جاوید احمد غامدی کے شاگرد رشید خورشید ندیم نے اپنے ایک حالیہ کالم میں فرمایا ہے کہ سرد جنگ ختم ہوگئی۔ نظریے کا زمانہ گزر گیا۔ اب نظریہ اہم نہیں رہا۔ اب قومیں اپنے فائدے اور نقصان کی بنیاد پر خارجہ پالیسی مرتب کرتی ہیں۔
اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ کیا واقعی نظریے کا زمانہ گزر گیا ہے اور کیا انسان کبھی نظریے سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ انسانی تاریخ اور انسان کی ذہنی اور نفسیاتی ساخت کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایسا ممکن ہی نہیں۔ نظریہ صرف امام غزالی، شاہ ولی اللہ اکبر الٰہ آبادی، علامہ اقبال، مولانا مودودی، کارل مارکس، سمگنڈ فرائیڈ اور نٹشے ہی کا نہیں ہوتا ایک عام آدمی کا بھی نظریہ ہوتا ہے۔ مغرب کے ممتاز دانش ور آلڈس ہکسلے نے کہیں لکھا ہے کہ ایک عام آدمی کی بھی ایک مابعدالطبیعیات یا Meta Phisics ہوتی ہے۔ انسانوں کے پاس مابعدالطبیعیات اور غیر مابعدالطبیعیات میں سے کسی ایک کے انتخاب کا موقع نہیں ہوتا بلکہ انسان اچھی اور بری مابعدالطبیعیات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہر آدمی کا ایک نظریہ حیات ہوتا ہے۔ بلاشبہ اسلام ایک نظریہ ہے، مگر اس طرح کفر اور شرک بھی ایک نظریہ ہے۔ ہر نظریے کی ایک الٰہیات یا oncology ہوتی ہے۔ اسلام کی بھی ایک الٰہیات ہے اور کفر اور شرک کی بھی ایک الٰہیات ہے۔ نظریے کا ایک تصورِ علم ہوتا ہے۔ اسلام کا بھی ایک تصورِ علم ہے۔ سوشلزم کا بھی ایک تصورِ علم تھا اور سیکولرازم اور لبرل ازم کا بھی ایک تصور علم ہے۔ اسلام ایک نظریہ ہے اور ہر نظریے کا ایک تصور انسان ہوتا ہے۔ اسلام کا بھی ایک تصورِ انسان ہے۔ اسی طرح سیکولرازم اور لبرل ازم کا بھی ایک تصورِ انسان ہے۔ لیکن نظریے کی بحث کا ہمارے عہد سے ایک خاص تعلق ہے۔
1990ء کی دہائی میں جب سوویت یونین ٹوٹا اور سوشلزم تحلیل ہوا تو امریکا کے ممتاز دانش ور فرانسس فوکو یاما نے End of The History And The Last Man کے عنوان سے ایک پوری کتاب لکھ ماری۔ اس کتاب میں فوکویاما نے بنیادی خیال یہ پیش کیا کہ عہد حاضر میں تاریخ کا سفر سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کی کشمکش کا حاصل تھا لیکن سرمایہ داری نے سوشلزم کو شکست دے دی ہے۔ چناں چہ تاریخ کا سفر اپنے اختتام پر پہنچ گیا ہے اور اب پوری دنیا کے پاس کرنے کے لیے ایک ہی کام رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ وہ مغرب کے لبرل ازم اور سرمایہ دارانہ نظام کی پیروی کرلے۔ مسلم دنیا میں بہت سے دانش ور فوکو یاما کی اس بات کو لے اڑے اور انہوں نے اعلان کردیا کہ ہمارے عہد میں نظریے کی موت واقع ہوگئی ہے اور اب تاریخ کا سفر غیر نظریاتی ہوگیا ہے۔ خورشید ندیم صاحب کے مذکورہ خیالات پر بھی فوکو یاما کے تجزیے کا گہرا اثر ہے لیکن فوکو یاما کا تجزیہ اتنا سرسری تھا کہ خود فوکو یاما نے چند سال میں اپنے تجزیے سے رجوع کرلیا تھا۔
بلاشبہ لبرل ازم کے ہاتھوں سوشلزم کی شکست ایک بڑا تاریخی واقعہ تھی لیکن سوویت یونین کے خاتمے اور سوشلزم کی تحلیل کے ساتھ ہی مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کی صورت میں اپنا دوسرا نظریاتی دشمن ایجاد کرلیا تھا۔ چناں چہ تاریخ سے نظریہ منہا نہیں ہوا تھا بلکہ پرانی نظریاتی کشمکش کی جگہ نئی نظریاتی کشمکش نے لے لی تھی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت نائن الیون کے بعد سامنے آنے والا منظرنامہ تھا۔ امریکا نے نائن الیون کے حملوں کا الزام اسامہ بن لادن اور القاعدہ پر لگایا اور اس بنیاد پر ملا عمر سے مطالبہ کیا کہ وہ اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کردیں۔ ملا عمر نے کہا کہ اگر امریکا کے پاس اس سلسلے میں ٹھوس ثبوت اور شواہد ہیں تو وہ طالبان حکومت کے سامنے پیش کرے مگر امریکا کے پاس ایسے ٹھوس شواہد موجود نہ تھے۔ اس سلسلے میں امریکا کا حال اتنا پتلا تھا کہ اس نے نائن الیون کے حملوں کے سلسلے میں جن خودکش حملہ آوروں کی فہرست جاری کی تھی اس میں سے پانچ افراد زندہ نکل آئے۔ چناں چہ امریکا نے خاموشی کے ساتھ اگلے دن خودکش حملہ آوروں کی فہرست میں تبدیل کرلی اور پانچ نئے نام فہرست میں ڈال دیے۔ اس لیے خود امریکا میں لاکھوں افراد اس خیال کے حامل رہے ہیں کہ نائن الیون کے حملے خود امریکا نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑنے کے لیے کرائے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان اور عراق کے خلاف جو جنگ شروع کی وہ مالی و معاشی فائدے کے لیے نہیں تھی بلکہ وہ اپنی اصل میں ایک ’’نظریاتی جنگ‘‘ تھی۔ اس کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ جارج بش نے نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی تقریر میں ’’کروسیڈ‘‘ یا صلیبی جنگوں کی اصطلاح استعمال کی۔ اس پر مسلمانوں نے بجا طور پر اعتراض کیا تو یہ عذرلنگ پیش کیا گیا کہ قوم سے خطاب کرتے ہوئے جارج بش کی زبان پھسل گئی تھی۔ مگر صدر امریکا فی البدیہہ تقریر تھوڑی کررہے تھے وہ لکھی ہوئی تقریر کررہے تھے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ کروسیڈ کا لفظ تقریر میں لکھا ہوا تھا۔ یعنی کروسیڈ کی اصطلاح شعوری طور پر استعمال کی گئی تھی۔ کیا یہ عمل یہ بتارہا تھا کہ نظریے کا زمانہ گزر گیا ہے یا اس عمل سے ایک نئی نظریاتی کشمکش کا سراغ مل رہا تھا۔ خیر جارج بش کی اصطلاح میں تو پھر بھی کچھ ابہام ہوسکتا تھا مگر اٹلی کے اس وقت کے وزیراعظم سلویوبرلسکونی نے تو نظریاتی جنگ کو بالکل ہی واضح کردیا۔ انہوں نے کہا کہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب سے برتر ہے اور اس نے جس طرح کمیونزم کو شکست دی ہے اسی طرح وہ اسلامی تہذیب کو بھی شکست دے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ایک عام بیان تھا یا ’’نظریاتی بیانیہ‘‘ اور Ideological Discourse تھا۔ مغربی ممالک کہہ رہے تھے کہ وہ نائن الیون کے بعد دہشت گردوں یا دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے نکلے ہیں مگر اٹلی کے وزیراعظم کا بیان چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ مغرب دہشت گردی کے خلاف نہیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نظریاتی جنگ لڑنے نکلا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو اٹلی کے وزیراعظم یہ اعلان نہ کرتے کہ مغربی تہذیب نے جس طرح کمیونزم کو ہرایا ہے اس طرح وہ اسلامی تہذیب کو بھی ہرائے گی۔ اٹلی کے وزیراعظم کے بیان کے بعد مغرب سے ایک اور بڑا بیان سامنے آیا۔ یہ بیان تھا جارج بش کے اٹارنی جنرل ایش کرافٹ کا۔ انہوں نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسلام کے تصور خدا پر کھل کر حملہ کیا۔ انہوں نے صاف کہا کہ عیسائیت کا خدا اسلام کے خدا سے برتر ہے۔ اس لیے کہ عیسائیت کے خدا نے انسانیت کی نجات کے لیے اپنے بیٹے سیدنا عیسیٰؑ کو سولی پر لٹکادیا۔ اس کے برعکس اسلام کا خدا ایسا خدا ہے جو اپنے ماننے والوں سے جہاد کی صورت میں قربانی طلب کرتا ہے؟۔ جیسا کہ ظاہر ہے یہ بھی عام بیان نہیں تھا یہ بھی ایک ’’نظریاتی بیان‘‘ تھا۔ یہ بھی ایک Ideological Discourse تھا۔ اور یہ نظریاتی بیان بتارہا تھا کہ مغرب نے افغانستان پر جو جنگ مسلط کی ہے وہ عام جنگ نہیں ہے وہ ایک نظریاتی جنگ ہے۔ ظاہر ہے کہ نظریاتی جنگ اس وقت لڑی جاتی ہے جب نظریہ زندہ اور اہم ہو۔ جارج بش کے اٹارنی جنرل کے نظریاتی بیان کے بعد مغرب سے ایک اور نظریاتی بیان سامنے آیا۔ یہ بیان تھا یورپ میں تعینات ناٹو کی فورسز کے سابق کمانڈر جنرل کلارک کا۔ انہوں نے بی بی سی ورلڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ دنیا میں ایک ارب سے زیادہ مسلمان موجود ہیں۔ ان مسلمانوں کے فکر و عمل پر اسلام کا گہرا اثر ہے۔ چناں چہ مغرب جو جنگ لڑ رہا ہے وہ اسلام کو Define کرنے والی جنگ ہے۔ جنرل کلارک نے کہا کہ ہمیں طے کرنا ہے کہ آیا اسلام ایک پرامن مذہب ہے جیسا کہ اکثر مسلمان دعویٰ کرتے ہیں یا اسلام اپنے ماننے والوں کو تشدد پر اکساتا ہے جیسا کہ اسامہ بن لادن اور ملا عمر وغیرہ اپنے ماننے والوں کو تشدد پر اکساتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد مغرب کا دعویٰ تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے نکلا ہے مگر جنرل کلارک کہہ رہے تھے کہ یہ جنگ اسلام کی تعریف متعین کرنے والی یا اسلام کو Define کرنے کی جنگ ہے۔ ظاہر ہے کہ اسلام کو Define کرنے والی جنگ الف سے یے تک ایک نظریاتی جنگ کہلائے گی۔ ظاہر ہے نظریاتی جنگ وہیں لڑی جاتی ہے جہاں نظریہ زندہ و تابندہ ہوتا ہے۔
یہ آج سے پندرہ بیس سال پرانی بات ہے۔ کراچی کے گوئٹے انسٹی ٹیوٹ میں ایک شام افسانہ برپا تھی اور اس شام افسانہ میں ایک جرمن ادیب بھی شامل تھے۔ افسانوں کا دور ختم ہوا تو ایک پاکستانی افسانہ نگار نے جرمن ادیب سے پوچھا کہ آپ ذرا اس بات پر تو روشنی ڈالیے کہ ترکی چالیس سال سے یورپی یونین میں شمولیت کے لیے کوشاں ہے مگر یورپی یونین ترکی کو اپنا حصہ بنانے پر آمادہ نہیں کہ اس کی کیا وجہ ہے۔
جرمن ادیب نے کہا کہ اس کی وجہ ترکی کی غیر جمہوری تاریخ ہے۔ اس کے جواب میں ایک پاکستانی ادیب نے کہا کہ یورپی یونین نے کئی سابق کمیونسٹ ریاستوں کو اپنا حصہ بنایا ہے حالاں کہ ان کا جمہوری ریکارڈ ترکی سے بدتر ہے۔ اس پر جرمن ادیب گویا ہوئے کہ ترکی کا انسانی حقوق کا ریکارڈ بھی اچھا نہیں۔ جواب آیا کہ سابق کمیونسٹ ریاستوں کا ریکارڈ بھی اس سلسلے میں اچھا نہیں۔ جرمن ادیب نے جب دیکھا کہ کس طرح ان کی دال نہیں گل رہی تو انہوں نے اظہار حقیقت کر ہی دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ یورپی یونین ایک ’’کرسچن کلب‘‘ ہے اور ترکی ایک مسلمان ملک ہے۔ بھلا ایک مسلمان ملک کو کرسچن کلب کا حصہ کیسے بنایا جائے۔ یہی اصل بات تھی مگر اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا نظریاتی کشمکش سے آزاد یا بے نیاز نہیں ہوئی۔ مغرب ہر سطح پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نظریاتی جنگ چھیڑے ہوئے ہے۔ چناں چہ یہ محض اتفاق نہیں کہ مصر میں فوج کے ذریعے صدر مرسی کی حکومت کو برطرف کرایا گیا۔ اس لیے کہ صدر مرسی کی حکومت نظریاتی اسلام کی علامت تھی۔ ترکی میں بھی فوج کے ذریعے صدر اردوان کے خلاف بغاوت کرائی گئی۔ اس لیے کہ مغرب کا خیال ہے کہ صدر اردوان آہستہ خرام اسلام کے ذریعے ترکی کو اندر سے بدل رہے ہیں۔ یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ مغرب کے دبائو پر بنگلادیش نے اپنے آئین کو ’’سیکولر‘‘ بنایا اور جماعت اسلامی پر پابندی لگائی۔ اس لیے کہ جماعت اسلامی ایک نظریاتی جماعت ہے اور بنگلادیش میں اس کی عوامی جڑیں مضبوط تھیں۔
یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ یورپی یونین نے چند سال پہلے پاکستان کو دھمکی دی کہ اگر اس نے توہین رسالت کے سلسلے میں سزا کاٹنے والی ملعونہ آسیہ مسیح کو رہا کرکے یورپ نہ بھیجا تو پاکستان کی ٹیکسٹائل کی مصنوعات پر پابندی لگادی جائے گی۔ چناں چہ اسٹیبلشمنٹ، نواز لیگ، تحریک انصاف اور عدالت عظمیٰ نے مل جل کر کام کیا اور آسیہ مسیح کو رہا کرکے یورپ بھجوادیا۔ یہ صورت حال بھی اس امر کا اظہار ہے کہ حق و باطل کی نظریاتی کشمکش جاری ہے اور باطل قوتیں حق کو دیوار سے لگانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کررہی ہیں۔