مکالمہ، خود پسندی اور فسطائیت

جس محبت میں مکالمہ نہیں وہ محبت خود پسندی اور محبت کی موت ہے۔ جس سیاست میں مکالمہ نہیں وہ سیاست فسطائیت اور سیاست کی موت ہے۔ محبت جب مکالمے سے محروم ہو کر خود پسندی اور محبت کی موت میں ڈھلتی ہے تو وہ اس طرح کلام کرتی ہے۔
اپنی تکمیل کررہا ہوں میں
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں
(فیض)
دنیا میں ہیں کام بہت
مجھ کو اتنا یاد نہ آ
(حفیظ ہوشیار پوری)
نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی جی سے اتر نہ جائے کہیں
(ناصر کاظمی)
کوئی صدا مرے صبر و سکون سے نہ اٹھی
کوئی مزہ ترے قول و قرار نے نہ دیا
(ظفر اقبال)
وہ مجھے پیار سے دیکھے بھی تو پھر کیا ہوگا
مجھ میں اتنی ہی سکت کب ہے کہ دھوکا کھائوں
(شہزاد احمد)
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
(عبیداللہ علیم)
دیوی ہے تو نہ مجھ میں ہیں پیغمبروں کے وصف
مت سٹپٹا کے اٹھ مرے عرض سوال پر
(ناصر شہزاد)
یہ تو خود پسندی سے لبریز شخصیت اور محبت کی موت کا بیان تھا۔ سقراط کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس سے پہلے فلسفہ آسمان یا خواص کی چیز تھا۔ سقراط نے فلسفے کو زمین پر اتار کر اسے عوامی شے بنادیا۔ سوال یہ ہے کہ سقراط نے یہ کمال کیسے کیا؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے۔ مکالمے کے ذریعے۔ مکالمے کی قوت سے۔ سقراط بازار میں کھڑا ہوجاتا۔ وہ لوگوں کو جمع کرتا اور ان سے پوچھتا اور یہ تو بتائو صداقت کیا ہے؟ وہ پوچھتا تمہارے خیال میں حسن کی تعریف کیا ہے؟ لوگ سقراط کے سوالوں کا جواب دیتے۔ سقراط نکتہ بہ نکتہ ان کے جواب پر کلام کرتا اور اس جواب کے اندر موجود کمزوریوں کی نشاندہی کرتا۔ پھر وہ خود لوگوں کو بتاتا کہ اصل میں صداقت کیا ہے اور حسن کسے کہتے ہیں۔ اس طرح سقراط نے فلسفے کو مکالمہ بنادیا۔ سیاست کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جب تک مکالمے سے ہم آہنگ رہتی ہے اس وقت تک سیاست رہتی ہے مکالمے سے رشتہ توڑتے ہی وہ فسطائیت بن جاتی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کی سیاست مدتوں سے فسطائیت میں مبتلا ہے۔ نواز لیگ کہنے کو ایک سیاسی جماعت ہے مگر اس کی سیاست فسطائیت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ چناں چہ حال ہی میں جب وزیراعظم میاں شہباز شریف نے نیشنل ڈائیلاگ کی بات کی تو پی ٹی آئی نے اسے فوراً مسترد کردیا۔ اس لیے کہ شہباز شریف کی پیشکش میں خلوص اور حقیقت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو نواز لیگ کو قومی مکالمے کی ضرورت اس لیے محسوس ہورہی ہے کہ عمران خان نے شریف خاندان کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ عمران خان کے بیانیے کے زیر اثر کروڑوں لوگ شریف خاندان کو چور اور ڈاکو سمجھتے ہیں۔ عمران خان کے بیانیے کے زیر اثر کروڑوں لوگ شہباز شریف کی حکومت کو ’’امپورٹڈ‘‘ خیال کرتے ہیں۔ چناں چہ شریف خاندان چاہتا ہے کہ اسے کسی نہ کسی طرح عمران خان کی مزاحمتی اور توہین آمیز سیاست سے نجات ملنی چاہیے۔ ورنہ دنیا جانتی ہے کہ میاں نواز شریف نے 1990ء کی دہائی میں کبھی بے نظیر بھٹو کے ساتھ مکالمے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ میاں نواز شریف اس زمانے میں کسی ثبوت کے بغیر بے نظیر بھٹو کو ’’سیکورٹی رسک‘‘ کہا کرتے تھے۔ میاں نواز شریف کی فسطائیت کا یہ عالم تھا کہ وہ جب اسلامی جمہوری اتحاد کی سیاست کررہے تھے تو انہوں نے بے نظیر بھٹو کی خود ساختہ ننگی تصاویر لاکھوں کی تعداد میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے پنجاب کے مختلف علاقوں میں پھینکوائی تھیں۔ میاں نواز شریف اس زمانے میں بے نظیر کو مخاطب کرکے کہا کرتے تھے کہ تم میں اور ہم میں بڑا فرق ہے۔ میاں صاحب نعرہ لگاتے تھے ’’تم نے ڈھاکا دیا ہم نے کابل لیا‘‘۔ میاں نواز شریف نے ایک زمانے میں بے نظیر کے ساتھ میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے۔ یہ میثاق مکالمے کا حاصل تھا مگر میاں صاحب پھر بہت جلد اس میثاق کو پھلانگ کر کھڑے ہوگئے۔ چناں چہ میاں شہباز شریف آصف علی زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور ان کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت واپس لینے کے نعرے لگایا کرتے تھے۔
پاکستان کے فوجی آمروں نے سب سے زیادہ مکالمے کی بیخ کنی کی۔ جنرل ایوب دس سال تک سیاست اور صحافت کا گلا گھونٹ کر کھڑے رہے۔ انہوں نے کبھی سیاسی جماعتوں کو منہ نہ لگایا۔ وہ کبھی سیاسی قیادت کے ساتھ مکالمے پر آمادہ نہ ہوئے۔ انہوں نے کسی اور کے ساتھ کیا مادرِ ملت فاطمہ جناح کے ساتھ بھی مکالمے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ جنرل ایوب کے ایما پر اخبارات میں نصف صفحے کے اشتہارات شائع کرائے گئے جن میں فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا۔ 1971ء کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ پاکستان کی اکثریتی پارٹی بن کر اُبھری مگر جنرل یحییٰ اور بھٹو کی فسطائیت نے عوامی لیگ کی اکثریت کو قبول نہ کیا۔ انہوں نے کسی بھی مرحلے پر شیخ مجیب کے ساتھ مکالمے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ مکالمہ پاکستان کو دولخت ہونے سے بچاسکتا تھا مگر پاکستان کی فوجی اور سول قیادت نے مکالمے کے بجائے فسطائیت کو گلے لگایا اور فسطائیت آدھا ملک نگل گئی۔ بھٹو صاحب نے بھی 1977ء کے بحران میں بہت تاخیر سے بات چیت کی راہ اختیار کی۔ اس بات چیت کے سلسلے میں بھی وہ پوری طرح سنجیدہ اور پرخلوص نہیں تھے۔ وہ بات چیت کے ذریعے وقت گزارنا چاہ رہے تھے۔ چناں چہ بھٹو اور پی این اے کا مکالمہ مطلوبہ نتیجہ پیدا نہ کرسکا اور جنرل ضیا الحق نے ملک پر دوسرا مارشل لا مسلط کردیا۔
اصل میں مکالمہ اس بات کا نام ہے کہ آپ اپنے حریف کو مساوی الحیثیت تسلیم کریں۔ اسے اپنے برابر کی قوت سمجھیں۔ اس کی تکریم کریں۔ اس کے حق عزت کو تسلیم کریں۔ مگر بدقسمتی سے جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ کبھی اپنے حریف کو مساوی الحیثیت تسلیم نہیں کرتا۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی تاریخ 75 سال پر محیط ہے۔ بھارت کا تصور ذات یہ ہے کہ وہ خطے کی سب سے بڑی طاقت ہے اور پاکستان اس کے مقابلے پر ایک ’’چھوٹا ملک‘‘ ہے۔ بھارت کا خیال ہے کہ اس کا رقبہ بڑا ہے، آبادی بہت زیادہ ہے، اس کی معیشت کا سائز بڑا ہے، اس کی فوج بڑی ہے۔ چناں چہ بھارت نے کبھی پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر بامعنی مذاکرات نہیں کیے۔ 1980ء کی دہائی جہاد افغانستان کی دہائی تھی۔ اس زمانے میں جنرل ضیا الحق امریکا کے اتحادی تھے۔ وہ سوویت یونین کے خلاف جہاد کی وجہ سے پورے مغرب کی آنکھ کا تارا تھے۔ چناں چہ اس زمانے میں امریکا نے بھارت پر تواتر کے ساتھ دبائو ڈالا کہ وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر پر مذاکرات کرے۔ ہمیں یاد ہے کہ اس دور میں خارجہ سیکرٹری کی سطح پر پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے نو دور ہوئے مگر تمام ادوار بے نتیجہ رہے۔ اس لیے کہ بھارت صرف وقت گزارنا چاہتا تھا۔ جنرل پرویز نے آگرہ میں واجپائی کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کیے تو وہ کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کے اصولی موقف سے دستبردار ہوگئے مگر اس کے باوجود پاکستان اور بھارت کا مکالمہ نتیجہ خیز نہ ہوسکا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بھارت خود کو ہاتھی اور پاکستان کو مینڈک سمجھتا ہے۔ چناں چہ اسے محسوس ہوا کہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ بھارت کا مکالمہ اس کی طاقت اور عظمت کے منافی ہے۔
اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ہے مگر وہ خود کو مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی طاقت سمجھتا ہے اور اسرائیل ہے بھی مشرق وسطیٰ کے سب سے بڑی طاقت۔ اس کے پاس ایٹم بم ہے۔ جدید ترین فوج ہے۔ جدید ترین اسلحہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے آج تک فلسطینیوں کے ساتھ بامعنی مکالمے کی راہ اختیار نہیں کی۔ 1994ء میں یاسر عرفات اور اسرائیل کے وزیراعظم اسحاق رابین کے درمیان مذاکرات ہوئے اور اوسلو میں ایک امن معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ امریکا اور یورپ ہی نہیں روس اور چین بھی اس معاہدے کی پشت پر موجود تھے۔ پوری عرب دنیا اس معاہدے کو سراہ رہی تھی مگر اسرائیل کی فسطائیت عود کر سامنے آئی۔ ایک انتہا پسند یہودی نے معاہدہ کرنے والے اسحاق رابین کو ہلاک کردیا۔ بعدازاں اسرائیل نے اوسلو امن سمجھوتے کی کسی بھی شق پر عمل سے انکار کردیا۔ اس طرح اوسلو امن سمجھوتا اپنی موت آپ مر گیا۔ فسطائیت جیت گئی مکالمہ ہار گیا۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں جاپان کو امریکا کے ہاتھوں شکست ہوگئی تھی اور جاپانی فوجیں امریکا کے سامنے ہتھیار ڈالنے ہی والی تھیں۔ امریکا اس حقیقت سے آگاہ تھا۔ اس نے ہتھیار ڈالنے کے سلسلے میں جاپانی فوج کے خفیہ پیغامات ’’ڈی کوڈ‘‘ کرلیے تھے۔ چناں چہ امریکا چاہتا تو جاپان کے ساتھ مکالمے کا آغاز کرکے معاملات کو پرامن طریقے سے حل کرسکتا تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ تاریخ کے اس مرحلے پر امریکا ایک بڑی عالمی طاقت بن کر ابھرنا چاہتا تھا۔ وہ پوری دنیا کو اپنے خوف میں مبتلا کرنے کا خواہش مند تھا۔ چناں چہ اس نے مکالمے کے بجائے فسطائیت کا راستہ اختیار کیا۔ اس نے جاپان پر ایک نہیں دو ایٹم بم دے مارے۔ اس طرح ایک بار پھر مکالمہ ہار گیا اور طاقت سے نمودار ہونے والی فسطائیت جیت گئی۔

Leave a Reply