مغرب ایک انتہائی غیر منصفانہ اور غیر متوازن دنیا تخلیق کرکے کمزور ممالک سے کہتا ہے کہ تم مقابلے اور مسابقے کی طرف کیوں نہیں آتے؟
دنیا کی اکثر قوموں کی پسماندگی عصرِ حاضر کی ایک اہم صورتِ حال ہے، اور اس کے حوالے سے اکثر یہ سوال اٹھتا رہتا ہے کہ پسماندہ قوموں کی اس پسماندگی کا کیا سبب ہے جسے بعض لوگ کم فہمی کی وجہ سے محض اقتصادیات تک محدود کرتے ہیں، لیکن جس کے ذہنی اور نفسیاتی پہلو اقتصادی پہلو سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں کے رہنمائوں اور دانش وروں کے سامنے مذکورہ سوال آتا ہے تو ان کی اکثریت ایک لمحہ ضائع کیے بغیر کہہ دیتی ہے کہ غریب اقوام بالخصوص اسلامی ملکوں کی پسماندگی کا سبب خود یہ اقوام اور ملک ہیں۔ لیکن اکثر صورتوں میں یہ جواب علمی اور دانش ورانہ بنیادوں سے محروم ہوتا ہے اور اس کے پس منظر میں اہلِ مغرب کا احساسِِ جرم جھلکتا نظر آتا ہے۔ تو کیا غریب اقوام کی ہمہ جہت پسماندگی کا سبب ترقی یافتہ کہلانے والی اقوام ہیں؟
اس سوال کے جواب کا ایک تاریخی تناظر ہے۔ غریب اقوام کی پسماندگی کا اہم ترین پہلو ان کا ’’احساسِ کمتری‘‘ ہے۔ یہ احساسِ کمتری مغربی اقوام کے نوآبادیاتی منصوبے کا جزوِ لاینفک تھا۔ مغربی اقوام دنیا کی دوسری قوموں کو غلام بنا رہی تھیں تو ان کی نظر میں اپنا اور غلام قوموں کا ایک تصور، ایک Image تھا۔ مغربی اقوام سمجھتی تھیں کہ ہم مہذب ہیں اور غلام اقوام کو تہذیب کی ہوا بھی نہیں لگی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر مغربی اقوام احساسِ برتری اور احساسِ کمتری کا کھیل کھیل رہی تھیں تو اس میں کیا نئی بات تھی! تمام غالب اقوام تاریخ میں یہی کرتی رہی ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کی مگر ہندوئوں کے مذہب، ان کے علوم و فنون اور ان کی تہذیب و ثقافت کو ہاتھ بھی نہ لگایا۔ ہندوئوں نے مسلمانوں سے جو اثرات قبول کیے وہ آزادانہ بین عمل یا Interaction کا نتیجہ تھے، لیکن مغربی اقوام جہاں گئیں انہوں نے مقامی لوگوں کو باور کرایا کہ تمہارا مذہب غلط ہے۔ تمہاری تہذیب بدتہذیبی کی علامت ہے۔
تمہارے علوم و فنون حقیر اور معمولی ہیں۔ تمہاری زبان، زبان کہلانے کی بھی مستحق نہیں۔ تمہارے رسوم و رواج، تمہارا رہن سہن، تمہارا لباس اور وضع قطع اہلِ مغرب کو ہنسنے ہنسانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ اس صورتِ حال کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ احساسِ کمتری یورپی اقوام کا ایک تہذیبی اور سیاسی منصوبہ تھا۔ اس منصوبے نے مفتوح اقوام میں مغرب کی اندھادھند ’’نقل‘‘کا رجحان پیدا کیا۔
اس کا سبب مقامی لوگوں کا یہ خیال تھا کہ اگر ہم اہلِ مغرب کی طرح بن جائیں گے تو اہلِ مغرب ہم سے خوش ہوں گے۔ لیکن اہلِ مغرب کا احساسِ برتری اتنا زبردست تھا کہ وہ اپنی نقل سے بھی خوش نہ ہوئے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ برصغیر میں مقامی افسروں کو بابو (Baboo) کہا جاتا ہے، اور بابو کہلانے والے اس لفظ پر خوش ہوتے ہیں، مگر انہیں معلوم نہیں کہ لفظ بابو دراصل Baboon کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
برصغیر کے مقامی لوگوں نے انگریزوں کی نقل شروع کی تو انہوں نے انہیں بندر یا Baboon قرار دیا۔ لفظ Baboon سے حرف ’’n‘‘ رفتہ رفتہ غائب ہوگیا اور ایک نیا لفظ ’’بابو‘‘ وجود میں آگیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریزوں کو اپنی نقل بھی پسند نہ تھی اور انہوں نے اپنی تقلید کو حقیر جانا۔ اس طرزعمل کا پیغام واضح تھا اور وہ یہ کہ تم انگریزی بول کر اور پینٹ شرٹ زیب تن کرکے انگریز یا یورپی تھوڑی بن سکتے ہو۔
