پاکستان میں حکمرانوں کی برطرفی کی تاریخ کئی اعتبار سے شرمناک ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو قائد عوام تھے، قائد ایشیا تھے، ان کا خیال تھا کہ ان کو کچھ ہوا تو ہمالہ روئے گا اور سندھ میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی مگر بھٹو کو پھانسی ہوئی تو کچھ بھی نہ ہوا۔ نہ ہمالے رویا نہ سندھ میں خون کی ندیاں بہیں۔ البتہ سندھ میں دوچار لوگوں نے خودسوزیاں ضرور کیں۔ بھٹو گرفتار ہوئے تھے تو وہ واقعتاً عوام میں مقبول تھے مگر عوام ان کے لیے سڑکوں پر نہ نکل سکے۔ وہ مارشل لا کی طاقت سے ڈر گئے۔ لیکن اصل بات یہ تھی کہ بھٹو کی اخلاقی ساکھ ایسی نہیں تھی کہ کوئی ان کے لیے سڑکوں پر نکل کر لاٹھیاں اور گولیاں کھاتا۔ لوگ بھٹو کو نوٹ دے سکتے تھے، ووٹ دے سکتے تھے، مگر ان کے لیے جان نہیں دے سکتے تھے۔ ان کے لیے صعوبتیں نہیں جھیل سکتے تھے۔ محمد خان جونیجو جنرل ضیا الحق کی ایجاد تھے۔ مگر انہوں نے اقتدار میں آکر امریکا کے زیر اثر جنرل ضیا الحق کو آنکھیں دکھانی شروع کردیں۔ انہوں نے افغانستان کے سلسلے میں جنرل ضیا الحق کی پالیسی کو ترک کردیا اور جنیوا معاہدے پر دستخط کردیے۔ چناں چہ جنرل ضیا الحق نے ایک دن انہیں اچانک برطرف کردیا۔ جونیجو نے اعلان کیا کہ وہ اپنی برطرفی کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کریں گے مگر انہیں اس کی بھی جرأت نہ ہوئی۔ عوام تو خیر جونیجو کے ساتھ تھے ہی نہیں۔
البتہ جب میاں نواز شریف کو جنرل پرویز نے برطرف کیا تو میاں صاحب کو قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت حاصل تھی۔ میاں صاحب پنجاب میں بہت مقبول تھے۔ لاہور میں صاحب کی سیاسی طاقت کا گڑھ تھا اور اہل لاہور کو زندہ دلانِ لاہور کہا جاتا ہے مگر میاں صاحب کی برطرفی پر کہیں بھی کوئی ردعمل نہ ہوا۔ میاں صاحب کے سلسلے میں زندہ دلانِ لاہور بھی مردہ دلانِ لاہور ثابت ہوئے۔ البتہ میاں صاحب کی برطرفی کے دس پندرہ دن بعد کراچی میں ڈیڑھ درجن افراد نے مشاہد اللہ کی قیادت میں ریگل چوک پر ڈیڑھ دو منٹ کا احتجاج کیا۔ اس احتجاج کا عرصہ اتنا مختصر اس لیے تھا کہ پولیس موقعے پر موجود تھی۔ چناں چہ پولیس نے نواز لیگ کے کارکنوں کو ڈیڑھ دو منٹ سے زیادہ احتجاج کی اجازت نہیں دی۔ میاں صاحب کا معاملہ بھی بھٹو کی طرح یہ تھا کہ ان کی بھی کوئی اخلاقی ساکھ نہیں تھی۔ لوگ میاں صاحب کو نوٹ دے سکتے تھے، ووٹ دے سکتے تھے ان کے لیے لاٹھیاں نہیں کھاسکتے تھے۔ گولیوں کا سامنا نہیں کرسکتے تھے۔
الطاف حسین کی مقبولیت بے پناہ تھی۔ وہ لاکھوں لوگوں کے لیے الطاف حسین نہیں ’’قائد تحریک‘‘ تھے۔ ان کی شبیہ کروٹن کے پتوں اور مسجد کے فرش پر نمودار ہوتی تھی۔ ان کی ایک آواز پر لاکھوں کے مجمع کو سانپ سونگھ جاتا تھا۔ ان کی ایک کال پر کراچی بند ہوجاتا تھا۔ چناں چہ کراچی میں جب ایم کیو ایم کے خلاف پہلا فوجی آپریشن شروع ہوا تو الطاف حسین کو توقع تھی کہ لاکھوں لوگوں کا ہجوم کراچی سڑکوں پر نکل کر فوجی آپریشن کی مزاحمت کرے گا۔ مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ فوج نے آسانی کے ساتھ پورے شہر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ الطاف حسین بار بار لندن سے فون کرکے پوچھ رہے تھے کہ کراچی میں کیا ہورہا ہے۔ انہیں ہر بار بتایا جارہا تھا کہ کراچی میں کچھ نہیں ہورہا۔ نائن زیرو پر دو تین ہزار لوگ جمع تھے۔ فوج نائن زیرو پہنچی تو وہ سب بھی اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ اس کو کہتے ہیں کھیل ختم پیسہ ہضم۔ دیکھا جائے تو الطاف حسین کا مسئلہ بھی یہی تھا کہ ان کی بھی کوئی اخلاقی ساکھ نہیں تھی۔ لوگ ان کی تقریروں پر واہ واہ کرسکتے تھے، انہیں نوٹ دے سکتے تھے، ووٹ دے سکتے تھے مگر ان کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مزاحمت نہیں کرسکتے تھے۔
