی کو عقل کلّی سمجھنے لگے۔ اب یورپ میں مفکروں کے دو گروہ ہوگئے۔ ایک گروہ تو عقل (یعنی عقل جزوی) کو انسانی ذہن کی صلاحیتوں میں سب سے بڑا درجہ دینے لگا، اور دوسرا گروہ تخیل کو۔ ان دونوں گروہوں میں پچھلے تین سو سال سے لڑائی جاری ہے جس کے عنوانات بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ عقل جزوی ہو یا تخیل، دونوں ہی کی بنیاد حسیات پر ہے۔ لہٰذا دراصل دونوں گروہ ہی حسی تجربے کے قائل ہیں، اور ظاہری اختلاف کے باوجود بنیادی طور سے ایک ہی بات کہہ رہے ہیں۔
-19 اب تک اس دور کے جتنے خصائص بیان ہوئے ان سب میں ایک چیز مشترک ہے یعنی فرد کی اہمیت کا اثبات، نہ صرف نشاۃ ثانیہ کے دور، بلکہ پوری جدیدیت کی اصل روح یہی انفرادیت پرستی ہے۔ مذہب ہو یا اخلاقیات یا معاشرتی زندگی… ہر جگہ آخری معیار فرد اور اس کے تجربے کو سمجھا گیا ہے۔ پچھلے پانچ سو سال میں مغرب نے گمراہی کی جتنی شکلیں بھی پیدا کی ہیں وہ سب اسی انفرادیت پرستی کے بیج سے نکلی ہوئی شاخیں ہیں۔ یہی وہ اصول ہے جو نشاۃ ثانیہ کی تحریک کا رشتہ ’’اصلاح دین کی تحریک‘‘ سے جوڑ دیتا ہے۔
یہ دو تحریکیں یعنی نشاۃ ثانیہ (Renaissance) اور ’’اصلاحِ دین‘‘ (Reformation) ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ عام طور سے مغرب کے مصنفین پہلی تحریک کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں اور دوسری تحریک کو اس کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن اگر عیسوی کلیسا (جس سے مراد رومن کیتھولک کلیسا ہے) پورے استحکام کے ساتھ قائم رہتا تو جتنے رجحانات نشاۃ ثانیہ کے ذیل میں گنوائے گئے وہ اتنی آسانی سے جڑ نہ پکڑتے۔ اس لیے بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اصل چیز ’’اصلاح دین کی تحریک‘‘ اور ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ اس کی شاخ ہے۔ ان کے نزدیک ’’جدیدیت‘‘ کا آغاز پندرہویں صدی سے نہیں بلکہ چودہویں صدی سے ہوتا ہے۔
رو من کیتھولک کلیسا چونکہ انتظامی محکمے کی شکل میں قائم ہوا تھا، اس لیے نظم و نسق کے معاملے میں خرابیاں پیدا ہونی لازمی تھیں، اور کلیسا کے عہدیداروں کا اخلاقی برائیوں میں گرفتار ہوجانا بھی لازمی تھا۔ ان خرابیوں کے خلاف وقتاً فوقتاً اعتراض ہوتے رہے، لیکن احتجاجی اور اصلاحی تحریک زور شور کے ساتھ پہلے تو چودھویں صدی میں انگلستان میں شروع ہوئی اور پندرہویں صدی میں جرمنی میں۔ پروٹسٹنٹ مذہب کا بانی مارٹن لوتھر (پندرہویں اور سولہویں صدی) اٹھا تو تھا محض کلیسا کی اصلاح کے لیے، لیکن آخر اس نے یہ دعویٰ کیا کہ دینی معاملات میں بھی پوپ کا مکمل اقتدار غلط ہے، اور نہ پوپ کا فیصلہ قطعی اور آخری ہوسکتا ہے۔ خدا نے انجیل انسانوں کی رہنمائی کے لیے نازل کی ہے اور ہر عیسائی کی نجات کا دار و مدار اس کے انفرادی ایمان اور اعمال پر ہے۔ اس لیے ہر آدمی کو حق پہنچتا ہے کہ براہِ راست خدا کا کلام پڑھے اور اپنے فہم کے مطابق اسے سمجھے۔ خدا اور بندے کا تعلق براہِ راست ہے، اور پادریوں کو درمیان میں آنے کا حق نہیں۔ ہر آدمی کا فیصلہ خدا خود کرے گا۔ اس لیے اصلی ذمے داری فرد کے کندھوں پر ہے۔ ذمے داری سے عہدہ برا ہونے کے لیے اختیار بھی چاہیے۔ چنانچہ ہر فرد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ دینی معاملات میں انفرادی طور سے خود ہی فیصلہ کرے۔ یعنی مارٹن لوتھر نے فرد کو تفسیر بالرائے کی پوری آزادی دی ہے، اور دینی معاملات میں ہر قسم کے استناد سے انکار کردیا۔
ساری جدیدیت اور اس سے پیدا ہونے والی تمام گمراہیوں کی جڑ اور اصلِ الاصول، یہی انفرادیت پرستی اور اطاعت سے انکار ہے۔ یعنی جدیدیت ابلیسیت ہے۔