یورپ ایک تہذیب اور ایک نسل کا نام ہے اور زبان اور لباس بدلنے سے یہ تمام چیزیں نہیں بدلتیں۔ یہ صرف انگریزوں کا معاملہ نہیں تھا، دیگر یورپی اقوام نے بھی اپنے مفتوحین کے ساتھ یہی سلوک کیا، چنانچہ مغرب کی غلام اقوام میں ایک ایسا احساسِ کمتری پیدا ہوا جو ان کی نفسیات کا حصہ بن کر رہ گیا۔ اس احساسِ کمتری نے اکثر پسماندہ کہلانے والی اقوام کو ایک صدی تک کچھ بھی سوچنے اور کرنے کے قابل نہ رکھا۔
غلام قومیں ایک صدی تک محسوس کرتی رہیں کہ تاریخ کے منظرنامے پر جو کچھ کرنا ہے مغربی اقوام کو کرنا ہے، اس لیے کہ انہی کے پاس تہذیب ہے، انہی کے پاس علم ہے، اور یہی قومیں ’’صاحبِ عمل‘‘ لوگوں سے مالامال ہیں۔ بلاشبہ یورپی اقوام کے خلاف مفتوحین نے آزادی کی جنگیں بھی لڑیں اور وہ بالآخر آزادی حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوئے، مگر ان کی جنگوں اور کامیابی کا ایک پہلو یہ ہے کہ جنگ آزادی لڑنے والا محض ایک طبقہ تھا۔ جنگ ِآزادی کی پشت پر پوری قوم کی قوت نہیں تھی۔ ان جنگوں اور ان کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یورپی اقوام کی پسپائی پہلی اور دوسری عالمی جنگ کا حاصل زیادہ تھی۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں نے یورپی اقوام کے کس بل نہ نکالے ہوتے تو وہ آزادی کی جنگوں کی زیادہ دیر تک اور کامیاب مزاحمت کرسکتی تھیں۔
مغربی اقوام مفتوحہ قوموں میں صرف ہولناک احساسِ کمتری پیدا کرکے نہیں رہ گئیں، بلکہ انہوں نے اپنے مقبوضات میں ایک ایسا طبقہ بھی پیدا کردیا جو غلامی پر اتنا فخر کرتا تھا کہ اس نے غلامی کو میراث بنادیا۔ یورپی اقوام بالآخر اپنے اصل مسکنوں کی جانب لوٹ گئیں مگر ان کا پیدا کردہ غلاموں کا طبقہ اپنی اپنی قوموں پر مسلط ہوگیا۔ نتیجہ یہ کہ سیاسی آزادی اکثر جگہوں پر نفسیاتی اور ذہنی آزادی نہ بن سکی اور یورپی اقوام اس طبقے کے ذریعے اپنے سابقہ مقبوضات پر اثرانداز ہوتی رہیں۔ تیسری دنیا بالخصوص مسلم دنیا کے اکثر ملکوں میں سب سے بھیانک کردار فوج کے ادارے نے انجام دیا۔ فوج کسی بھی ملک کا سب سے منظم اور طاقتور ادارہ ہوتی ہے اور اس کی قوت اور شوکت دشمن کے خلاف کام آتی ہے۔ مگر تیسری دنیا بالخصوص مسلم دنیا میں فوج کا ادارہ اپنی ہی قوم کو بار بار فتح کرنے کے لیے استعمال ہوا۔ اس طرح فوج کی قوت ان اقوام کی ایک بڑی کمزوری بن گئی۔ ان ملکوں کے جرنیلوں کی نفسیات کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں اور یورپی فاتحین کی نفسیات میں حیرت انگیز مماثلتیں نظر آئیں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تیسری دنیا کے اکثر ملکوں میں فوج کا ادارہ نوآزاد ملکوں کو یورپی طاقتوں سے ’’ورثے‘‘ میں ملا تھا۔ لیکن اصل مسئلہ فوج کے ادارے کا نہیں اس کی سیکولر اور لبرل روایات کا تھا۔ ان روایات نے مسلم دنیا میں تباہی مچا دی۔ مسلم افواج کے جرنیلوں کے سیکولرازم اور لبرل ازم نے نہ صرف یہ کہ فوج کے ادارے کو سیکولر بنادیا بلکہ سیاست کو بھی سیکولر بنیادوں پر استوار کردیا۔ اس طرح مسلم معاشروں میں فوج اور معاشرے میں ایک کشمکش برپا ہوگئی اور خود مسلم معاشرے بھی مذہب اور سیکولرازم کی بنیادوں پر منقسم ہوگئے اور ان کی توانائی کسی بڑے تخلیقی کام کے بجائے باہمی آویزش پر صرف ہونے لگی۔