عمران خان کو امریکا، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ نے مل کر اقتدار سے باہر کیا تو نواز لیگ کا خیال تھا کہ اب ان کی سیاست ختم ہوجائے گی۔ حزب اختلاف کے کئی لوگوں نے کہا کہ عمران خان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا جائے وہ کہیں برطانیہ فرار نہ ہوجائیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آئے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں اتحادیوں ہی کا نہیں الیکٹ ایبلز کا تحفہ بھی دیا تھا۔ چناں چہ عمران خان کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑے نہیں ہوں گے مگر عمران خان نے اس خیال کو غلط ثابت کردیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ کھل کر امریکا اور یورپ پر تنقید کی ہے بلکہ انہوں نے عوامی اصطلاح میں اسٹیبلشمنٹ کی پول پٹیاں بھی کھولنی شروع کردی ہیں۔ انہوں نے ایک جلسے اور بنی گالہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ میرے پاس اسٹیبلشمنٹ سے فون آرہے ہیں مگر میں کسی سے بات نہیں کررہا، میں نے اسٹیبلشمنٹ کے لوگوں کے فون نمبر بلاک کردیے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ جب تک انتخابات کا اعلان نہیں ہوجاتا کسی سے بات نہیں ہو گی۔ عمران خان نے کہا کہ میں سمجھتا تھا کہ طاقت ور حلقوں یعنی اسٹیبلشمنٹ کے لیے کرپشن ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ کرپشن مقتدر حلقوں کے لیے سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو بااثر لوگ انہیں ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن کی کہانیاں سنایا کرتے تھے وہی لوگ بعد میں مجھ سے کہنے لگے کہ آپ دوسروں کی کرپشن پر توجہ دینے کے بجائے اپنی کارکردگی پر توجہ دیں۔ عمران خان نے کہا کہ نیب اور عدلیہ پر ہمارا اثر نہیں تھا جن لوگوں کا اثر تھا اگر وہ چاہتے تو آٹھ سے دس لوگوں کو سزائیں ہوجاتیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا ہوجاتا تو احتساب کا عمل مضبوط ہوجاتا اور حالات بہت مختلف ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اقتدار کے ابتدائی دنوں ہی میں نواز لیگ کے 30 ایم پی ایز پنجاب میں ہمارے ساتھ مل کر فارورڈ بلاک بنانا چاہتے تھے۔ اگر فارورڈ بلاک بن جاتا تو نواز لیگ کی سیاست ختم ہوجاتی۔ لیکن ایم پی ایز کو طاقت ور حلقوں نے پیغام دیا کہ وہ جہاں ہیں وہیں رہیں۔ عمران خان نے کہا کہ ہمارے خلاف سازش کرنے والوں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ مجھے ہٹانے پر اتنے لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے۔
(روزنامہ جنگ کراچی، 14 مئی 2022ء)
پاکستان کی تاریخ میں جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن کے سوا ایسا کوئی سیاسی رہنما نہیں ہوا جس نے اسٹیبلشمنٹ یا اس کے بیانیے کو چیلنج کیا ہو۔ مگر سید منور حسن نے ایسا کیا تو اس کی وجہ سید منور حسن کا نظریاتی پس منظر تھا۔ سید منور حسن کا مضبوط ایمان تھا، انہیں معلوم تھا کہ زندگی اور موت انسانوں کے نہیں خدا کے ہاتھ میں ہے۔ جب خدا کسی کی موت کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور جب تک خدا کسی کی موت کا فیصلہ نہیں کرتا ساری دنیا مل کر بھی کسی کو مار نہیں سکتی۔ مگر عمران خان کا تو کوئی نظریاتی پس منظر ہی نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ تواتر سے کہہ رہے ہیں کہ ہم امریکا اور یورپ کے غلام نہیں ہیں۔ ہم امریکا اور یورپ کی غلامی نہیں کریں گے۔ اب انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے سلسلے میں بھی دوٹوک بات کہہ دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کے لوگ فون کررہے ہیں مگر انہوں نے ان کے نمبر بلاک کردیے ہیں۔ کیا پاکستان کی پوری تاریخ میں کسی سیاست دان کو یہ جرأت ہوئی ہے کہ وہ سرعام کہے کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ کے لوگوں کے فون نمبر بلاک کردیے ہیں۔ اس لیے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے لوگوں کے ساتھ بات نہیں کرنا چاہتا۔ اس سلسلے میں میاں نواز شریف کی ’’حکمت عملی‘‘ پوری قوم کے سامنے ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں کوئی سخت بات کہہ بھی دیتے ہیں تو ان کا چھوٹا بھائی شہباز شریف رات کی تاریکی میں جرنیلوں سے ملنے اور ان کے بوٹ پالش کرنے پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں نواز لیگ کا موقف ’’متوازن‘‘ ہوجاتا ہے۔ آصف علی زرداری اول تو کھلے عام اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں کچھ کہتے ہی نہیں۔ کہتے ہیں تو وہ رات کی تاریکی میں دبئی فرار ہوجاتے ہیں اور اس وقت لوٹتے ہیں جب وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معافی تلافی کی صورت نکال چکے ہوتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بڑے طمطراق سے اسلام آباد میں دھرنا دینے پہنچے تھے مگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک ملاقات نے انہیں رام کرلیا اور وہ واپس ہوگئے۔ عمران خان کے اس بیان نے کہ اسٹیبلشمنٹ کے لوگ ان سے فون پر رابطے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے اس موقف کی دھجیاں اڑادی ہیں کہ وہ غیر سیاسی اور غیر جانبدار ہے۔
عمران خان نے یہ بات کہہ کر بھی اسٹیبلشمنٹ کو ’’ایکسپوز‘‘ کردیا ہے کرپشن طاقت ور حلقوں کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں اب تک قوم کا خیال تھا کہ شریف خاندان اور آصف علی زرداری نے اس طرح کرپشن کی ہے کہ انہوں نے اپنے خلاف کوئی شہادت ہی نہیں چھوڑی۔ مگر عمران خان کے بیان سے ظاہر ہورہا ہے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے کرپشن کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ شریف خاندان اور آصف زرداری لوٹ مار کرتے ہیں تو کرتے رہیں۔ عمران خان کے مذکورہ بالا بیان سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوگئی کہ کرپٹ لوگوں کو سزائیں نہیں ہوتیں تو اس کی وجہ بھی طاقت ور حلقے ہیں۔ ان حلقوں نے نیب اور عدلیہ کو کرپٹ لوگوں کے خلاف بروئے کار لانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ یہ اقتدار کے ایوانوں کی ایسی اندرونی کہانی ہے جسے عمران خان آشکار نہ کرتے تو قوم کو معلوم ہی نہ ہوتا کہ اس حوالے سے اصل کھیل کیا ہے۔
یہ حقیقت راز نہیں کہ عمران خان کی حکومت نے چار سال میں بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ چناں چہ اسٹیبلشمنٹ کو توقع تھی کہ عمران کو برطرف کیا جائے گا تو انہیں عوامی حمایت حاصل نہیں ہوگی مگر اسٹیبلشمنٹ کا یہ خیال غلط ثابت ہوچکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کرتے ہیں تو لوگ ریاستی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے گھروں سے نکلتے ہیں یا نہیں۔ یہ عمران خان کا نہیں ان کے اخلاقی امیج کا امتحان ہے۔