مثل مشہور ہے۔
باپ پہ پوت پتا پر گھوڑا
زیادہ نہیں تو تھوڑا تھوڑا
استاد کا مرتبہ باپ کی طرح ہوتا ہے بلکہ انسان استاد سے جو کچھ سیکھتا ہے وہ بسا اوقات باپ سے بھی نہیں سیکھ پاتا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ شاگرد اپنے استادوں کے حوالے سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ خورشید ندیم جاوید غامدی کے شاگرد ہیں۔ غامدی صاحب کے دو بڑے مسئلے ہیں۔ ان کی مغرب زدگی اور ادھ کچرے خیالات غامدی صاحب کی مغرب زدگی کا یہ عالم ہے کہ اگر غامدی صاحب کا بس چلے تو پورے اسلام کو مشرف بہ مغرب کر ڈالیں۔ ان کے ادھ کچرے خیالات ان کے فکری تضادات سے ظاہر ہیں۔ چوں کہ خورشید ندیم غامدی صاحب کے شاگرد ہیں اس لیے ان کی تحریروں میں بھی مغرب زدگی اور ادھ کچرے خیالات کی فراوانی پائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ان کا ایک حالیہ کالم اس کی ایک اچھی مثال ہے۔ کالم کا عنوان ہے ’’صحافی کون؟‘‘ اس کالم میں خورشید ندیم نے بنیادی طور پر کیا فرمایا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’مولانا محمد علی جوہر یا ظفر علی خان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ وہ صحافی تھے یا سیاسی کارکن؟
صحافی کا کردار ایک بار پھر زیرِ بحث ہے۔ صحافت کے پیشے سے وابستہ بعض خواتین و حضرات ان دنوں سیاسی جماعتوں کا ہراول دستہ ہیں۔ وہ ان کا مقدمہ لڑتے‘ ان کے گیت گاتے اور ان کے مخالفین کے لتے لیتے ہیں۔ وہ سیاسی جماعتوں کے لیے پروپیگنڈا سیل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کے باوصف ان کا اصرار ہے کہ انہیں صحافی مانا جائے۔ معترضین کا خیال ہے کہ جب آپ ایک سیاسی جماعت کے ترجمان بن جاتے ہیں تو اس کے بعد آپ ایک سیاسی کارکن ہیں۔ اب آپ ایک صحافی کہلوانے کا استحقاق کھو چکے۔ دونوں میں سے کس موقف کودرست مانا جائے؟
صحافت‘ آج ایک پیشہ ہے۔ پیشے کا مترادف ہے ’’روزگار‘‘ اور روزگار کا مطلب ہے ’’ذریعہ معاش‘‘۔ کوئی فن‘ ہنر یا علم جب پیشہ بنتا ہے تو اس پر عمومی اخلاقیات کے بجائے پیشہ ورانہ اخلاقیات کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ اس معاشرت کا عطا کردہ اصول ہے جو صنعتی انقلاب کے بعد وجود میں آئی اور سرمایہ دارانہ نظام کا نا گزیر حصہ ہے۔ وکالت‘ مثال کے طور ایک پیشہ ہے۔ وکیل اب بحیثیت وکیل‘ عمومی اخلاقیات کا پابند نہیں ہے‘ پیشہ ورانہ اخلاقیات کا تابع ہے۔ یہ اخلاقیات اس کے لیے یہ تو لازم کرتے ہیں کہ وہ اپنے موکل کے ساتھ دیانت داری کے ساتھ معاملہ کرے اور اس سے جھوٹ نہ بولے؛ تاہم اس کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ وہ عدالت میں بھی جھوٹ سچ کے باب میں عمومی اخلاقیات کی پابندی کرے۔
صحافت بھی آج ایک پیشہ ہے۔ اس کا بنیادی کام خبر رسانی ہے۔ تجزیہ اس کی اصل نہیں فرع ہے۔ فرع جیسی بھی ہے‘ اس کو اصل سے جڑا رہنا چاہیے۔ پیشہ ورانہ اخلاقیات متقاضی ہیں کہ خبر ہمیشہ سچی ہو۔ صحافی کا کام یہ ہے کہ وہ خبر کے معاملے میں ممکنہ حد تک سچ تک پہنچے۔ اس لیے یہ کہا جاتا ہے کہ خبر کو ایک سے زیادہ ذرائع کی تصدیق کے بعد ہی نشر کرنا چاہیے۔ کوئی انسانی کاوش غلطی سے پاک نہیں ہوتی؛ تاہم یہ لازم ہے کہ انسانی حد تک سچ کی تلاش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے۔