مغربی ملکوں نے دنیا پر اپنے غلبے کے بعد جو نیا عالَم پیدا کیا اس میں طاقت اور سازش کے اصول کو مرکزیت حاصل ہوگئی۔ مثلاً مغرب نے بین الاقوامی تنازعات کے حل کے لیے اقوامِ متحدہ کا ادارہ تخلیق کیا۔ اس ادارے کی قوت دلیل یا جمہوریت میں نہیں پانچ بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے، چنانچہ یہ ادارہ نہ مسئلہ فلسطین حل کرسکا اور نہ 66 برس میں مسئلہ کشمیر کے حل کی نوبت آسکی۔ بڑے بین الاقوامی تنازعات کا تعلق چونکہ تیسری دنیا بالخصوص مسلم دنیا سے ہے اس لیے مسلم دنیا کے بڑے حصے نے چالیس پچاس برس میں کئی بڑی بڑی جنگیں دیکھی ہیں اور وہ اپنے دفاع پر اپنے وسائل کا بڑا حصہ صرف کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس صورت حال نے تیسری دنیا کے ملکوں کی سماجیات، اجتماعی نفسیات، معیشت اور مالیات پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ بلاشبہ مقامی یا علاقائی تنازعات کی ذمہ دار مقامی قیادتیں بھی ہوں گی، لیکن مغرب کا تخلیق کردہ عالمی نظام اور مغرب کے مفادات اس صورت حال کے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ مغربی ممالک نے جہاں چاہا ہے امن، انصاف اور آزادی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ مغرب کی قوت نے تین چار سال میں مشرقی تیمور کو الگ ریاست بنا دیا۔ مغرب کے دبائو نے جنوبی افریقہ میں نسل پرست سفید فام حکومت کے خاتمے کی راہ ہموار کی۔ امریکہ کی سفارت کاری نے شمالی آئرلینڈ کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
گزشتہ ایک صدی کی دنیا کا جائزہ لیا جائے تو صورت حال یہ ہے کہ دنیا کے 80 فیصد وسائل دنیا کی 20 فیصد آبادی کے پاس ہیں، اور دنیا کی 80 فیصد آبادی صرف 20 فیصد وسائل پر گزارہ کرنے پر مجبور ہے۔ بلاشبہ مغرب نے گزشتہ دو صدیوں کے دوران سائنس اور ٹیکنالوجی میں غیر معمولی ترقی کی۔ اس سلسلے میں اہلِ مغرب کو جتنی داد دی جائے کم ہے۔
لیکن علم پوری دنیا کی میراث ہے، تاہم مغرب اپنے پیدا کردہ علم اور ٹیکنالوجی پر سانپ بن کر بیٹھ گیا ہے اور اس نے دنیا کی کمزور قوموں کو اپنا علم اور ٹیکنالوجی منتقل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ مغرب ایسا کرتے ہوئے بھول گیا کہ اسے سائنسی علم کی پوری کائنات مسلم دنیا سے فراہم ہوئی، اور اگر مسلم دنیا بھی اپنے علم اور ٹیکنالوجی پر سانپ بن کر بیٹھ گئی ہوتی تو مغرب مادی اعتبار سے بھی پسماندہ ہی رہتا۔
بہرحال مغرب کے اس طرزعمل نے ایک ایسی غیر متوازن دنیا تخلیق کی ہے کہ جس میں کمزور قومیں دنیا کے متعدد میدانوں میں مغرب کے مقابلے کے قابل ہی نہیں رہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مغرب ایک انتہائی غیر منصفانہ اور غیرمتوازن دنیا تخلیق کرکے کمزور ممالک سے کہتا ہے کہ تم مقابلے اور مسابقے کی طرف کیوں نہیں آتے؟ کہنے کو مغربی دنیا نے گزشتہ چالیس پچاس سال میں کمزور اقوام کو بڑے پیمانے پر مالی امداد دی ہے، مگر مغرب کی یہ امداد تیسری دنیا بالخصوص عالم اسلام کے حکمرانوں کو بدعنوان بنانے، ان ملکوں کو خودانحصاری کے جذبے سے محروم کرنے اور کمزور اقوام کو قرضوں کے جال میں جکڑنے کے لیے تھی۔
چنانچہ امداد بھی غریب قوموں کے لیے ’’میٹھا زہر‘‘ بن گئی۔ بلاشبہ 20 ویں صدی کے اختتام تک آتے آتے کئی مادی شعبوں میں مغرب کی بالادستی چیلنج ہوچکی ہے اور مادی طاقت کے مرکز تیزی کے ساتھ مغرب سے مشرق میں منتقل ہورہے ہیں، لیکن اس عمل میں ایک ڈیڑھ صدی کھپ گئی ہے اور بہت سی کمزور قومیں آج بھی اپنے مستقبل کے بارے میں بہت زیادہ پُرامید نہیں ہیں، اور امید کے قحط سے بڑھ کر کوئی کمزوری اور کوئی پسماندگی نہیں ہوسکتی۔