مسلمان کی تعریف صرف نیکی کے ساتھ اس کے تعلق سے متعین نہیں ہوتی۔ مسلمان کی تعریف برائی کے ساتھ اس کے تعلق سے بھی متعین ہوتی ہے۔ نبی اکرمؐ کی ایک حدیث پاک کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تم برائی کو طاقت سے روک سکتے ہو تو روک دو۔ یہ ممکن نہ ہو تو اِسے زبان سے بُرا کہو۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو اِسے دل میں برا خیال کرو، مگر یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ بدقسمتی سے اب ہم ایسے عہد میں زندہ ہیں جہاں کروڑوں مسلمان ایمان کے کمزور ترین درجے سے بھی نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس لیے کہ یہ کروڑوں مسلمان برائی کو دل میں بھی برا خیال نہیں کرتے۔ اس کے برعکس وہ برائی کو بھی اچھائی سمجھتے ہیں۔ اس سے بھی کم ترین درجے پر وہ لوگ ہیں جو برائی کا دفاع کرتے ہیں، اس کی حمایت میں دلائل گھڑتے ہیں، اس کی ایک مثال سود ہے۔ قرآن پاک میں سود کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ قرار دیا گیا ہے، مگر ہمارے درمیان ایسے کروڑوں لوگ ہیں جو سود کا کاروبار کرتے ہیں۔ جو بینکوں اور مختلف مالیاتی اداروں کی اسکیموں میں سرمایہ لگا کر ان سے سود وصول کرتے ہیں۔ اس سے بھی بدتر وہ لوگ ہیں جو سود کے حق میں دلائل دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سود اور ربٰو میں فرق ہے۔ ربٰو حرام ہے، سود حلال ہے۔ لیکن زیربحث مسئلے کے حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے بالائی طبقات جن میں حکمران، علما، دانش ور اور صحافی سب شامل ہیں ان کی عظیم اکثریت برائی کو طاقت کیا زبان سے بھی برا نہیں کہتے اور وہ زبان سے بھی اس کی مزاحمت نہیں کرتے۔
برائی کی مزاحمت سے گریز کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ مغربی تہذیب پورے عالم اسلام پر غالب ہے۔ ہمارا سیاسی نظام مغرب سے آیا ہے۔ ہمارا معاشی نظام مغرب کی عطا ہے۔ ہمارا عدالتی بندوبست مغرب کا فراہم کردہ ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام مغربی فکر کا علمبردار ہے۔ ہمارا لباس مغربی ہے۔ ہماری تفریح مغربی ہے۔ ہمارے خیالات مغربی ہوگئے ہیں۔ ہماری خواہش، ہماری آرزوئیں، ہماری تمنائیں مغرب سے آرہی ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے خوابوں پر بھی مغرب کی مہر لگی ہوئی ہے، مگر امت مسلمہ مغرب کی مزاحمت کے لیے تیار نہیں۔ برصغیر میں اکبر الہٰ آبادی نے اپنی شاعری میں اہم مغربی تصورات پر غیر معمولی حملے کیے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں مغربی تصورات کا مذاق اُڑایا۔ اکبر کی شاعرانہ عظمت یہ ہے کہ ہم مغرب کے خلاف جو جنگ میدان جنگ میں ہار گئے تھے اکبر نے تن تنہا اپنی شاعری میں وہ جنگ ہمیں جیت کر دکھا دی۔ اقبال نے جو اکبر کی شاعری سے بے انتہا متاثر تھے اور انہوں نے اپنی ظریفانہ شاعری میں اکبر کا تتبع کیا ہے انہوں نے اکبر کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے کے نام تار میں لکھا کہ آپ کے والد اتنے بڑے آدمی تھے کہ پورے ایشیا میں ان جیسی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ مگر برصغیر کی ملت اسلامیہ بالخصوص ہمارے علما و دانش وروں، شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں نے اکبر کی شاعری سے کوئی اثر قبول نہ کیا۔ اردو شاعری میں اکبر کی پیروی کرنے والا کوئی پیدا نہ ہوا۔ کسی نے پیروی کی بھی تو ظرافت کو پھکڑپن بنا کر رکھ دیا۔ اکبر کے بعد اقبال آئے اور انہوں نے اپنی شاعری میں مغرب کی ایسی تنقید لکھی جو اس سے پہلے اس لب و لہجے میں کبھی نہیں لکھی گئی تھی۔ اقبال نے اپنے بے مثال شعری مجموعے ضرب کلیم کو عہد ِ حاضر کے خلاف جنگ قرار دیا ہے۔ اقبال کی شاعری میں یہ تاثیر ہے کہ وہ ’’مردے‘‘ کو بھی زندہ کرسکتی ہے مگر برصغیر کی ملت اسلامیہ نے مغرب پر اقبال کی تنقید کو بھی بھلادیا۔ اقبال کے بعد مولانا مودودی آئے، انہوں نے اپنی بے مثال نثر میں مغرب کی الٰہیات کو مسترد کیا۔ مغرب کے تصورِ علم پر خط تنسیخ پھیرا۔ مغرب کے تصورِ انسان کو رد کردیا۔ انہوں نے کراچی اور لاہور میں ادارہ معارف اسلامی کی بنیاد رکھی اور اس پر جماعت کے خزانے سے نہیں اپنی جیب سے مال خرچ کیا۔ مولانا نے کراچی میں ادارہ معارف اسلامی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ادارے کے مقاصد پر روشنی ڈالی۔ مولانا نے کہا کہ یہ ادارہ مغرب کے فکری طلسم کو توڑنے کا کام کرے گا۔ یہ ادارہ ایسا نصاب تیار کرے گا۔ جو مغرب کے نصاب کا متبادل بن سکے۔ مگر مولانا کی تنقید ِ مغرب پر کسی اور نے کیا خود جماعت اسلامی نے بھی توجہ نہیں دی۔ ہم نے ادارئہ معارف اسلامی کو کبھی وہ کام کرتے نہ دیکھا جن کے لیے اس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ علما کا طبقہ مغرب پر مولانا کی تنقید سے بہت کچھ سیکھ سکتا تھا مگر بدقسمتی سے مولانا نہ دیوبندی تھے، نہ بریلوی تھے، نہ اہل حدیث تھے۔ چناں چہ دیوبند، اور بریلوی کے علما نے مغرب پر مولانا کی تنقید سے کچھ بھی سیکھ کر نہ دیا۔ ہمیں نماز جمعہ پڑھتے ہوئے چالیس پینتالیس سال ہوگئے ہیں۔ ہماری حسرت ہی رہی کہ کبھی کوئی خطیب اپنے خطبے میں مغربی تہذیب اور اس کی شیطنت کو نشانہ بناتا۔ ہمیں حسرت ہی رہی کہ کوئی بڑا دیوبندی اور بریلوی عالم دین مغربی تہذیب کے اساسی تصورات پر کوئی مربوط کتاب تحریر کرے اور مغربی تہذیب کے خلاف جہاد بالّسان کا حق ادا کرے۔ مغربی تہذیب کو برصغیر کے معاشرے پر اثر انداز ہوئے ڈیڑھ سو سال ہوگئے مگر آج تک اکبر، اقبال، مولانا مودودی اور محمد حسن عسکری کے سوا کسی بڑے عالم اور دانشور کو مغرب کی فکری مزاحمت کی توفیق نہیں ہوئی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے علما کی فرقہ وارانہ اور مسلکی عصبیت بڑی قوی ہے مگر اسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن کے سلسلے میں نہ ان کی گرہ میں کوئی علم ہے، نہ ہی وہ اسلام اور اسلامی تہذیب کی کوئی ایسی محبت یا عصبیت اپنے اندر محسوس کرتے ہیں جو انہیں مغرب کی فکری اور علمی مزاحمت پر آمادہ کردے۔ ہمارے علما کو یہ مسئلہ تو پریشان کرتا ہے کہ ہمارے نوجوان ڈاڑھی کیوں نہیں رکھتے اورٹخنوں سے اوپر شلوار کیوں نہیں رکھتے لیکن مغرب کی جو تہذیب کروڑوں نوجوانوں کو بہائے لے جارہی ہے علما اس پر کوئی علمی بات کرتے کبھی نظر نہیں آتے۔
