غزل ہماری تہذیب کی ایک زندہ، بڑی اور توانا علامت ہے۔ برصغیر کی ملت اسلامیہ نے گزشتہ دو ڈھائی سو سال میں اپنے علم اور ذہانت کا بڑا حصہ دو چیزوں پر صرف کیا ہے۔ ایک مذہبیات اور دوسرا شاعری۔ شاعری کے دائرے میں اگرچہ کئی اصناف موجود ہیں مگر غزل کی روایت کے مقابلے پر کسی اور صنف کی روایت کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ غزل کی شاعری ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اس طرح شامل اور اس سے اس طرح متعلق ہے کہ بسا اوقات زندگی اور غزل کی روایت ہم معنی معلوم ہوتی ہے۔
غزل کے معنی عورتوں سے گفتگو کے ہیں۔ لیکن غزل نے تصوف کی پوری روایت کو جذب کیا ہے اور الٰہیات سے سیاسیات تک زندگی کے کسی دائرے کو اپنے اظہاری سانچے سے باہر نہیں رکھا۔ عورتوں سے گفتگو کے معنی بھی معمولی نہیں۔ عورت اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت کی علامت ہے۔ چناں چہ ایک سطح پر عورت سے گفتگو کا مطلب خدا کی صفت رحمت سے ہم کلام ہونا ہے۔ دوسری سطح پر عورت انسانی وجود کی کلّیت کی علامت ہے۔ چناں چہ اس دائرے میں عورت سے گفتگو کے معنی اپنے وجود کی کلّیت کی تلاش، اس کی بازیافت اور اس سے ہم کلام ہو کر من و تو کا فرق مٹادینا ہے۔ ایک اور سطح پر عورت محبوب ہے، بیوی اور مرد کا نصف بہتر ہے لیکن غزل کا تنوع حیرت انگیز ہے۔
انسانی تہذیب کے دائرے میں سونے کے لیے استعمال ہونے والے تکیے کا کیا مقام ہے؟ لیکن آج سے چالیس پچاس سال پہلے سونے کا تکیہ بھی غزل کی روایت کے دائرے میں سانس لیتا تھا۔ اس لیے کہ ہماری معاشرت میں عام رواج تھا کہ تکیوں پر نہایت شوق کے ساتھ غزل کے اشعار کاڑھے جاتے تھے۔ یہ اشعار عام طور پر نیند اور خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ اس زمانے میں خطوط میں اشعار کا استعمال عام تھا۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی شخص اپنے دوست کو خط لکھے اور اس میں غزل کا کوئی نہ کوئی شعر استعمال نہ کرے۔ چالیس پچاس سال پہلے تک شادیوں میں سہرے لکھنے کا رواج عام تھا۔ سہرا اگرچہ نظم کی صورت میں ہوتا تھا مگر اس کے اظہاری سانچے پر غزل کی روایت کا گہرا اثر تھا۔ اس لیے کہ ہماری شاعری میں نظم کے ایسے نمونے نایاب تھے جن کا تعلق روزمرہ کی زندگی سے ہو۔ برصغیر نے خطابت کی بڑی روایت پیدا کی ہے اور کسی زمانے میں تقریروں میں غزل کے اشعار کا استعمال خطابت کا حسن سمجھا جاتا تھا۔ قطعہ شاعری کی ایک صنف ہے مگر ہمارے یہاں غزل کی روایت اتنی توانا ہے کہ قطعہ بند غزلوں کا رواج عرصے سے چلا آرہا ہے۔ آج ہمارے اردو اخبارات میں جو قطعات شائع ہوتے ہیں وہ قطعات ہونے کے باوجود غزل کی فضا میں سانس لیتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان نے گزشتہ 80 سال میں اگر اپنی فلموں میں پانچ لاکھ گیت تخلیق کیے ہیں تو ان میں سے ایک گیت بھی ایسا نہیں ہوگا جس کی پشت پر غزل کی روایت نہ کھڑی ہو۔ ہماری تہذیب میں مشاعرے کی روایت اپنی اصل میں غزل خوانی کی روایت ہے اور اس روایت کے ذریعے کروڑوں انسانوں تک شاعری اور تہذیب کا ابلاغ ممکن ہوا ہے۔ ہماری تہذیب میں غزل کی بڑی روایت پیدا نہ ہوئی ہوتی تو ہمارے یہاں دنیا کے بہت سے معاشروں کی طرح مشاعرے کا ادارہ موجود نہ ہوتا۔ غزل کا کمال یہ ہے کہ اس نے اپنی بلند خوانی اور گائیکی کے اسالیب تک پیدا کرکے دکھائے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ غزل کی مقبولیت کا راز کیا ہے؟
