پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے لاہور گیریژن کے دورے کے موقع پر افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج کی طاقت عوام ہیں چناں چہ فوج اور عوام میں غلط فہمیاں، خلیج اور پھوٹ ڈالنے کی کسی کوشش کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ جنرل باجوہ نے کہا کہ دشمن طاقتیں عرصہ دراز سے یہ کوشش کررہی ہیں مگر وہ کامیاب نہیں ہوں گی۔ جنرل باجوہ نے کہا کہ فوج اپنی طاقت عوام سے لیتی ہے (روزنامہ جنگ اور روزنامہ جسارت کراچی)
پاکستان 20 ویں صدی کا معجزہ تھا۔ وہ عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہے۔ چناں چہ بھارت، امریکا اور یورپ پاکستان میں اتحاد و اتفاق نہیں دیکھنا چاہتے۔ لیکن بدقسمتی سے جنرل باجوہ نے فوج اور عوام میں پھوٹ ڈالنے والی کسی قوت کی نشاندہی نہیں کی۔ انہوں نے نہ بھارت کا نام لیا نہ امریکا کی طرف انگلی اٹھائی اور نہ یورپ کی طرف اشارہ کیا۔ چناں چہ ان کی اچھی خاصی بات میں ابہام پیدا ہوگیا ہے۔ ’’دشمن طاقتیں‘‘ خود ایک مبہم اصطلاح ہے۔ البتہ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو خود ہمارے جرنیلوں نے فوج اور قوم کے درمیان پھوٹ ڈالی ہے۔ پاکستان کسی جنرل کی تخلیق نہیں ہے۔ نہ ہی تحریک پاکستان میں جرنیلوں کی برادری یا فوج کا کوئی کردار تھا۔ پاکستان دو قومی نظریے کا حاصل ہے اور دو قومی نظریہ اسلام کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان کی تخلیق کا دوسرا بڑا محرک قائداعظم کی قیادت تھی۔ یہ قیادت اتنی اہم ہے کہ یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اگر قائداعظم نہ ہوتے تو پاکستان بھی نہ ہوتا۔ پاکستان کی تخلیق کا تیسرا بڑا سبب ’’پاکستانی قوم‘‘ نہیں برصغیر کی ’’ملت اسلامیہ‘‘ ہے۔ اس ملت اسلامیہ کا کمال یہ تھا کہ پاکستان پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان میں بن رہا تھا اور تحریک پاکستان دلی اور یوپی میں چل رہی تھی۔ لیکن ان تمام حقائق کے باوجود جرنیل پاکستان کے مالک بن کر بیٹھ گئے۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں پاکستان کے سیاسی عدم استحکام کو بنیاد بنا کر پہلا مارشل لا لگا دیا۔ فوج، فوج تھی مگر جنرل ایوب نے مارشل لا لگا کر فوج کو سیاسی جماعت بنادیا۔ اسی طرح جنرل ایوب نے پہلی بار قوم اور فوج کے درمیان پھوٹ ڈالی۔ جنرل ایوب کے مارشل لا سے قوم اور فوج کے درمیان ایک کشمکش برپا ہوگئی۔ قوم کی عظیم اکثریت نے جنرل ایوب کے مارشل لا کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور آج بھی جنرل ایوب کے دور کو ’’تاریک دور‘‘ کہا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے جنرل ایوب نے مارشل لا لگاتے ہوئے اپنی قوت عوام سے نہیں امریکا سے کشید کی۔ انہوں نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر امریکا کی خفیہ دستاویزات کے مطابق وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ پاکستانی سیاست دانوں کے خلاف امریکیوں کے کان بھر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ پاکستانی سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک کو تباہ کردیں گے۔ جنرل ایوب امریکیوں کو یقین دلارہے تھے کہ فوج سیاست دانوں کو ملک تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ ساری گفتگو جنرل ایوب کی خیالی پلائو کے سوا کچھ نہ تھی۔ جمہوریت کے بارے میں مشہور بات یہ ہے کہ جمہوریت کا علاج مزید جمہوریت ہے مارشل لا نہیں۔ لیکن جنرل ایوب نے بری جمہوریت کو اچھی جمہوریت سے بدلنے کے بجائے اس پر مارشل لا مسلط کردیا۔ جنرل ایوب جب تک اقتدار میں رہے عوام کی عظیم اکثریت انہیں غاصب ہی سمجھتی رہی۔ جنرل ایوب کا ’’تصورِ قوم‘‘ یہ تھا کہ قوم فوجی آمر کے بوٹ چاٹنے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ جنرل ایوب نے پریس پر ہولناک پابندیاں لگا کر قوم کو بے زبان کردیا۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا مگر جنرل ایوب سیکولرازم کے علمبردار بن کر کھڑے ہوگئے۔ پوری قوم سود کو حرام سمجھتی تھی۔ جنرل ایوب نے ڈاکٹر فضل الرحمن جیسے دانش وروں
