انگریزی اور غلامی کا تجربہ

بدزبانی کے تلوار اور گولی کے طور پر بروئے کار آنے کا تجربہ تو عام ہے لیکن زبان کو تلوار اور گولی کی طرح استعمال ہوتے ہوئے کم ہی دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں ہونے والے اس واقعے کو کافی ’’شہرت‘‘ حاصل ہوئی جس میں ایک ریستوران کی مالک خاتون نے انگریزی کو تلوار اور گولی کی طرح استعمال کیا۔ اصل میں ہوا یہ کہ ریستوران کی مالک خاتون نے اپنے منیجر کو ہدف بناتے ہوئے فرمایا کہ انہیں ہمارے یہاں کام کرتے ہوئے 9 سال ہوگئے ہیں مگر اس کے باوجود انہیں ابھی تک انگریزی بولنی نہیں آتی۔ اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہوئی تو اس پر عمران خان نے تبصرہ کیا۔ یہاں تک کہ وسیم اکرم کی آسٹریلوی بیگم بھی میدان میں کود پڑیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو اپنی انگریزی پر فخر ہے تو وہ آئے اور میرے ساتھ مقابلہ کرے۔ عمران خان اس سلسلے میں صرف یہ کہہ کر رہ گئے کہ ہمارے لوگوں کی اکثریت کو انگریزی نہیں آتی اس لیے انگریزی کے حوالے سے کسی کا مذاق اُڑانا ٹھیک نہیں۔

بدقسمتی سے انگریزی ہمارے یہاں صرف ایک زبان نہیں ہے بلکہ وہ غلامانہ ذہنیت کا کامل تجربہ ہے اور غلامی کے بارے میں اقبال نے ایک بنیادی بات کہی ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

اقبال کہہ رہے ہیں کہ لوگ غلامی کو صرف سیاسی مسئلہ سمجھتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ غلامی اتنی ہولناک چیز ہے کہ وہ افراد کیا قوموں کے ضمیر تک کو بدل ڈالتی ہے۔ غلامی کے تجربے سے پہلے قومیں جس چیز کو ’’ناخوب‘‘ سمجھتی تھیں غلامی کے بعد ’’خوب‘‘ سمجھنے لگتی ہیں۔ انہیں اپنی تہذیب، تاریخ یہاں تک کہ اپنے مذہب میں ’’خرابیاں‘‘ نظر آنے لگتی ہیں اور ’’آقائوں‘‘ کے ’’عیوب‘‘ بھی انہیں ’’ہنر‘‘ دکھائی دینے لگتے ہیں۔

سرسید کی شخصیت اس تغیر کی ایک بڑی مثال ہے۔ غلامی کے تجربے سے پہلے سرسید ایک عام مسلمان کی طرح کے عقائد اور نظریات رکھتے تھے مگر جب انہوں نے انگریزوں کی غلامی کو دل و جان سے قبول کرلیا تو انہوں نے انگریزوں کی غلامی کو ’’رحمت‘‘ باور کرانا شروع کردیا۔ انہیں اپنی تہذیب میں کیڑے نظر آنے لگے۔ انہیں اپنی تاریخ زہر لگنے لگی یہاں تک کہ انہوں نے عربی، فارسی اور اردو پر تھوک دیا۔

انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ عربی، فارسی اور اردو میں کیا رکھا ہے۔ انہیں چھوڑو اور انگریزی اور فرانسیسی سیکھو۔ عربی قرآن کی زبان ہے۔ عربی رسول اکرمؐ کی زبان ہے۔ عربی فقہ کی زبان ہے۔ عربی ہماری تہذیب کی زبان ہے۔ عربی ہماری تاریخ کی زبان ہے۔ عربی میں سیکڑوں دیوقامت لوگوں نے کلام کیا اور علوم وفنون کا بہت بڑا سرمایہ خلق کیا۔

فارسی ہماری مذہبی زبان ہے۔ ہماری تہذیب کی زبان ہے۔ فارسی کی شاعری سے زیادہ بڑی شاعری دنیا کی کسی زبان میں ہوئی ہے نہ ہونے کا کوئی امکان ہے۔ فارسی سر سے پیر تک تصوف کی روایت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ یہی معاملہ اردو کا ہے۔ اردو ہمارے مذہب کی زبان ہے۔ برصغیر کی ملت اسلامیہ کی مشترک تہذیب کی زبان ہے۔

