کتاب

انسانی تاریخ کو دو ہی چیزوں نے تبدیل کیا ہے۔
(1) کتاب
(2) اور انسانی شخصیت
دنیا کے سب سے بڑے انقلابی انسان انبیا و مرسلین ہیں۔ لیکن تمام اوالعزم انبیا کی پشت پر کوئی نہ کوئی کتاب کھڑی ہے۔ خدا کے بعد رسول اکرمؐ کی سب سے زیادہ اچھی تعریف سیدہ عائشہؓ نے کی ہے۔ آپ سے جب پوچھا گیا کہ رسول اکرمؐ کے اخلاق کیسے تھے تو آپؓ نے فرمایا کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا۔ یعنی رسول اکرمؐ کے اخلاق ویسے ہی تھے جیسے کہ قرآن مجید فرقان حمید میں بیان کیے گئے ہیں۔ ایک صوفی نے رسول اکرمؐ کی ذات اقدس کے بارے میں ایک اچھی بات کہی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ رسول اکرمؐ کا کردار قرآن کے مطابق نہیں تھا بلکہ دراصل آپؐ کی ذات مبارکہ قرآنی حقائق سے بنی ہوئی تھی۔ یعنی قرآنی حقائق رسول اکرمؐ کی ذات کے تعمیری عناصر یا Building Blocks ہیں۔ چناں چہ آپؐ محمدؐ بھی ہیں اور چلتا پھرتا قرآن بھی۔ اسلامی تہذیب کا بے مثال توازن قرآن مجید اور رسول اکرمؐ کے اسی تعلق کا حاصل ہے۔ عیسائیت کی تاریخ میں اصل اہمیت سیدنا عیسیٰؑ کی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عیسائیوں نے سیدنا عیسیٰؑ کو انجیل سے جدا کرلیا۔ چناں چہ عیسائیت کی تاریخ میں ایک ایسا عدم توازن در آیا جو مغرب میں عیسائیت کی بیخ کنی کا سبب بن گیا۔
کتاب کی اس اہمیت کا اثر غیر آسمانی کتب پر بھی پڑا ہے۔ یونانی فلسفے کی تاریخ عجیب و غریب ہے۔ سقراط کی شخصیت نے افلاطون پیدا کیا اور افلاطون کی کتابوں نے ارسطو کو جنم دیا۔ خود سقراط کی شخصیت الہامی دلچسپی کا مرکز صرف افلاطون ہے۔ افلاطون کی فکر کے بارے میں مغرب کے ممتاز فلسفی وائٹ ہڈ نے ایک عجیب بات کہی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ مغرب کا سارا فلسفہ افلاطون کی فکر پر ایک حاشیے کے سوا کچھ نہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ ایک مبالغہ آمیز بیان ہے اور وہ غلط نہیں کہتے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ افلاطون کی فکر اتنی بڑی اور اتنی اہم ہے کہ اس کو بیان کرنے کے لیے مبالغے کا سہارا لینا ناگزیر ہے۔ ایسا ہی تبصرہ دیوان غالب کے بارے میں بھی کیا گیا ہے۔ عبدالرحمن بجنوری نے کہا ہے کہ ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں۔ وید اور دیوان غالب۔ عبدالرحمن بجنوری کا یہ بیان بھی مبالغہ آمیز ہے مگر اس کے بغیر دیوان غالب کی اہمیت واضح نہیں ہوسکتی۔ مولانا روم کی شاعری غالب کی شاعری سے ہزار گنا بڑی ہے۔ اسی لیے مولانا کی شاعری کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ فارسی کا قرآن ہے۔ میر تقی میر کے دیوان کی عظمت کو اردو کے تمام بڑے شاعروں نے تسلیم کیا ہے۔ ناسخ نے کہا ہے۔
ناسخ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول غالب
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
سودا نے کہا ہے
سودا تو اس زمیں میں غزل در غزل ہی لکھ
ہونا ہے تجھ کو میرے استاد کی طرح
اور غالب نے اعتراف کیا ہے
ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
خود میر نے اپنے دیوان کے بارے میں کہا ہے
جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز
تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا
میر کے اس شعر میں بھی مبالغہ ہے مگر ایسا مبالغہ جس کے بغیر میر کے دیوان کی اہمیت عیاں نہیں ہو سکتی۔ روس کے انقلاب کے سلسلے میں کارل مارکس کی کتاب داس کیپتال کی اہمیت عیاں ہے۔ اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ اقبال نے فرمایا ہے کہ مارکس پیغمبر تو نہیں ہے مگر اس کی بغل میں ایک کتاب ہے۔ چین کے انقلاب کے سلسلے میں مائو کی Red Book کی اہمیت واضح ہے۔ مولانا مودودیؒ کی شخصیت کا بنیادی حوالہ بھی ایک کتاب یعنی تفہیم القرآن ہے۔ اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ مولانا سے ایک بار پوچھا گیا کہ آپ کی کون سی کتاب زندہ رہے گی تو مولانا نے فرمایا تفہیم القرآن۔ اقبال کی تاریخی اہمیت بھی ان کی انقلابی شاعری پر مبنی کتب کے حوالے سے ہے۔ اقبال کی کتب کے نام بھی انقلابی اور انبیا کی یاد دلانے والے ہیں مثلاً ضرب کلیم، زبور عجم، کتاب کی اہمیت کسی اور پر کیا لیبیا کے سابق صدر کرنل معمر قذافی تک پر عیاں تھی۔ چناں چہ انہوں نے Red Book کی طرز پر ایک Green Book تیار کی ہوئی تھی۔ حالاں کہ ان کی اس کتاب میں نہ کچھ Green جیسا تھا نہ کچھ Book جیسا تھا۔ کتاب کے بارے میں ہمیں یہ گفتگو اقبال کے اس مشہور زمانہ شعر تک پہنچا دیتی ہے جس کا حوالہ کتاب پر گفتگو کرتے ہوئے بار بار دیا جاسکتا ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
اقبال کے اس شعر میں تین اہم باتیں موجود ہیں۔ ایک یہ کہ دنیا کی ساری ترقی کتاب کا حاصل ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اقبال مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ تمہیں کتاب سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا کیوں کہ تم کتاب سمجھنے والے نہیں رہے ہو۔ اس شعر کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اقبال مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ تمہیں کتاب سے فیض نہیں پہنچ سکتا کیوں کہ تم کتاب کو پـڑھتے تو ہو مگر تم کتاب پڑھ کر ایک نئی کتاب تخلیق کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کتاب کے ساتھ انسان کے تعلق کی کیا صورت ہے؟۔
اس سوال کا جواب واضح ہے۔ کتاب کے ساتھ انسان کے تعلق کی چار صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ انسان کتاب پڑھے، دوسری یہ کہ کتاب کو سمجھے، تیسری یہ کہ کتاب کو محسوس اور جذب کرے اور چوتھی یہ کہ کتاب کو پڑھ کر، جذب یا سقم کرکے کچھ نیا تخلیق کرے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان باتوں کا مفہوم کیا ہے؟ دنیا میں کتاب پڑھنے والوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو محض مشغلے یا وقت گزاری کے لیے کتاب پڑھتی ہے۔ بلاشبہ ایسے لوگ ان لوگوں سے بہت بہتر ہیں جو سرے سے کتاب پڑھتے ہی نہیں لیکن کتاب پڑھ کر وقت گزارنے سے وقت تو اچھا گزر جاتا ہے مگر اس مطالعے سے زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔ چناں چہ ضروری ہے کہ انسان کتاب کا سنجیدہ قاری بنے اور انسان سنجیدہ قاری اس وقت کہلاتا ہے جب کتاب کا مطالعہ اس کے وجود میں تقاضا بن جائے۔ وجودی تقاضے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو دن میں دو یا تین بار کھانا کھانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور کھانے کے وقت پر ہمیں بھوک لگتی ہے اور جب تک ہم کھانا نہ کھالیں مطمئن نہیں ہوتے۔ ٹھیک اسی طرح انسان کو ’’مطالعے کی بھوک‘‘ محسوس ہونی چاہیے اور جب تک وہ مطالعہ نہ کرلے اسے چین نہیں آنا چاہیے۔ کتاب کا سنجیدہ قاری ہونے کا ایک مفہوم کتاب کی نوعیت پر مطلع ہونا بھی ہے۔ بعض کتابیں چیونگم کی طرح ہوتی ہیں۔ ان میں نہ ذائقہ ہوتا ہے نہ غذائیت، بس انہیں کچھ دیر تک چبایا جاسکتا ہے۔ اور ان سے خیالات کے چھوٹے چھوٹے اور چند لمحوں تک باقی رہنے والے غبارے بنائے جاسکتے ہیں کہ کچھ کتابیں چاکلیٹ کی طرح ہوتی ہیں۔ ان میں ذائقہ تو ہوتا ہے مگر نہ ان سے پیٹ بھرتا ہے اور نہ ضروری غذائی اجزا حاصل ہوتے ہیں۔ البتہ کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جن میں ذائقہ بھی ہوتا ہے۔ ان سے پیٹ بھی بھرتا ہے اور ان سے غذائیت بھی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن کتاب سے استفادے کے لیے صرف اسے پڑھنا کافی نہیں۔ اسے سمجھنا بھی ضروری ہے۔ کتاب کو سمجھنے کا مفہوم کتاب کے معنی اور اس کے ممکنات سے آگاہ ہونا ہے۔ اس سلسلے میں کتاب کو بار بار یا ایک سے زیادہ مرتبہ پڑھنا مفید ہوتا ہے۔ اچھی کتاب کیا اچھے شعر کے سلسلے میں بھی یہ ہوتا ہے کہ کبھی اس کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے، کبھی اس کے بیان کے اسرار قاری پر عیاں ہوتے ہیں اور کبھی اس کے ہجے کی معنویت انسان پر آشکار ہوتی ہے۔ ہر اچھی کتاب خیال، تجزیے، مشاہدے اور معنی کا جغرافیہ ہوتی ہے۔ چناں چہ کتاب کو ایک جغرافیے کی طرح پڑھا جاسکتا ہے۔ لیکن کتاب صرف سمجھنا ہی کافی نہیں۔ کتاب کے ’’معلوم‘‘ کو قاری کے ’’محسوس‘‘ میں تبدیل ہوجونا چاہیے۔ یعنی قاری کو لگے کہ اس نے صرف کتاب پڑھی ہی نہیں اسے بسر بھی کیا ہے۔ اس سلسلے میں کتاب کے بنیادی نکات کا حافظہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لاکھوں لوگ تجربے سے جانتے ہیں کہ غزل کے اشعار میں یاد رہ جانے کی غیر معمولی صلاحیت ہے۔ چناں چہ بعض لوگوں کو غزل کی ہزاروں یا سیکڑوں اشعار یاد ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غزل کی شاعری ہمارے لیے صرف ’’معلوم‘‘ نہیں رہتی ’’محسوس‘‘ بھی بن جاتی ہے۔ نثر کسی کتاب کے بنیادی نکات بھی اگر انسان کے زندہ حافظے کا حصہ بن جائیں تو ان کا اثر بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔
جب کتاب کے ساتھ تعلق کی یہ تین صورتیں پیدا ہوجاتی ہیں تو انسان میں کتاب پڑھ کر کچھ نیا تخلیق کرنے کی صلاحیت ازخود پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ ہر کتاب پڑھنے والا شاعر، ادیب یا مصنف بن جاتا ہے لیکن اگر کوئی شخص اگر کتاب پڑھ کر اچھی قاری، اچھا مقرر، اچھی گفتگو کرنے والا، اچھا مضمون یا اچھا خط لکھنے والا بن جاتا ہے تو یہ بھی تخلیقی زندگی ہی کی ایک سطح ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ لوگ کتاب کیوں نہیں پڑھتے؟
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ کتاب پڑھنے کو ایک بور، بوجھل یا انتہائی سنجیدہ کام سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ کتاب میں کھیل ہے، تماشا ہے، مہم جوئی ہے، سنسنی خیزی ہے، لطف ہے۔ کتاب انسان کو ماضی میں لے جاسکتی ہے، کتاب انسان کو مستقبل میں داخل کرسکتی ہے، چاند تاروں کی سیر کراسکتی ہے، زمین کی تہوں میں سفر کراسکتی ہے، کتاب انسان کو عظیم انسانوں سے ملاتی ہے، یہاں تک کہ کتاب انسان کو خود اس کی ذات سے ملاتی ہے۔ کتاب کے ذریعے انسان اپنے دل سے آگاہ ہوتا ہے، ذہن سے واقف ہوتا ہے، اپنی روح اور نفس پر مطلع ہوتا ہے، مگر چوں کہ کتاب کے یہ تمام فائدے لوگوں کو معلوم نہیں ہوتے اس لیے وہ کتاب کے مطالعے کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ کتاب نہ پڑھنے کی ایک وجہ مطالعے کی عادت کا نہ ہونا ہے۔ لیکن مطالعہ اتنی دلکش چیز ہے کہ محص دو تین مہینے کی کوشش سے مطالعے کی عادت زندگی کا حصہ بن جاتی ہے اور مطالعے کی یہ عادت انسان کو ’’زیرو‘‘ سے ’’ہیرو‘‘ بناسکتی ہے۔ لوگ بجا طور پر شکایت کرتے ہیں کہ مسلم معاشروں میں کتاب پڑھنے کا رجحان کم ہے۔ حالاں کہ مسلمانوں کو دنیا کی دوسری امت سے کہیں زیادہ آسانی کے ساتھ کتاب کے مطالعے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے دنیا میں علم کی سب سے بڑی روایت پیدا کی ہے۔ ہم نے دنیا میں سب سے بڑا مذہبی علم پیدا کیا ہے۔ شاعری کی سب سے عظیم کائنات تخلیق کی ہے۔ ہمارے اجداد نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں محیرا العقول کارنامے انجام دیے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کی عظیم اکثریت اپنے اس عظیم ماضی سے آگاہ ہی نہیں ہے۔ آپ مسلمانوں کو ان کی عظیم میراث کا شعور عطا کریں اور اس سے منلک کریں اور پھر دیکھیں مسلمان کیا کرتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا مسئلہ صرف یہ نہیں ہے مسلمانوں کو یہ بتانے کی بھی ضرورت ہے مسلمان دنیا کی قیادت کرنے کے لیے برپا کیے گئے ہیں اور انہوں نے تقوے اور علم کی بنیاد پر بارہ سو سال تک دنیا کی قیادت کی ہے اور وہ آئندہ بھی ایسا کرسکتے ہیں کیوں کہ امت مسلمہ، امت وسط ہے اور دنیا کی تقدیر مسلمانوں کی تقدیر کے ساتھ وابستہ ہے۔

Leave a Reply