سب سے ہولناک پہلو یہ ہے کہ مغرب کی فتح ابتدا میں صرف عسکری تھی، مگر مغرب نے پورے عالمِ اسلام میں جلد ہی ایسا طبقہ پیدا کرلیا جس نے مغرب کی عسکری فتح کو تہذیبی فتح میں تبدیل کردیا۔
مغرب اپنی تہذیب کو جوڈو کرسچن یا یہودی و عیسائی تہذیب کہتا ہے، اور اس تہذیب کا قصہ یہ ہے کہ یہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے لے کر اب تک اسلام اور عالمِ اسلام پر یلغار کیے ہوئے ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کی مذہبی کتب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی پیشگوئیاں موجود تھیں اور یہودی اور عیسائی کہا کرتے تھے کہ اگر انہوں نے رسول اکرمؐ کا زمانہ پایا تو وہ نہ صرف یہ کہ انؐ پر ایمان لائیں گے بلکہ انؐ کے ساتھ مل کر انؐ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کریں گے۔ مگر جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو یہودیوں اور عیسائیوں کی اکثریت نے آپؐ کی نبوت کا انکار کردیا۔ حضرت صفیہؓ کا بیان ہے کہ انہوں نے اسلام لانے سے قبل اپنے والد اور خاندان کے ایک بزرگ کو آپس میں گفتگو کرتے ہوئے دیکھا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ ہاں تو محمدؐ وہی ہیں نا، جن کی پیش گوئی ہماری کتاب میں موجود ہے؟ دوسرے نے کہا: ہاں وہ وہی ہیں۔ پہلے نے کہا: تو پھر کیا خیال ہے؟ دوسرے نے کہا: ہم ان پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے اور ان کی مخالفت جاری رکھیں گے۔ یہ مخالفت اس وجہ سے تھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ یہودیوں میں مبعوث ہوئے تھے، نہ عیسائیوں میں مبعوث ہوئے تھے۔ یہ رویہ اس جہالت کا غماز تھا کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ یہودیوں اور عیسائیوں کے پابند تھے کہ وہ اپنے آخری نبیؐ کو یہودیوں یا عیسائیوں ہی میں مبعوث کرتے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی دشمنی یہودیوں اور عیسائیوں کے خمیر میں ہے۔
یہودیوں اور بالخصوص عیسائیوں کا کہنا ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو تشدد پر اکساتا ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ مگر یہ اعتراض کرنے والے اتنی سی بات نہیں جانتے کہ تلوار سے صرف جغرافیہ فتح کیا جاسکتا ہے، تلوار دلوں کو فتح نہیں کرسکتی، اور اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ انہوں نے تلوار سے جغرافیہ اور اپنے کردار سے دلوں کو فتح کیا۔ ایسا نہ ہوتا تو اسلام ہرگز ایک عالمگیر مذہب نہ ہوتا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مغرب مسلمانوں پر تشدد اور طاقت کے استعمال کا الزام لگاتا ہے مگر تاریخ بتاتی ہے کہ یہ مغرب تھا جس نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سب سے پہلے تلوار اٹھائی اور اسلام پر رکیک حملوں کا آغاز کیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ عیسائیوں کی سب سے بڑی شخصیت پوپ اربن دوم تھی جس نے 1095ء میں چرچ میں کھڑے ہوکر تقریر فرمائی۔ پوپ اربن دوم نے کہا: ’’میرے قلب میں یہ بات القا کی گئی ہے کہ اسلام ایک شیطانی مذہب ہے اور اس کے ماننے والے ایک شیطانی مذہب کے ماننے والے ہیں، چنانچہ عیسائیوں کا فرض ہے کہ وہ اس شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں۔’’ پوپ اربن کی یہ تقریر صدا بہ صحرا ثابت نہ ہوئی بلکہ 1099ء میں پورا یورپ ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوا اور اُن صلیبی جنگوں کی ابتدا ہوئی جو کم و بیش دو سو سال جاری رہیں۔
