کراچی کی آبادی تین کروڑ ہے۔ یہ اتنی بڑی آبادی ہے کہ دنیا کے درجنوں شہروں ہی کی نہیں درجنوں ملکوں کی آبادی کراچی سے کم ہے۔ لیکن یہ کراچی کا واحد امتیاز نہیں۔ کراچی قائداعظم کا شہر ہے۔ کراچی 70 سال تک ملک کی واحد بندرگاہ رہا ہے۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا صنعتی مرکز ہے۔ سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے۔ تاہم اس کے باوجود ظلم کی ایک تاریخ کراچی کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔
ایک وقت تھا کہ کراچی ملک کا دارالحکومت تھا اور کیوں نہ ہوتا کراچی ہر اعتبار سے اس کا مستحق تھا مگر کراچی سے یہ مقام اور مرتبہ چھین لیا گیا۔ اسلام آباد کو ملک کا دارالحکومت بنادیاگیا۔ حالاں کہ وہاں نہ بندرگاہ تھی، نہ اسلام آباد صنعت کا بڑا مرکز تھا، نہ تجارت کا بڑا مرکز تھا۔ نہ اس کی آبادی اہمیت کی حامل تھی، نہ اسلام آباد قائداعظم کا شہر تھا۔ ان حقائق کے باوجود سیاسی طاقت کا مرکز سندھ سے پنجاب منتقل کردیا گیا۔ پاکستان کے حکمران طبقے کے لیے اگر ممکن ہوتا تو وہ کراچی کا سمندر اور کراچی کی بندرگاہ بھی اٹھا کر پنجاب لے جاتے۔ قوموں کی تقدیر کو متعین کرنے والے فیصلے کیے جاتے ہیں تو ان کے اسباب اور محرکات کی نشاندہی بھی کی جاتی ہے۔ لیکن دارالحکومت کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے والوں نے اس فیصلے کے اسباب و محرکات پر روشنی ڈالنا ضروری نہیں سمجھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مذکورہ بالا فیصلہ کرنے والے لوگ اتنے طاقت ور تھے کہ وہ خود کو کسی کے سامنے جوابدہ خیال نہیں کرتے تھے۔ لیکن کراچی کے باشعور لوگ سب سمجھتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ کراچی سے طاقت کے مرکز کو اسلام آباد منتقلی کا مطلب یہ ہے کہ اب قوم کی تقدیر ’’پنجاب مرکز‘‘ یا Punjab Cantric ہوگی۔ کراچی میں سیاسی شعور کی سطح بلند تھی اور سیاسی شعور کی بلندی نے کراچی کے لوگوں کو فوجی اور سول آمروں کی مزاحمت پر آمادہ کیا تھا۔ پاکستان کا حکمران طبقہ کراچی کے مزاحمتی مزاج سے بھی نجات چاہتا تھا۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ ایوب خان کے بدنام زمانہ صدارتی انتخاب میں صدر ایوب ہر شہر سے جیت گئے تھے مگر کراچی نے جنرل ایوب خان کے بجائے محترمہ فاطمہ جناح کو فتح یاب کیا تھا۔ اس لیے کہ کراچی آمروں اور غاصبوں کے ساتھ نہیں تھا۔ کراچی تحریک پاکستان کی روح کے ساتھ تھا۔ قیام پاکستان کے مقاصد کے ساتھ تھا۔ کراچی قائداعظم اور ان کی بہن کے ساتھ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جنرل ایوب نے پاکستان کے بڑے بڑے اخبارات میں نصف صفحے پر مشتمل اشتہار شائع کرایا تھا۔ اس اشتہار میں محترمہ فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا تھا۔ لیکن کراچی پر اس پروپیگنڈے کا کوئی اثر نہ ہوا۔ کراچی نے محترمہ فاطمہ جناح کے وقار کو برقرار رکھا اور انہیں جنرل ایوب پر فتح یاب کرکے دکھایا۔ لیکن محترمہ فاطمہ جناح صرف کراچی کی بنیاد پر پورے ملک کی صدر تھوڑی منتخب ہوسکتی تھیں۔ افسوس تاریخ کے اس نازک دور میں پورے پاکستان نے جنرل ایوب کا ساتھ دیا۔ محترمہ فاطمہ جناح ملک کی صدر منتخب ہوجاتیں تو کراچی ایک بار پھر سیاسی طاقت کا مرکز بن کر اُبھرتا اور دنیا کی کوئی طاقت مشرقی پاکستان کو پاکستان سے علٰیحدہ نہ کرسکتی۔ کراچی کی مزاحمتی تاریخ گواہ ہے کہ اس نے صرف جنرل ایوب کی فوجی آمریت ہی کی مزاحمت نہیں کی۔ کراچی نے بھٹو کی سول آمریت کی بھی بھرپور مزاحمت کی۔ ایک وقت تھا کہ قومی اتحاد کی تحریک بھٹو کے خلاف کمزور پڑ گئی تھی۔ تاریخ کے اس مرحلے پر کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں نے گلی گلی کوچے کوچے تحریک کو منظم کیا۔ اس زمانے میں بھٹو کے خلاف کراچی کی گلیوں اور سڑکوں پر ایک نعرہ پوری قوت سے گونجتا تھا۔