برصغیر کی ملت اسلامیہ کے مشترک تاریخی تجربے کو بیان کرنے والی زبان ہے۔ اردو برصغیر میں رابطے کی واحد زبان ہے۔ مگر سرسید کی غلامانہ ذہنیت نے عربی، فارسی اور اردو کو ایک لمحے میں ہمارے انفرادی اور اجتماعی زندگی سے بے دخل کردیا۔

انہوں نے ایسا کرتے ہوئے ایک لمحے کو بھی یہ نہ سوچا کہ عربی، فارسی اور اردو سے دور ہونے کا مطلب مذہب، تہذیب، تاریخ اور پورے ماضی سے کٹ جانا ہے۔ اتفاق سے انگریزی اور فرانسیسی نہ ہمارے مذہب کی زبان تھیں نہ ہیں۔ نہ وہ ہماری تہذیب کی علامت تھیں نہ ہیں۔ نہ وہ ہمارے مشترک تاریخ تجربے کا استعارہ تھیں نہ ہیں۔ مگر اس کے باوجود سرسید نے انگریزی اور فرانسیسی کو سر پر بٹھایا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام آباد میں ریستوران کی مالک نے وہی کچھ کیا جس کی بنیاد سرسید نے رکھی تھی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک عام عورت کی مذمت تو سب کرتے ہیں مگر سرسید کی مذمت کوئی نہیں کرتا۔ عام انگریزی پرست کو سب غلام سمجھتے ہیں مگر سرسید کو کوئی غلام نہیں سمجھتا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ غلامی اپنی اصل میں کیا ہے اور وہ کیوں مذموم ہے؟

اس سلسلے میں اقبال کے دو شعر بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ اقبال نے کہا ہے۔

غلامی کیا ہے؟ ذوقِ حُسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
غلاموں کی بصیرت پر بھروسا کر نہیں سکتے
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا

اقبال کہہ رہے ہیں کہ غلام آدمی احساس جمال سے یکسر محروم ہوتا ہے۔ یعنی وہ خوبصورتی اور بدصورتی کے درمیان فرق کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ غلام آدمی نابینا ہوتا ہے۔ اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ دیتا ہے تو اتنا دھندلا کہ وہ حقیقت اور فریب کے درمیان فرق نہیں کرسکتا۔ اقبال کے نزدیک صرف آزاد آدمی ہی دیکھنے کی طرح دیکھ سکتا ہے۔ چناں چہ غلاموں کی بصیرت قابل اعتماد نہیں ہوتی۔ صرف آزاد لوگوں کی بصیرت قابل اعتبار ہوتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سرسید سمیت ہر غلام آدمی احساس جمال اور بصیرت سے محروم ہے۔ اس کے بغیر نہ اردو پر شرمندہ ہوا جاسکتا نہ انگریزی پر ’’فخر‘‘ کیا جاسکتا ہے۔

دنیا میں ’’حق پرست‘‘ انسانوں کی تعداد ہمیشہ ہی کم ہوتی ہے۔ انسانوں کی اکثریت ’’طاقت پرست‘‘ ہوتی ہے۔ ان کے لیے طاقت ہی حق و باطل کا معیار ہوتی ہے۔ جس کے پاس طاقت ہو وہ ’’حق‘‘ ہوتا ہے۔ جو کمزور ہو وہ ’’باطل‘‘ یا ’’ناقابل ِ التفات‘‘ ہوتا ہے۔ سرسید نے انگریزی اور فرانسیسی کے حق میں مہم چلائی اس لیے کہ یہ غالب قوتوں کی زبانیں تھیں۔ مسلمان جب تک خود آدھی سے زیادہ دنیا پر حکومت کررہے تھے اس وقت کسی کو خیال بھی نہیں آیا کہ عربی، فارسی ترک کرکے انگریزی، فرانسیسی، یونانی یا لاطینی سیکھی جائے۔