مغربی مورخین کا بیان ہے کہ صلیبی جنگوں کے پہلے مرحلے میں صلیبی لشکر نے بیت المقدس میں مسلمانوں کا اتنا خون بہایا کہ گلیوں میں گھوڑے چلانے میں دشواری ہورہی تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ پوپ اربن نے اسلام کو ایک شیطانی مذہب کسی مطالعے یا تحقیق کی روشنی میں نہیں کہا، انہوں نے اس سلسلے میں کوئی علمی، تاریخی یا تہذیبی دلیل نہیں دی بلکہ اپنی نفرت اور دشمنی کی بنیاد ایک قیاس یا الہام پر رکھی۔ الہام کا معاملہ یہ ہے کہ وہ خدا کی طرف سے بھی ہوتا ہے اور شیطان کی طرف سے بھی۔ یقیناً پوپ اربن دوم کا الہام شیطان کی طرف سے تھا، لیکن جو شخص خود شیطانی الہام کے زیراثر تھا وہ اسلام پر الزام لگا رہا تھا کہ اسلام ایک شیطانی مذہب ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مغرب نے صرف اسلام ہی کو جھوٹا مذہب قرار نہیں دیا، اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا بھی انکار کیا۔ مسلمانوں میں بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیںکہ مغرب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی تاریخی شخصیت مانتا ہے مگر وہ آپؐ کو پیغمبر نہیں مانتا۔ ایک ہزار سال پہلے بھی چرچ کی سرکاری پوزیشن یہی تھی اور آج بھی چرچ کی سرکاری پوزیشن یہی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب کچھ ہوسکتے ہیں مگر پیغمبر نہیں ہوسکتے۔ مغرب الزام لگاتا ہے کہ رسول اکرمؐ نے کچھ یہودیوں کی کتاب سے لیا اور کچھ عیسائیوں کی کتاب سے لیا، اور اس کو جوڑ کر معاذ اللہ قرآن گھڑ لیا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے میں مغرب اسلام کو اسلام نہیں ’’محمڈن ازم‘‘ کہا کرتا تھا، حالانکہ مسلمانوں کی تاریخ میں یہ اصطلاح کبھی استعمال نہیں ہوئی۔ اسلام پہلے دن سے اسلام ہے اور اللہ کا وہ دین ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا گیا۔
بدقسمتی سے عیسائی دنیا کا تصورِ پیغمبر بھی ناقص ہے۔ مغرب کے مستشرقین نے آپؐ کی ازواجِ مطہرات کی تعداد پر اعتراض کیا ہے۔ آپؐ کی ریاست و سیاست انہیں پیغمبر کے مرتبے سے کم تر چیز نظر آتی ہے، اُنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد میں خوں آشامی نظر آتی ہے۔ مغرب کے شاعر دانتے کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی نفرت تھی کہ اُس نے اپنی ایک نظم میں معاذ اللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جہنم میں دکھایا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمان مغرب کی ان تمام باتوں سے صرفِ نظر کیے ہوئے ہیں۔
صلیبی جنگیں اسلام اور عالمِ اسلام پر مغرب کی پہلی یلغار تھیں۔ مغرب کی بدقسمتی سے صلیبی جنگوں کا آخری مرحلہ مسلمانوں کی فتوحات پر ختم ہوا۔ اس مرحلے میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے صلیبیوں کو بدترین شکست سے دوچار کرکے بیت المقدس کو دوبارہ فتح کرلیا۔ مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو وہ اس پوزیشن میں تھے کہ بیت المقدس میں مسلمانوں کے قتلِ عام کا حساب چکا دیتے۔ جب صلاح الدین ایوبیؒ نے بیت المقدس فتح کیا تو بیت المقدس میں ایک لاکھ عیسائی تھے۔ صلاح الدین ایوبیؒ چاہتے تو ان سب کو تہہ تیغ کردیتے، مگر انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی مشہورِ زمانہ وسیع القلبی سے کام لیا۔ انہوں نے عیسائیوں سے کہا کہ وہ ہرجانہ ادا کریں اور بیت المقدس سے نکل جائیں۔ امیر عیسائی تو معمولی ہرجانہ ادا کرکے بیت المقدس سے نکل گئے مگر غریب عیسائی بیت المقدس میں رہ گئے۔ اس موقع پر ایک بار پھر مسلمانوں کی روایتی وسیع القلبی بروئے کار آئی۔ سلطان صلاح الدین اور ان کے عزیزوں نے اپنی جیب سے غریب عیسائیوں کا ہرجانہ ادا کرکے انہیں بیت المقدس سے جانے دیا۔ لیکن مغرب نے بہت جلد مسلمانوں کے احسانات اور وسیع القلبی کو بھلا دیا۔ 19 ویں صدی میں مغرب نے ایک بار پھر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یلغار کا آغاز کیا۔ اس یلغار میں کہیں عالم اسلام پر انگریز قابض ہوئے، کہیں فرانسیسیوں نے اپنا تسلط قائم کیا، کہیں مسلمان جرمنوں کے غلام بن گئے، کہیں اٹلی، پرتگال اور ولندیزیوں نے مسلمانوں کی مملکتوں پر قبضہ جما لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 19 ویں اور 20 ویں صدی مسلمانوں کے لیے غلامی کی صدیاں بن گئیں۔ مغرب کی اس دوسری یلغار کا سبب بھی نہ اسلام تھا، نہ مسلمان تھے۔ مسلمانوں نے لندن یا پیرس پر حملہ نہیں کردیا تھا۔ مغرب میں صنعتی انقلاب برپا ہوئے مدتیں ہوچکی تھیں اور مغرب کو اپنی مصنوعات کے لیے نئی منڈیاں بھی درکار تھیں اور مفت خام مال بھی درکار تھا۔ چنانچہ تمام مغربی اقوام اپنے اپنے جغرافیے سے نکلیں اور پورے عالمِ اسلام پر قابض ہوگئیں۔ مغربی اقوام نے اس دوسری یلغار میں مسلمانوں کے وسائل کی ایسی لوٹ مار کی کہ پوری انسانی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ بھارت کی ممتاز اسکالر اُتسا پٹنائک کی تحقیق کے مطابق انگریزوں نے صرف برصغیر سے 45 ہزار ارب ڈالر کی لوٹ مار کی۔ مغرب کے ممتاز مؤرخ ولیم ڈیل ریمپل نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’دی انارکی‘‘ میں لکھا ہے کہ جب انگریز برصغیر پر قابض ہوئے تو برصغیر ترقی یافتہ اور امیر تھا کہ وہ عالمی پیداوار کا 25 فیصد پیدا کررہا تھا۔ ولیم ڈیل ریمپل کے بقول انگریزوں نے برصغیر کو تباہ کردیا، اور جب انگریز برصغیر سے جارہے تھے تو برصغیر عالمی پیداوار کا صرف 4 فیصد پیدا کررہا تھا۔ اس ایک مثال سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یورپی اقوام نے عالمِ اسلام کو کس وسیع پیمانے پر لوٹا اور برباد کیا ہوگا۔ مغرب کی اس یلغار کا سب سے ہولناک پہلو یہ ہے کہ مغرب کی فتح ابتدا میں صرف عسکری تھی، مگر مغرب نے پورے عالمِ اسلام میں جلد ہی ایسا طبقہ پیدا کرلیا جس نے مغرب کی عسکری فتح کو تہذیبی فتح میں تبدیل کردیا۔
اسلام اور عالمِ اسلام کے خلاف مغرب کی تیسری یلغار نائن الیون کے بعد سامنے آئی۔ مغرب نے نائن الیون کا الزام اسامہ بن لادن اور القاعدہ پر عائد کیا، لیکن خود مغربی دنیا میں ایسے کروڑوں لوگ موجود ہیں جو نائن الیون کو امریکہ کے داخلی عناصر کی کارروائی سمجھتے ہیں۔ اپنی اس تیسری یلغار میں مغرب نے ایک بار پھر اسلام اور مسلمان دونوں کو نشانہ بنایا۔ اٹلی کے وزیراعظم سلویو برلسکونی نے نائن الیون کے بعد ایک بیان میں فرمایا کہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب سے برتر ہے اور اس نے جس طرح کمیونزم کو شکست دی ہے اسی طرح اسلامی تہذیب کو بھی شکست سے دوچار کرے گی۔ اٹلی کے وزیراعظم نے جب یہ بیان دیا تو مغرب کہہ رہا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے نکلا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کا اگر کوئی ترجمان ہوتا تو اٹلی کے وزیر اعظم سے یہ ضرور پوچھتا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تہذیبوں کے موازنے اور ایک تہذیب پر دوسری تہذیب کی برتری کا سوال کہاں سے پید اہو گیا؟ مگر بدقسمتی سے مسلمانوں کا کوئی ترجمان ہی نہیں ہے، چنانچہ اٹلی کے وزیراعظم کو جو کہنا تھا انہوں نے کہا۔ اس سے پہلے امریکہ کے صدر جارج بش قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی تقریر میں ’’کروسیڈ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرچکے تھے، اور کروسیڈ کا اردو ترجمہ ’’صلیبی جنگ‘‘ ہے۔ جارج بش کی کروسیڈ پر جب اعتراض ہوا تو وہائٹ ہائوس نے اعلان کیا کہ تقریر کرتے ہوئے جارج بش کی زبان ’’پھسل‘‘ گئی۔ اس سلسلے میں مغرب کے ممتاز ماہر نفسیات فرائیڈ نے کہا ہے کہ زبان کے پھسلنے کا بھی ایک نفسیاتی اور جذباتی پس منظر ہوتا ہے، زبان کا پھسلنا کوئی اتفاقی بات نہیں ہوتی۔ ان دو بیانات کے بعد مغرب سے اسلام کے خلاف تیسری بڑی آواز بلند ہوئی۔ یہ آواز امریکہ کے صدر جارج بش کے اٹارنی جنرل ایش کرافٹ کی تھی۔ انہوں نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ عیسائیت کا خدا اسلام کے خدا سے برتر ہے کیونکہ عیسائیت کے خدا نے انسانوں کی نجات کے لیے اپنے بیٹے حضرت عیسیٰؑ کی قربانی دے دی، اس کے برعکس اسلام کا خدا اپنی عظمت کے اظہار کے لیے مسلمانوں سے جہاد اور شہادت کی صورت میں قربانی طلب کرتا ہے۔