کے ذریعے سود کو عین اسلامی قرار دلادیا۔ انہوں نے قرآن و سنت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قوم پر عائلی قوانین مسلط کردیے۔ اس صورت حال نے صرف جنرل ایوب کے نہیں پوری فوج کے خلاف قوم میں ردعمل پیدا کیا۔ بدقسمتی سے کسی جرنیل نے آج تک یہ نہیں کہا کہ جنرل ایوب نے مارشل لا لگا کر قوم اور فوج میں پھوٹ ڈال دی۔ مارشل لا سے پہلے قوم اور فوج ایک وحدت تھیں مگر جنرل ایوب کے مارشل لا نے اس وحدت کو پارہ پارہ کردیا۔ وہ تو 1965ء میں پاک بھارت جنگ ہوگئی اور قوم کی بقا و سلامتی کے خیال نے قوم اور فوج کو ایک اکائی بنا کر کھڑا کردیا۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ جنرل ایوب کے دور میں محترمہ فاطمہ جناح قوم کی امیدوں اور امنگوں کی ترجمان بن کر ابھری تھیں۔ وہ قائداعظم کی بہن تھیں۔ مگر اس کے باوجود ان کے خلاف اخبارات میں نصف صفحے کے اشتہار شائع کرائے گئے جن میں انہیں بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا۔ فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قرار دینے کی جرأت کی پشت پر یقینا جنرل ایوب موجود تھے ورنہ کس کی مجال تھی کہ فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قرار دیتا۔ اس طرح جنرل ایوب نے ایک بار پھر قوم اور فوج کے درمیان فاصلہ اور خلیج پیدا کی۔ اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو جنرل ایوب کو مادر ملت کے خلاف صدارتی انتخابات نہیں لڑنا چاہیے تھا۔ جنرل ایوب اور مادر ملت کے قد کاٹھ میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ جنرل ایوب صرف ایک تنخواہ دار ملازم تھے اور مادر ملت پاکستان تخلیق کرنے والے قائداعظم کی بہن تھیں مگر جنرل ایوب نے پوری ڈھٹائی سے نہ صرف یہ کہ فاطمہ جناح کے خلاف انتخاب لڑا بلکہ انتخاب میں دھاندلی بھی کرائی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک جنرل جیت گیا اور بانی پاکستان کی بہن ہار گئیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ فاطمہ جناح کیا جنرل ایوب خود قائداعظم کے خلاف بھی انتخاب لڑتا اور دھاندلی کراتا۔ بہرحال اس صورت حال نے بھی قوم اور فوج کے درمیان فاصلہ پیدا کیا اور خلیج حائل کی۔
جنرل ایوب نے اقتدار سول افراد سے چھینا تھا۔ ان کا فرض تھا کہ وہ اقتدار بالآخر سیاست دانوں کے حوالے کرتے۔ مگر جنرل ایوب کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو انہوں نے اقتدار ایک اور جنرل، جنرل یحییٰ کے حوالے کردیا۔ جنرل یحییٰ نے 1970ء میں انتخابات کرائے تو شیخ مجیب الرحمن کی جماعت عوامی لیگ اکثریتی جماعت بن کر ابھری۔ جمہوریت کا اصول ’’اکثریت‘‘ ہے۔ جس کے پاس اکثریت ہوتی ہے وہی حکومت کا حقدار ہوتا ہے۔ مگر جنرل یحییٰ نے اقتدار شیخ مجیب الرحمن کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے برعکس جنرل یحییٰ نے بنگالیوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کردیا۔ فوجی آپریشن نے صرف یہ کہ قومی وحدت و یکجہتی کے پرخچے اڑا دیے بلکہ فوج اور بنگالیوں کے درمیان کبھی عبور نہ ہوسکنے والی خلیج بھی حائل کردی۔ تاریخ کے اس نازک مرحلے پر قوم اور فوج میں پھوٹ ڈالنے کا عمل امریکا یا بھارت نے نہیں خود پاک فوج کے سربراہ نے شروع کیا۔ سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ ہمارے 90 ہزار فوجیوںنے تقریباً لڑے بغیر بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ فوج ایک ’’قومی ادارہ‘‘ تھی مگر قوم کی اکثریت یعنی بنگالیوں کی نمائندگی فوج میں نہ ہونے کے برابر تھی۔ 