غلامی کا تجربہ انسانوں میں کس طرح کے خیالات اور جذبات پیدا کرتا ہے اور کس قسم کے اظہار کے سانچے خلق کرتا ہے یہ جاننا ہو تو اکبر الٰہ آبادی کی بے مثال شاعری پڑھنی چاہیے۔

سیّد اُٹھّے جو گزٹ لے کے تو لاکھوں لائے
شیخ قرآن دکھاتے پھرے پیسہ نہ ملا
٭٭
گھر کے خط میں ہے کہ کل ہوگیا چہلم اُن کا
پانیر لکھتا ہے بیمار کا حال اچّھا ہے
٭٭

عہد حاضر میں غلامی کے ’’تجربے‘‘ اور اس کی ’’تلخی‘‘ نے سلیم احمد سے معرکہ آرا نظم ’’مشرق ہار گیا‘‘ تخلیق کروائی۔ اس نظم کی تہذیبی اور تاریخی اہمیت غیر معمولی ہے اور اسے ہمارے قومی کیا ملّی حافظے کا حصہ ہونا چاہیے۔ نظم یہ ہے۔

کپلنگ نے کہا تھا
مشرق مشرق ہے
اور مغرب مغرب ہے
اور دونوں کا ملنا ناممکن ہے
لیکن مغرب، مشرق کے گھر آنگن میں آپہنچا ہے۔
میرے بچوں کے کپڑے لندن سے آتے ہیں۔
میرا نوکر بی بی سی سے خبریں سنتا ہے۔
میں بیدل اور حافظ کے بجائے شیکسپیئر اور رِلکے کی باتیں کرتا ہوں۔
اخباروں میں
مغرب کے چکلوں کی خبریں اور تصویریں چھپتی ہیں۔
مجھ کو چگّی ڈاڑھی والے اکبر کی کھسیانی ہنسی پر رحم آتا ہے۔
اقبال کی باتیں (گستاخی ہوتی ہے) مجذوب کی بڑ ہیں۔
وارث شاہ اور بلھّے شاہ اور بابا فرید؟
چلیے جانے دیجیے ان باتوں میں کیا رکھا ہے۔
مشرق ہار گیا ہے۔
یہ بکسر اور پلاسی کی ہار نہیں ہے۔
ٹیپو اور جھانسی کی رانی کی ہار نہیں ہے۔
سن ستاون کی جنگ آزادی کی ہار نہیں ہے۔
ایسی ہار تو جیتی جاسکتی ہے (شاید ہم نے جیت بھی لی ہے) لیکن مشرق اپنی روح کے اندر ہار گیا ہے۔
قبلا خاں تم ہار گئے ہو
اور تمہارے ٹکڑوں پر پلنے والا لالچی مارکو پولو جیت گیا ہے
اکبر اعظم! تم کو مغرب کی جس عیارہ نے تحفے بھیجے تھے اور بڑا بھائی لکھا تھا۔
اُس کے کتّے بھی ان لوگوں سے افضل ہیں جو تمہیں مہابلی اور ظل اللہ کہا کرتے تھے۔
مشرق کیا تھا؟ جسم سے اوپر اٹھنے کی اک خواہش تھی
شہوت اور جبلّت کی تاریکی میں اک دیا جلانے کی کوشش تھی!
میں سوچ رہا ہوں، سورج مشرق سے نکلا تھا (مشرق سے جانے کتنے سورج نکلے تھے)
لیکن مغرب ہر سورج کو نگل گیا
میں ہار گیا ہوں۔
میں نے اپنے گھر کی دیواروں پر لکّھا ہے میں ہار گیا ہوں۔
میں نے آئینے پر کالک مل دی ہے اور تصویروں پر تھوکا ہے۔
ہارنے والے چہرے ایسے ہوتے ہیں
میری روح کے اندر ایسا گہرا زخم لگا ہے
جس کے بھرنے کو صدیاں بھی ناکافی ہیں
میں اپنے بچے اور کتے دونوں کو ٹیپو کہتا ہوں
مجھ سے میرا سب کچھ لے لو۔
اور مجھے اک نفرت دے دو۔
مجھ سے میرا سب کچھ لے لو اور مجھے اک غصہ دے دو،
ایسی نفرت ایسا غصہ جس کی آگ میں سب جل جائیں
میں بھی۔

Leave a Reply