اقبال نے اپنی ایک نظم میں مولانا روم سے سوال کیا ہے کہ جہاد کا جواز کیا ہے؟ اس کی روح کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا نے فرمایا کہ دوست کے آئینے پر دوست کا پتھر مار۔ یعنی صرف اللہ کے حکم سے صرف اللہ ہی کے لیے دوسرے انسان کو قتل کر تاکہ اللہ کی کبریائی اور حق کی بالادستی کا حق ادا ہوسکے۔ انسانی تاریخ میں کل بھی جنگ کا یہی جواز تھا اور آج بھی جنگ کا یہی جواز ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی پیدا کی ہوئی مخلوق ہے اور اس کی جان پر صرف اللہ ہی کا حق ہے۔ چناں چہ اس حق کو صرف اللہ ہی کے لیے سلب کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جنگوںکی تاریخ میں جنگ کا یہ جواز کم ہی بروئے کار آیا ہے۔ صرف مسلمان ہیں جنہوں نے اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں اس اصول کی پیروی کی ہے۔ تاہم جنگ کے اصل اصول سے انحراف کے باوجود ماضی میں جنگوں کی ایک اخلاقیات تھی جو جنگ کی ہولناکی کو ایک حد سے بڑھنے نہیں دیتی تھی۔ مثلاً ماضی میں جنگ بیش تر صورتوں میں میدان جنگ تک محدود ہوتی تھی۔ جس کو جنگ لڑنی ہوتی تھی میدان جنگ میں نکل آتا تھا اور دادِ شجاعت دیتا تھا۔ لیکن جو لوگ میدان جنگ میں موجود نہیں ہوتے تھے انہیں شریک جنگ یا Combatant نہیں سمجھا جاتا تھا اور ان کی جان محفوظ ہوتی تھی۔ اصول تھا کہ عورتوں، بچوں اور ضعیفوں کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ کھڑی فصلیں تباہ نہیں کی جائیں گی۔ پانی کے ذخیرے میں زہر نہیں ملایا جائے گا۔ جنگ میں ہتھیار ڈالنے یا میدان جنگ سے فرار ہونے والے کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ عبادت گاہ خواہ کسی کی ہو اسے نقصان نہیں پہنچایا جائے گا اور عبادت گاہ میں موجود لوگوں سے تعارض نہیں کیا جائے گا۔ پرانے زمانے میں اگرچہ شب خون مارا جاتا تھا مگر اسے پسند نہیں کیا جاتا تھا لیکن عہد حاضر میں جنگ کی نوعیت، معنویت اور اس کے اثرات یکسر تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں ایک اندازے کے مطابق دس کروڑ لوگ ہلاک ہوئے۔ اس سے بھی اہم بات یہ تھی کہ ہلاک ہونے والوں کی اکثریت عام افراد پر مشتمل تھی۔ اور یہ لوگ میدان جنگ میں نہیں اپنے شہروں، قصبوں اور دیہات میں ہلاک ہوئے تھے۔ اصول ہے کہ جدید جنگ میں ایک شخص ہلاک ہوتا ہے تو تین زخمی ہوتے ہیں اس کے معنی یہ ہوئے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں 30 کروڑ افراد زخمی ہوئے۔ املاک کی بے پناہ تباہی اس کے سوا تھی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ فی زمانہ جنگ کا دائرہ اتنا وسیع ہوگیا ہے کہ اس نے پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اب جنگ ہوتی ہے تو میدان جنگ سے کہیں زیادہ اہم بڑے بڑے شہر اور ان کی فوجی اور تنصیبات ہوتی ہیں۔ اس
