روزنامہ جسارت کے کالم نگار بابا الف نے اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا ہے کہ عمران خان امریکی غلامی نامنظور کی تحریک چلارہے ہیں اور یہ ناممکن کی جستجو ہے۔ بابا الف کے بقول پاکستان امریکا کو NO کہہ ہی نہیں سکتا۔ بابا الف کے بقول اگر عمران خان سڑکوں پر مجمع لگا کر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ قوم کو امریکا کی غلامی سے نجات دلادیں گے تو یہ بیوقوفی ہے۔ بابا الف کا یہ کالم پڑھ کر ہمیں اقبال کی نظم امامت یاد آگئی۔ اقبال نے اس نظم میں فرمایا ہے۔
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنۂ ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے
ویسے تو اقبال کی اس نظم کا ہر شعر ہی لاجواب ہے مگر زیر بحث موضوع کے حوالے سے اس شعر کا جواب نہیں۔
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
حاضر و موجود سے بیزاری اور اس کی مزاحمت مسلمانوں کی تاریخ کی اصل روح ہے۔ مسلمان باطل کے سامنے صرف اس لیے سر نہیں جھکا سکتا کہ وہ ہمارے عہد کا حاضر و موجود ہے۔ وہ ہمارے زمانے کا غالب نظام ہے۔ ہمارے زمانے میں باطل کا سکہ چل رہا ہے۔ مسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر باطل کو جتنا چیلنج کرسکتے ہوں کریں۔ اگر وہ باطل کو بیخ وبُن سے اکھاڑ کر پھینک سکتے ہوں تو پھینک دیں۔ اگر وہ باطل کے خلاف مسلح جدوجہد کرسکتے ہیں تو کریں۔ اگر وہ باطل کے خلاف صرف فکری جہاد کرسکتے ہیں تو کریں۔ اگر مسلمان باطل کے خلاف صرف نعرہ لگا سکتے ہیں تو نعرہ ضرور لگائیں۔ بابا الف صاحب نے وہ حدیث شریف ضرور پڑھی ہوگی جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر مسلمان میں طاقت ہو تو وہ برائی کو طاقت سے روک دے۔ طاقت سے نہ روک سکے تو اس کے خلاف زبان سے جہاد کرے۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو اسے دل میں برا خیال کرے مگر یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ امریکا اور مغرب کے خلاف طاقت کا استعمال تو ریاستیں ہی کرسکتی ہیں۔ البتہ زبان سے جہاد اکبر الٰہ آباد نے بھی کیا ہے۔ اقبال نے بھی کیا ہے۔ سید مودودی نے بھی کیا ہے۔ محمد حسن عسکری اور سلیم احمد نے بھی کیا ہے۔ عمران خان ایک سیاسی رہنما کی حیثیت سے اگر امریکا کے خلاف صرف نعرہ لگا سکتے ہیں تو یہ بھی پاکستان کی موجودہ سیاسی فکری اور علمی فضا میں اہم بات ہے۔
انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کبھی کبھی باطل کا غلبہ ایسا ہوتا ہے کہ باطل کو وقت کا نبی بھی شکست نہیں دے پاتا۔ سیدنا نوحؑ نو سو سال تک تبلیغ کرتے رہے مگر وہ صرف چالیس پچاس سے زیادہ لوگوں کی قلب ماہیت کرپائے۔ چناں چہ باقی باطل پرستوں کو اللہ تعالیٰ نے سیلاب میں غرق کرکے ہلاک کردیا۔ مسلمانوں کے لیے باطل کے خلاف جدوجہد کا سب سے بڑا سب سے اہم حوالہ رسول اکرمؐ کا ہے۔ جزیرہ نمائے عرب میں کفر اور شرک کا غلبہ صدیوں کا عمل تھا۔ عربوں کے دلوں میں کفر اور شرک عقیدہ بن کر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ عربوں کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہے تھے۔ چناں چہ عالم عرب میں کفر اور شرک کی شکست بظاہر ناممکن کی جستجو نظر آتی تھی کفر اور شرک کی شکست کے لیے رسول اکرمؐ کو میدانِ کار زار میں اُتارا گیا تھا۔ آپؐ سردار الانبیا تھے۔ خاتم النبیین تھے۔ آپ فخر موجودات تھے۔ آپ کے جیسا اوالعزم تاریخ نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کے باوجود رسول اکرمؐ کو مکے میں کفر اور شرک کے خلاف 13 سال تک جاں گسل جدوجہد کرنی پڑی۔ یہاں تک کہ آپ کو مکے سے مدینے ہجرت کرنی پڑ گئی۔ مکے کے 13 برسوں میں کسی کو نہیں لگتا تھا کہ اسلام غالب آنے والا ہے۔ رسول اکرمؐ پر ابتدا میں ایمان لانے والوں کی اکثریت یا تو غریب لوگوں پر مشتمل تھی یا نوجوانوں پر۔ معاشرے کے امیر اور بااثر افراد نے رسول اکرمؐ کی دعوت کو قبول ہی نہیں کیا۔ اسلام اور کفر اور شرک کی معرکہ آرائی کا کیا عالم تھا اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ غزوۂ بدر میں رسول اکرمؐ نے دعا مانگتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی جناب میں عرض کیا کہ اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت فتح یاب نہ ہوئی تو پھر اس روئے زمین پر تیرا کوئی نام لیوا نہیں ہوگا۔ بدر کے معرکے میں بالآخر مسلمان کامیاب ہوگئے مگر غزوۂ اُحد میں مسلمانوں سے نظم و ضبط کی ایک غلطی ہوگئی اور مسلمانوں کو اُحد کے معرکے میں شکست ہوگئی۔ لیکن بہرحال رسول اکرمؐ کی حیات طیبہ ہی میں پورے جزیرہ نمائے عرب سے کفر اور شرک کا قلع قمع ہوگیا۔ لیکن اس عمل میں 23 سال لگ گئے۔ خاتم النبیین کے لیے اگر یہ جدوجہد اتنی صبر آزما تھی تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عام لوگوں کے لیے یہ جدوجہد کتنی صبر آزما ہوگی۔
باطل کے خلاف مسلمانوں کی جدوجہد کے دو پہلو بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ مسلمانوں نے باطل کے خلاف جدوجہد میں کبھی اپنی انفرادی یا اجتماعی قوت اور شوکت پر بھروسا نہیں کیا۔ انہوں نے ہمیشہ اسلام پر انحصار کیا۔ سیدنا خالد بن ولید ایسے سپہ سالار تھے جو اپنی زندگی ہی میں افسانہ نہیں ایک داستان بن گئے تھے۔ وہ جس معرکے میں شریک ہوتے فتح یاب ہوجاتے۔ چناں چہ یہ خیال عام ہونے لگا کہ فتوحات خالد کے زور بازو، شجاعت اور حکمت عملی کا نتیجہ ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے سیدنا عمرؓ نے خالد بن ولید کو معزول کردیا۔ لوگوں نے وجہ پوچھی تو سیدنا عمرؓ نے فرمایا مسلمانوں کی فتوحات خالد کی کوششوں کا نہیں اسلام کا حاصل ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ کا دوسرا غیر معمولی پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ بہت کم طاقت کے ساتھ حریفوں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ طارق بن زیاد اسپین فتح کرنے پہنچے تو ان کے پاس 17 ہزار افراد کا لشکر تھا۔ ان کے مقابلے کے لیے دشمن نے ایک لاکھ فوجی میدان میں اُتارے ہوئے تھے۔ مگر اس کے باوجود مسلمانوں کا لشکر کامیاب رہا۔ محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے پہنچے تو ان کے ساتھ بھی 17 یا 18 ہزار فوجی تھے۔ اس کے برعکس راجا داہر ایک لاکھ کا لشکر لیے ان کا منتظر تھا۔ مگر محمد بن قاسم کا لشکر بالآخر غالب آیا۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ بابر نے 8000 فوجیوں کی مدد سے ہندوستان کو فتح کیا۔ اس کے مقابل بھی ایک لاکھ کا لشکر تھا۔
آئیے اب زیر بحث موضوع کے حوالے سے عہد جدید کا جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان کا مطالبہ ہر اعتبار سے ناممکن کی جستجو تھا۔ مسلمانوں کا مقابلہ ایک طرف سلطنت برطانیہ سے تھا جو وقت کی سپر پاور تھی اور وہ کسی بھی طرح برصغیر میں پاکستان کا قیام نہیں چاہتی تھی۔ دوسری طرف ہندو اکثریت تھی۔ ان کے نزدیک پاکستان کا مطالبہ ’’بھارت ماتا‘‘ کو تقسیم کرنے کا مطالبہ تھا۔ تیسری طرف مسلمان تقسیم در تقسیم کا شکار تھے۔ مسلمان شیعہ سنی میں تقسیم تھے۔ دیوبندی بریلوی میں تقسیم تھے۔ بنگالی، پنجابی، سندھی اور پشتون میں تقسیم تھے۔ لیکن پاکستان کے نظریے کی طاقت بے پناہ تھی۔ پاکستان کا نظریہ اسلام تھا۔ چناں چہ اسلام نے محمد علی جناح کو قائداعظم میں ڈھال دیا۔ اسلام نے مسلمانوں کی بھیڑ کو قوم کی شکل دے دی۔ چناں چہ قیام پاکستان جو ناممکن تھا ممکن بن گیا۔