ہل چلے گا
ہل چلے گا
گنجے کے سر پہ ہل چلے گا
گنجا سر کے بل چلے گا
آج نہیں تو
کل چلے گا
کراچی میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کی بھرپور مہم نے قومی اتحاد کی تحریک کو ایک نئے تحرّک سے آشنا کیا اور وہ بھٹو کی سول آمریت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر اُبھری۔
پاکستان انصاف کا مظہر بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو کی سول آمریت نے سندھ میں کوٹا سسٹم متعارف کراکے مہاجروں بالخصوص کراچی کی 60 فی صد مہاجر آبادی کے ساتھ بڑا ظلم کیا۔ کوٹا سسٹم سندھ میں ایک ایسا موضوع ہے جس کے سلسلے میں نہ سندھی انصاف کی بات کہتے ہیں نہ مہاجر انصاف کی بات کہتے ہیں۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ کوٹا سسٹم ایک مخصوص مگر مختصر وقت کے لیے سندھ کی ضرورت تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مہاجر نوجوان انتہائی تعلیم یافتہ تھے اور سندھی نوجوان روزگار کے حصول کے سلسلے میں میرٹ پر مہاجر نوجوانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ چناں چہ سندھی نوجوانوں کو کوٹا سسٹم کے ذریعے پندرہ بیس سال کے لیے ایک معاشی تحفظ حاصل ہونا چاہیے تھا۔ یعنی کوٹا سسٹم پندرہ سے بیس سال کے لیے سندھ کی ضرورت تھا لیکن بدقسمتی سے کوٹا سسٹم کو عارضی نہیں رکھا گیا اسے مستقل بنادیا گیا۔ یہ بات تعلیم یافتہ مہاجر نوجوانوں کے ساتھ ظلم ہے۔ بلاشبہ مہاجر حیدر آباد، نواب شاہ اور سکھر میں بھی آباد ہیں مگر ان کی آبادی کا 80 فی صد کراچی میں مقیم ہے۔ اس لیے کوٹا سسٹم نے سب سے زیادہ کراچی کا گلا گھونٹا اور گھونٹ رہا ہے۔
الطاف حسین کو الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو ایم کیو ایم جنرل ضیا الحق نے بنایا۔ وہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے ذریعے ایک جانب کراچی میں جماعت اسلامی کا راستہ روکنا چاہتے تھے، دوسری جانب وہ دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی پر دبائو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی ایجاد کراچی کے ساتھ ہونے والا سب سے بڑا ظلم تھا۔ مہاجروں کا تشخص مذہب تھا، الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے انہیں سیکولر بنانے کی سازش کی۔ مہاجروں کی شناخت علم اور تہذیب تھی، الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے مہاجروں کو دہشت گردی، بھتا خوری اور بوری بند لاشوں کا کلچر دیا، مہاجروں کا تشخص یہ تھا کہ وہ پاکستان بنانے والے ہیں، الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے ان میں مرکز گریز رجحان پیدا کیا۔ مہاجر زبان اور جغرافیے کے تعصبات سے بلند تھے۔ الطاف حسین نے انہیں لسانی تعصب میں مبتلا کیا۔ مہاجروں کی فکر امت گیر تھی اور وہ سمندر کی مخلوق تھے مگر الطاف حسین نے انہیں مہاجر مرکز اور کنویں کا مینڈک بنانے کی سازش کی۔ مہاجروں کی پہچان اہلیت و صلاحیت تھی۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے مہاجر نوجوانوں کو امتحانات میں نقل کے راستے پر ڈالا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے ظہور سے پہلے کراچی کا تشخص پروفیسر غفور احمد تھے۔ محمد حسن عسکری تھے۔ سلیم احمد تھے۔ الطاف حسین نے کراچی کو ذیشان لنگڑے اور توفیق کن کٹے اور عامر چریے کا تحفہ دیا۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو طاقت ور بنانے کے لیے کراچی میں مہاجر پٹھان فسادات کرائے۔ مبینہ طور پر پٹھانوں کا ایک گروہ ایک مہاجر بستی میں داخل ہوگیا اور کئی گھنٹوں تک قتل و غارت گری کرتا رہا مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے چھے گھنٹے تک متاثرہ علاقے میں داخل ہی نہ ہوئے۔ کراچی مہاجر پٹھان فسادات کے بعد مہاجر سندھی تصادم کی راہ ہموار کی گئی۔ کراچی کے ایک بڑے اردو اخبار میں یہ خبر شائع کرائی گئی کہ کراچی کے علاقے صدر سے سندھ نیشنل الائنس کا احتجاجی جلوس گزر رہا تھا کہ ایک مہاجر خاتون کی گاڑی جلوس میں پھنس گئی۔ مہاجر خاتون کے ساتھ ایک کم سن بچہ بھی تھا۔ جلوس میں شامل سندھیوں نے مہاجر خاتون اور اس کے بچے پر حملہ کیا اور اسے مار ڈالا۔ سندھ کے ایک بڑے سندھی اخبار میں یہ خبر شائع کرائی گئی کہ کراچی کے جناح اسپتال میں دس سندھی خواتین کی لاشیں لائی گئیں، ان لاشوں کو بری طرح مسخ کیا گیا تھا۔ غیر جانب دار صحافیوں نے ان دونوں خبروں کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ دونوں واقعات سرے سے ہوئے ہی نہیں۔ مگر ان دونوں واقعات کی خبروں کے ذریعے مہاجروں اور سندھیوں کے درمیان تفریق پیدا ہوئی۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ سندھ رینجرز کے سابق ڈی جی محمد سعید نے اے آر وائی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ کراچی میں گزشتہ 30 سال کے دوران 92 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں تو جنگوں کے دوران بھی لوگ ہلاک نہیں ہوئے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کراچی کے ساتھ گزشتہ 30 سال میں کیا ہوا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف فوجی آپریشن ہوا اور اس آپریشن نے ایم کیو ایم کو ظالم سے مظلوم بنادیا۔ یہ کام کیسے ہوا۔ اس سلسلے میں ایک واقعے سے اس بات کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف پہلا فوجی آپریشن شروع ہوا تو بریگیڈیئر ہارون نے کراچی میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ الطاف حسین کراچی میں جناح پور تخلیق کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ مگر اس نیوز کانفرنس کے اگلے ہی دن بریگیڈیئر ہارون کا کراچی سے تبادلہ کردیا گیا۔ چناں چہ ایک دن میں ایم کیو ایم ظالم سے مظلوم بن کر کھڑی ہوگئی۔
کراچی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ کراچی قومی آمدنی کا 50 فی صد کما کر دیتا ہے۔ براہِ راست ٹیکسوں میں کراچی کا حصہ 46.75 ہے۔ کراچی سیلز ٹیکس کا 75.17 فی صد اور کسٹم ڈیوٹی کا 79 فی صد فراہم کرتا ہے۔ کراچی وفاقی ایکسائز ٹیکس 33.65 فی صد کما کر دیتا ہے۔ اس کے باوجود کراچی میں پینے کے پانی کا قحط ہے۔ کراچی کو یومیہ 1200 ملین گیلن پانی درکار ہے مگر کراچی کو صرف 650 ملین گیلن پانی مل رہا ہے۔ کراچی کی آبادی تین کروڑ ہے مگر نہ کراچی میں زمینی دوز ریل کا نظام ہے نہ سرکلر ریلوے کام کررہی ہے۔ یہاں تک کہ کراچی میں بڑی بسیں بھی موجود نہیں، کراچی کی 90 فی صد سڑکیں ٹوٹ گئی ہیں، شہر میں جگہ جگہ گٹر ابل رہے ہیں، کراچی میں جمع ہونے والے کچرے کا نصف اٹھایا ہی نہیں جاتا۔ کراچی کی آبادی کا 15 فی صد پٹھانوں پر مشتمل ہے۔ 10 فی صد پنجابیوں اور 10 فی صد سندھیوں پر مشتمل ہے مگر کراچی کو کوئی OWN نہیں کرتا۔ نہ پٹھان، نہ پنجابی، نہ سندھی۔ کراچی کی طرف نہ وفاق دیکھتا ہے نہ صوبہ، یہ ظلم کی انتہا ہے۔