انسانی تہذیب کے طویل سفر میں شاعری انسانی حافظے پر حاوی رہی ہے اور نثر کسی زبان کے دائرے میں بھی اس حوالے سے شاعری کا مقابلہ نہیں کرسکی ہے۔ اس کی ایک وجہ شاعری کا ’’اجمال‘‘ ہے۔ اس کی دوسری وجہ شاعری کا آہنگ اور موسیقیت ہے۔ اس کی تیسری وجہ شاعری میں جذبے اور احساس کی فراوانی ہے۔ ان تینوں دائروں میں غزل کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ غزل کی اجمال پسندی کا یہ عالم ہے کہ نثر جو بات پچاس سطروں اور نظم جو بات بیس مصرعوں میں کہتی ہے، غزل وہ بات دو مصرعوں میں کہہ دیتی ہے۔ اردو ادب کے ممتاز نقاد اور شاعر فراق گورکھ پوری نے غزل کو انتہائوں کا سلسلہ کہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ غزل کی صنف خیال، تجربے، جذبے اور احساس کو اس کی انتہائی صورت میں ظاہر کرنے کے رجحان کی حامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نظم جہاں ختم ہوتی ہے غزل وہاں سے اپنا آغاز کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں غزل سے بڑی شاعری کی صنف کا تصور محال ہے۔ غزل کا جلال و جمال اور کمال چھوٹی بحروں میں جادو بن جاتا ہے۔ اس لیے چھوٹی بحر میں غزل لکھنا طویل بحر میں غزل لکھنے سے بہت زیادہ مشکل ہے۔ لیکن غزل کی عظمت صرف یہی نہیں ہے۔ غزل کی عظمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ غزل کی دو مصرعوں میں مصرعہ اولیٰ انفس اور مصرعہ ثانی آفاق کی علامت ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو غزل کے دو مصرعوں میں انفس و آفاق کی وسعت اور کلّیت سما جاتی ہے۔ غزل کی مقبولیت میں اس چیز کا بھی حصہ ہے جسے عرفِ عام میں تغزّل کہا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تغزّل کا مفہوم کیا ہے؟ ناصر کاظمی نے کبھی یہ بات اردو کے سب سے بڑے نقاد محمد حسن عسکری سے پوچھی تھی۔ عسکری صاحب نے ناصر کاظمی کے سوال کا جواب تو نہیں دیا البتہ یہ ضرور کہا کہ تغزّل کے معنی متعین کرنا اہم ہے۔ بعض لوگ تغزّل سے مراد غزل کی موسیقت لیتے ہیں۔ لیکن مولانا حالی نے تغزّل کے بارے میں زیادہ بنیادی بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تغزّل غزل کا عشقیہ لب و لہجہ ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عشقیہ لب و لہجے کا تعلق عشقیہ تجربے اور عشقیہ شاعری سے ہے جب کہ غزل کا کمال یہ ہے کہ اگر کسی شاعر کی جڑیں غزل کی روایت میں پیوست ہوں تو سماجی اور سیاسی نوعیت کی غزل میں بھی تغزّل پیدا کرسکتا ہے۔ یعنی غزل کی کائنات ایسی ہے کہ اس کے دائرے میں سیاسی اور سماجی مواد میں بھی عشقیہ رنگ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عشقیہ لب و لہجہ اپنی ’’وارفتگی‘‘ سے پہچانا جاتا ہے اور غزل کی سرزمین میں وارفتگی کے ایک دو نہیں ہزاروں چشمے اُبل رہے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ شاعر غزل کی روایت کو واقعتا جذب کرلے۔ اس کے بعد وہ جو کچھ کہے گا وہ خودبخود تغزل سے آراستہ ہوجائے گا۔ عہد حاضر میں اس کی ایک اچھی مثال فیض ہیں۔ فیض کے یہاں اگرچہ بہت سے روایتی لفظوں کے معنی مسخ ہوگئے ہیں مگر ان کی غزلوں کے مواد کا ایک حصہ سیاسی ہے، لیکن چوں کہ فیض نے غزل کی روایت کو جذب کیا ہے اس لیے ان کی سیاسی غزلوں کے مواد میں بھی تغزل کا رنگ موجود ہے۔ لیکن غزل کی اس غیر معمولی اہمیت کے باوجود بلکہ شاید اسی کی وجہ سے غزل پر بہت حملے بھی ہوئے ہیں۔