صورت حال کو دیکھا جائے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ اب جنگ کی مابعد الطبیعیاتی اور اخلاقی بنیادیں کیا عقلی بنیادیں بھی موجود نہیں، حالاں کہ ہمارے زمانے کو اپنی عقل پرستی پہ بڑا ناز ہے اور ہمارے زمانے کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ انسان جتنا عاقل و بالغ اب ہوا ہے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ لیکن ہمارے زمانے کی جنگوں کی نوعیت بتارہی ہے کہ عصر حاضر کی کم و بیش تمام جنگیں اندھی نفرت، غصے اور لایعنی قومی خود پسندی کے زیر سایہ لڑی جارہی ہیں۔ اگرچہ جاپان کے خلاف ایٹم بموں کا استعمال دوسری عالمی جنگ کا حصہ تھا لیکن انسانوں کے خلاف ایٹم بم کا استعمال اس امر کا اعلان تھا کہ ایٹم بم استعمال کرنے والے اپنے دشمن کو اشرف المخلوقات یا انسان کیا کیڑا مکوڑا بھی نہیں سمجھتے اور ان کے نزدیک اپنی مائوں کے بطن میں موجود بچے بھی ان کے دشمن ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو خود ایٹم بم کی ایجاد انسانیت کے خلاف ایک بھیانک سازش ہے۔ اس لیے آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ جب میں سوچتا ہوں کہ ایٹم بم میرے فارمولے کے مطابق بنایا گیا ہے تو مجھے خیال آتا ہے کہ کاش میں آئن اسٹائن کے بجائے ایک موچی ہوتا۔ لیکن آئن اسٹائن کا یہ بیان خود ایک کمزور اخلاقیات کا شاخسانہ ہے۔ اس لیے کہ آئن اسٹائن جس سائنس کا پرچم لیے کھڑا تھا اس کا خدا، مذہب، مابعدالطبیعیات اور اخلاقیات پر ایمان ہی نہیں تھا لیکن ایٹم بم کی ہولناکی صرف اس کے استعمال تک محدود نہ تھی۔ امریکا نے جن شہروں پر ایٹم بم گرایا ان شہروں میں چالیس سال بعد تک معذور بچے پیدا ہوتے رہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عہد حاضر میں جنگ ختم ہونے کے باوجود بھی بہ انداز دیگر چالیس سال تک جاری رہ سکتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عہد حاضر میں جنگ ایک ’’خیال‘‘ بن کر رہ گئی ہے۔ خیال ماضی سے حال اور حال سے مستقبل میں سفر کرتا ہے اور اب جنگ کے اثرات بھی خیال کی طرح وقت کی شاہراہ پر سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے اثرات نے یورپ میں اس بے معنویت کو فروغ دیا جس نے مغرب میں مذہبی فکر کا جنازہ نکال دیا اور انسانی رشتوں کی بنیادیں ہلادیں۔ دو عالمی جنگوں سے کروڑوں مرد ہلاک ہوگئے چناں چہ کارخانوں اور دفاتر میں کام کرنے والوں کا کال پڑ گیا۔ کام کرنے والے مردوں کے اس خلا کو خواتین سے پُر کیا گیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے مغرب کی خواتین گھروں سے نکلیں تو آج تک گھروں کو واپس نہیں ہوسکیں۔ اس صورت حال نے مغرب میں خاندان اور تہذیب کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہیروشیما اور ناگاساکی میں جو کچھ ہوا ایٹم بم کا کیا دھرا تھا لیکن انسان نے فی زمانہ ایسے ہتھیار ایجاد کرلیے ہیں کہ ایٹم بم کے استعمال کے بغیر بھی جنگ انتہائی ہلاکت آفریں ہوسکتی ہے اور خیال کی طرح وقت میں سفر کرسکتی ہے۔ اس کا ایک ثبوت ویت نام، کمبوڈیا اور افغانستان ہے جہاں بچھی ہوئی بارودی سرنگیں جنگ کے خاتمے کے برسوں بعد بھی انسانوں کو ہلاک کرتی رہیں گی۔ عراق پر مسلط کی گئی جنگ بظاہر ختم ہوگئی مگر امریکا کی فوجوں کے انخلا کے بعد بھی عراق سے اس جنگ کی ہلاکت آفرینی کی اطلاعات آتی رہیں۔