اس بیان پر بھی امریکی صدر کے اٹارنی جنرل سے پوچھا جاسکتا تھا کہ آپ دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے نکلے ہیں یا مسلمانوں کے تصورِ خدا کے خلاف معرکہ آرا ہونے کے لیے گھروں سے باہر آئے ہیں؟ مگر مسلمانوں کا کوئی والی وارث نہیں، چنانچہ ایش کرافٹ کی بات پر بھی مسلمانوں نے توجہ مرکوز نہ کی۔ اس کے بعد مغرب سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف چوتھی آواز بلند ہوئی۔ یورپ میں ناٹو کی فورسز کے سابق کمانڈر جنرل کلارک نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف کہا کہ نائن الیون کے بعد مغرب اسلام کو Define کرنے نکلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں طے یہ کرنا ہے کہ آیا اسلام پُرامن مذہب ہے جیسا کہ مسلمان کہتے ہیں یا اسلام ایسا مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو تشدد پر اکساتا ہے جیسا کہ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کے طرزعمل سے ظاہر ہے۔ بدقسمتی سے عالم اسلام نے جنرل کلارک کے اس انٹرویو کا بھی نوٹس نہ لیا۔ چنانچہ 2009ء میں ایک بار پھر عیسائیت کے رہنما پوپ بینی ڈکٹ شش دہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر یہ کہہ کر حملہ کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا نیا لائے ہیں! اور یہ کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ مغرب ہی ہے جس نے سلمان رشدی سے ’’شیطانی آیات‘‘ لکھوائی، یہ مغرب ہی ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون بنواتا ہے، یہ مغرب ہی ہے جو سویڈن اور نیدرلینڈ میں قرآن کو نذرِآتش کروا رہا ہے۔
بدقسمتی سے مسلمانوں کے ساتھ مغرب کا مکالمہ بھی فریب ہے۔ یہ آج سے پچیس سال پرانی بات ہے، محترم قاضی حسین احمد سے ہماری ملاقات ہوئی تو ہم نے اُن سے عرض کیا کہ آپ مغرب کے ممتاز لوگوں سے مکالمے کے لیے اکثر مغربی ممالک جاتے ہیں حالانکہ اس کی ضرورت ہی نہیں، اس لیے کہ مغرب مکالمہ نہیں کرتا، خودکلامی کرتا ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ مکالمہ ہمیشہ مساوی طاقتوں کے درمیان ہوتا ہے، اور مغرب ہمیں مساوی طاقت نہیں اپنا غلام سمجھتا ہے۔ قاضی صاحب نے اُس وقت ہماری رائے سے اتفاق نہ کیا، مگر دو، تین سال کے تجربے کے بعد انہوں نے ایک ملاقات میں فرمایا کہ آپ کا خیال درست ہے، مغرب کے لوگ ہمیں مکالمے کی آڑ میں بلاتے ہیں اور پھر خودکلامی کے مرتکب ہوتے ہیں، وہ نہ ہماری بات سنتے ہیں نہ اسے تسلیم کرتے ہیں۔
مغرب مسلمانوں پر طاقت اور تشدد کے مظاہر پیدا کرنے کا الزام لگاتا ہے، مگر مغرب کی پوری تاریخ جنگوں اور قتل و غارت گری کی تاریخ ہے۔ مغرب کے ممتاز ماہرِ نفسیات ایرک فرام نے اپنی کتاب The Anatomy of Human Destructiveness میں لکھا ہے کہ مغربی اقوام نے گزشتہ پانچ سو سال میں 2600 سے زیادہ جنگیں لڑی ہیں۔ ایرک فرام کے بقول قدیم انسان اپنے دفاع میں کسی کو قتل کرتا تھا، مگر مغرب کا پیدا کیا ہوا جدید انسان کھیل کے طور پر انسانوںکو ہلاک کرتا ہے۔ یہ مغرب ہے جس نے دو عالمی جنگیں ایجاد کیں اور ان عالمی جنگوں میں دس کروڑ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے۔ یہ مغربی انسان تھا جس نے امریکہ پر قبضے کے لیے 8 سے 10 کروڑ ریڈ انڈینز کو مار ڈالا۔ یہ مغرب کا انسان تھا جس نے جاپان کے خلاف ایک بار نہیں، دو بار ایٹم بم استعمال کیا۔