معروف ترقی پسند نقاد اختر حسین رائے پوری نے کہا ہے کہ غزل کی ہئیت عہد بادشاہی کی یادگار ہے۔ غزل کا مطلع بادشاہ اور اس کے باقی شعر درباریوں کی علامت ہیں۔ غزل کے نظام میں شاعر کا مقام سب سے کمتر ہے اور اس کا ثبوت غزل کا مقطع ہے جس میں شاعر کا نام یا تخلص آتا ہے۔ جوش ملیح آبادی نے غزل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ غزل میں خیالات اور جذبات کے بجائے الفاظ شاعر کی رہنمائی کرتے ہیں۔ لیکن غزل پر سب سے بڑا حملہ کلیم الدین احمد نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ غزل ایک نیم وحشی صنف سخن ہے اور اس میں قوتِ تعمیر کی کمی ہے۔ کلیم صاحب نے غزل کو نیم وحشی صنف سخن کہا تو اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ اس میں نظم کی طرح کوئی مربوط خیال نہیں پایا جاتا بلکہ غزل کا ہر شعر موضوع، معنی اور کیفیت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ چناں چہ غزل انتشار خیال کی علامت ہے۔ لیکن کلیم صاحب نے یہ بات اس لیے کہی کہ وہ غزل کیا نظم کی تہذیبی معنویت سے بھی آگاہ نہیں تھے۔ سلیم احمد نے اپنے ایک مضمون میں نظم اور غزل کی تہذیبی بنیادوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ نظم کی صنف روایتی مغربی تہذیب سے آئی ہے اور مغربی تہذیب کا اصل اصول کثرت فی الوحدت ہے۔ یعنی مغربی تہذیب کثرت سے وحدت کی طرف سفر کرتی ہے۔ اس بات کو عام الفاظ میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ مغربی تہذیب کہتی ہے کہ زندگی کی یہ کثرت صرف کثرت نہیں بلکہ اس کا اصولِ وحدت سے گہرا تعلق ہے۔ سلیم احمد کے بقول نظم کی ہئیت اسی اصول کی علامت ہے۔ اس کے برعکس اسلامی تہذیب کا بنیادی اصول وحدت فی الکثرت ہے۔ یعنی اسلامی تہذیب وحدت سے کثرت کی طرف سفر کرتی ہے۔ عام الفاظ میں اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ اسلامی تہذیب کہتی ہے کہ میری اساس وحدت ہے مگر یہ وحدت اپنے آپ کو کثرت میں بھی ظاہر کرتی ہے۔ سلیم احمد کے بقول غزل اسی اصول کی ترجمان ہے۔ یعنی کلیم الدین احمد کے نزدیک جو چیز غزل کا تضاد یا انتشار ہے وہ سلیم احمد کے الفاظ میں غزل کا تنوع یا اس کی کثرت ہے۔ سلیم احمد کی یہ تفہیم ایسی ہے کہ اس سے کلیم الدین احمد کیا دنیا کا بڑے سے بڑا نقاد بھی استفادہ کرسکتا ہے۔
اردو غزل پر ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا ہے کہ فارسی غزل کا چربہ ہے۔ لیکن سلیم احمد نے اپنے ایک اور مضمون میں اس خیال کی ایسی مدلل تردید کی ہے کہ یہ اعتراض باقی نہیں رہتا۔ سلیم احمد نے کہا ہے کہ فارسی غزل کا ایک اہم کردار ’’رند‘‘ ہے اور اس کی ایک اہم خصوصیت مستی و سرشاری ہے اور یہ کردار اپنی مستی و سرشاری پر زندگی کے عام مطالبات کو غالب نہیں آنے دیتا۔ اس کے برعکس اردو غزل کی روایت زندگی کے عام تجربات کو حقارت سے ٹھکراتی نہیں بلکہ ان کا احترام کرتی ہے۔ سلیم احمد کے بقول فارسی غزل جذبے کو بے پناہ قوت اور توانائی کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر جذبہ دوسرے جذبے سے جدا ہو کر ایک مکمل اکائی بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس اردو غزل کئی جذبوں کو ایک دوسرے کے تقابل میں دیکھتی ہے۔ اس سے اردو غزل میں ایک سوچتا ہوا لب و لہجہ پیدا ہوا ہے جو فارسی غزل میں ناپید ہے۔ غزل کی کائنات میں زندگی بسر کرنے کا اثر کیا ہوسکتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ فراق نے کائنات کو ایک غزل قرار دیا ہے۔