ہمارا عہد دنیا کی پرستش کا عہد ہے۔ اسلام میں دنیا کی جتنی مذمت آئی ہے شاید ہی دنیا کے کسی مذہب میں دنیا کی ویسی مذمت کی گئی ہو۔ قرآن کہتا ہے کہ دنیا ’’متاع قلیل‘‘ اور دھوکے کی ٹٹی یا Smoke Screen ہے۔ رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک بار صحابہ کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں بکری کا ایک مرا ہوا بچہ پڑا ملا۔ رسول اکرمؐ اسے دیکھ کر ٹھیر گئے۔ صحابہ بھی کھڑے ہوگئے۔ رسول اکرمؐ نے صحابہ سے کہا تم میں سے کوئی ہے جو بکری کے اس مرے ہوئے بچے کو خریدنا چاہے۔ صحابہ نے کہا کہ ایک تو یہ بچہ ہے اوپر سے مرا ہوا ہے۔ اِسے تو ہم مفت بھی لینا پسند نہیں کریں گے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا یاد رکھو دنیا بکری کے اس مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ہے۔ رسول اکرمؐ نے ایک بار فرمایا کہ اگر دنیا مچھر کے پَر کے برابر بھی اہم ہوتی تو کافروں اور مشرکوں کا اس میں کوئی حصہ نہ ہوتا۔ لیکن پوری امت مسلمہ کا یہ حال ہے کہ قرآن نے جس دنیا کو ’’متاع قلیل‘‘ اور ’’دھوکے کی ٹٹی‘‘ کہا۔ جس دنیا کو رسول اکرمؐ نے بکری کے مرے ہوئے بچے بلکہ مچھر کے پَر سے بھی زیادہ حقیر کہا مسلمانوں کی عظیم اکثریت اس دنیا کی محبت میں گرفتار ہے۔ کسی کو دنیا کے مال سے محبت ہے اور اس کے لیے رات دن ایک کیے ہوئے ہے۔ کوئی طاقت کی پرستش میں مبتلا ہے، کوئی عہدے اور منصب کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ کوئی شہرت کے لیے جان مار رہا ہے۔ یہ ایک ہولناک صورت حال ہے، مگر اس سے بھی زیادہ ہولناک صورت حال یہ ہے کہ علما، مذہبی جماعتیں، مذہبی طبقات، دانش ور، کالم نگار دنیا کی پرستش کی مذمت اور اس کی مزاحمت کا درس دیتے نظر نہیں آتے بلکہ انہوں نے معاشرتی اور تہذیبی صورت حال کو جوں کا توں قبول کرلیا ہے۔ دیکھا جائے تو مسلمانوں کی عظیم اکثریت مغرب اور دنیا کی مزاحمت کے حوالے سے ایمان کے کمزور ترین درجے سے بھی نیچے کھڑی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مسلم دنیا کے تمام معاشرے مغرب اور دنیا کی پرستش میں مبتلا ہیں۔ اس حوالے سے ان کے دل میں کوئی خلش موجود نہیں۔ وہ مغرب اور دنیا کی پرستش اور زندگی کو ہم معنی خیال کرتے ہیں۔ ہم نے گزشتہ چالیس سال میں کبھی کسی عالم دین یا خطیب کو دنیا کی پرستش کی مذمت میں کچھ کہتے یا لکھتے نہیں دیکھا۔
ہم میں سے اکثر مغرب اور دنیا کا طواف کرنے والے ہیں بلکہ مغرب نے تو دنیا پرستی کو ایک مذہب بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس مذہب کا خدا سرمایہ ہے، اس مذہب کا پیغمبر خود مغرب ہے اس مذہب کی نیکی امیر ہونا ہے۔ اس مذہب کی جنت امریکا اور یورپ یا ان سے ملتے جلتے معاشرے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ کا یہ تجربہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے کراچی اور حیدر آباد میں اتنی طاقت حاصل کرلی کہ پوری صحافت، پوری سیاست اور پورے معاشرے نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی مزاحمت سے توبہ کرلی۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کا خوف کراچی سے لاہور تک مار کرتا تھا۔ صرف کراچی کے صحافی ہی نہیں لاہور کے صحافی بھی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی مزاحمت سے گریز کرتے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ حسن نثار اور ایم کیو ایم کے مڈل کلاس ہونے کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔ مجیب الرحمن شامی ایم کیو ایم کے ڈسپلن پر اش اش کرتے تھے۔ ارشاد احمد حقانی ملک کے ممتاز ترین کالم نگار تھے اور حکمران طبقے میں ان کی جڑیں گہری تھیں، مگر وہ بھی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف کچھ نہیں لکھتے تھے۔ ایک بار ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگے بھائی میں نے سنا ہے الطاف حسین اپنے اوپر تنقید کرنے والوں کو مروا دیتا ہے۔ ایم کیو ایم کے 30 سال پر محیط دور میں صرف تکبیر اور روزنامہ جسارت نے ایم کیو ایم پر تنقید کی۔ مگر تکبیر کا معاملہ یہ تھا کہ وہ ایجنسیوں کے سائے میں کھڑا تھا البتہ جسارت اور اہل جسارت کا صرف اللہ ہی مالک تھا۔ سیاسی دائرے میں جماعت اسلامی بالخصوص سید منور حسن نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی مزاحمت کا حق ادا کیا۔ سید منور حسن تو ایم کیو ایم پر گفتگو شروع ہی یہاں سے کرتے تھے کہ ایم کیو ایم سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ وہ دہشت گرد تنظیم ہے۔ خدا کا شکر ہے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی مزاحمت کے باوجود سید منور حسن بھی زندہ رہے اور اہل جسارت پر بھی آنچ نہ آئی۔ لیکن جماعت اسلامی اور جسارت کی مزاحمت کا دوسری سیاسی جماعتوں اور دوسرے اخبارات پر رّتی برابر بھی اثر نہ ہوا۔ معاشرہ خاموشی کے ساتھ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے مظالم سہتا رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو ظالم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا وہ ظلم اور ظالم دونوں کی مدد کرتا ہے۔
چلیے مغرب، دنیا پرستی اور ایم کیو ایم کو بہت بڑے بڑے چیلنجز ہیں۔ ہمارا حال تو یہ ہو گیا ہے کہ ٹی وی کی اسکرین پر جو ہولناک بگاڑ ہمیں نظر آتا ہے ہم اس کی بھی مزاحمت نہیں کرتے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ ملک کی معروف ڈراما نگار حسینہ معین نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اب پاکستان میں ایسا ڈراما لکھا جارہا ہے جسے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔ امجد اسلام امجد اس سے بھی آگے چلے گئے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اب ہمارے بعض ڈرامے ایسے ہوتے ہیں جنہیں شوہر اور بیوی بھی ایک ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ روزنامہ ڈان میں ایک ڈراما نگار نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ہمارے ڈرامے کو این جی اوز نے اُچک لیا ہے۔ اب این جی اوز ہمارے ڈراموں کے موضوعات طے کررہی ہیں۔ ہم نے اس سلسلے میں ایک مضمون لکھا تو ملک کے ایک ممتاز عالم دین کا ہمارے پاس فون آیا۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ نے جو لکھا وہ بہت اہم ہے اور میں نے آپ کا مضمون پڑھ کر ملک کے ایک بڑے عالم دین کو فون کیا اور ان سے کہا کہ آئیے اس موضوع پر ہم اور آپ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہیں مگر ان عالم دین نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ ایک وقت تھا کہ ٹی وی کی انائونسر سے دوپٹا اُتار دیتی تھی تو ٹی وی پر مظاہرہ ہوجاتا تھا مگر اب معاشرے کی مزاحمت کا یہ حال ہے کہ پانی سر سے گزر گیا ہے اور معاشرہ خاموش ہے۔