جس طرح عوام کا ایک تصورِ حکمران ہوتا ہے اسی طرح حکمرانوں کا بھی ایک تصورِ عوام ہوتا ہے۔ یہ تصور اتنا اہم ہوتا ہے کہ حکمران اپنے عہد کے عوام کو اس تصور کے مطابق ڈھالتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں کئی انبیا حکمران ہوئے ہیں اور انبیا سے بہتر حکمران کا تصور محال ہے۔ رسول اکرمؐ سردار الانبیا اور خاتم النبیین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ سے بہتر حکمران انسانی تاریخ میں کوئی نہیں ہوا۔ رسول اکرمؐ جس معاشرے میں معبوث کیے گئے تھے وہ کفر اور شرک میں ڈوبا ہوا تھا۔ رسول اکرمؐ نے اسلام کے تصورِ انسان کے مطابق لاکھوں انسانوں کو کفر اور شرک کی گمراہی سے نکالا۔ یہ رسول اکرمؐ ہی تھے جنہوں نے ابوبکر کو صدیق اکبرؓ بنایا۔ عمر کو فاروقِ اعظمؓ میں ڈھالا۔ عثمان کو عثمانِ غنیؓ کا روپ دیا اور علی کو علی ِ مرتضیٰؓ بنا کر کھڑا کیا۔ آپؐ کے زمانے کا عرب معاشرہ قبائلیت میں ڈوبا ہوا تھا۔ آپؐ نے قبائلی عصبیت کو اسلام کی محبت سے تبدیل کیا۔ رسول اکرمؐ کے عہد میں عوام اور خواص دونوں دنیا پرستی میں مبتلا تھے۔ رسول اکرمؐ نے انہیں آخرت کے لیے عمل کرنے والا بنایا۔ رسول اکرمؐ نے معاشرے میں ایسا شوق ِ شہادت اور جوش ِ جہاد پیدا کیا کہ بدر کے میدان میں 313 افراد ایک ہزار کے لشکر کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ یہ ایسا منظر تھا جو تاریخ نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ان 313 افراد کے پاس صرف ایک گھوڑا تھا، چند اونٹ تھے، چند تلواریں اور چند زرہ بکتر تھیں۔ اس کے باوجود 313 افراد ایک ہزار کے لشکر پر بھاری پڑ گئے۔ اور انہوں نے ایک ہزار کے لشکر کو شکست دے دی۔ اقبال نے اس سلسلے میں کتنی سہی بات کہی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجیب چیز ہے لذتِ آشنائی
رسول اکرمؐ کے عہد کے بعد خلافت ِ راشدہ کا زمانہ بہترین ہے۔ چناں چہ خلفائے راشدین کا تصورِ عوام بھی بہت بلند تھا۔ سیدنا ابوبکرؓ نے خلیفہ بننے کے بعد جو تقریر کی اس میں انہوں نے صاف کہا کہ وہ طاقت ور کے لیے سخت اور کمزور کے لیے مہربان ہیں۔ زکوٰۃ معاشرے کے کمزور افراد کا حق ہے، چناں چہ ایک قبیلے نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو سیدنا ابوبکرؓ نے تلوار کی قوت استعمال کی اور زکوٰۃ وصول کرکے رہے۔ ابوبکرؓ جب تک خلیفہ رہے عوام کے کام کرتے رہے۔ وہ بکریوں کا دودھ دوھ دیتے، ایک بوڑھی عورت کے گھر جا کر اس کا گھر صاف کرتے اور اِسے کھلا پلا کر واپس آتے۔ سیدنا عمرؓ فاروق کا تصورِ عوام بھی بہت بلند تھا۔ اس تصور کی بلندی کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ سیدنا عمرؓ کہا کرتے تھے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے پر ایک کتا بھی بھوک سے ہلاک ہوگیا تو عمرؓ اس کے لیے جواب دہ ہوگا۔ سیدنا عمرؓ کے زمانے میں مسلمان کافی امیر ہوگئے تھے اور بعض لوگ امارت کے اظہار کے لیے زیادہ مہر مقرر کرنے لگے تھے۔ سیدنا عمرؓ اس صورت حال سے پریشان تھے۔ چناں چہ انہوں نے مہر کی رقم مقرر کرنے کی کوشش کی، مگر ایک بوڑھی عورت نے انہیں ٹوک دیا۔ بوڑھی عورت نے کہا کہ جب اللہ نے قرآن میں مہر کی حد مقرر نہیں کی تو آپ مہر کی رقم کیسے مقرر کرسکتے ہیں۔ سیدنا عمرؓ اس بات پر ناراض ہونے کے بجائے خوش ہوئے اور کہا کہ ایک عورت بھی عمرؓ سے زیادہ جانتی ہے۔ سیدنا عمرؓ کے زمانے میں قحط پڑا تو تیل اور گندم کی روٹی کا استعمال ترک کردیا۔ کہا کہ جب تک عوام کو یہ چیزیں دستیاب نہ ہوں گی وہ ان کا استعمال نہیں کریں گے۔