صحافت میں وقت کے ساتھ وسعت پیدا ہوئی۔ خبر رسانی کی صورتیں تبدیل ہوئیں اور اس کے ساتھ بعض ایسے افعال بھی صحافت میں شامل ہو گئے جو پہلے پیشہ ورانہ صحافت کا حصہ شمار نہیں ہوتے تھے۔ جیسے کالم۔ کالم ایک فرد کی رائے ہے۔ ایک صنف کے طور پر صحافت نے اسے قبول کیا لیکن اس کے ساتھ یہ واضح ہے کہ کالم نگار کوئی سیاسی یا مذہبی موقف رکھ سکتا ہے۔ اس پر اعتراض ہو سکتا ہے مگر یہ اعتراض غلط یا صحیح کی بنیاد پر ہوگا‘ سچ اور جھوٹ کی اساس پر نہیں۔ جھوٹ کو ایک کالم نگار کے لیے بھی شرمندگی کا باعث ہونا چاہیے لیکن اس کا تعلق عمومی اخلاقیات سے ہوگا۔ پیشہ ورانہ اخلاقیات سے نہیں۔
مولانا محمد علی جوہر یا ظفر علی خان‘ ایک نظریے کے علم بردار تھے۔ اس پیشے کی موجود تعریف کی رْو سے‘ جب صحافت ایک ذریعہ روزگار بن چکا‘ انہیں صحافی کہنا درست نہیں ہوگا۔ کہنے کو تو مولانا مودودی بھی صحافت کو اپنا پیشہ قرار دیتے تھے مگر کیا وہ ایک صحافی تھے؟ آزادی رائے ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ اس حق کے تحت کسی کو اپنی بات کہنے پر پابند ِ سلاسل نہیں کیا جا سکتا نہ اس کا یہ حق چھینا جا سکتا ہے۔ لیکن اگرکسی سیاسی جماعت کا ترجمان‘ یہ حق بحیثیت صحافی طلب کرے تو مجھے اس سے اتفاق نہیں ہو گا‘‘۔ (روزنامہ دنیا۔ 9 جولائی 2022ء)
خورشید ندیم کا ارشاد ہے کہ جس شخص کا کوئی نظریہ ہے جس شخص کی کوئی سیاسی وابستگی ہے وہ سیاسی کارکن تو ہوسکتا ہے مگر صحافی نہیں ہوسکتا۔ وہ اس سلسلے میں مولانا محمد علی جوہر اور ظفر علی خان کو کیا مولانا مودودی تک کو صحافی ماننے پر تیار نہیں۔ اس مسئلے کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ دنیا میں ایسے شخص کا وجود ہی نہیں جس کا کوئی نظریہ نہ ہو۔ بعض انسانوں کا نظریہ اسلام ہے، کچھ لوگ کفر کے ماننے والے ہیں، کچھ شرک پر ایمان رکھتے ہیں، کچھ لوگوں کا نظریہ سوشلزم ہے، کچھ لوگوں کا نظریہ سیکولر ازم ہے، کچھ لوگ لبرل ازم کی عینک لگائے ہوئے ہیں۔ جو لوگ ان تمام نظریات سے وابستگی ظاہر نہیں کرتے وہ دولت پرست یا دنیا دار ضرور ہوتے ہیں۔ یہی ان کا نظریہ حیات ہوتا ہے۔ مغرب کے ممتاز دانش ور اور فلسفی آلڈس ہکسلے نے ایک اہم بات کہی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ دنیا کے ہر شخص کی کوئی نہ کوئی مابعداطبیعات یا Metaphisics ہوتی ہے۔ چناں چہ انسان مابعداطبیعات یا غیر مابعداطبیعات میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب نہیں کرتا بلکہ وہ اچھی مابعدالطبیعات اور بری مابعداطبیعات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتا ہے۔ چوں کہ ہر شخص کا کوئی نہ کوئی نظریہ ہوتا ہے اس لیے غیر نظریاتی صحافت کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔
خورشید ندیم نے سیاسی وابستگی کے سلسلے میں ادھ کچرے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ خورشید ندیم کا خیال ہے کہ جس صحافی کی سیاسی وابستگی ہوتی ہے وہ سیاسی کارکن کہلانے کا مستحق تو ہوسکتا ہے صحافی کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ یہ تجزیہ بھی سو فی صد غلط ہے۔ اس سلسلے میں اصل مسئلہ سیاسی وابستگی کا نہیں سیاسی وابستگی کی نوعیت کا ہے۔ مثلاً ہم 32 سال سے جسارت کے لیے کالم لکھ رہے ہیں اور جسارت جماعت اسلامی کا ترجمان ہے۔ خورشید ندیم کی تعریف کی رو سے تو ہم بھی صحافی نہیں۔ حالاں کہ ہم نے ابلاغ عامہ میں ایم اے کیا ہے۔ ہم نے ہزاروں کالم تحریر کیے ہیں۔ ہزاروں اداریے لکھے ہیں۔ بدقسمتی سے خورشید ندیم پارٹی پارٹی میں فرق نہیں کرتے۔ ایک صحافی اگر جماعت اسلامی کی حمایت کرتا ہے تو اس کا کچھ بھی دائو پر لگا ہوا نہیں ہوتا۔ نہ اس کا شعور دائو پر لگا ہوتا ہے نہ اس کا ضمیر۔ جماعت اسلامی غلبہ دین کی جدوجہد کرنے والی جماعت ہے۔ اس کے دستور اور منشور میں یہی درج ہے۔ چناں چہ جو صحافی جماعت اسلامی کی حمایت کرتا ہے وہ غلبہ دین کی جدوجہد کی حمایت کرتا ہے۔ جماعت اسلامی 60 سال سے سیاست میں ہے۔ اس کے ہزاروں لوگ بلدیاتی سطح سے قومی سطح تک منتخب ایوانوں کا حصہ رہے ہیں مگر ان میں سے کسی ایک پر بھی کبھی بدعنوانی کا الزام نہیں لگا۔ چناں چہ جو صحافی جماعت اسلامی کی حمایت کرتا ہے وہ بدعنوانی سے پاک جماعت کی حمایت کرتا ہے۔ آخر اس میں کون سی غیر صحافیانہ بات موجود ہے۔ جماعت اسلامی الف سے یے تک ایک جمہوری جماعت ہے۔ چناں چہ جو شخص جماعت اسلامی کی حمایت کرتا ہے وہ ایک جمہوری جماعت کی حمایت کرتا ہے۔ آخر اس میں کون سی بات صحافت کے منافی ہے۔
جماعت اسلامی کی حقیقی معنوں میں فرقے اور مسلک کی نفسیات سے بلند جماعت ہے۔ چناں چہ جو صحافی جماعت اسلامی کی حمایت میں لکھتا ہے وہ ایک اصولی جماعت کی حمایت کرتا ہے اور اس میں صحافت کے منافی کوئی بات موجود نہیں۔ جماعت اسلامی کا ایک وصف یہ ہے کہ وہ نہ پنجابیوں کی جماعت ہے، نہ مہاجروں کی، وہ نہ سندھیوں کی پارٹی ہے، نہ پٹھانوں کی۔ وہ صرف مسلمانوں اور پاکستانیوں کی پارٹی ہے۔ چناں چہ جو شخص جماعت اسلامی کی حمایت میں لکھتا ہے وہ ہر اعتبار سے ایک نظریاتی، اخلاقی، تہذیبی اور قومی فرض ادا کرتا ہے۔ البتہ بعض دوسری جماعتوں کا معاملہ جماعت اسلامی کے برعکس ہے۔ مثلاً ایک صحافی اگر نواز لیگ کی حمایت کرتا ہے تو وہ دو ایک اسلام دشمن، ملک دشمن، امریکا پرست اور بھارت نواز پارٹی کی حمایت کرتا ہے۔ چناں چہ ایسے شخص کو کالم نویس اور صحافی کیا انسان بھی نہیں گردانا جاسکتا۔ نواز لیگ کی بدعنوانیاں ساری دنیا پر عیاں ہیں۔ چناں چہ جو شخص نواز لیگ کی حمایت کرتا ہے وہ ایک صحافی نہیں بلکہ ایک ملک دشمن شخص ہے، اس لیے کہ وہ قومی زندگی میں بدعنوان عناصر کی حمایت کے جرم کا ارتکاب کررہا ہے۔ نواز لیگ پر شریف خاندان کا مکمل قبضہ ہے، چناں چہ جو شخص نواز لیگ کی حمایت میں لکھتا ہے وہ یقینا ایک جمہوریت دشمن شخص ہے اور اسے صحافی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہی معاملہ پیپلز پارٹی کی حمایت کرنے والے صحافیوں کا ہے۔ ایم کیو ایم کی حمایت کرنے والے صحافیوں کا معاملہ تو اور بھی سنگین ہے۔ اس لیے کہ جو شخص ایم کیو ایم کی حمایت کرتا ہے وہ ایک دہشت گرد، بھتا خور اور بوری بند لاشوں کے کلچر کی حمایت کرتا ہے۔
