اسلامی معاشرے میں سیاست کی دو ہی بنیادیں ہیں: انفرادی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی زندگی میں دین کے غلبے کو ممکن بنانا، اور خلقِ خدا کی خدمت کرنا۔ جماعت اسلامی مسلم برصغیر کی وہ واحد جماعت ہے جو دین کے غلبے کے مشن کو لے کر اٹھی، اور جس نے خلقِ خدا کی خدمت کی شاندار تاریخ پیدا کی۔ نواز لیگ خود کو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کہتی ہے، مگر اس جماعت کا کوئی شعبۂ خدمتِ خلق ہی نہیں۔ ملک میں زلزلہ آئے یا سیلاب، نواز لیگ کو کبھی عوام میں نکل کر قوم کی خدمت کرتے نہیں دیکھا گیا۔ پیپلزپارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ برپا ہی قوم کی خدمت کے لیے ہوئی ہے، مگر پیپلزپارٹی کا بھی کوئی شعبۂ خدمتِ خلق نہیں ہے۔ ملک میں زلزلہ آئے یا اور کوئی قدرتی آفت، پیپلزپارٹی کبھی قوم کی خدمت کرتی نظر نہیں آئی۔ عمران خان نے شخصی طور پر قوم کی بہت خدمت کی ہے۔ انہوں نے لاہور اور پشاور میں کینسر اسپتال بنایا ہے۔ وہ اب کراچی میں کینسر کا سب سے بڑا اسپتال بنا رہے ہیں۔ عمران خان نے نمل یونیورسٹی قائم کی ہے، مگر عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کا بھی کوئی شعبۂ خدمتِ خلق نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے شعبۂ خدمتِ خلق کا کیا کردار ہے، اس سے کون واقف نہیں؟
نواز لیگ ہو یا پیپلزپارٹی… تحریکِ انصاف ہو یا ایم کیو ایم… یہ تمام جماعتیں اقتدار میں آئے بغیر قوم کی خدمت کا کوئی تصور نہیں رکھتیں۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی کی تاریخ یہ ہے کہ وہ اقتدار میں آئے بغیر قوم کی خدمت کرتی ہے۔ اکتوبر 2005ء میں زلزلہ آیا تو جماعت اسلامی ایک چھوٹی سی ریاست بن کر کھڑی ہوگئی۔ اس چھوٹی سی جماعت نے نقد اور اشیا کی صورت میں زلزلے سے متاثرہ افراد کی امداد پر پانچ ارب روپے خرچ کیے۔ جماعت اسلامی نے زلزلے سے متاثرہ افراد کی جو خدمت کی اُس کی قیمت کو بھی شامل کرلیا جائے تو جماعت اسلامی نے زلزلے سے متاثرہ افراد کی مدد پر پندرہ سے بیس ارب روپے صرف کیے۔ جماعت اسلامی نے زلزلے سے زخمی ہونے والوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کیں، زلزلے سے متاثرہ افراد کو گھر بناکر دیئے۔ ہم زلزلے کے 17 ویں روز مظفر آباد پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ جماعت اسلامی صرف مظفر آباد میں 17 دن کے دوران 20 ہزار سے زیادہ افراد کو علاج کی سہولت فراہم کرچکی ہے۔ جماعت اسلامی اس عرصے میں لاکھوں لوگوں کو کھانا کھلا چکی تھی۔ اہم بات یہ تھی کہ زلزلے سے متاثرہ علاقے جماعت اسلامی کا حلقۂ انتخاب نہیں تھے، لیکن جماعت اسلامی اس کے باوجود خلقِ خدا کی خدمت میں مصروف تھی۔ سندھ میں سیلاب آیا تو جماعت اسلامی ایک بار پھر چھوٹی سی ریاست کی طرح متحرک ہوگئی۔ سندھ چالیس سال سے پیپلزپارٹی کی جاگیر بنا ہوا ہے۔ ہم صحافیوں کی جماعت کے ہمراہ سندھ کے متاثرہ علاقوں کے دورے پر گئے تو ہم نے متاثرہ افراد سے پوچھا کہ سیلاب میں پیپلزپارٹی کے کسی رہنما نے آپ کی مدد کی؟ انہوں نے کہا کہ نہیں سائیں! پیپلزپارٹی کے کسی رہنما نے ہماری مدد نہیں کی، نہ مرکز سے کوئی آیا، نہ صوبے سے کوئی آگے بڑھا، نہ کوئی مقامی رہنما ہی ہماری مدد کو آیا۔ ہم نے پوچھا: پھر آپ کی مدد کس نے کی؟ انہوں نے کہاکہ ہماری مدد کو یا تو فوج آئی یا جماعت اسلامی۔ ہم نے کہا: جماعت اسلامی نے آپ کی کیا مدد کی؟ انہوں نے بتایا: جماعت اسلامی کے کارکنوں نے ہمیں سیلابی علاقوں سے نکالا، ہمیں کھانا دیا، پینے کا پانی دیا، علاج معالجے کی سہولیات فراہم کیں، ہمیں ٹینٹ لگا کر دیئے، اور اب ہمیں ایک ایک کمرے کے پختہ مکانات بناکر دیئے ہیں۔ جماعت اسلامی کی خدمات کا یہ ریکارڈ اتنا شاندار ہے کہ اس کے آگے ریاست کی خدمات کا ریکارڈ بھی معمولی چیز نظر آتا ہے، اس لیے کہ جماعت اسلامی ریاست نہیں ہے، وہ صرف ایک سیاسی جماعت ہے، مگر سیاسی جماعت ہونے کے باوجود وہ ریاست کی طرح قوم کی خدمت کرتی ہے۔ پاکستانی قوم کی اگر کوئی سیاسی ماں ہے تو وہ صرف جماعت اسلامی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو قومی مسائل ہوں یا کراچی کا گمبھیر مسئلہ… ہر مسئلے کا حل جماعت اسلامی ہے۔ لیکن کراچی کا گمبھیر مسئلہ کیا ہے؟
کراچی ملک کا سب سے بڑا، سب سے جدید شہر ہے۔ اس کی آبادی تین کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ کراچی قومی آمدنی کا 70 فیصد اور صوبائی آمدنی کا 85 فیصد مہیا کرتا ہے، مگر وفاق اور صوبہ کراچی سے حاصل ہونے والی آمدنی کا دس فیصد بھی کراچی پر لگانے کے لیے تیار نہیں۔ چنانچہ کراچی مسائل کا جنگل بن گیا ہے۔ دنیا کے تمام بڑے شہروں میں زیرِ زمین ریل کا نظام موجود ہے مگر کراچی اس نظام سے محروم ہے۔ یہاں تک کہ اس کے سرکلر ریل کے نظام کو معطل ہوئے بھی اب دو دہائیاں ہوگئی ہیں۔ دنیا کے تمام بڑے شہروں میں ہزاروں بڑی بسوں کا نظام موجود ہے مگر کراچی میں یہ سہولت بھی دستیاب نہیں۔ دنیا کے کسی بڑے شہر میں پانی کی قلت نہیں، مگر کراچی میں پانی جیسی بنیادی سہولت بھی دستیاب نہیں۔ کراچی کو یومیہ 1200 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے، جبکہ اسے صرف 650 ملین گیلن پانی فراہم کیا جارہا ہے۔ کراچی کے پاس سمندر ہے اور یہاں چالیس سال پہلے بھی ڈی سیلی نیشن پلانٹ نصب ہوسکتا تھا، مگر اب تک کراچی کو یہ سہولت دستیاب نہیں۔ نعمت اللہ خان نے ’کے تھری‘ منصوبہ مکمل کرکے شہر کے لیے ’کے فور‘ منصوبے کا اعلان کیا تھا، مگر یہ منصوبہ اب تک زیرالتوا ہے۔ کراچی کی بیشتر سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، کراچی کی مرکزی شاہراہیں تک ’’موٹرایبل‘‘ نہیں ہیں۔ کراچی میں نکاسیِ آب کا نظام 50 سال پرانا ہے اور کراچی میں جگہ جگہ گٹر ابل رہے ہیں۔ کراچی تین کروڑ سے زیادہ آبادی کا حامل شہر ہے، مگر کراچی کا کچرا تک ٹھکانے لگانے کا بندوبست نہیں ہے، چنانچہ کراچی کی ہر گلی کچرا کنڈی کا منظر پیش کررہی ہے۔ کراچی کی آبادی تین کروڑ سے زیادہ ہے مگر گزشتہ چالیس سال سے کراچی میں کوئی بڑا اسپتال نہیں بنا۔ کراچی کے سرکاری اسکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ کراچی کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کا کوئی وارث نہیں۔ میاں نوازشریف تین بار ملک کے وزیراعظم رہے مگر انہوں نے گرین لائن بس کے منصوبے کے سوا کراچی کو کچھ نہیں دیا۔ پیپلز پارٹی چار بار اقتدار میں آچکی ہے، مگر اس نے کراچی کے مسائل کے حل کے لیے کچھ نہیں کیا۔ کراچی نے تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی 22 نشستوں پر جتایا، مگر عمران خان اور اُن کی جماعت نے پونے چار سال میں کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ عمران خان نے کراچی کے لیے 11 سو ارب روپے کے منصوبے کا اعلان کیا، مگر وہ اس منصوبے سے سو روپے بھی کراچی پر عملاً خرچ نہ کرسکے۔ کراچی میں پندرہ سے بیس لاکھ پنجابی ہیں مگر وہ کراچی کو OWN نہیں کرتے۔ کراچی میں پندرہ سے بیس لاکھ پٹھان ہیں مگر وہ بھی کراچی کو OWN نہیں کرتے۔ ایم کیو ایم نے کراچی پر 30 سال حکومت کی مگر اُس نے دہشت گردی، بھتہ خوری، قتل و غارت گری اور بوری بند لاشوں کے کلچر کے سوا کچھ نہ دیا۔ کراچی دفاعی بجٹ کے لیے بھی 70 فیصد رقم مہیا کرتا ہے، مگر فوج بھی کراچی کو OWN کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کراچی کو گزشتہ 50 سال میں اگر کسی جماعت نے دل و جان سے OWN کیا ہے اور اس کی خدمت کی ہے تو وہ صرف جماعت اسلامی ہے۔
اس سلسلے میں میئر عبدالستار افغانی کا آٹھ سالہ دور خدمت، امانت اور دیانت کے استعارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ افغانی صاحب کا تعلق زیریں متوسط طبقے سے تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ آٹھ سال تک ملک کے سب سے بڑے شہر کے میئر رہے مگر اُن کی طبقاتی حیثیت میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ جس چھوٹے سے فلیٹ میں میئر بننے سے قبل رہتے تھے، آٹھ سال تک میئر رہنے کے بعد بھی وہ اسی گھر میں رہائش پذیر رہے۔ میئر افغانی کے دور میں کراچی ایک بہترین شہر تھا۔ کراچی کے ابھار کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ جدید چین کے بانی ڈینگ ژیائوپنگ نے ایک وفد اس بات کے جائزے کے لیے بھیجا تھا کہ کراچی کی برق رفتار ترقی کا راز کیا ہے۔ نعمت اللہ خان نے شہر کے ناظم کی حیثیت سے خدمت کی ایک نئی مثال قائم کی۔ نعمت صاحب جب کراچی کے ناظم بنے تھے اُس وقت بلدیہ کراچی کا بجٹ صرف 17 ارب روپے تھا۔ نعمت صاحب کوئی ٹیکس لگائے بغیر اس بجٹ کو 42 ارب روپے تک لے گئے۔ نعمت صاحب نے شہر میں درجنوں پارک قائم کیے یا پہلے سے موجود پارکوں کو تعمیرنو کے عمل سے گزارا۔ انہوں نے شہر میں پانی کی قلّت دور کرنے کے لیے ’کے فور‘ کے عنوان سے ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا۔ نعمت صاحب شہر کے ناظم رہتے تو یہ منصوبہ صرف 20 ارب روپے میں کب کا مکمل ہوچکا ہوتا۔ نعمت صاحب نے شہر میں کئی نئے کالجوں کی بنیاد رکھی۔ نعمت صاحب کی دیانت و امانت کا حال یہ تھا کہ خود جنرل پرویز نے اُن سے کہاکہ میری تمام ایجنسیوں نے رپورٹ دی ہے کہ آپ کے دور میں ایک پیسے کی بھی کرپشن نہیں ہوئی ہے۔ نعمت صاحب شہر کے لیے درجنوں ترقیاتی منصوبے بنائے ہوئے تھے، مگر جنرل پرویزمشرف کی سیاسی ترجیحات بدل گئیں اور شہر پر ایک بار پھر ایم کیو ایم مسلط ہوگئی۔ ایک زمانہ تھا کہ ایم کیو ایم مصطفی کمال کو کراچی کی خدمت کے حوالے سے مثال کے طور پر پیش کرتی تھی، مگر مصطفی کمال نے کراچی کی ترقی کے لیے اپنا ایک منصوبہ بھی شروع نہیں کیا۔ انہوں نے صرف نعمت اللہ خان کے بنائے اور چھوڑے ہوئے روڈمیپ پر عمل کیا۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ نعمت اللہ خان کے بعد سے اب تک جماعت اسلامی کو کبھی کراچی میں اقتدار حاصل نہیں ہوا، اس کے باوجود جماعت اسلامی نے حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں کراچی کے تین کروڑ شہریوں کے مسائل کے لیے آواز اٹھانے اور جدوجہد کرنے کا حق ادا کردیا۔ ریاست پاکستان نے کراچی کی آبادی کو تین کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ کردیا۔ جماعت اسلامی نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ کے الیکٹرک شہر میں ایک مافیا بن کر اٹھی، جماعت اسلامی نے اس مافیا کو لگام دینے کے لیے مظاہروں اور دھرنوں کی روایت قائم کی۔ سرکلر ریلوے کا مسئلہ پیدا ہوا تو جماعت اسلامی نے سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے آواز اٹھائی۔ جماعت اسلامی نے کراچی کے مختلف علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے لیے تحریک برپا کی۔ جماعت اسلامی نے کراچی میں پانی کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے احتجاج اور مظاہرے منظم کیے۔ غرض یہ کہ کراچی کا کون سا مسئلہ ہے جس کے سلسلے میں جماعت اسلامی نے عوام کی ترجمانی کا حق ادا نہیں کیا؟ یہ تمام حقائق اس امر کا مظہر ہے کہ کراچی پر حکمرانی کی حق دار نہ ایم کیو ایم ہے نہ پیپلزپارٹی… تحریک انصاف ہے نہ نواز لیگ… کراچی میں حکمرانی کی حق دار اگر کوئی ہے تو صرف جماعت اسلامی۔ جماعت اسلامی نے یہ مقام کسی نعرے کی بنیاد پر حاصل نہیں کیا، جماعت اسلامی نے یہ مقام کراچی کے تین کروڑ شہریوں کی خدمت کرکے حاصل کیا ہے، ان کی ترجمانی کا حق ادا کرکے حاصل کیا ہے، کراچی کا مقدمہ لڑ کر حاصل کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے کالے قانون کے ذریعے کراچی کے حقوق پر ڈاکا ڈالا تو جماعت اسلامی نے سندھ اسمبلی کے سامنے تاریخی دھرنا دیا، اور سندھ حکومت کو معاہدے پر مجبور کیا۔
اس وقت بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ ہمارے سامنے ہے۔ کتنی جماعتیں ہیں جو کراچی کی نمائندگی کی دعویدار بن کر کھڑی ہیں، ان میں سے ایک جماعت ایم کیو ایم ہے، جس نے کراچی کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایم کیو ایم 30 سال تک کراچی پر مسلط نہ ہوتی تو کراچی کا وہ حال نہ ہوتا جو ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے بلدیاتی، صوبائی اور وفاقی سطح پر کراچی کا سو فیصد مینڈیٹ حاصل کیا اور اسے کچھ بھی نہ لوٹایا۔ اس وقت کراچی میں ہمارے سامنے پیپلزپارٹی ہے جو عملاً ایک کراچی دشمن جماعت ہے۔ کراچی سندھ کو اس کی آمدنی کا 85 فیصد دیتا ہے، اور سندھ حکومت کراچی کو صوبے کے وسائل کا دس فیصد بھی نہیں دیتی۔ ہمارے سامنے نواز لیگ ہے جس کا پاکستان پنجاب سے شروع ہوتا ہے، پنجاب میں آگے بڑھتا ہے اور پنجاب میں ختم ہوجاتا ہے۔ ہمارے سامنے تحریک انصاف ہے جس نے کراچی سے صوبائی اور قومی اسمبلی کی سطح پر بھاری مینڈیٹ حاصل کیا مگر اُس نے پونے چار سال میں کراچی پر ایک روپیہ بھی خرچ نہ کیا۔ ان پونے چار برسوں میں عمران خان نے کراچی کے مسائل پر اپنی توجہ کے 24 گھنٹے دینا بھی گوارا نہ کیے۔ وہ جب بھی صبح کو کراچی آئے شام تک کراچی سے روانہ ہوگئے۔ تحریک انصاف نے کراچی کے لیے 11 سو ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا مگر اس کا ایک فیصد بھی کراچی پر صرف نہ ہوسکا۔ چنانچہ کراچی کی نمائندگی کے سلسلے میں ان تمام جماعتوں کے دعوے جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ کراچی کے شہریوں کے ووٹ کی حق دار اگر کوئی جماعت ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے۔ کراچی کا جو شہری جماعت کو ووٹ نہیں دے گا وہ جماعت کے ساتھ نہیں کراچی کے ساتھ دشمنی کرے گا۔