سیدنا عمرؓ کی زندگی کا یہ واقعہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ کہیں سے چادریں آئیں اور ان میں سے ایک چادر سیدنا عمرؓ کے حصے میں بھی آئی۔ چادر اتنی چھوٹی تھی کہ اس سے سیدنا عمرؓ کا لباس نہیں سِل سکتا تھا مگر سیدنا عمرؓ اس چادر کا لباس پہنے نظر آئے تو اس پر بعض عام لوگوں نے اعتراض کردیا۔ چناں چہ سیدنا عمرؓ نے بتایا کہ انہوں نے اپنی اور اپنے فرزند کی چادروں کو ملا کر لباس سلوایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عمرؓ خدا کے بعد تاریخ اور عوام کے سامنے جوابدہی کے خیال سے سرشار تھے۔ سیدنا عمرؓ کے زمانے میں بہت زیادہ فتوحات ہوئیں لیکن ان فتوحات سے عوام میں یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ فتوحات خالد بن ولیدؓ کی سپہ سالاری کا نتیجہ ہیں۔ چناں چہ سیدنا عمرؓ نے عوام کی اصلاح کے لیے سیدنا خالد بن ولید کو ان کے عہدے سے معزول کردیا اور عوام کو بتایا کہ فتوحات خالد بن ولید کی سپہ سالاری کا نہیں اسلام کی برکت کا ثمر ہیں۔
خلافت کے بعد ملوکیت آگئی۔ ملوکیت یا بادشاہت میں اہمیت حکمران یا بادشاہ کی تھی عوام کی نہیں۔ بادشاہ ظل ِ الٰہی یا خدا کا سایہ تھا۔ وہ تمام خامیوں سے پاک تھا، اس کی اطاعت عوام پر فرض تھی، عوام کا کام یہ تھا کہ وہ بادشاہ کے وفادار رہیں اور اس کا حکم بجا لائیں۔ بادشاہت کے تصورِ عوام میں کوئی تقدیس کوئی عظمت نہ تھی، وہ انسان بھی اتنے ہی تھے جتنے وہ بادشاہ کے وفادار تھے، چوں کہ بادشاہوں کے زمانے کی تاریخ بھی بادشاہوں کے زیر اثر لکھ جاتی تھی اس لیے تاریخ تک میں عوام کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ پوری تاریخ پر صرف بادشاہ، ان کا خاندان، ان کی عظمت، ان کی معرکہ آرائیاں اور ان کی ناکامیاں چھائی ہوئی ہیں۔
ہمارا زمانہ جمہوریت کا زمانہ ہے اور جمہوریت کی تعریف میں عوام کے تصور کو مرکزیت حاصل ہے۔ جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جو عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے قائم ہوتا ہے۔ لیکن جمہوری عہد میں عوام کی مرکزیت کی بات جتنی مشہور ہے اتنی درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا جیسے جمہوری ملک میں بھی اصل حکومت عوام یا ان کے منتخب نمائندوں کے پاس نہیں ہے۔ یہ حکومت ملٹی نیشنلز کے ہاتھ میں ہے۔ سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے۔ سی آئی اے کے ہاتھ میں ہے۔ پینٹاگون کے ہاتھ میں ہے۔ امریکا کے صدر کینیڈی عوام میں مقبول تھے مگر امریکی اسٹیبلشمنٹ انہیں پسند نہیں کرتی تھی۔ سابق سوویت یونین نے کیوبا میں میزائل نصب کیے تو امریکا کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی۔ چناں چہ امریکی جرنیل ہر اجلاس میں صدر کینیڈی سے کہتے کہ کیوبا پر ایٹمی حملہ کردو مگر کینیڈی اس کے لیے تیار نہ ہوئے۔ چناں چہ امریکی اسٹیبلشمنٹ نے کینیڈی کو قتل کرادیا۔ بارک اوباما امریکا کے سیاہ فام صدر تھے۔ وہ نہ صرف یہ کہ صدر بن گئے اور آٹھ سال تک صدر رہے مگر اس کے باوجود وہ گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیل کو بند نہ کراسکے۔ اس لیے کہ گوانتاناموبے امریکی سی آئی اے کا ’’پروجیکٹ‘‘ ہے۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے نائن الیون کے بعد افغانستان اور عراق پر حملہ کیا تو مغربی ملکوں میں دس دس اور بیس بیس لاکھ کے عوامی جلوس نکلے مگر یہ جلوس افغانستان اور عراق میں مغرب کے خواص کی جارحیت کو بند نہ کراسکے۔