1960ء تک فوج میں کوئی بنگالی نہیں تھا۔ 1970ء میں جب سقوط ڈھاکا ہوا تو فوج میں بنگالیوں کی نمائندگی صرف دس بارہ فی صد تھی حالاں کہ بنگالی آبادی کا 56 فی صد تھے۔ اس صورت حال نے بھی قوم اور فوج کے درمیان پھوٹ ڈالی۔ بدقسمتی سے یہ پھوٹ امریکا یا بھارت نے ایجاد نہیں کی تھی۔ اس پھوٹ کو ایجاد کرنے والے خود پاکستانی جرنیل تھے۔ بنگالیوں کو فوج میں شمولیت سے بھارت یا امریکا نے نہیں خود فوج چلانے والے جرنیلوں نے روکا ہوا تھا۔ فوج کی قیادت کرنے والوں کی قومتیں کیا تھیں؟ یہ پنجابی تھے یہ پٹھان تھے۔ یہ مہاجر تھے، چناں چہ انہی قومیتوں کے لوگ فوج اور قوم کے درمیان پھوٹ ڈالنے والے تھے۔
جنرل ضیا الحق نے 1977ء میں مارشل لا نافذ کرکے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ ملک کی سب سے منظم اور موثر سیاسی جماعت فوج ہے۔ جنرل ضیا الحق ایوب کی طرح 10 سال سے زیادہ عرصے تک قوم کو عضو معطل بنائے رہے۔ لیکن جنرل ضیا الحق کا اس سے بھی بڑا غضب یہ تھا کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی۔ اس وقت بھی اس پھانسی کو قبول نہیں کیا گیا تھا اور اب تو یہ پھانسی ’’عدالتی قتل‘‘ کہلاتی ہے۔ 1980ء کی دہائی میں جنرل ضیا الحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک برپا ہوئی۔ جنرل ضیا کسی نہ کسی طریقے سے اس تحریک کو سندھ تک محدود کرنے میں کامیاب رہے اور انہوں نے سندھ میں ایم آر ڈی کی سیاسی تحریک کے خلاف بڑے پیمانے پر طاقت استعمال کی۔ اس صورت حال نے بھی قوم اور فوج کے درمیان فاصلے پیدا کیے۔
جنرل پرویز مشرف کا مارشل لا بھی قوم اور فوج کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کا سبب بنا۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ جرنیلوں نے بنگالیوں کے خلاف آپریشن کیا، پنجاب نے اسے قبول کیا، جرنیلوں نے بلوچوں کے خلاف آپریشن کیے۔ پنجاب نے کبھی اعتراض نہ کیا۔ جرنیلوں نے سندھیوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا پنجاب میں اس پر کوئی ردعمل نہ ہوا۔ لیکن جب جنرل پرویز نے میاں نواز شریف کو برطرف کیا تو پنجاب میں فوج کے خلاف ردعمل کا آغاز ہوا۔ اس لیے کے میاں صاحب پنجاب کے مقبول رہنما تھے۔ اتفاق سے میاں نواز شریف میں ایک ’’بھگوڑاپن‘‘ موجود ہے اس لیے وہ جنرل پرویز سے خفیہ معاہدہ کرکے ملک سے سعودی عرب بھاگ گئے۔ وہ ملک میں رہ کر جنرل پرویز کی مزاحمت کرتے تو جنرل پرویز دس سال تک ملک پر مسلط نہیں رہ سکتے تھے۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جنرل پرویز نے نائن الیون کے فوراً بعد ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکا کے حوالے کردیا۔ اس وقت افغانستان کی صورت حال کی وجہ سے امریکا پاکستان میں ناپسندیدہ ترین ملک تھا۔ چناں چہ جنرل پرویز کی امریکا پرستی نے قوم اور فوج کے درمیان فاصلہ پیدا کردیا اور ملک میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوگئی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایک بار پھر ایک جرنیل ہی نے قوم اور فوج کے درمیان فاصلہ پیدا کیا۔
یہ چند روز پہلے کی بات ہے۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے فخر سے کہا تھا کہ اب ملک میں کبھی مارشل لا نہیں آئے گا۔ یہ ایک بہت اچھی خبر ہے مگر اس اعلان کا یہ پہلو بھی کم اہم نہیں کہ اب ہماری اسٹیبلشمنٹ نے اتنی طاقت پیدا کرلی ہے کہ وہ مارشل لا لگائے بغیر بھی ملک و قوم کو کنٹرول کرسکتی ہے۔ یہ کل ہی کی بات ہے کہ عمران خان اقتدار میں آئے تھے اور انہیں اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں لائی تھی اب ملک پر میاں شہباز شریف کی حکومت ہے اور خیر سے وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کی چھتری کے سائے میں کھڑے ہیں۔