یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آزادی کی جدوجہد مخصوص جغرافیے میں ہوتی ہے۔ الجزائر میں آزادی کی جدوجہد الجزائر کے جغرافیے میں ہوئی ہے۔ مصر میں آزادی کی جنگ مصر کے جغرافیے میں لڑی گئی۔ لیکن پاکستان کا معاملہ ایسا ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان پنجاب، سندھ، بلوچستان، کے پی کے اور بنگال میں بن رہا تھا اور اس کی جدوجہد دلی اور یوپی میں ہورہی تھی۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ دلی اور یوپی کے لوگوں کو معلوم تھا کہ وہ کبھی پاکستان کا حصہ نہیں ہوں گے اس لیے کہ ان کا تعلق مسلم اکثریتی علاقوں سے نہیں ہے۔ اس لیے قائداعظم نے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کو ”مینارۂ نور“ کہا ہے۔ قائداعظم کا ان علاقوں کے مسلمانوں سے یہ تعلق تھا کہ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان بن گیا ہے اور مسلم رہنماؤں کی عظیم اکثریت پاکستان آگئی ہے۔ چناں چہ ہندوستان کے مسلمان اعلیٰ قیادت سے محروم ہوگئے ہیں۔ اس صورت حال میں قائداعظم نے فرمایا کہ یہ اجلاس اگر ایک قرارداد منظور کرلے تو میں پاکستان چھوڑ کر ہندوستان جا کر وہاں کے مسلمانوں کی رہنمائی کرسکتا ہوں۔ قائداعظم پاکستان کے بانی تھے، بھلا انہیں قیام پاکستان کے بعد ہندوستان میں کون رہنے دیتا لیکن اس کے باوجود قائداعظم کے لیے ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کا مستقبل اتنا اہم تھا کہ انہوں نے ہندوستان جا کر آباد ہونے اور مسلمانوں کی رہنمائی کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ قائداعظم نے قیام پاکستان کے بعد بھارت کی ہندو قیادت کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہ کیا تو پاکستان خاموش نہیں رہے گا۔ بلکہ وہ مسلمانوں کے تحفظ کے لیے بھارت میں ”مداخلت“ کرے گا۔ ظاہر ہے کہ مداخلت بیانات کے ذریعے نہیں ہوتی۔ جلسوں اور اجلاسوں کے ذریعے نہیں ہوتی۔ مداخلت کا مطلب ”فوجی مداخلت“ ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ قائداعظم بھارتی مسلمانوں کے تحفظ کے لیے بھارت سے جنگ لڑنے کے لیے تیار تھے۔ اور کیوں نہ ہوتے، بھارت کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے قیام پاکستان میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ مسلم لیگ ڈھاکا میں قائم ہوئی مگر اس کا صدر دفتر یوپی کے دارالحکومت لکھنو میں تھا۔ پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان تو 1946ء تک تحریک پاکستان اور پاکستان کے اُفق پر کہیں موجود ہی نہ تھے۔ پنجاب پر 1946ء تک یونینسٹ پارٹی کا غلبہ تھا اور یونینسٹ پارٹی انگریزوں کی ایجنٹ اور کانگریس کی اتحادی تھی۔ سرحد یا کے پی کے پر سرحد کا گاندھی یعنی غفار خان کا قبضہ تھا اور بلوچستان بلوچ سرداروں کے نرغے میں تھا اور قائداعظم نے بلوچ سرداروں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے بلوچستان کو پاکستان میں شامل کرایا تھا۔ صرف سندھ ایسا صوبہ تھا جس کی اسمبلی نے 1938ء میں پاکستان کے حق میں ایک قرار داد منظور کی تھی۔ اس کے برعکس دلی اور یوپی کے مسلمان پاکستان کے لیے تن، من، دھن کی بازی لگارہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دلی اور یوپی کے مسلمانوں کا مذہبی اور تاریخی شعور بہت گہرا تھا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بن رہا تھا اور اسے اسلام کا قلعہ بننا تھا۔ چناں چہ اقلیتی صوبوں بالخصوص دلی اور یوپی کے مسلمان مستقبل کے اسلامی قلعے پر فدا ہوئے جارہے تھے۔ وہ پاکستان کے گرد اسی طرح طواف کررہے تھے جس طرح پروانے شمع کے گرد طواف کرتے ہیں۔ انہیں اپنے حال اور مستقبل کی کوئی فکر نہ تھی۔ انہیں اس بات کی کوئی پروا نہ تھی کہ ہندو ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ ان پر ایک عالم بے خودی طاری تھا۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال خود ہمارا خاندان تھا۔ ہم نے بچپن میں اپنے گھر کے اندر پاکستان کو اس طرح زیربحث دیکھا کہ ہمارے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ مسلمانوں کے مقدس مقامات صرف تین ہیں۔ مکہ، مدینہ اور پاکستان۔ پاکستان دلی اور یوپی کے لوگوں کے لیے ایک جغرافیہ نہیں تھا، ایک ملک نہیں تھا، ایک خطہ نہیں تھا ایک عشق تھا۔