لوتھر کی پروٹسٹنٹ تحریک کی پشت پناہی جرمنی کے چھوٹے چھوٹے بادشاہوں نے کی۔ اس میں ان کا سیاسی مفاد یہ تھا کہ روم کے کلیسا کا دینی اقتدار ختم ہوجائے تو وہ مطلق حکمران بن جائیں۔ چنانچہ سولہویں صدی سے رومن کیتھولک کلیسا کی مرکزیت ختم ہونے لگی اور پروٹسٹنٹ ملکوں میں قومی کلیسا قائم ہونے لگے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین سیاست کے تابع ہوگیا۔
دین میں فرد کی خودمختاری اور آزادی کا اصول قائم ہوگیا تو مغرب میں گمراہیاں بڑھتی ہی چلی گئیں اور خود رومن کیتھولک لوگ بھی ان سے متاثر ہونے لگے۔‘‘
دنیا میں تہذیبوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دنیا کی ہر تہذیب اپنے عقاید کا احترام کرتی ہے اور ان سے ’’غداری‘‘ کو پسند نہیں کرتی، مگر جدید مغربی تہذیب نے خود اپنے عقاید کی مٹی پلید کی ہوئی ہے اور اس عمل کو بھی عالم گیر نظام بنایا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر جدید مغربی تہذیب انسان کی آزادی پر کامل یقین رکھتی ہے مگر تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مغرب کو صرف اپنی آزادی عزیز ہے، باقی پوری دنیا کو وہ اپنا غلام رکھنا چاہتا ہے۔چنانچہ دنیا کی تمام کمزور اقوام مغرب کی غلام ہیں۔
پاکستان اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ ہمارا سیاسی نظام امریکہ مرکز ہے۔ امریکہ چاہتا ہے تو پاکستان میں مارشل لا آجاتا ہے، امریکہ کی خواہش ہوتی ہے تو جمہوریت بحال ہوجاتی ہے۔ دنیا صرف مغرب کی سیاسی غلام ہی نہیں، اس کی معاشی غلام بھی ہے۔ اس وقت دنیا کے غریب ملکوں پر مغرب کے چار ہزار ارب ڈالر کے قرضے واجب الادا ہیں۔ صرف پاکستان آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے 120 ارب ڈالر کے قرضوں تلے دبا پڑا ہے۔ مغرب ایک جانب تنوع کی بات کرتا ہے دوسری جانب وہ چاہتا ہے کہ دنیا زبان بولے تو اُس کی، لباس پہنے تو اُس کا، غذا کھائے تو اُس کی، فلم دیکھے تو اُس کی، موسیقی سنے تو اُس کی، سیاسی اور معاشی نظام اختیار کرے تو اُس کا۔
مغرب ساری دنیا میں جمہوریت کا فروغ چاہتا ہے، مگر مسلم دنیا میں اُسے صرف وہی جمہوریت عزیز ہے جو سیکولر اور لبرل مسلمانوں کو اقتدار میں لائے۔ الجزائر میں اسلامی فرنٹ انتخابات جیت جاتا ہے تو مغرب الجزائر کی فوج کو اسلامی فرنٹ پر کتے کی طرح چھوڑ دیتا ہے۔ مقبوضہ عرب علاقوںمیں حماس انتخابات جیت جاتی ہے تو مغرب حماس کی جمہوری فتح کو قبول نہیں کرتا۔ مصر میں اخوان کے مرسی صدر بن جاتے ہیں تو مغرب اُن پر بھی فوج کو کتے کی طرح چھوڑ دیتا ہے۔
ترکی میں رجب طیب اردوان برسراقتدار آجاتے ہیں تو اُن کے خلاف بھی فوج سے بغاوت کرانے کی کوشش کرتا ہے، بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی مقبول ہونے لگتی ہے تو مغرب اس پر بھی پابندی لگوا دیتا ہے۔ مغرب نے اپنی اس روش کو بھی عالمی نظام میں ڈھالا ہوا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ مغرب ایک جانب جمہوریت کو پوجتا ہے مگر وہ اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ کھڑا کرتا ہے تو اس کے دو ایوان بناتا ہے، ایک جنرل اسمبلی اور دوسرا سلامتی کونسل۔ جنرل اسمبلی کو وہ تقریری مقابلے کا فورم بنائے ہوئے ہے اور اصل فیصلے سلامتی کونسل میں ہوتے ہیں جہاں جمہوریت کا گزر نہیں۔ سلامتی کونسل میں قوموںکی تقدیر کے فیصلے پانچ ویٹو پاورز یا پانچ بڑے عالمی غنڈے کرتے ہیں۔ مگر مغرب کو اس شرم ناک عالمی نظام پر نہ کوئی شرمندگی ہے نہ کوئی ندامت۔