خورشید ندیم نے خبر دینے والے صحافی اور کالم نویس میں فرق کیا ہے۔ ان کے نزدیک خبر دینے والا شخص تو صحافی ہے لیکن کالم لکھنے والا صحافی نہیں ہے۔ اس لیے کہ کالم نویس شخص ذاتی یا انفرادی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ بلاشبہ صحافت میں اصل چیز خبر ہے مگر ہمارے یہاں خبر کا یہ حال ہے کہ اردو صحافت میں 99 فی صد اخبار ’’بیاناتی خبروں‘‘ پر مشتمل ہوتا ہے۔ صدر نے یہ کہا، وزیراعظم نے یہ فرمایا۔ آرمی چیف نے یہ ارشاد کیا۔ حزب اختلاف کے رہنما یوں گویا ہوئے۔ کیا یہ باتیں ’’خبریں‘‘ کہلانے کی مستحق ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ اصل جرنلزم تحقیقی یا تفتیشی خبر کا حامل ہوتا ہے اور ہماری صحافت میں تحقیقی یا تفتیشی خبر نایاب ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے یہاں خبریں دینے والے لوگ بھی صحافی کہلانے کے مستحق نہیں۔ لیکن صحافت صرف خبر نہیں ہے۔ صحافت قومی اور بین الاقوامی زندگی کی ’’تفہیم‘‘ بھی ہے۔ اصل کالم نگار قومی اور بین الاقوامی زندگی کی تفہیم کو عام کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ خبر کا مفہوم کیا ہے؟ وہ قاری کو مطلع کرتا ہے کہ اس نے جو خبر پڑھی ہے اس کا درست تجزیہ کیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کالم خبروں سے بھی زیادہ اہم ہے۔ یہ بات تو خبر سے سب کو معلوم ہوجاتی ہے کہ عمران خان یا نواز شریف نے کیا کہہ دیا ہے مگر یہ بات سب لوگ نہیں جانتے کہ عمران خان اور نواز شریف نے جو کہا ہے اس کا مفہوم کیا ہے؟ اس کے امکانات کیا ہیں؟ اس کے مضمرات کیا ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کالم نویسی صحافت کی مقبول ترین صنف ہے۔ ہمیں کالم لکھتے ہوئے 32 سال ہوگئے۔ ان 32 برسوں میں ہمیں درجنوں لوگوں نے فون پر بتایا ہے کہ وہ خبریں بعد میں پڑھتے ہیں ہمارا کالم پہلے پڑھتے ہیں۔ یہ صرف ہماری بات نہیں کئی اور کالم نگار ایسے ہیں جن کے کالموں کو لوگ صفحہ اول سے پہلے پڑھتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کالم نویسی بعض صورتوں میں خبر سے زیادہ اہم کردار ادا کررہی ہے۔
خورشید ندیم نے اپنے کالم میں یہ بھی فرمایا ہے کہ پیشہ ورانہ اخلاقیات اور عمومی اخلاقیات دو مختلف چیزیں ہیں۔ ان کے نزدیک صحافی پیشہ ورانہ اخلاقیات کی پابندی کا تو پابند ہے مگر عمومی اخلاقیات کی پابندی کا پابند نہیں ہے۔ خورشید ندیم نے اخلاقیات کا یہ تصور اپنے استاد سے سیکھا ہے اور ان کے استاد نے مغرب سے۔ اسلامی تہذیب معروضی اخلاقیات یا Objective Morality کی قائل ہے۔ اسلام کے حلال و حرام وقت اور جغرافیے سے ماورا ہیں۔ اسلام میں زنا کل بھی گناہِ کبیرہ تھا، آج بھی گناہِ کبیرہ ہے، اور ایک ہزار سال کے بعد بھی گناہِ کبیرہ رہے گا۔ اس کے برعکس مغرب نے اخلاقیات کو موضوعی یا Subjective بنالیا ہے۔ چناں چہ سو سال پہلے مغرب میں بھی زنا کرنا گناہ تھا، مگر آج وہاں زنا بالرضا کو معاشرہ قبول کرچکا ہے۔ بلکہ اب تو مغرب میں ہم جنس پرستی بھی قابل قبول ہوگئی ہے۔ حالاں کہ سو سال پہلے مغرب میں ہم جنس پرستی ایک غیر اخلاقی چیز تھی۔ بدقسمتی سے خورشید ندیم کی خواہش اور کوشش بھی یہی نظر آرہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھی اخلاقیات معروضی نہ رہے موضوعی ہوجائے۔