عراق میں امریکا کی مزاحمت سنّی آبادی کے علاقوں میں ہوئی۔ ان علاقوں میں فلوجہ سرفہرست تھا۔ چناں چہ امریکا نے فلوجہ کی زمین کے ایک ایک انچ پر اپنے معلوم اور نامعلوم گولے بارود کے ڈھیر لگادیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فلوجہ میں معذور بچوں کی پیدائش میں ہولناک اضافہ ہوگیا۔ فلوجہ کے ڈاکٹروں کے مطابق جنگ سے پہلے فلوجہ میں پندرہ روز میں دو معذور بچوں کی پیدائش رپورٹ ہوتی تھی لیکن جنگ کے بعد فلوجہ میں ہر دن دو معذور بچے پیدا ہونے لگے۔ اہم بات یہ ہے کہ بچوں کی معذوری بھی ہولناک ہے۔ بعض معذور بچوں کا سر عام بچوں کے سر سے بڑا ہونا ہے۔ بعض بچے دو سر لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ کچھ بچے پیدائش کے وقت سرطان میں مبتلا ہوتے ہیں اور بعض بچے ایسے بھی ہوئے ہیں جو بیک وقت کئی طرح کے سرطان میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس صورت حال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکا نے فلوجہ کے مزاحمت کاروں کے خلاف
سفید فاسفورس سمیت انتہائی زہریلے کیمیائی مادے استعمال کیے۔ فلوجہ میں صورت حال اتنی ہولناک ہوئی کہ برطانیہ کے ڈاکٹروں نے عراق کے طبی ماہرین کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ میں درخواست دی کہ عراق میں بچوں کی معذوری میں ہولناک اضافے کی تحقیق کرائی جائے اور فلوجہ کی سرزمین کو کیمیائی مادوں سے پاک کیاجائے۔ اس سلسلے میں خلیج کی پہلی جنگ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اس جنگ کے بعد عراق پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی تھیں، جن کے نتیجے میں عراق میں غذا اور دوائوں کی شدید قلت پیدا ہوگئی اور اس قلت سے دس لاکھ انسان ہلاک ہوگئے۔ ہلاک ہونے والے دس لاکھ انسانوں میں پانچ لاکھ بچے بھی شامل تھے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ خلیج کی پہلی جنگ اپنے خاتمے کے بعد بھی جاری رہی اور اس خاموش جنگ نے ’’چیختی چلاتی جنگ‘‘ سے کہیں زیادہ انسانوں کو ہلاک کیا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ تاریخ چنگیز خان کو ’’درندہ‘‘ کہتی ہے اور چنگیز خان سے کہیں زیادہ انسانوں کو ہلاک کرنے والے امریکا اور یورپ کے رہنما ’’مہذب انسان‘‘ کہلاتے ہیں۔ یہ صورت حال خود جنگ کی بدلی ہوئی صورت حال پر ایک بلیغ تبصرہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چنگیز خان نے اپنے پورے فوجی کیریئر میں دو کروڑ انسانوں کو قتل کیا۔ اس کے برعکس امریکا اور یورپ کے رہنمائوں نے صرف دو عالمی جنگوں میں دس کروڑ انسانوں کو مار ڈالا۔ لیکن دو کروڑ لوگوں کو مارنے والا چنگیز خان ’’وحشی‘‘ ہے اور 16 کروڑ انسانوں کو دو جنگوں میں مارنے والے ’’انسان پرست‘‘ ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو چنگیز خان اس لیے مغرب کے رہنمائوں سے بہتر تھا کہ اس نے کبھی خود کو ’’انسان پرست‘‘ اور ’’ڈیموکریٹ‘‘ نہیں کہا۔ اس نے کبھی انسانی حقوق کا پرچم ہاتھ میں نہیں اٹھایا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ چنگیز خان کا ظاہر و باطن ایک تھا مگر مغرب کے رہنمائوں کے قول و فعل میں گہرا تضاد پایاجاتا ہے۔ ایک طرف وہ تہذیب کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں اور دوسری طرف وہ کروڑوں لوگوں کو ہلاک کررہے ہیں۔ ایک جانب وہ جمہوریت کے پرستار ہیں اور دوسری جانب وہ مسلم دنیا میں کسی اسلامی تحریک کو عوامی طاقت کے ذریعے اقتدار میں نہیں آنے دیتے۔ چنگیز خان وحشی تھا تو وحشی ہی کہلاتا ہے مگر مغرب کے چنگیز رہنما امن کی فاختائیں کہلاتے ہیں۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ امریکا نے جاپان کے خلاف ایٹم بم اس لیے استعمال کیا کہ جاپان کے پاس ایٹم بم موجود نہ تھا۔ ہوتا تو امریکا کبھی جاپان کو ایٹمی حملے کا نشانہ نہ بناتا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکا اور سابق سوویت یونین نے پوری دنیا میں پورے پچاس سال تک ’’سرد جنگ‘‘ لڑی مگر ان کے درمیان کبھی ’’گرم جنگ‘‘ کی نوبت نہ آسکی۔ اس کی وجہ کوئی اخلاقی اصول یا ’’علمی دلیل‘‘ نہ تھی۔ اس کی وجہ ’’خوف کا توازن‘‘ تھا۔ امریکا کے پاس ایٹم بم موجود تھا تو سوویت یونین کے پاس بھی ایٹم بم موجود تھا۔ امریکا کے پاس ہائیڈروجن بم تھا تو سوویت یونین کے پاس بھی ہائیڈروجن بم تھا۔ امریکا کے پاس دس ہزار کلو میٹر تک مار کرنے والے میزائل تھے تو سوویت یونین کے پاس بھی دس ہزار کلو میٹر تک مار کرنے والے میزائل تھے۔ یہی صورت حال پاک بھارت تعلقات کی بھی ہے۔ بھارت نے 1971ء میں مشرقی پاکستان کو بنگلادیش بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا اور ساری دنیا دیکھتی رہی۔ اس وقت پاکستان کے پاس ایٹم بم ہوتا تو بھارت مشرقی پاکستان کو الگ نہیں کرسکتا تھا۔ پاکستان بھارت تعلقات کی گزشتہ 40 سال کی تاریخ میں بھارت پاکستان کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے والا تھا مگر پاکستان کے ایٹم بم نے اسے ایسا کرنے سے باز رکھا۔ 1984ء میں بھارت نے پاکستان پر حملے کی پوری تیاری کرلی تھی مگر جنرل ضیا الحق نے بھارت جا کر بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی کو بتایا کہ پاکستان نے ایٹم بم بنالیا ہے۔ چناں چہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملے کی جرأت کی تو پاکستان بھارت کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹادے گا۔ یہ دھمکی کارگر ہوئی اور بھارت نے پاکستان پر حملے کا منصوبہ ترک کردیا۔ عمران خان کے دور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی تو بھارت نے پاکستان کے تین بڑے شہروں پر ایٹمی حملے کی تیاری کر ڈالی۔ اس کے جواب میں پاکستان نے بھارت کے چھے بڑے شہروں پر ایٹمی حملے کی منصوبہ بندی کرلی۔ یہ دیکھ کر بڑی طاقتیں بیچ میں کود پڑیں اور جنگ نہ ہوسکی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو طاقت یا خوف کا توازن بڑی اچھی چیز ہے۔ مگر گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو محض طاقت اور خوف کا توازن انسانیت کی نفی ہے۔ کیوں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان مذہب، اخلاق، علم اور دلیل کی زبان سمجھنے سے قاصر ہوگیا ہے۔ وہ اب صرف ایک زبان سمجھتا ہے۔ طاقت کی زبان۔ خوف کی زبان۔