اس عشق کے ابتدائی مرحلے میں کسی کو معلوم نہ تھا کہ قیام پاکستان کے بعد پورے ہندوستان میں مسلم کش فسادات ہوں گے اور بھارت کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کو پاکستان ہجرت کرنی پڑے گی۔ اسلام میں مختلف سطحوں پر ہجرت کے مختلف معنی ہیں۔ ایک سطح پر ہجرت کا مفہوم نفس ِ امارہ سے نفس ِمطمئنہ کی طرف مراجعت ہے۔ دوسری سطح پر اس کا مطلب دارالکفر سے دارالسلام کی طرف رخت سفر باندھنا ہے، جو ہجرت کرتا ہے وہ زمین اور جغرافیے سے بلند ہوجاتا ہے۔ وہ ماحول کو پھلانگ کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ وہ پرانے رشتوں پر خط تنسیخ پھیر کر دارالسلام میں نئے رشتے بناتا ہے۔ ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں کے بہت سے مسلمانوں نے یہی کیا۔ مگر ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجروں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ایک نیا تاریخی تجربہ ان کا منتظر ہے۔ ایسا تاریخی تجربہ جس کو جذب کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ایسے تاریخی تجربے کو جذب کرنے میں نسلیں کھپ جاتی ہیں۔ اردو ادب کے ممتاز نقاد، ڈراما نگار، شاعر اور دانش ور سلیم احمد اردو کے ممتاز افسانہ نگار بننے والے انتظار حسین کے ساتھ ہجرت کرکے لاہور پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ پاکستانی پنجاب کا حکمران طبقہ دلی، یوپی اور سی پی سے آنے والے مہاجروں کے پنجاب میں آباد ہونے کے سخت خلاف ہے اور اس وقت کے وزیر آبادکاری و مہاجر غضنفر علی نے سلیم احمد اور انتظار حسین کی ریل کو لاہور میں داخل نہیں ہونے دیا۔ اس دل دہلا دینے والے تجربے کو سلیم احمد نے اپنی مشہور زمانہ نظم ”مشرق“ میں تفصیل سے لکھا ہے۔ ذرا دیکھیے تو سلیم احمد کیا کہہ رہے ہیں۔
صبح کی نرم و نازک سی پہلی کرن
شوخ رنگوں کی تتلی کی مانند
اپنے چمکتے ہوئے پَر کھول کر
میرے چہرے پہ منڈلا رہی تھی
انتظار اپنی مخصوص آواز میں
جو گلے کی خرابی کے باعث نہیں
ویسے ہی
بیٹھی بیٹھی سی لگتی ہے
یہ کہہ رہا تھا
”اٹھو یار“
تم تو بہت سو چکے
اب اٹھو…… چائے پی لو
خبر ہے……
ہماری ٹرین اب کہاں جائے گی
”کہاں؟“
میں نے آنکھوں کو ملتے ہوئے
چائے کی چسکی لگا کر کہا
”ارے اب یہ سرگودھا جائے گی“
”سرگودھا کیوں؟“ مگر ہم تو لاہور جائیں گے“
”کیوں“
مگر ہم تو لاہور ہی جائیں گے
”نہیں، کچھ خبر ہے“
غضنفر علی خان نے
گاڑی کو لاہور میں داخلے کی اجازت نہیں دی
”اجازت نہیں دی“
”مجھے چائے کا ذائقہ کچھ کسیلا لگا“
”کیوں اجازت نہیں دی“
مگر انتظار اب نہ بولا
سڑپ سر، سڑپ سر، سڑپ سر
وہ خاموشی سے چائے کی چسکیاں لے رہا تھا
اور بہت ہی بُرا لگ رہا تھا
٭٭
غضنفر علی کون ہے
میں تو اقبال کے شہر آیا ہوں
داتا کی نگری میں آیا ہوں
یہ وہ شہر ہے جس کی خاطر مجھے
خوں کے سیلاب میں سے گزرنا پڑا ہے
غضنفر علی مجھ کو کیوں روکتا ہے
میرا ساتھی جو اب تک مرا دوست تھا
اجنبی بن کے کہنے لگا
تم تو پاگل ہو
ارے اب ہم نئی سرحدوں میں ہیں
اور یہاں
اک غضنفر علی خاں بھی ہوتا ہے
میری سگریٹ مری روح کی طرح سلگی
اور اس کا دھواں
فضا میں بکھر کر
نئی طرح کی ایک تصویر
میرے خیالات کے کینوس پر بنانے لگا
سلیم احمد لاہور کا دروازہ بند پا کر کراچی پہنچے تو یہاں ایک اور تاریخی تجربے اور ایک نئی اصطلاح ان کی منتظر تھی۔
کراچی ابھی ایک آزردہ دل میزباں کی طرح
آنے والوں سے
بیگانہ آواز میں پوچھتی تھی
پنہ گیر ہو……؟
یہاں کس لیے آئے ہو
تم کو کس نے بلایا ہے
کیا سوچ کر آئے ہو
تمہیں کیا زمینوں کے رشتوں کی حرمت کا احساس ہے
جب سے تم آئے ہو
میرے بچے مجھے چھوڑ کر جارہے ہیں
کرم چند…… کل ہی گیا ہے
اسے جانتے ہو؟
نہیں جانتے
تم زمینوں کے رشتوں کی حرمت سے واقف نہیں ہو
پنہ گیر ہو
٭٭
پنہ گیر
میں اب پنہ گیر تھا
مہاجر نہیں تھا
پنہ گیر اک لفظ ہے
مہاجر بھی اک لفظ ہے
مگر لفظ سے لفظ تک یہ سفر
کیا سفر تھا
کہ جس نے مجھے
ہر سفر سے زیادہ تھکایا
٭٭
تو میں ایک ناخواندہ مہمان ہوں
دھرتی کا بیٹا نہیں ہوں
یہ سچ ہے تو وہ رشتہئ لفظ کیا ہے
جو حجاز و یمن سے کراں در کراں ارض در ارض
پھیلا ہوا ہے
وہ اک نخل ِ طیب کہ جس کی گھنی چھاؤں میں
کتنی قوموں کا، نسلوں کا مسکن ہے
جس کی شاخیں فلک در فلک
عرشِ اعلیٰ کی روشن فضاؤں میں پھیلی ہوئی ہیں۔
وہ کیا ہے؟
کسی نے کہا
کلمہ لاالہ ہے۔