غلامی کے زیر مسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہوگیا تھا کہ بلاشبہ اسلام دین حق ہے مگر اسلام صرف عقاید، عبادات اور نظام اخلاق تک محدود ہے۔ اس کا ریاست و سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا معیشت اور آرٹ اور کلچر سے کوئی واسطہ نہیں۔ ان تمام دائروں میں مغرب ہی کا سکہ چلے گا۔ لیکن مجدد وقت سید مولانا مودودیؒ نے یہ خیال پیش کیا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے۔ وہ صرف عقاید، عبادات اور اخلاق ہی کا نام نہیں بلکہ وہ ریاست و سیاست، معیشت و معاشرت، آرٹ اور کلچر کے لیے بھی رہنما اصول فراہم کرتا ہے۔ یہ خیال رفتہ رفتہ عام ہوا اور آج مسلم دنیا کی عظیم اکثریت اسلام کو ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات تسلیم کرتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا فکری، ذہنی اور نفسیاتی انقلاب ہے اور یہ انقلاب 20 ویں صدی کی ابتدا میں ناممکن سے بھی نچلی سطح پر موجود تھا۔
20 ویں صدی کے اوائل میں مغرب کے دانش ور کہا کرتے تھے کہ اسلام انسانیت کو جو کچھ دے سکتا تھا دے چکا۔ اب اس کے پاس انسانیت کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ لیکن 20 ویں صدی کے وسط میں اسلام نے پاکستان کے نام سے جدید دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تخلیق کر ڈالی۔ اسلام نے برصغیر اور عالم عرب میں احیا کی دو بڑی تحریکیں یعنی جماعت اسلامی اور اخوان برپا کر ڈالیں۔ اسلام نے 1979ء میں ایران میں انقلاب برپا کردیا اور دو ہزار سال پرانی بادشاہت کا تختہ الٹ کر رکھ دیا۔
20 ویں صدی کے آغاز میں سمجھا جاتا تھا کہ جہاد کا ادارہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا ہے اور اب کبھی بھی کہیں بھی اس کا احیا نہیں ہوسکتا۔ مگر 1980ء کی دہائی میں افغانستان کی سرزمین پر سوویت یونین کے خلاف جہاد کا احیا ہوا اور اس طرح احیا ہوا کہ جیسے جہاد کا عمل کبھی معطل یا ساقط نہیں ہوا تھا۔ سوویت یونین کے خلاف جہاد نہ صرف یہ کہ برپا ہوا بلکہ کامیاب بھی ہوا۔ اس سے تمام اسلام دشمن طاقتیں لرز کر رہ گئیں اور انہوں نے یہ بیانیہ گھڑا کے افغانستان میں سوویت یونین کی شکست اسلام، جہاد اور مسلمانوں کی فتح تھوڑی ہے بلکہ یہ تو امریکا اور یورپ کی فتح ہے کیوں کہ افغان جہاد کی پشت پر امریکا اور یورپ کھڑے ہوتے تھے۔ چناں چہ نائن الیون کے بعد جب امریکا افغانستان میں آیا تو عام خیال یہ تھا کہ اب افغانستان میں امریکا کی مزاحمت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ لیکن طالبان نے ملا عمر کی قیادت میں امریکا اور اس کے 48 اتحادیوں کے خلاف جہاد شروع کردیا۔ امریکا اور مجاہدین کی سیاسی طاقت میں ایک اور ایک لاکھ کی نسبت تھی۔ مجاہدین کی سیاسی طاقت ایک تھی اور امریکا کی طاقت ایک لاکھ۔ مجاہدین اور امریکا کی معاشی طاقت میں ایک اور ایک کروڑ کی نسبت تھی۔ مجاہدین کی طاقت ایک کی طاقت تھی اور امریکا کی طاقت ایک کروڑ کی طاقت تھی۔ مجاہدین اور امریکا کی عسکری طاقت میں ایک اور ایک ارب کی نسبت تھی۔ مجاہدین کی طاقت ایک کی طاقت تھی اور امریکا کی طاقت ایک ارب کی طاقت تھی۔ اس کے باوجود مجاہدین نے 20 سال میں امریکا اور اس کے 48 اتحادیوں کو شکست فاش سے دوچار کیا۔ یہ فتح ناممکن کی جستجو تھی لیکن اسلام نے ایک بار پھر ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمان امریکا کیا پورے مغرب کو شکست دے کر اس سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے جدوجہد شرط ہے۔ مزاحمت شرط ہے۔ اسلام کی لغت میں ناممکن کا لفظ ہی نہیں ہے۔
ہمیں اس سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ مسلمانوں کے لیے اصل چیز فتح نہیں ہے بلکہ اصل چیز باطل کی مزاحمت ہے۔ فتح تو اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے۔ کبھی کبھی مٹھی بھر مسلمان افغانستان مین سوویت یونین اور امریکا کو منہ کے بل گرا دیتے ہیں اور کبھی کبھی انبیا بھی قوم کو نہیں بدل پاتے۔ چناں چہ اصل چیز جدوجہد ہے۔ باطل کی مزاحمت ہے۔ نتیجہ کل بھی اللہ کے ہاتھ میں تھا آج بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