بانی پاکستان قائداعظم کا تصورِ عوام بہت بلند تھا۔ اس بلند تصور ہی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی ’’بھیڑ‘‘ کو دیکھتے ہی دیکھتے ایک ’’قوم‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ قائداعظم کی قیادت سے پہلے مسلم لیگ ایک مردہ گھوڑا تھی اور برصغیر کی ملت اسلامیہ کا کوئی ’’نصب العین‘‘ تھا نہ ان کا کوئی تصورِ ’’ذات‘‘ تھا مگر قائداعظم نے مسلمانوں میں زندگی کی لہر پھونک دی۔ قائداعظم نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا۔
’’تمام دشواریوں کے باوجود مجھے یقین ہے کہ مسلمان کسی بھی دوسرے فرقے کی نسبت ’’بہتر سیاسی دماغ‘‘ رکھتے ہیں۔ سیاسی شعور مسلمانوں کے خون میں ملا ہوا ہے اور وہ ان کی رگوں اور شریانوں میں دوڑ رہا ہے اور اسلام کی باقی ماندہ عظمت ان کے دلوں میں دھڑک رہی ہے‘‘۔
ایک اور تقریر میں قائداعظم نے فرمایا: ’انہوں نے سمجھا کہ مسلمان محض ایک اقلیت ہیں جن پر ہندو اکثریت کو حکومت کرنا چاہیے اور ادھر مسلمان ایک جھوٹے احساس سلامتی میں مسلسل مبتلائے فریب رہے اور اقلیت کی اصطلاح کو تاریخی، قانونی اور آئینی سمجھا جانے لگا لیکن مسلمان کسی حیثیت سے یورپی ممالک کی اقلیتوں کی طرح اقلیت نہیں ہیں۔ ہم اقلیت نہیں بلکہ ہم اپنے نصب العین کے ساتھ ایک علٰیحدہ اور ممتاز قوم ہیں‘۔
بدقسمتی سے قائداعظم کے بعد پاکستان کو جو حکمران ملے ان کا تصور عوام پست تھا۔ ان کے لیے عوام صرف ایک سیاسی نعرہ تھے۔ وہ ان کے لیے صرف ووٹرز کی حیثیت سے اہم تھے۔ وہ ان کے لیے جلسوں اور جلوسوں کی وجہ سے اہم تھے۔ وہ ٹیکس دہندگان کی حیثیت سے اہم تھے۔ بھٹو صاحب پاکستانی سیاستدانوں میں سب سے زیادہ ’’عوامی‘‘ تھے۔ انہوں نے عوام کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا۔ مگر وہ نہ عوام کو روٹی دے سکے، نہ کپڑا دے سکے، نہ مکان مہیا کرسکے۔ بھٹو صاحب کی روٹی بھی خیالی تھی، کپڑا بھی خیالی تھا اور مکان بھی خیالی تھا۔ میاں نواز شریف ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا کر عوام کی اہمیت پر اصرار کرتے ہیں مگر نواز لیگ شریف خاندان کی جمہوریت کی نہیں اس کی بادشاہت کی علامت ہے۔ بھٹو خاندان بھی سیاسی بادشاہت کا ایک ادارہ ہے اور شریف خاندان بھی سیاسی بادشاہت کا ایک استعارہ ہے۔ چوں کہ بھٹو خاندان اور شریف خاندان عوام پر انحصار نہیں کرتا اس طرح عوام بھی ان دونوں خاندانوں کے لیے جان کی بازی نہیں لگاتے۔ بھٹو صاحب کو پھانسی ہونے والی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ مجھے کچھ ہو گیا تو ہمالہ روئے گا اور سندھ میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی مگر ان کی پھانسی پر ہمالے کی آنکھ سے ایک آنسو بھی نہ نکلا اور نہ سندھ میں خون کی ندیاں بہیں۔ میاں نواز شریف کو جنرل پرویز نے برطرف کیا تو نواز شریف کے پاس قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت تھی مگر نواز شریف کی طاقت کے مرکز لاہور تک میں دس افراد بھی میاں صاحب کی برطرفی کے لیے احتجاج پر آمادہ نہ ہوئے۔ الطاف حسین کی سیاست سے پہلے مہاجر عوام کی علامت پروفیسر غفور، محمد حسن عسکری، سلیم احمد اور حکیم سعید جیسے لوگ تھے، الطاف حسین کی سیاست نے مہاجر عوام کے امیج کو اتنا گرایا کہ لنگڑے، کانے اور کن کٹے مہاجر عوام کی علامت بن گئے۔